New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 03:35 PM

Urdu Section ( 12 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is It Accurate To Claim That The Holy Qur'an Contains Contradictions Based On Various Readings Of Its Words? Part 1 کیا قرآن کریم میں اختلاف قراءات کی بنا پر یہ کہنا درست ہے کہ قرآن کریم میں تضاد و تعارض ہے ؟

غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

قسط اول

11 نومبر 2022

اہم نکات:

· قرآن کریم میں اختلاف قراءات کی بنا پر یہ کہنا ہرگز درست نہیں ہے کہ قرآن کریم میں تضاد و تعارض ہے۔

· قرآن کریم کی جتنی بھی متواتر ، مشہور اور صحیح قراءتیں ہیں ان کے اندر محض دو قسم کا اختلاف ہے جسے تعارض کا نام نہیں دیا جا سکتا ۔

· پہلی قسم یہ کہ دو قراءاتیں تلفظ میں تو مختلف ہیں لیکن دونوں کا معنی ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کسی طرح کا تضاد و تعارض نہیں ۔اس قسم کے اختلاف قراءت کو نازل کرنے کا مقصد اور حکمت عرب کے مختلف قبائل اور لوگوں کے لیے تلاوت میں آسانی بہم پہنچانا تھا۔

· دوسری قسم یہ کہ دو قراءاتیں تلفظ میں مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ معنی میں بھی مختلف ہیں لیکن اس کے باوجود کسی طرح کا تضاد و تعارض نہیں ، بلکہ وہ ایک ہی چیز کے دو مختلف پہلو ہیں اور دونوں معنی کے درمیان تطبیق ممکن ہے ۔

· اس دوسری قسم کے اختلاف کا مقصد اختصار کے ساتھ جامعیت پیدا کرنا ہے تاکہ قرآن کی ایک ہی آیت سے دو آیتوں کا کام لیا جائے اور کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی کا حصول ممکن ہو جائے ۔

۔۔۔

سوشل میڈیا پر کئی افراد ایسے ہیں جو قرآن کریم کی جمع و تدوین ، قراءات سبعہ ، حروف سبعہ اور اختلاف قراءات کے متعلق مشکوک نظر آتے ہیں ۔ ان کے شکوک وشبہات کی اصل وجہ مستشرقین و مخالفین کی ناقص تحقیقات کا مطالعہ ہے جن سے عوام تو عوام کبھی دانشور حضرات بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔بعض مستشرقین کی اسلام پر تحقیقات بظاہر ایک خوبصورت محل کی مانند معلوم ہوتی ہیں جسے انہوں نے خوب محنت سے تعمیر کیا ہو اور اس کے کمروں کو خوب سجایا ہو کہ دیکھنے والا اس کی طرف کھنچا کھنچا چلا آتا ہے لیکن اس محل کی بنیاد اتنی کمزور تھی کہ جب کوئی فرد اس میں داخل ہوتا ہے تو پورا محل اس کے سر پر ڈھ کر زمیں بوس ہو جاتا ہے ۔صاف لفظوں میں کہیں تو بعض تحقیقات ایسی ملیں گی جن میں انہوں نے اسلام کے محاسن کو خوب اچھی طرح بیان کیا تاکہ مسلم طبقہ متاثر ہوکر ان تحقیقات پر اعتماد کر لے پھر انہوں نے کسی ایک مقام پر ایسا شوشہ چھوڑ دیا کہ اس نے ساری بنیاد ہلا ڈالی اور تعریفوں کے جتنے پل انہوں نے باندھے تھے وہ سب زمیں بوس ہو گئے ۔ اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ ان مستشرقین و مخالفین کے اسلامی مصادر کے مطالعہ کے پیچھے کیا مقاصد تھے ، مگر اس بات کا قطعی یقین ہے کہ جس کی جیسی نیت ہوتی ہے وہ ویسا ہی اجر پاتا ہے ۔اگر اسلامی مصادر کے مطالعہ کے وقت کسی کی نیت حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی ہو اور اس پر مسلسل اخلاص کے ساتھ کاربند رہے تو وہ یقینا اللہ تعالی کی توفیق سے حقائق کی منزل پا لے گا لیکن جس کی نیت مذموم اور اخلاص سے عاری ہو تو وہ اپنے کیے کا بدلہ پاتا ہے اور حقائق سے کوسوں دور زندگی بھر بھٹکتا رہتا ہے ۔

 جب راقم الحروف نے قرآن کی جمع و تدوین اور اختلاف قراءات کے متعلق سوالات و اعتراضات کا جائزہ لیا تو ارادہ کیا کہ ان سب کو جمع کرکے ان کے جوابات تیار کرنے کی سعی کی جائے اور انگریزی ، اردو اور ہندی تینوں زبانوں میں قارئین کے لیے پیش کر دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ حضرات مستفید ہو سکیں اور شکوک و شہبات سے محفوظ رہ سکیں ۔

اس بحث میں ہم کئی اہم سوالات و اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے ، جن کی نوعیت کچھ اس طرح ہوں گی : کیا قرآن کریم میں اختلاف قراءات کی بنا پر یہ کہنا درست ہے کہ قرآن کریم میں تضاد و تعارض ہے ؟ قرآن کریم اور قراءات قرآن میں کیا فرق ہے ؟ امام عاصم اور امام حفص دونوں قراءات کے امام کیوں کر ہو سکتے ہیں جبکہ دونوں متعدد محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں؟ اس پر مزید یہ کہ ضعیف ہونے کی بنا پر جب وہ ثقہ نہیں تو ان کی روایت کردہ قرآن کی قراءت جو کہ دنیا بھر میں قراءت حفص کے نام سے معروف و مقبول ہے کیونکر مستند مانی جا سکتی ہے ؟ ہر سوال کو ان شاء اللہ ایک مختلف قسط میں پیش کریں گے ۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے ۔

۔۔۔

سوال نمبر ۱: کیا قرآن کریم میں اختلاف قراءات کی بنا پر یہ کہنا درست ہے کہ قرآن کریم میں تضاد و تعارض ہے ؟

جواب بعون الملک الوھاب

 قرآن کریم میں اختلاف قراءات کی بنا پر یہ کہنا ہرگز درست نہیں ہے کہ قرآن کریم میں تضاد و تعارض ہے ۔اس کے سمجھنے سے پہلے اختلاف قراءات کی اصطلاح کو سمجھیں۔ اختلاف قراءات سے مراد ایسے معمولی اختلافات ہیں جن میں کبھی بعض کلمات یا حروف یا حرکات یا طریق ادا کا فرق ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اختلاف قراءت سے کلام الہی کے معانی میں ایسی تبدیلی قطعا نہیں ہوتی جس سے کوئی جائز چیز ناجائز ہو جائے یا کوئی حلال چیز حرام ہو جائے ۔ نص قرآنی کے سلسلے میں جو قراءات اور وجوہ وارد ہوئی ہیں وہ معمولی اختلافات ہیں جن کے درمیان کوئی تضاد نہیں اور نہ ہی ان کے معانی اور مدعا کے درمیان کوئی تعارض ہے ، بلکہ مختلف قراءتیں آپس میں ایک دوسرے کی تائید و توضیح کرتے ہیں ۔

 قرآن کریم کی جتنی بھی متواتر ، مشہور اور صحیح قراءتیں ہیں ان کے اندر اگر آپ غور کریں تو محض دو قسم کا اختلاف پائیں گے ۔

۱۔ پہلی قسم یہ کہ دو قراءاتیں تلفظ میں تو مختلف ہیں لیکن دونوں کا معنی ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کسی طرح کا تضاد و تعارض نہیں ۔

۲۔دوسری قسم یہ کہ دو قراءاتیں تلفظ میں مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ معنی میں بھی مختلف ہیں ۔لیکن یاد رہے کہ دونوں کے معنی میں اختلاف کے باوجود کسی طرح کا تضاد و تعارض نہیں ، بلکہ وہ ایک ہی چیز کے دو مختلف پہلو ہیں اور دونوں معنی کے درمیان تطبیق ممکن ہے ۔

حسب ذیل اختلاف قراءات کے دونوں قسموں کا مختصر بیان ملاحظہ کریں

اختلاف قراءات کی پہلی قسم : دو قراءاتیں تلفظ میں تو مختلف ہیں لیکن دونوں کا معنی ایک ہی ہے ، اس قسم کی مزید دو صورتیں ہیں :

پہلی صورت یہ ہے کہ بعض قراءتوں کا تعلق لغات کے اختلاف سے ہو، مثلا سورہ فاتحہ کی آیت نمبر ۶ ‘‘اھدنا الصراط المستقیم’’ میں لفظ صراط میں سین اور صاد کے ساتھ دو مختلف قراءتیں ہیں ، مگر اس اختلاف کے باوجود ان کے معنی و مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔یعنی اگر آپ سین والی قراءت کا اعتبار کرتے ہوئے سراط یا صاد والی قراءت کا اعتبار کرتے ہوئے صراط تلفظ کریں ، تو دونوں صورتوں میں معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔ یہ تو حرف کا اختلاف تھا ۔کبھی حرکت میں اختلاف ہوتا ہے ، مثلا سورہ نساء کی آیت ۳۷ (ویامرون الناس بالبخل) میں لفظ بخل کے اندر دو قراءتیں ہیں ایک قراءت یہ ہے کہ اسے با ء پر پیش اور خائے ساکن کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور دوسری قراءت میں باء اور خاء پر فتح یعنی زبر لگاکر پڑھا جاتا ہے ۔مگر یہاں بھی دونوں کے درمیان اختلاف قراءت کے باوجوددونوں کے معنی میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ قرآن کریم میں اس قسم کے اختلاف قراءت کو نازل کرنے کا مقصد اور حکمت عرب کے مختلف قبائل اور لوگوں کے لیے تلاوت میں آسانی بہم پہنچانا تھا جن کے درمیان ان کی اپنی ہی عربی زبان کے لہجات اور قراءات کا اختلاف تھا کیونکہ ایک لفظ کی ادائیگی کے طریقے میں عربوں میں اختلاف تھا مگر معنی و مفہوم میں تبدیلی نہیں ہوتی تھی ۔

انگریزی زبان جاننے والے حضرات بھی اس بات سے واقف ہیں کہ انگریزی کلمات میں بھی لہجات و قراءات کا اختلاف ہوتا ہے ۔مثلا ، انڈیا میں آپ vitamin (وٹامین) بولتے ہیں لیکن امریکی لہجہ میں vaitamin (ویٹمین) تلفظ کرتے ہیں۔ اس اختلاف لہجہ کے باوجود دونوں کے معنی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ اسی طرح برٹش یا انگریزی طرز تحریر میں colour, humour, honour, behavior جیسے الفاظ میں او اور یو لکھتے ہیں لیکن یہی الفاظ امریکی طرز تحریر میں صرف او کے ساتھ اس طرح لکھے جاتے ہیں color, humor, honor, behavior۔ ان الفاظ میں حروف کا اختلاف ہے لیکن اس اختلاف کے باوجود معنی و مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ۔ انگریزی زبان پڑھنے لکھنے والوں کے لیے یہ سمجھنا اب نہایت آسان ہے کہ نص قرآنی میں جو اختلاف قراءات ہے اس سے معنی و مفہوم میں کوئی تضاد و تعارض نہیں ہے بلکہ مختلف قراءات کے نزول کا سبب عرب کے مختلف لہجات و قراءات والے لوگوں کے لیے تلاوت میں آسانی بہم پہنچانا تھا ۔

 دوسری صورت ان قراءات کی ہے جن میں لغات کا اختلاف نہیں مگر فصیح عربی زبان میں انہیں ایک سے زائد طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے ۔مثلا، سورہ شعراء کی آیت ۱۹۳ ‘‘نزل به الروح الامين ’’ کو لیجیے ۔اس آیت میں لفظ ‘نزل ’ میں زاء کی تخفیف ، ‘روح’ میں حاء کو پیش (رفع) کے ساتھ ، اور ‘الامین’ میں نون کو پیش (رفع) کے ساتھ بھی قراءت جائز ہے ۔اور اسی طرح ‘نزل ’ میں زاء کی تشدید ، ‘روح’ میں حاء کو زبر (نصب) کے ساتھ ، اور ‘الامین’ میں نون کو زبر (نصب) کے ساتھ بھی قراءت کرنا جائز ہے ۔اس قسم کے اختلاف قراءت سے بھی معنی و مفہوم میں کوئی تضاد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس طرح کا اختلاف اہل عرب کے دستور کے مطابق ہے کہ وہ الفاظ اور معانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ہی لفظ کو مختلف انداز سے پڑھا کرتے تھے مگر اس کے باوجود ان کی گفتگو اور بات چیت کا مفہوم مجروح نہیں ہوتا تھا ۔

۲۔اختلاف قراءات کی دوسری قسم یہ ہے کہ دو قراءاتیں تلفظ میں مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ معنی میں بھی مختلف ہیں ۔لیکن یاد رہے کہ دونوں کے معنی میں اختلاف کے باوجود کسی طرح کا تضاد و تعارض نہیں ، بلکہ وہ ایک ہی چیز کے دو مختلف پہلو ہیں اور دونوں معنی کے درمیان تطبیق ممکن ہے ۔اس کی ایک مثال سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۹ میں ہے جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : "وانظر إلى العظام كيف ننشزها ثم نكسوها لحما "۔ اس آیت مقدسہ میں ‘ننشزھا ’ کو زاء کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے ، جس کا معنی ہے ‘‘ہم ان کو آپس میں ملائیں گے ’’ اور اسے راء کے ساتھ ‘‘ننشرھا’’ بھی پڑھا گیا ہے ، جس کا معنی ہے ‘‘ہم انہیں موت کے بعد حساب کے لیے زندہ کریں گے ’’۔ان دونوں قراءاتوں میں غور کرنےسے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں قراءتیں تلفظ میں بھی مختلف ہیں اور ساتھ ہی معنی میں بھی مختلف ہیں ۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود دونوں کے درمیان تناقض و تضاد نہیں ، بلکہ دونوں کا معنی ملتا جلتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی جب انسان کی موت کے بعد اسے دوبارہ اٹھانا چاہے گا تو ان کی ہڈیوں کو آپس میں ملائے گا اور پھر اس کےبعد انہیں جزاء و سزا کے لیے زندہ کرے گا ۔ اس طرح کی مزید مثالوں کے لیے الشیخ عبد الفتاح عبد الغنی القاضی کی کتاب ‘‘قراءات قرآن :مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں’’ کا مطالعہ کیجیے ۔

قراءات کی اس دوسری قسم کے اختلاف کا مقصد اصل میں قرآن مجید میں اختصار کے ساتھ جامعیت پیدا کرنا ہے تاکہ قرآن کی ایک ہی آیت سے دو آیتوں کا کام لیا جائے اور کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی کا حصول ممکن ہو جائے ۔

قرآن کریم کی جتنی بھی متواتر قراءاتیں ہیں ان میں ایسا اختلاف ہرگز نہ ملے گا جن کا مفہوم و مدعا باہم متضاد و متعارض ہو، بلکہ ایسا ہونا محال ہے ، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے :

ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا (سورة النساء: 82) یعنی ‘‘اگر قرآن کریم اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی طرف سے (نازل) ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے’’۔

قرآن مجید کی مختلف قراءتیں عہد رسالت میں بھی تھیں اور آج بھی ہیں ، لیکن ان قراءتوں کی نوعیت وہ نہیں جو مخالفین ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اختلاف قراءات سے مراد ایسا اختلاف ہرگز نہیں ہے جس کو معروف معنوں میں تضاد یا تناقض کہا جا سکے بلکہ یہ اختلاف تغایر اور تنوع کا ہے جو قرآنی اعجاز کی علامت ہے ۔ امام ابن قتیبہ (م ۲۷۶ھ) اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اختلاف کی دو قسمیں ہیں: ایک اختلاف کسی چیز کے دوسری چیز سے محض مختلف ہونے کی نوعیت کا ہے ، جبکہ دوسرا اختلاف تضاد پر مبنی ہوتا ہے ۔ تضاد پر مبنی اختلاف کا قرآن میں پایا جانا جائز نہیں اور تمہیں بحمد اللہ یہ اختلاف قرآن میں نہیں ملے گا ، سوائے اس کے کہ کسی امر یا نہی کو منسوخ کرکے کوئی دوسرا حکم دے دیا گیا ہو ۔ البتہ پہلی نوعیت کا اختلاف (قرآن میں) پایا جا سکتا ہے ۔ (تاویل مشکل القرآن ص ۳۳)

 مذکورہ کتاب میں ابن قتیبہ نے اختلاف قراءات کی متعدد مثالیں ذکر کی ہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ دونوں قراءتوں میں ہر معنی اپنے مقام پر بالکل درست ہے ، ہر قراءت ایک مستقل آیت کے قائم مقام ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کا اختلاف فن ایجاز کا ایک شاہکار ہے جسے قرآن کریم نے اپنے احکام و تعلیمات کے پیرایہ بیان میں اختیار کیا ہے ۔

۔۔۔

مصادر و مراجع

۱۔تدوین قرآن از مولانا محمد احمد مصباحی

۲۔ القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین، عربی از الشیخ عبد الفتاح عبد الغنی القاضی، اردو ترجمہ قراءات قرآن :مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں، مترجم ڈاکٹر محمد اسلم صدیق

۳۔ القراء ات واللہجات از ڈاکٹر عبدالوہاب حمودہ

۴۔ رسم المصحف العثمانی وأوھام المستشرقین فی قراء ات القرآن الکریم،دوافعہا ودفعہا از ڈاکٹر عبدالفتاح اسماعیل شلبی

۵۔ دراسات فی مناہج المفسرین از ڈاکٹر ابراہیم عبدالرحمن خلیفہ

۶۔تاریخ القران وغرائب رسمہ وحکمہ از طاہر عبدالقادر الکردی

۷۔ تاویل مشکل القرآن از ابن قتیبہ

۸۔ اختلاف قراءات اور نظریہ تحریف قرآن، مصنف : محمد فیروز الدین شاہ کھگہ

URL: https://newageislam.com/urdu-section/claim-holy-quran-various-words-part-1/d/128385

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..