غلام غوث
صدیقی، نیو ایج اسلام
12 دسمبر 2023
یہ معاملہ محبت کا ہے صاحب، جو
بندہ خدا کی محبت اور اس کی رہنمائی میں پوشیدہ راز اور کامیابی کو سمجھ لے گا، جیسا
کہ قرآن کے مطابق سمجھتے ہیں عقل والے، تو اس کے لیے ایک حکم اور ایک رہنمائی کیا،
وہ اپنے جسم کی ہر سانس اور اور اپنے قلب کی ہر دھڑکن خدا کی اطاعت اور بندگی میں لگائے
گا۔ وہ تو اپنے ہر کام کو انجام دیتے وقت اپنے رب کی رضا، پسند و ناپسند کو ہمیشہ اپنے
پیش نظر رکھے گا، اسے تو وہیں سکون ملے گا کیونکہ اس کا ایمان ہے اطمینان و سکون تو
صرف اللہ پاک کے ذکر میں ہے۔ [غلام غوث صدیقی]
جب میں نے میں نے سمیت پال
کے مضمون ’’مسلمانوں کی اکثریت اپنی عقل اور فہم و فراست کا استعمال کیوں نہیں کرتی؟‘‘
کے ابتدائی چند الفاظ پڑھے تو میرے ذہن مین یہ خیال آیا۔ میں صرف ایک نکتے پر بات کروں
گا جو انہوں نے اپنے مضمون کی ابتداء میں اٹھائے ہیں، باوجود اس کے کہ میرے پاس کہنے
کو بہت کچھ ہے۔
مسٹر پال کہتے ہیں،
"اول یہ کہ مضمون، 'کیا
اسلام میں لطیفے، قہقہے اور طنز و مزاح کی اجازت ہے؟' نہ صرف عجیب، بلکہ مضحکہ خیز
ہے۔"
اسلام دین فطرت ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ
زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ قرآن مجید متقین کے لیے ہدایت کی کتاب ہے [تقویٰ پر عمل کرنے
والے مسلمانوں کو متقی کہا جاتا ہے]۔ تقویٰ کے کئی درجات ہیں۔ [تقویٰ پر یہ مضمون پڑھیں:
https://www.newageislam.com/islamic-q-a/ghulam-ghaus-siddiqi-new-age-islam/is-quran-book-guidance-only-pious-muttaqin/d/117576]
ایمان لانا تقویٰ کا اول اور بنیادی درجہ ہے۔ ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر
ایمان لایا جائے، اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں کو سچا مانا جائے ، اللہ کے تمام
فرشتوں اور تمام مقدس صحیفوں پر بشمول تورات، انجیل اور قرآن کے، ایمان لایا جائے ،
اور آخرت، قیامت کے دن، موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے ، وغیرہ پر ایمان لانا ہے۔
یہ ایمان کے بنیادی عقائد اور ضروریات
ہیں۔ ان عقائد پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص قرآن کے مطابق مومن و مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے
تمام سابقہ انبیاء اور رسولوں نے یکے بعد دیگرے انہیں بنیادی عقائد کی تبلیغ فرمائی،
اور ان کی امتوں کے جن جن لوگوں نے ان عقائد کو قبول کیا انہیں مومن کہا گیا۔
اس کے برعکس، جو لوگ خدا کی
مقدس کتابوں میں تحریف یا ان کے معانی کو تبدیل کرتے ہیں یا جو خدا کے کلام کو رد یا
اس سے انکار کرتے ہیں انہیں کافر کہا جاتا ہے، خواہ وہ کتاب قرآن، انجیل یا تورات وغیرہ
ہی کیوں نہ ہو یا ان کی زبانیں کوئی بھی ہوں۔ قرآن، تورات، انجیل اور خدا کی دوسری
کتابوں میں کفار کو مختلف طریقوں سے خطاب کیا گیا ہے کیونکہ وہ مختلف زبانوں میں نازل
ہوئی تھیں۔
اسلام پر مضبوط اعتقاد رکھنے والوں
کے دل اسلامی معتقدات اور اسلامی تعلیمات سے مطمئن ہوتے ہیں اور وہ زندگی کے دیگر امور
میں بھی دین اسلام سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسلام انہیں چلنے پھرنے، کھانے،
سونے، کام کرنے، جلدی اٹھنے، وضو کرنے، نماز پڑھنے، نماز جنازہ پڑھنے، حج کرنے، زکوٰۃ
و صدقہ دینے، استغفار کرنے، نیک اعمال کرنے، ناجائز کاموں سے پرہیز کرنے نیز نیک اور
اللہ کے فرمانبردار بندے بننے کے حوالے سے بھی ہدایات فراہم کرتا ہے۔ یہ مذہب اپنی
جامعیت کے اعتبار سے یقیناً منفرد ہے۔
جب ہم اللہ سے ان نیک اعمال کی
توفیق طلب کریں گے تبھی اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے جوڑ سکیں گے۔ جب کوئی مسلمان
اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو وہ اپنے دل میں حقیقی اطمینان اور سکون محسوس کرتا ہے۔
یہ بات قرآن پاک میں بہت واضح طور پر بیان کی گئی ہے:
"سن لو اللہ کی یاد ہی
میں دلوں کا چین ہے" (قرآن 13:28)
میں سمجھتا ہوں کہ ذکر الٰہی کا
ایک بڑا راز ہے جب میں غور کرتا ہوں کہ اسلام نے زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق رہنمائی
کیوں فراہم کی ہے۔ جب ہم اپنی روزمرہ کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں، تو اگر ہم اپنے قادرِ
مطلق خُدا سے محبت کرتے ہیں، تو ہم بلا شبہ اُسے، اُس کے جملہ احکام، اور اُس کی پسند
و ناپسند کو یاد رکھیں گے۔ یہ ہمیں سمجھدار اور کسی حد تک نسبتاً ایک 'ایماندار' محب
خدا بندہ بناتا ہے۔ ذکر خدا ایک ایسا عمل ہے جس سے ہمارے دلوں کو واقعی سکون اور اطمینان
ملتا ہے۔ اس سے ایک عام مسلمان کو موقع میسر آتا ہے کہ وہ خدا کا مخلص اور نیک بندہ
اور اسلام کا سچا پیروکار بن جائے۔ یہاں صرف نام نہاد مسلمانوں، یا برائے نام مسلمانوں
کی بات نہیں ہو رہی۔
تاہم، جب کسی ایسے انسان تک معمولات
زندگی سے متعلق اللہ کا کوئی حکم پہنچتا ہے جس کا دل اللہ کی محبت، اسلامی عقیدے، اور
اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے عاری و خالی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اسے ناگوار
گزرے اور وہ ان ہدایت کو "عجیب" یا "مضحکہ خیز " قرار دے۔
نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ
وسلم، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کی زندگی
کا مطالعہ کریں ، صاف واضح ہوتا ہے کہ کفار
نے آسمانی ہدایات اور احکامات خداوندی کا مذاق اڑایا۔ قرآن نے متعدد جگہوں پر ذکر کیا
ہے کہ جب بھی انہیں ہدایت دی گئی تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ تاہم، اس طرح کے رویے
کے پیش نظر، مسلمانوں اور مومنوں سے کہا گیا کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں۔
مسٹر پال پوچھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں
کی اکثریت اپنی عقل اور فہم و فراست کا استعمال کیوں نہیں کرتی؟‘‘، جبکہ کہ اللہ تعالیٰ
نے قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ
جو لوگ عقل سلیم اور تفکر و تدبر کی صلاحیت
کو صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہیں انہیں آسمانی ہدایات کا نور اور زندگی کی حقیقتوں
کا شعور حاصل ہو جاتا ہے۔
English
Article: A Comment on The Article ‘Why Don't a Majority of
Muslims Use Their Brains and Prudence?" By Mr. Sumit Paul
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism