New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 11:20 AM

Urdu Section ( 13 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Claim on Chishti Dargah Is Regrettable درگاہ چشتیؒ پر دعویٰ افسوس ناک

خواجہ عبدالمنتقم

11دسمبر،2024

انصاف رسانی کے معاملے میں مؤکل کاکردار بھی بہت اہم ہوتاہے۔ ہر مؤکل کا یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی کوئی معاملہ عدالت کے سامنے لے کر جائے تو اس کی نیت صاف ہونی چاہئے۔ اسے عدالتی زبان میں انگریزی میں کہا جاتا ہے: 'One must approach the court with clean hands'۔ جو خود ہی داغدار ہو یا جس کی نیت صاف نہ ہو یاجو نیک نیتی سے عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے تو اسے اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ فریق ثانی کے خلاف دادرسی کا کوئی بھی دعویٰ کرسکے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جب بھی کوئی شخص انصاف کاطالب ہو اور وہ عدالت کا سہارا لے تو خود اس کو بے قصور ہونا چاہئے۔مگر یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اس اصول سے یہ فقرہ شرطیہ بھی جڑا ہوا ہے کہ اس کا طرز عمل شئے متد عویہ یا شئے متنازعہ کے تعلق سے ہی قابل لحاظ ہوا او رکسی بھی دیگر شئے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔

خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسی عظیم شخصیت، جس کے بارے میں بہت سے امریکی ویوروپی اسکالروں، ہندوستانی تاریخ دانوں وسیاستدانوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ا س فرد واحد کی سادگی، دلیری، شجاعت، صحیح حکمت عملی، انکساری، عاجزی، بے غرضی اور دیگر ایسی ہی خصوصیات کے باعث دور دور تک پہنچا۔ ہمارے ملک کے عظیم سیاستداں اور بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی اس بات کو قبو ل کیا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں بلکہ وہ  اپنے اصولوں کی وجہ سے تمام دنیا میں مقبول ہوا اور جس ملک میں سوامی وویکا نند جیسی عظیم المزتبت روحانی شخصیت کا یہ خیال ہوکہ کسی بھی مذہب، فرقے یا مسلک کے بارے میں ہماری فکر اور سوچ جذبہئ محبت ویگانگت تک مرکوز ہونی چاہئے او رمستقبل میں بھی مذہب،ا نسانیت کے لئے ہمیشہ مینارہ نور کا کردار ادا کرتارہے گا، کی آخری دنیاوی آرامگاہ پر سوال اٹھانااور عدالت سے رجوع ہونا انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔

خواجہ معین الدین چشتیؒ اسلام مذہب کے سچے پیروتھے یعنی ایک ایسے مذہب کے جس نے تمام انسانوں کو آدمؑ و حواؑ سے پیدا ہونے او رانہیں مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کردینے کی بات کہی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں، کسی کو کسی پر برتری نہیں۔ کتاب ہدیٰ کایہ پہلا سبق ہے کہ پوری کی پوری دنیا اس کا کنبہ ہے اور ہمارے ملک کی اکثریت یعنی ہندو صاحبان بھی اس ہندوستانی فلسفے ’وسودھیوکٹمبکم یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے‘، میں یقین رکھتے ہیں‘ او رظاہر بات ہے کہ خدائے برتر نے رحمت اللعالمین ہونے کے ناطے یہ ضرور چاہا ہوگا کہ اس کے کنبے کے افراد اس دنیا میں اچھے او رنیک کام کو اپنی خلافت ونیابت سے سرفراز کیا اوریہ سب کچھ اس لئے کیا کہ وہ اس سرزمین پر احکام الہٰی جاری کرے اور اس عالم کو ظلم وستم، شروفساد سے پاک و صاف رکھے اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنائے، اسی غرض سے اس نے ہر ملک، ہرخطے اور ہر قوم میں بادی و نبی بھیجے اور کتابیں اتاریں تو وہیں اس نے خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسے نیک انسانوں کو بھی دنیا میں بھیجا تاکہ خدا کے بندے رب العالمین کے احکام،اپنے نبی اور رسول کے بتائے ہوئے راستے اورنیک لوگوں کے اعمال صالح اور اقوال زریں کے مطابق صحیح راستے پر چلتے ہوئے اچھی زندگی گزاریں۔اگر انسانوں نے حقیقتاً یہ راستہ اپنایا ہوتا، تو آج یہ دنیا جنت نظیر بن جاتی، چاروں طرف امن وامان ہوتا، انسانیت پھلتی پھولتی، لیکن اولاد آدم نے بندہ ہونے کی بجائے مالک، وخالق بننے اور فرمان الہٰی سے روگردانی کرنے کی کوشش کی۔

خواجہ معین الدین چشتیؒ کے صالح اعمال، انسانیت کے تئیں جذبہ،مساوات، اخوت، انسان کی عظمت وحرمت کااحترام، انصاف، دولت کی مساوی تقسیم،پیغام عدم استحصال، انسانوں کی مدد کرنے کاجذبہ، تمام مذاہب کا احترام اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ اب سینکڑوں سال پہلے انہو ں نے ان بنیادی حقوق کی وکالت وحمایت کی جنہیں آج ہم انسانی حقوق کا نام دیتے ہیں۔ وہ مبلغ باعمل تھے۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں خود اسے عملی جامہ پہنایا او رلوگوں کا دل جیتااو رمحبت،بھائی چارے او رمساوات کے پیغام نے اس وقت کے اس معاشرے پر جو اونچ نیچ، ذات پات، امیر و غریب، اعلیٰ وادنیٰ جیسے زمروں میں بنٹا ہوا تھا ایک مرہم کا کام کیا اور لوگوں نے جو ق درجوق ان کی قربت اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے روضہئ مبارک پر تمام مذہب کے ماننے والے آج بھی صبح شام حاضری دے رہے ہیں۔

انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کا ’لا کراہ فی الدین‘ کا احترام کرتے ہوئے کسی کو اسلام مذہب قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ ان کی زندگی کے دو پہلو ہیں ایک کراماتی زندگی اور دوسری پاک و صاف عام زندگی۔جہاں تک کراماتی زندگی کا سوال ہے ہوسکتاہے کہ اس کے بارے میں سب لوگ یقین نہ کریں یا مسلکی اختلافات ہونے کے باعث ان سب باتوں کو نہ مانیں لیکن جہاں تک ان کی سادہ لوح زندگی، ان کی سوچ، غربا پروری، ذات پات، اونچ نیچ جیسی باتوں سے احتراز، سب کے ساتھ انصاف، سادہ لباس، سادہ کھانا، غریبوں کی مدد جیسی خصوصیات کی بات ہے اس کے بارے میں میں تو کسی بھی مسلک یا کسی بھی مکتب فکر سے ہو۔ مغربی دانشوروں کے اس مقولے کو کہ ہمیں کھانے کے لیے زندہ نہیں بلکہ زندہ رہنے کے لئے کھانا چاہئے، خواجہ معین الدین چشتیؒ نے عملی جامہ پہنا کر لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اگر ہم ایسا کریں تو ہمارے ملک سے بھکمری دور ہوجائے او رکوئی بھی رات کو بھوکا پیاسا نہ سوئے۔آپ نے ہمیشہ سادہ لباس پہنا او رکبھی کبھی تو کسی کی غربت اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو دیکھ کر اس قد ر رنجیدہ ہوئے کہ اپنے کپڑے بھی اسی کو دے دیے کیونکہ ان کے نزدیک وہ منعم جو قاقم وسنجاب میں ملبوس ہو یا پھٹے ہوئے کپڑوں میں دونوں برابر تھے۔ ان کے یہاں ہر شخص خواہ وہ بادشاہ ہو یا بڑے سے بڑا امیر ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہی حاضر ہوتا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی شخصیت سے اس وقت کے لوگوں نے سبق حاصل کیا، ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، ذات پات کی بنیاد پر نفرت و امتیاز میں کافی حد تک کمی آئی اور آج بھی ان کی ذات اور مثالی شخصیت ہمارے لیے مشعل راہ ہے، بشرطیکہ ہم ان کی سادہ لوح زندگی، ان کے اعمال صالحہ اور اقوال زریں کو رسماً نہیں بلکہ حقیقتاً مشعل راہ سمجھیں او رکوئی ایسا کام نہ کریں جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں اور دوسرے بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں۔

11 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/claim-chishti-dargah-regrettable/d/134011

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..