New Age Islam
Thu Jun 19 2025, 05:39 PM

Urdu Section ( 17 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

On Compassionate Reason: A Path Towards a More Peaceful World ہمدردی کی بنیاد پر مزید پرامن دنیا کی طرف ایک راستہ

ادیس دودریجا، نیو ایج اسلام

15 فروری 2024

 تشدد، ناانصافی اور عدم مساوات سے بھری اس دنیا میں، مزید پرامن اور جامع معاشرے کی تلاش انتہائی ضروری ہوتی جا رہی ہے۔ عقل و استدلال اور جذبات کے درمیان باہمی تعامل، اور  خاص طور پر ہمدردی میں، ہمارے اخلاقی فریم ورک کو نئی شکل دینے، اور مزید ہم آہنگ اور پرامن و پرسکون دنیا کے لیے، راہ ہموار کرنے کی صلاحیت موجودہے۔ سائنسی تحقیق اور فلسفیانہ اخلاقیات، دونوں ہی عقل و استدلال اور مثبت سماجی جذبات کے درمیان ایک اٹوٹ رشتے کی بات تسلیم کرتے ہیں، جو ہمارے اجتماعی شعور میں تبدیلی پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہمدردانہ جذبات اور طرز عمل کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ، ہمہ گیر اصولوں کو استوار کرنے کے لیے، عقل و استدلال کا استعمال کرتے ہوئے، ہم تشدد سے خالی ایک ایسی دنیا کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، جہاں  نسل، گروہ، جنس یا مذہب سے قطع نظر، ہر انسان کی قدر کی جاتی ہو۔

جذبات اور عقل و استدلال  کا اتحاد

روایتی طور پر، عقل و استدلال اور جذبات کو، علیحدہ اور اکثر مخالف قوتوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم، اب نت نئے سائنسی مطالعات، انسانی ادراک کے ان بظاہر متضاد پہلوؤں کے درمیان، باہمی ربط کو واضح کرتے ہیں۔ نیورو سائنس، (psychology) نفسیات، اور (evolutionary biology) ارتقائی حیاتیات میں، تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے، کہ جذبات، عقل و استدلال کی راہ میں غیر معقول رکاوٹ نہیں ہیں، بلکہ وہ اہم اجزاء ہیں، جو ہمارے فیصلہ سازی کے عمل کو تشکیل دیتے ہیں۔ مزید برآں، جذبات، اور  خاص طور پر ہمدردی کے ذریعے ہی، عقل و استدلال،  اخلاقی عمل کے لیے، سب سے قوی قوت ارادی پیدا کرتاہے۔

ہمدردی کا کلیدی کردار

ہمدردی، جو کہ دوسروں کے دکھوں کو پہچاننے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی صلاحیت سے عبارت ہے، ہماری اخلاقی حساسیت کا مرکز ہے۔ یہ وہ چنگاری ہے، جو انسانوں کو پیش آنے والے درد اور مشکلات کو دور کرنے کی، ہماری خواہش کو بھڑکاتی ہے۔ ہمدردی کا احساس ہمیں مجبور کرتا ہے، کہ ہم اپنے اخلاقی دائرے کو، ذاتی مفاد کی تنگ حدود سے آگے بڑھا کر، اس میں دوسروں کی بھلائی کو بھی شامل کریں۔ یہ ایک پل کے طور پر کام کرتا ہے، جو ہمدردی اور مہربانی کے لیے، ہماری فطری صلاحیت کو عقل و استدلال سے جوڑتا ہے۔

سائنسی مطالعات نے ثابت کیا ہے کہ ہمدردی، انفرادی اور وسیع تر معاشرتی  سطح، دونوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جب ہم ہمدردی کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ (oxytocin) آکسیٹوسن خارج کرتا ہے، جو کہ ایک ایسا ہارمون ہے، جو تعلقات اور تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ یہ حیاتیاتی ردعمل سماجی خدمات کی طرف ہمارے جھکاؤ کو تقویت دیتا ہے، اور ہمارے سماجی تانے بانے کو مضبوط کرتا ہے۔ مزید برآں، ہمدردی کو ذہنی صحت میں بہتری، خوشی میں اضافہ، اور مجموعی فلاح  و بہبود میں اضافے سے بھی جوڑ کر دیکھا گیا ہے۔ ہمدردی کو فروغ دیکر، ہم نہ صرف معاشرے کی بہتری میں اپنا تعاون پیش کرتے ہیں، بلکہ اپنی ذاتی ترقی اور آسودگی کو بھی فروغ دیتے ہیں۔

ہمدردی کے عمل میں عقل و استدلال کا کردار

ایک طرف تو ہمدردی، اخلاقی عمل کے لیے محرک کا کام کرتی ہے، جبکہ دوسری طرف عقل و استدلال کی قوت اس کی تکمیل کے لیے، ضروری فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ عقل و استدلال ہمیں ایسے آفاقی اصولوں کو تشکیل دینے کے قابل بناتی ہے، جو ذاتی تعصبات اور تنگ نظری سے بالاتر ہو کر، ہمارے فیصلوں اور کرداروں کی رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ اس سے ہمارے اندر اپنے فیصلوں کے وسیع تر نتائج پر غور کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور ہماری افعال و کردار میں عدل و انصاف کی رعایت پیدا ہو جاتی ہے۔

عقل و استدلال کے ذریعے، ہم معاشرتی اصولوں، قوانین اور معمولات کا تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں، ان کی اخلاقی صحت کو سمجھ سکتے ہیں، اور ان کے اصلاح طلب پہلوؤں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ عقل و استدلال، نسل، گروہ، جنس یا مذہب سے قطع نظر، ہر فرد کی موروثی قدر اور وقار کو پہچاننے میں ہماری مدد کرتی ہے،  اور ہمیں جبر اور امتیازی سلوک کے نظام کو ختم کرنے کے لیے، جدوجہدکرنے کی تحریک دیتی ہے۔ عقل و استدلال ہی،  ہمیں افہام و تفہیم کا سلسلہ قائم کرنے، اور بامعنی مکالمے میں مشغول ہونے کے قابل بناتی ہے، اور تنازعات کے حل اور مشترکہ مقاصد کے حصول میں، سہولت فراہم کرتی ہے۔

تشدد سے خالی دنیا کا راستہ

ہمدردانہ جذبات اور رویوں کو عقل و استدلال پر مبنی آفاقی اصولوں کے ساتھ جوڑ کر، ہم تشدد سے خالی، ایک ایسی دنیا کی طرف قدم بڑھا  سکتے ہیں، جس میں گوناگوں انسانی تجربات کا احترام کیا جاتا ہو۔ ہمدردی پر مبنی عقل و استدلال، حالتِ  جمود کو چیلنج کرتی ہے، اور تشدد اور نفرت کا سلسلہ منقطع کرتی ہے۔ یہ تنازعات کی بنیادی وجوہات کی ہمدردانہ تفہیم کا مطالبہ کرتی ہے، اور ان سے نمٹنے میں غیر متشدد کے ذرائع تلاش کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔

ہمدردی پر مبنی عقل و استدلال، ہمیں ڈھانچہ جاتی عدم مساوات کو دور کرنے پر مجبور کرتی ہے، جو انسانوں پر تشدد اور مصائب و آلام کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ہمیں وسائل کی منصفانہ تقسیم، تعلیم اور حفظان صحت تک رسائی، اور غربت کے خاتمے کے لیے جد و جہد  کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ تشدد کو جنم دینے والے بنیادی سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل کو حل کرکے، ہم امن اور ہم آہنگی کے لیے سازگار حالات پیدا کر سکتے ہیں۔

مزید برآں، ہمدردی پر مبنی عقل و استدلال، ہمیں انتقامی کاروائیوں  کی بجائے، بحالئ انصاف کا راستہ اختیار کرنے  کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ آباد کاری  میں مضمر تبدیلی کی صلاحیت کو تسلیم کرتی ہے، اور سزا دینے کے بجائے نجات دینے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمدردی کو رہنما اصول بنا کر، ہمیں ایک ایسا  نظامِ انصاف عطا کر سکتی ہے، جس میں تعزیری اقدامات سے ہٹ کر، مفاہمت، آباد کاری  اور مستقبل کے نقصان کے سدباب  پر، توجہ مرکوز کی گئی ہو۔

ہمدردی پر مبنی عقل و استدلال، زیادہ پرامن اور جامع دنیا کے لیے ایک زبردست لائحہ عمل  پیش کرتی ہے۔ یہ ہمارے اخلاقی فریم ورک کی تشکیل میں، ہمدردی میں مضمر تبدیلی کی طاقت کو اجاگر کرتے ہوئے، جذبات اور عقل و استدلال کے درمیان اٹوٹ رشتے کو تسلیم کرتی ہے۔ ہمدردی کے جذبات اور طرز عمل کو پروان چڑھا کر، اور آفاقی اصولوں کی تشکیل میں عقل و استدلال کو بروئے کار لا کر، ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں، جس میں ہمدردی، انصاف اور ہر فرد کی فطری اہمیت کی قدر ہوتی ہو۔

اس منصوبے کی تکمیل کے لیے، ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں ہمدردی کو فروغ دینا چاہیے، مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینا چاہیے، اور ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہیے، جن میں حقیر ذاتی مفادات پر انسانی فلاح و بہبود کو ترجیح حاصل ہو۔ ہمدردی پر مبنی عقل و استدلال کو اپنا کر، ہم ان تقسیموں پر قابو پا سکتے ہیں جو ہماری دنیا میں فساد کا باعث بنتی ہیں، اور ایک ایسا مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں، جہاں تشدد کی جگہ ہمدردی، افہام و تفہیم اور تعاون کا بول بالا ہو۔ ہمدردی اور عقل و استدلال کے اس انضمام کے ذریعے ہی، نسل، مذہب، جنس یا گروہ کی حدود سے بالاتر ہو کر، ہم ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جس میں سب کو یکساں حقوق اور مواقع حاصل ہوں۔

-----

 ادیس دودریجا ، بہ تعاون چیٹ جی پی ٹی

یہ مضمون مارک گوپین کی کتاب ، (Compassionate Reasoning: Changing the Mind to Change the World)، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2022، سے متاثر ہے۔

English Article: On Compassionate Reason: A Path Towards a More Peaceful World

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/compassionate-reason-peaceful-world/d/132336

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..