New Age Islam
Mon May 19 2025, 10:32 PM

Urdu Section ( 26 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Common Style and Diction of Bhakti and Sufi Poetry صوفی اور بھکتی شعراء کا مشترکہ اسلوب

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

26 اپریل 2025

ہندوستان کے بھکتی اور صوفی شاعروں کی شاعری میں مذہبی فکر اور فلسفہ کا فرق بہت نمایاں نہیں ہے۔ایک طرف جہاں بھکتی شعرا شیو ، کرشن اور رام کو کو ذات اعلی کی حیثیت سے پرستش کرتے ہیں تو دوسری طرف اسلامی صوفیہ ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ لیکن بھکتی شعرا بھی ایک ذات اعلی کو ہی مختلف ناموں سے پکارتے ہیں ۔ کبیر یا دیگر بھکتی شاعروں کی شاعری میں اگر رام کا ذکر بھی آتا ہے تو وہ دراصل ذات اعلی کے لئے یی آتا ہے۔ اس لئے بھکتی شاعری میں نرگن بھکتی اور سگن بھکتی کانظریہ ہیش کیا گیا ہے۔ دعسری طرف اسلامی صوفیہ نے بھی ویدانت کے ادویت واد سے وحدت الوجود کا فلسفہ اخذ کیا اور ویدانت کی طرح ذرے ذرے میں خدا کا جلوہ دیھا۔ اس طرح بھکتی اور صوفی شاعروں میں فکری سطح پر مماثلت دیکھی جاتی ہے۔

صوفی اور بھکتی شاعروں کی فکری مماثلت نے ان کی شاعری کے اسلوب اور ڈکشن پر بھی اثر ڈالا کیونکہ جب دونوں کی فکر اور فلسفہ میں کافی حد تک مماثلت تھی تو پھر اس کی پیش کش میں اسلوب اور ڈکشن میں بھی مماثلت کا پایا جانا بھی فطری تھا۔ لہذا ، صوفی بھکتی شاعروں نے اسلوب اور ڈکشن اور دیگر تکنیکی عناصر کے استعمال۔میں بھی ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔

ہندوستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک خصوصا جنوبی اور مشرقی ایشیائی صوفیوں اور بھکتی شاعروں کی شاعری میں اسلوب اور خیال کی سطح پر حیرت انگز مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کے عظیم صوفی شاعر بابا فرید کا ایک دوہا یوں ہے: ۔

کاگا کرنگ ڈھڈولیا سگلا کھائیاں ماس

ایہہ دو نیناں مت چھوہیو پر دیکھن کی آس

بابا فرید بارہویں صدی کے شاعر تھے اور پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔تیرھویں صدی کے شمالی ہند کے فارسی و ہندوی کے عظیم شاعر امیر خسرو ان کے اس دوہے کے مضمون کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ فارسی میں یوں پیش کرتے ہیں:۔

بخور جملہ تنم اے زاغ جش دیدہ کہ دید اورا

پندرھویں صدی کے شملی ہند کے عظیم۔بھکتی شاعر کبیر بابا فرید کے دوہے کے مضمون کو اپنے ایک دوہے میں یوں پیش کرتے ہیں:۔

کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس

دو نیناں مت کھائیو پیا ملن کی آس

لیکن بابا فرید کے دوہے کا مضمون بھی ان کا اوریجنل مضمون نہیں ہے۔ اس مضمون کا شعر قدی بنگلہ زبان اور ایران کی قدیمماویستا زبان کی صوفیانہ اور بھکتی شاعری میں پہلے سے موجود تھا۔

اس ایک۔مضمون کے علاوہ اور بھی دیگر صوفیانہ۔مضامین بھکتی اور صوفی شاعروں کی شاعری میں ملتے ہیں جیسے دسویں گیارھوں صدی کے بھکتی شاعر سراہا پاد کے دوہے ملاحظہ فرمائیں:۔

اگر مکتی ننگا رہنے والوں کو ملتی تو کتوں اور گیدڑوں کو ملتی

اگر بال اکھاڑنے سے سدھی۔ملتی تو عورتوں کے پوشیدہ عضو کو ملتی

اگر مکتی دم۔پکڑنے سے ملتی تو مور اور بیل کو ملتی

اگر حقیقت کا علم۔ادھر ادھر سے خوشہ چینی پر منحصر ہوتا

تو ہاتھی اور گھوڑوں کو ہوتا

سراہا پاد کے خیال کو بابا فرید اس طرح پیش کرتے ہیں:۔

تن دھونے سء دل جو ہوتا پاک

پیش رو اصفیا کے ہوتے غوک

خاک۔لانے سے گر خدا پائیں

گائے بیلاں بھی واصلاں ہوجائیں

اب اسی مضمون کو پندرھویں صدی کے شاعر کبیر اپنے ایک شبد میں یوں ہیش کرتے ہیں:۔

ننگے رہنے یا چمڑے کے پہننے سے کیا ہوتا ہے

اگر اپنے میں رام کو نہ پہچان سکے

اگر ننگے رہنے سے نجات ملتی تو جنگل کے جانور مکتی پاجاتے

سرمنڈانے سے اگر روحانی حصول ہو تو مونڈی ہوئی بھیڑ کی مکتی کیوں نہ ہوگی

اگر جنسیت پر قابو رکھنے سے کامیابی ہوتو مخنث آخر کوں آخری منزل۔پر نہیں پہنچتے

بالکل اسی طرح کا مضمون سولہویں صدی کی بھکتی شاعرہ میرا بائی اپنے ایک پد (گیت) گیت میں یوں پیش کرتی ہیں : ۔

اگر پھل اور مول۔کھانے سے خدا کے درشن ہوتے ہیں

تو چمگادڑ اور بندر کو کیوں نہ ہوا

اگر مقدس ندیوں میں اشنان کرنے سے ایشور گیان ملتا ہے

تو ہرنوں اور بکریوں کو کیوں نہ۔ملا

اگر مردوں و بیویوں سے کنارہ کرنے پر

خدا کا جلوہ دکھائی دیتا ہے

تو کنروں کو کیوں دکھائی نہ دیا

میرا کہے بغیر عشق الہی کسی کو خدا کا عرفان نہیں ہوسکتا

کیر کا ایک اور شبد یہاں پیش ہے

اونچی گیلی راہ ریٹیلی پاؤں ناہی ٹھہرائے

لوک راج کل کی مرجادا دیکھت من سکو چائے

نہر باس بسو پیہر میں لاج تجی ناہی جائے

ادھر بھومی پورکھ بھئے بھولا صورت جھکولا کھائے

اب میرا بائی کا یہ پد دیکھئیے: ۔

اونچی نیچی راہ ریٹیلی پاؤں ناہی ٹہرائی

سوچ سوچ پگ دھروں جتن سے بار بار ڈگ جائی

انچا نیچا محل۔پیا کا ہم سے چڑھیا نہ جائی پیا دور پت چھیڑوں مہاروں صورت جھکول۔کھائی

میرا اور کبیر کے پدوں کے پہلے اور چوتھے مصرعوں کی۔مماثلت سے یہ آسانی سے اندازہلگایا جاسکتا ہے کہ کبیر کا شبد میرا کے پیش نظر رہا ہوگا۔

مغربی بنگال میں دھرم ٹھاکر کے گاجن اتسو میں گاۓ جانے والے ایک گیت کا شعر یوں ہے :۔

پکھور پاڑے سدو ڈومیر کوڑیا

چھوئی چھوئی جائیسی بامہو ناڑیا

اب عہد وسطی کے بودھ شاعر کانہو پاد کے ایک چریہ پد (تانترک گیت) کا مکھڑا ملاحظہ فرمائیں

نگر باہرے ڈومبی توہوری کوڑیا

چھوئی چھوئی جائسی بامہو ناڑیا

بارہویں صدی کے چریہ پدوں کے اشعار کا اکیسویں صدی کے بنگال کے مذہبی گیتوں میں محفوظ رہنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بودھ اور ناتھ پنتھ کی شاعری نے بنگال ہی نہیں پورے ہندوستان کی بھکتی اور,صوفیانہ شاعری پر گہرے نقش مرتب کئے ہیں اور بعد کے بھکتی اور,صوفی شاعروں نے ایک دوسرے کے اسلوب ، ڈکشن اور خیال سے استفادہ کرکے ایک مشترکہ مذہبی فکر کو فروغ دیا اور ہندوستان کے عوام کو رواداری اور مذہبی تنوع کے ساتھ جینے کا درس دیا۔ ہندوستان کی بھکتی اور صوفی شاعری نے گنگا جمنی تہذیب کو استحکام بخشنے کے ساتھ ساتھ عہد وسطی کی ہندوستانی شاعری کو بھی متمول۔کیا ۔

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/common-diction-bhakti-sufi-poetry/d/135322

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..