گریس مبشر، نیو ایج اسلام
29 اکتوبر 2024
آج کی دنیا میں شہریت کا تعین بڑی حد تک قومی ریاستیں کرتی ہیں، جہاں شہریوں کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں قانونی دستاویزات، سرحدوں اور سیاسی وابستگیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ تاہم، اسلامی تعلیمات میں، آسمانی اصولوں، سماجی ذمہ داری، اور انصاف پر مبنی شہریت کے حوالے سے، ایک وسیع تناظر پیش کیا گیا ہے۔
اہم نکات:
· اسلام شہریت کو، جغرافیائی سرحدوں یا قومی شناخت تک محدود نہیں کرتا۔
· اس کے بجائے، یہ شہریت کے حوالے سے انصاف، انسانی وقار، اور اجتماعی ذمہ داری جیسے اصولوں پر زور دیتا ہے، اور تمام شہریوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بناتا ہے، خواہ ان کا پس منظر یا حیثیت کچھ بھی ہو۔
· قرآن اور حدیث میں جامع معاشروں کی تعمیر کے لیے، ایک لازوال فریم ورک فراہم کیا گیا ہے، اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ حکومت فلاح عامہ کے لیے کام کرے گی۔
· ان اصولوں کو اپنا کر، مسلم اور غیر مسلم دونوں معاشرے، ایک مزید ہمدرد اور انصاف پسند دنیا بنا سکتے ہیں۔
تعارف
آج کی دنیا میں، شہریت کا تعین بڑی حد تک قومی ریاستیں کرتی ہیں، جہاں شہریوں کے حقوق٬ اور ذمہ داریاں قانونی دستاویزات، سرحدوں اور سیاسی وابستگیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ تاہم، اسلامی تعلیمات، آسمانی اصولوں، سماجی ذمہ داری، اور انصاف پر مبنی شہریت کے حوالے سے، ایک وسیع تناظر پیش کرتی ہیں۔ اس مضمون میں قرآن و حدیث کے ذریعے فروغ پانے والی قدروں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، پیغمبرانہ نقطہ نظر سے، شہریت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں ان مسائل کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے، جو جدید قومی ریاستی شہریت سے پیدا ہوتے ہیں، اور نظام حکومت کو مزید جامع، انصاف پرست اور مساوات کا حامی بنانے کے لیے، اسلامی فریم ورک پیش کیا گیا ہے۔
اسلام میں شہریت کا تصور
اسلام شہریت دینے کو علاقائی حدود یا قومی شناخت تک محدود نہیں کرتا۔ اسلامی اصول میں انصاف، انسانی وقار اور باہمی احتساب پر زور دیا گیا ہے، تاکہ پس منظر یا حیثیت سے قطع نظر، ہر فرد کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ ریاست کے ساتھ مل کر مشترکہ فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد کے ساتھ مل کر، اجتماعی جوابدہی اور حکومت کا نظام پیش کرتا ہے۔
1. ذمہ داری میں بھائی بھائی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن ایک ڈھانچے کی مانند ہیں، جس کا ہر حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)۔ یہ تشبیہ باہمی تعاون کے اصول کو واضح کرتی ہے، جہاں ایک فرد کی بھلائی پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔ لہذا اسلامی نقطہ نظر سے، شہریت قانونی ذمہ داریوں سے آگے بڑھ کر، سماجی یکجہتی اور دوسروں کی دیکھ بھال، ہم آہنگی اور تعاون کو فروغ دیتی ہے۔
2. مدینہ کا آئین: جامع شہریت کا ایک نمونہ
ابتدائی اسلامی حکومتی دستاویزات میں سے ایک، آئین مدینہ، ایک تکثیری معاشرے کی مثال پیش کرتا ہے، جس میں تمام مسلمانوں، یہودی اور دیگر گروہوں کو مساوی حقوق اور تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ اس دستاویز سے شہریت کی نوعیت کے حوالے سے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریے کی نشاندہی ہوتی ہے، جو جامعیت، انصاف، تعاون اور مشترکہ ذمہ داریوں پر مبنی ہے۔ جس میں غیر مسلموں کو بھی مذہبی آزادی حاصل تھی، کیونکہ انہیں تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے، کہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری، سب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے تنوعات کا احترام کرنا ہے۔
3. سماجی ذمہ داری اور زکوٰۃ
اسلامی تعلیمات شہریت کو، سماجی فلاح و بہبود میں تعاون کرنے کی ذمہ داری سے جوڑتی ہیں۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے، جس کے تحت مسلمانوں کو اپنے مال کا ایک حصہ ضرورت مندوں کو دینا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد معاشی انصاف کو یقینی بنانا، اور عدم مساوات کو کم کرنا ہے، جس سے ایک ایسے نمونہ عمل کی عکاسی ہوتی ہے، جہاں شہریت میں معاشرے کے کمزور افراد کی دیکھ بھال بھی شامل ہے۔ قرآن نے سخاوت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا:
"اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور اپنی جانوں کے لئے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے۔" (قرآن 2:110)۔
انتظامیہ اور شراکتی طریقہ کار: شوریٰ اور احتساب
اسلام، شوریٰ اور مشاورت کے اصول پر مبنی طرز حکومت کا نظریہ پیش کرتا ہے، جس میں شرکتِ کار کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اور سب کو جوابدہ بنایا گیا ہے۔ اسلام میں انتظامیہ کوئی آمرانہ ڈھانچہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا نظام ہے، جس کے تحت رہنما اجتماعی مفادات کے پیش نظر، قوم سے مشورہ کرنے کے پابند ہیں۔
’’اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے۔‘‘ 42:38.
اس سے مزید ثابت ہوتا ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ کا طریقہ رائج کیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عوامی معاملات میں، صحابہ سے مشورہ طلب کیا۔ اس شراکتی فریم ورک سے معلوم ہوتا ہے، کہ اسلام کے مطابق انتظامیہ کوئی آمرانہ ڈھانچہ نہیں ہے، بلکہ اس میں مکالمہ اور معاشرے کی شرکت سے کا لیا جاتا ہے۔
قومی ریاست کی شہریت کے جدید چیلنجز
آج، شہریت کا تصور قومی ریاست کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جو انصاف اور جامعیت کے اسلامی نظریہ سے ہٹ کر متعد مسائل پیدا کرتا ہے۔ چند مسائل حسب ذیل ہیں:
1. علیحدگی پسند قوم پرستی
بہت سی ریاستوں میں شہریت کی راہ میں قبائلی، نسلی اور مذہبی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں، اور بعض رکاوٹیں بعض لوگوں کے اخراج کا باعث بھی بنتی ہیں۔ بہت سے پناہ گزینوں، تارکین وطن، اور بے وطن افراد کو شہریت کے فوائد سے محروم رکھا جاتا ہے، اور نتیجہ امتیازی سلوک اور بنیادی خدمات تک کم رسائی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس طرح کا اخراج دنیا بھر میں اخوت کے اسلامی تصور کے خلاف ہے۔
2. حق اور استحقاق کی عدم مساوات
بہت سے ممالک میں حقِ شہریت سے حاصل ہونے والے فوائد، مساوی انصاف کے ساتھ تقسیم نہیں کیے جاتے۔ پسماندہ لوگوں کو تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات تک رسائی حاصل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے، جس سے منظم عدم مساوات مزید بڑھ جاتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اس طرح کی بے ضابطگیوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم سے پہلے کے لوگ اس لیے تباہ ہوئے کہ وہ غریبوں کو قانونی سزائیں دیتے تھے اور امیروں کو معاف کرتے تھے‘‘ (صحیح البخاری)۔
3. قانونی شناخت اور سرحدوں پر زور
جدید شہریت میں اکثر قانونی دستاویزات پر زور دیا جاتا ہے، جس سے ان لوگوں کے لیے رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، جن کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہوتے۔ بے وطن افراد اور مہاجرین اکثر اپنے بنیادی حقوق تک رسائی سے محروم رہتے ہیں، کیونکہ ان کی قانونی شناخت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ریاستی شناخت پر یہ زور، عالمگیر انصاف کے اسلامی آئیڈیل کو کمزور کرتا ہے، جہاں ہر فرد کو عزت اور دیکھ بھال کا حق حاصل ہے، چاہے اس کی قومیت کچھ بھی ہو۔
جدید شہریت کے چیلنجز کا اسلامی حل
اسلامی اقدار کے ذریعے، جامعیت اور انصاف اور احتساب کو فروغ دے کر، ان قدروں کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی اصول کی روشنی میں ان مسائل کو حل کرنے کے چند طریقے حسب ذیل ہیں:
1. عالمی اخوت اور اتحاد
اسلامی تعلیمات میں، ایک متحدہ عالمی ریاست کا نظریہ فروغ دیا گیا ہے، جو تمام قومی سرحدوں سے ماوراء ہوتی ہے۔ قرآن اعلان کرتا ہے:
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو۔ (قرآن 49:13)۔
یہ آیت تنوع کے احساس، اور لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے باہمی احترام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اسلامی شہریت صرف ایک متعین ریاست یا قوم کے اندر ہی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے درمیان اخلاقی ذمہ داری چاہتی ہے۔
2. انسانی وقار اور حقوق کا تحفظ
قرآن اپنی آیات میں اس پر بات کرتا ہے، مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے، "اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی" (قرآن 17:70)۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام انسان کسی نہ کسی شکل میں، عزت اور احترام کے مستحق ہیں، خواہ ان کی قومیت کی قانونی حیثیت کچھ بھی ہو۔ اسلامی طرز حکومت کا نصب العین، انسان کی فلاح و بہبود ہے، جس میں کسی بھی شخص کو بےمعنی تفریق کی بنیاد پر حق سے محروم نہیں کیا جاتا۔
3. اقتصادی انصاف اور تقسیم کی پالیسیاں
اسلامی تعلیمات کے مطابق دولت کی تقسیم معاشی عدم مساوات کو حل کرتی ہے یا آسان بنا دیتی ہے۔ زکوٰۃ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ معاشرے میں دولت کے اوسط بہاؤ سے، غریب اور کم مراعات یافتہ طبقہ مستفید ہو۔ ادارہ جاتی طور پر، وقف کے اداروں کو صحت اور تعلیم کے مقاصد سے، عوامی خدمات کے لیے فنڈ فراہم کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا، یہ نظام اس اصول کو عملی شکل دیتا ہے، کہ شہری ہونے کے ناطے فلاح عامہ کا خیال رکھنا ہماری مشترکہ ذمے داری ہے۔
4. شراکتی انتظامیہ اور احتساب
حکومت کا اسلامی ماڈل، شریعت کے اصول پر قائم ہے، جس میں فیصلہ سازی کے عمل میں عوام کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس کا مشاورتی نوعیت پر مبنی ہونا، اس بات کو یقینی بناتا ہے، کہ حکومت عوام کی ضروریات کی ذمے دار اور اس کے لیے جوابدہ ہے۔ اس میں لیڈروں کو عوام کا خادم مانا جاتا ہے، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کی یاد دہانی ہے: "عوام کا رہنما ان کا خادم ہوتا ہے" (سنن ابو داؤد)۔ اس کو بروئے کار لاکر جدید حکومتی نظاموں کو زیادہ جامع اور شراکتی بنایا جا سکتا ہے۔
5. تکثیریت اور اقلیتوں کا تحفظ
مدینہ کا آئین، اسلامی فریم ورک کے اندر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک بہترین نمونہ عمل پیش کرتا ہے، اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام لوگوں کے ساتھ عدل اور انصاف کا معاملہ کیا جائے۔ اسلامی نظام حکومت، شہریت کے حوالے سے، قومی ریاستوں کے اخراج کے عمل کا ایک نعم البدل ہے، جس کی بنیاد نہ تو مذہب نہ نسل ہے، بلکہ انصاف اور باہمی احترام کا جذبہ ہے۔
نتیجہ:
ایک جامع تصور، یعنی نبوت کا تصور٬ سماجی ذمہ داری، انصاف اور شمولیت کے تصور کو جنم دیتا ہے۔ ایک شہری زیادہ تر جدید نظاموں میں٬ قوموں میں بٹا ہوا ہے، لیکن اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو، وہ عالمی سطح پر ایک دوسرے سے مربوط ہے، اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے کا پابند ہے۔ اس لیے اسلامی نقطہ نظر سے، شہریت سخت قانونی تقاضوں کے نظام سے ماوراء ہے، جس میں شوریٰ، زکوٰۃ، اور انسانی وقار کی حفاظت جیسے اصول شامل ہیں۔ اخراج، عدم مساوات اور بے وطنی کے چیلنجوں سے نمٹنے میں، اسلامی تعلیمات کے اندر، عصری معاشروں کو زیادہ انصاف اور مساوات کی طرف لے جانے، اور ان مسائل کا عملی حل پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ قرآن اور حدیث ایک ایسا شاندار فریم ورک تشکیل دیتے ہیں، جس میں جامع معاشرے کے حصول کی گنجائش موجود ہے، اس طرح اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے، کہ حکومت فلاح عامہ کے لیے کام کرے۔ اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے، تو مسلم اور غیر مسلم معاشرے، مزید انسانیت نواز اور انصاف پسند دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکیں گے۔
--------------
English Article: Citizenship from a Prophetic Perspective: An Islamic Approach to Social Responsibility and Governance
URL: https://newageislam.com/urdu-section/citizenship-prophetic-islamic-social-governance/d/133588
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism