New Age Islam
Sun May 18 2025, 07:02 PM

Urdu Section ( 8 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

In The City Of Urdu for Three Days اردو کے شہر میں تین دن

معصوم مراد آبادی

6فروری،2025

شمالی ہندوستان میں جب بھی ہم اردو کی بگڑتی ہوئی صورتحال کاذکر کرتے ہیں تو اس ملک میں ایک ایسی ریاست بھی یاد آتی ہے جہاں اردو کی فصل لہلہارہی ہے۔ اس ریاست کا نام ہے مہاراشٹر جو اترپردیش کے بعد ملک کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ ایک طرف جہاں اتر پردیش میں اردو بستر مرگ پرپڑی ہوئی ہے تو وہیں مہاراشٹر میں اس زبان کا بول بالا ہے۔ اس ریاست کی خوبی یہ ہے کہ یہاں اردو پڑھ کر ہماری نسلیں جوان ہورہی ہیں اور انہوں نے اردو کو اپنااوڑھنا بچھونا بنا رکھاہے۔اسی مہاراشٹر میں ایک ایسا شہر بھی ہے جہاں ہر طرف اردو کا بول بالا ہے۔ اس شہر کانام ہے مالیگاؤں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قومی اردو کونسل کے کتاب میلہ میں اردو والوں نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی کتابیں خرید کرریکارڈ قائم کیا تھا۔اسی مالیگاؤں سے جس وقت مجھے ’رشک بہاراں‘ میں شرکت کادعوت نامہ ملا تو میں مقدس شہرمدینہ منورہ میں تھا اور چند روز بعد میری وطن واپسی تھی۔ سفر کی تھکان ایسی تھی کہ میں فوری کسی دوسرے سفر کے قابل نہیں تھا، مالیگاؤں کی اردو نوازی او ربرادرم امتیاز خلیل کی مخلصانہ دعوت میں ایسی کشش تھی کہ میں انکار نہیں کرسکا۔

عمرے سے واپسی کے تیسرے ہی دن مالیگاؤں کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ مالیگاؤں والوں کی اردو نوازی کے قصے تو بہت سن رکھے تھے لیکن اس کا عملی تجربہ’رشک بہاراں‘ کے دوران ہوا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر پوسٹر، بینر اور سائن بورڈ پر اردو نظر آتی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسی جگہ جہاں اردو کا گزرنہ ہو۔درجنوں اردو لائبریریاں،اردومیڈیم اسکول،کالج اور متحرک ادبی انجمنیں ہیں۔جامعہ محمدیہ جیسا تاریخ ساز ادارہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر شخص اردو کا شیدائی  ہے۔یہاں کی ایک لائبریری تو سواسو سال پرانی ہے۔ اردو زبان اور تہذیب کے ساتھ ایسا عشق آپ کو کہیں او رنہیں ملے گا۔ یوں تو پورے مہاراشٹر میں اردو کا چلن ہے اوراس کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اردوتعلیم و تدریس کا نظام بہت مضبوط ہے۔ ہائرسیکنڈری کی سطح تک ہزاروں اسکول ہیں۔ یہاں تک کہ کوکن علاقے میں تین سو سے زائد اردو میڈیم اسکول ہیں۔ سچ پوچھئے تو مہاراشٹر میں اردو تعلیم کا جال پھیلا ہواہے۔

مالیگاؤں کوئی بڑا شہر نہیں ہے، لیکن عروس البلاد ممبئی سے زیادہ دوربھی نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر مزدوروں کا شہر ہے۔ پاورلوم یہاں کی انڈسٹری ہے اور ہر طرف بنکروں کا بسیرا ہے۔ یہاں ترقی اور جدید سہولتوں کی اس حد تک کمی ہے کہ سیورلائن بچھانے کا کام بھی ابھی شروع ہوا ہے۔مالیگاؤں کی آبادی بارہ لاکھ کے قریب ہے اوراس میں 75 فیصد مسلمان ہیں۔ گھنی آبادیوں پر مشتمل مسلم علاقوں کے لوگ قناعت پسند بہت ہیں۔مالیگاؤں کو میناروں کاشہر بھی کہا جاتاہے۔اگر آپ اس شہر کا فضائی سروے کریں تو آپ کو مینار ہی مینار نظر آئیں گے۔ہرگلی کوچے میں آپ کو کوئی مسجد یا مدرسہ ضرور مل جائے گا۔مالیگاؤں میں کم وبیش چار سو مسجدیں ہیں۔ اس کے علاوہ چھ قبرستان اور سات عید گاہیں ہیں۔ ایشیاء کا سب سے بڑا قبرستان بھی اسی شہر میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں بے شمار مدارس او رمکاتب ہیں جہاں طلبا ء اورطالبات کے لیے تعلیم کا علاحدہ نظم ہے۔ادبی اور ثقافتی پروگراموں میں بھی مرد وخواتین کے بیٹھنے کا علاحدہ نظم ہوتاہے۔ ایک طرف جہاں خواتین برقعوں میں نظر آتی ہیں تو وہیں ہر مرد کے سر پرٹوپی ہوتی ہے اور وہ فخر کے ساتھ سر اٹھا کر چلتاہے۔ ایسا ماحول آپ کو کسی اور شہر میں نظر نہیں آئے گا۔ اسے آپ ایک مثالی مسلم معاشرہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن صفائی ستھرائی کا فقدان ہے۔چوڑی سڑکوں پر بھی تجاوزات نظرآتے ہیں۔جمعہ کا دن چھٹی کا ہوتاہے اوراس دن بیاہی بیٹیاں اپنے اپنے گھر وں کوضرور آتی ہیں۔

میں 31 جنوری کی صبح شرڈی کے راستے مالیگاؤں پہنچا۔ سائیں بابا کا شرڈی ایک مسلمان فقیر کی یادگار ہے۔مندر کے نیچے سائیں بابا کی قبر ہے اور اوپر بابا کی مورتی۔ بابا کے چاہنے والوں کا ایسا تانتا ہے کہ شرڈی کے چھوٹے سے ائیر پورٹ پرکئی فلائٹیں اترتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر جنوبی ہند کے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ شرڈی کا ائیرپورٹ سائیں بابا کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔شرڈی میں داخل ہونے کے بعد مجھے سب سے پہلے یہاں کی مسجدوں کے مینارو ں نے اپنی طرف کھینچا۔معلوم ہواکہ چالیس ہزار کی اس چھوٹی سی بستی میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور یہاں بھی اردو میڈیم اسکول ہیں۔شرڈی سے مالیگاؤں تک ہماری رہبری عظمت اقبال نے کی جویہاں کے ایک اردومیڈیم اسکول میں معلم ہونے کے ساتھ افسانہ نگا ربھی ہیں۔ میں معروف صحافی پنکج پچوری کے ساتھ شرڈی سے مالیگاؤں روانہ ہوا، مگر 90 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا، وجہ تھی تنگ سڑک پر ٹرکوں کی بھرمار۔ کچھ کمر سیدھی کرنے کے بعد ہم شام کو اس وسیع وعریض مالیگاؤں ہائی اسکول پہنچے جہاں بیت بازی کا مقابلہ ’سیل رواں‘ چل رہا تھا۔ نہایت ذہین طلباء اور طالبات اس میں حصہ لے رہے تھے۔ اس کے بعد کوئز کا پروگرام تھا۔ اردوزبان وادب اور تہذیب سے متعلق اتنی باتیں تھیں کہ انہیں پوری طرح ضابطہ تحریر میں لانا بھی مشکل ہے۔ ’رشک بہاراں‘ کے عنوان سے سجائے گئے اردو کے اس سہ روزہ جشن کا اہتمام ’وائس آف اردو‘ نے کیا تھا اور اسے مالیگاؤں کے اہم تعلیمی اداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔ رشک بہاراں میں ایک اہم پروگرام تعلیم کے بدلتے ہوئے منظر نامے پر مرکوز تھا جس میں مہاراشٹر کے اردو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے خاصی سیر حاصل گفتگو ہوئی اور شرکاء نے تعلیم کے بدلتے ہوئے منظر نامے پراہم نکات پیش کئے۔ مجھے جس مذاکرات کے لیے مدعو کیا گیا تھا، اس کا عنوان تھا ’میڈیا کا بدلتا منظرنامہ اور اردو صحافت“۔ پنکج پچوری مسند صدارت پر تھے اور اس مذاکرے کے شرکاء میں روز نامہ ’سیاست‘ (حیدرآباد) کے نیوز ایڈیٹر عامرعلی خان، روز نامہ ’انقلاب‘ (ممبئی) کے ایڈیٹر شاہدلطیف، روز نامہ ’ممبئی اردو نیوز‘ کے ایڈیٹر شکیل رشید، ماہنامہ ’گل بوٹے‘ کے مدیر فاروق سید اور ’ایشیاء ایکسپریس‘ (اورنگ آباد) کے مدیر شارق نقشبندی شامل تھے۔ تقریباً دوگھنٹہ قومی ذرائع ابلاغ او ر اردو صحافت پربحث مباحثے کے بعدنچوڑ یہ نکلا کہ اردو صحافت آج بھی پوری جرأت او ربے باکی کے ساتھ اپنے محور پرکھڑی ہوئی ہے۔ اس دوران میزبان امتیاز خلیل نے مالیگاؤں کی اردو صحافت کا ایک مختصر جائزہ بھی پیش کیا۔

’رشک بہاراں‘کی خاص بات یہ ہے تھی کہ اس میں دور دراز کے شہروں سے لوگ کھنچے چلے آئے تھے اور یہ سب امتیاز خلیل کی شبانہ روز محنت کاثمر تھا۔ ممبئی سے فلم وادب کی برگزیدہ شخصیت جاوید صدیقی گیارہ گھنٹے کا سفر طے کرکے مالیگاؤں پہنچے تھے او رانہوں نے نہایت کار آمد گفتگو کی۔ اس کے ساتھ ہی پروفیسر سید اقبال، قاسم امام، ندیم صدیقی، عزیز نبیل، حافظ کرناٹکی، پروفیسر شہیر رسول، عبید اعظم اعظمی وغیرہ نے شرکت کی اور ’رشک بہاراں‘کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس قسم کے پروگرام جو اردو زبان او راس کی تعلیم وتدریس کے حوالے سے نئے درکھولتے ہیں، دوسرے شہروں میں بھی ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کومعلوم ہوسکے کہ جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ان سے اردو والوں کو کیسے مستفید کیا جاسکتاہے۔ مالیگاؤں کے بعد میری اگلی منزل مہاراشٹر کا تاریخی شہراورنگ آباد تھا، جس کی تفصیل آئندہ ہفتہ پیش کروں گا۔

6فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/city-urdu-three-days/d/134552

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..