ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
22مارچ،2024
ہند کا عمومی مزاج یہ رہا
ہے کہ ہر سرکاری پہل، قدم اور پالیسی کو منفی انداز میں دیکھنا، اس کو مسلم مخالف
اور مسلم سینٹرک بنا لینا، گلے کاطوق بناکر اسکو ٹانگ لینا اور پھر اس پر خوب
مضمون بازی، بیان بازی، سازش کا رونا ،بالآخر جو نہ بھی ہو اس کو بھی اپنا بنا
لینا! ایسا کب تک چلےگا اور کیوں چلے گا ؟
چلئے اب تو بقول آپ کے
آر ایس ایس اور بی جے پی کی سرکار ہے۔ یہ آپ کے دشمن نمبر ایک ہیں، آپکے وجود
اور شناخت کو مٹانے کے در پہ ہیں، آپ کی تعلیم، تہذیب، تمدن، اقدارو روایات،
خانگی زندگی کے خد و خال، ثقافتی ورثہ گویا سب ہی کچھ مٹا دینا چاہتے ہیں۔ آپ
چھوئی موئی کا پودا ہیں، بس ہاتھ لگا اور مرجھا گیا۔ یہ کونسا حسن سلوک ہے؟
جب سیکولر سیاسی قوتیں
اقتدار میں رہتی ہیں تب بھی یہی رونا، جب وہ اقتدار سے باہرہو جاتی ہیں تب ان کی واپسی کا رونا، آنے کے کچھ ہی وقت
بعد پھر بیزاری اور برہمی! گویا تنقید، تنقیص اور کیڑے نکالنا ہی ہم نے اپنا شیوہ
بنا لیا ہے۔ جو بھی بر سر اقتدار اس کی شدید مخالفت اور پھر اس سے ہمالیائی توقعات
بھی عجب حکمت عملی ہے!
ادھر دوسرا کام بس یہ پکڑ
لیا کہ آر ایس ایس، بھاجپا کو اپنا اوّل دشمن سمجھ لیا، ہر خرابی کے لئے ان
کومورد الزام ٹھہرانا اپنا وطیرہ بنا لیا، انتخابات میں انکے امیدواروں کو ایڑی
چوٹی کا زور لگا کر ہرانے میں اپنے ہر مسئلے کا حل دیکھ لیا، سیکولرزم کی افیم جس
نے کبھی آپکو بیدار ہونے ہی نہیں دیا بس بیزار رہنا ، بیساکھیوں پر چلنا
سکھایا،اسکی بقا میں ہی اپنی سلامتی کی ضمانت ڈھونڈ لی۔
آپکے سارے فارمولے دھرے
کے دھرے رہ گئے۔ قیادت کا کام عوام کو ایک سمت دینا ہوتا ہے جو کب ہوا میں نہیں
جانتا؟ جب ایسا کرنے کا دعویٰ کیا تب نتائج وہ نکلے جو آپ کے حق میں کم ،دوسروں
کے حق میں زیادہ رہے! پوری مسلم قیادت سوچے کہ کون سا مسئلہ وہ اپنے دباؤ یا زور
سے حل کرا پائی؟ برا نہ مانیں یہ کوئی چیلنج کا مقام نہیں ،صرف حق،
حقیقت و حقائق سے پردہ اٹھانا مقصود ہے۔ جب تک اندر جھانکیں گے نہیں، راستہ نہیں ملے گا!
میں حقیقت کی دنیا میں
رہنےاورسوچنے کا عادی ہوں۔ مسائل کی نشاندہی میں کوئی بڑا تیر ہم نہیں مار لیتے!
حل میں کوئی کردار پیدا کر سکیں، کوئی سہولت، رعایت یا گنجائش پیدا کر سکیں، زمین
کے ہموار کرنے میں کوئی حصے داری کر سکیں تب تو کوئی بات بنے ورنہ میں کون خواہ
مخواہ!
اس تناظر میں شہریت کے
قانون اور اس کے ہندوستانی مسلمانوں پر پڑنے والے مبینہ اثرات کا احاطہ اور تجزیہ
کرتے ہیں، کھلے ذہن اور عقلی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس میں اگر کوئی منطق و
مستحکم دلیل موجود ہے تواسے تلاش کرتے ہیں۔
شہریت کا مسئلہ اور اس کی
اصل تاریخ تقسیم ہند سے شروع ہوتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد منتقل ہونے کےنتیجے میں پاکستان سے ہندو، سکھ
آزاد ہندوستان آئے تو ان کو شہریت سرحد
میں داخل ہوتے ہی ملتی گئی۔ مسلمانان ہند کی بھی ایک بڑی تعداد ہندوستان سے
پاکستان منتقل ہوئی ،مگر ان میں سے کچھ جو واپس آئے تو اس وقت کے وزیر داخلہ
سردار ولبھ بھائی پٹیل نے نہرو جی سے کہا کہ پہلے ہی فرقہ وارانہ تناؤ بہت ہے ،ان
کو واپس لینے سےاس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک دوسری شرح کو زمین ملی
۔پھر یہ مسئلہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہندوستان آئے کثیر بنگلہ دیشیوں کی واپسی
یا ان
کو شہریت دینے کی صورت میں کھڑا ہوا۔ بہت سے مہاجرین
واپس چلے گئے مگر ایک تعداد ہندو مہاجرین کی یہیں بس گئی۔ ادھر اس ضمن میں مسلم
غیر قانونی تارکین وطن کی بھی ایک کثیرتعداد بنگال، آسام اور دیگر سرحدی ریاستوں
میں بس گئی ۔جس کےنتیجے میں بنگال اور خصوصی طور پر آسام میں مسلم آبادی کا
تناسب مطابق اعداو شماراور موجود حوالوں کے تشویشناک حد تک بڑھ گیا ۔وہاں غیر ملکی
شہریوں کو لیکر پوری عوامی تحریک چلی اور ۱۹۸۵ میں مرکزی، ریاستی حکومت اور آسام جن
سنگرام پریشد اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے بیچ ایک سمجھوتہ ہواجس
پر عمل درآمد کے حوالے سےشکایات بنی رہیں۔
مودی حکومت نے اس ایشو کو
وہاں سے پکڑا جہاں اٹل جی اور منموہن سنگھ نے چھوڑا تھا ۔اس تناظر میں شہریت کا
ترمیمی بل ۲۰۱۹ میں لوک سبھااور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں
سے منظور کرا لیا گیا ۔ مت بھولئے کہ حکمراں جماعت کے پاس راجیہ سبھا میں اکثریت
نہ تھی ۔یہاں آپ کے سیکولر حلقے ہی تھے جنھوں نے اس بل کو ہی نہیں بلکہ تین طلاق،
۳۷۰، ۳۵ ۔اے کو پاس کروایا! اب
تو محض نفاذ کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے۔
مسلمانان ہند میں یہ خوف
برپا کیا جا رہا ہے کہ آپکی شہریت خطرے میں ہے۔ این آر سی اور سی اے اے ترمیم ۲۰۱۹ میں انکے ساتھ ایسا کچھ
خفیہ طور پر کر دیا گیا ہے کہ جس سے صرف انکی شہریت سوالوں کے گھیرے میں آ گئی
ہے؟ یہ بات لغو ہے!
این آر سی کے حوالے سےیہ
سمجھیں کہ منموہن سنگھ سرکار نے ۱۹۵۵
کے شہریت کے قانون میں ۲۰۰۳
میں ایک ترمیم کی جس کے تحت قومی شہری رجسٹر قائم کرنے کو قانونی طور پر لازم قرار
دیا گیا جس میں تمام مستند ہندوستانی شہریوں کا اندراج ہو تاکہ غیر قانونی شہریوں
کی نشاندہی کی جا سکے۔
۲۰۱۴
میں مودی حکو مت نے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا اور ۲۰۰۱۹ میں ہندوستانی شہریت دئے
جانے کے حوالے سے جو ترامیم کی گئیں ان کا ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت سے کوئی
تعلق نہیں۔ اس حوالے سےوزیر داخلہ کا واضح سرکاری بیان اور وزیر اعظم کی براہ راست
مسلمانوں سے عوامی خطاب کرکے یقین دہانی کہ ان ترامیم کا آپ یا آپکی شہریت سے
قطعاًکوئی تعلق نہیں !
دوسرے اس کا تعلق محض ان
غیر مسلم اقلیتوں( ہندو، سکھ، بودھ، جین اور عیسائی) سے ہے جو مسلم اکثریتی
ریاستوں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے مستقل مکیں تھے ۔ نسلی یا مذہبی
استحصال کے نتیجے میں وہ۲۰۱۴
تک بھارت آگئے اورتب سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ہندوستانی شہریت چاہتے ہیں ان کو شہریت
دینے کی بات ہے۔
یہاں جو سوال اٹھ رہے ہیں
وہ پہلا مسلمانوں کو اس فہرست سےباہر کیوں رکھا گیا ہے۔جواب! ان ریاستوں کا مسلم
اکثریتی ریاست ہونا ہے۔ دوسرا آئین کی رو سے مذہب کی بنیاد پر اس تفریق اور بھید
بھاؤ پر اعتراض! جواب! موجودہ شہر یت قانون کے مطابق ہندوستانی شہریت پانچ
بنیادوں پر دی جاتی ہےاور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ پہلی پیدائش، دوسری
نزول یعنی موروثی، تیسری کسی وحدت یا علاقے کا آئینی حدود میں شامل ہو جانا جیسے
گوا، سکم ۔ اس کےعلاوہ ہندوستانی شہری سے شادی کی صورت یا قانونی ہجرت کے نتیجے
میں بھی ایسا ممکن ہے۔ یہ سب برقرار ہے۔ سابقہ نو سالوں میں ۵۵۰ مسلمانوں کو ان قوانین
کے تحت ہندوستانی شہریت ملی ہے۔ اب آخری بات کہ مسلمان جن میں احمدیہ، شیعہ بلوچ،
پختونخواہ یا افغانی ہیں ان کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ جواب! یاد رکھیں افغانیوں
کے لئے ہندوستان کا دل ہمیشہ کھلا رہاہے بقیہ کی جائز درخواستوں پر غور کرنے اور
انکو شہریت دینے کے معاملے میں ہماری پالیسی کسی مذہب خاص کےخلاف نہیں!
آخری بات یہ ہے کہ اب وہ
کہہ اور لکھدوں جو تلخ تر ہےاور نیچے سے منطق کی زمین کھینچ لے گی۔ اسلام اور
شریعت کی رو سے ہر اسلامی ریاست پر تمام مسلم اقلیتوں کاوہ جہاں بھی آباد ہو، ان
میں شہریت کا فطری، دینی و شرعی حق ہے! کہیں ہے یہ نظام؟ آگے چلئے فلسطین میں لگ
بھگ ۳۳
ہزار شہید اور ۸۰
ہزارسے زائد زخمی اور اپاہج کوئی انھیں آسرا دینے والا نہیں؟ اگر اکثریتی مسلم
ممالک میں بھی آپ محفوظ نہیں تو لعنت کے سوا کیا؟ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت
اقلیت جن ملکوں میں مسلمان آباد ہیں چند مثالوں کو چھوڑ کر وہ کہیں زیادہ آزاد
اور خود مختار ہیں! بھارت اسکی زندہ مثال ہے۔ پریکٹیکل ہو کر چلیں اور مثبت کی
عادت ڈالیں!
مشورہ:
مثبت پہلوؤں، بیانوں، یقین دہانیوں اور تحفظات کا خیر مقدم عمل درآمد کے تناظر
میں بہتر حکمت عملی ہے نہ کہ ان کی محض تنقید! ان گنت سرکاری اسکیموں کے تحت سیدھے
بنک کھاتوں میں رقم، کروڑ لوگوں کو مفت
غلہ، پانچ لاکھ کا سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں مفت علاج، زچہ بچہ دیکھ بھال،
کروڑوں لوگوں کے سروں پر چھت، ہر گھر میں بیت الخلاء ، پینے کا پانی، بجلی اور
گیس! یقیناًچند ناخوشگوار اور انسانیت سوز واقعات بھی، عمومی پر امن صورتحال، علی
گڑھ اور جامعہ کا دس سال سے بحال اقلیتی کردار، اےایم یو کو جنگ آزادی کا مرکز
قرار دینا، تعلیمی سرگرمیوں کا معمول ،مقابلہ جاتی امتحانات میں نمایاں کامیابیاں،
مسلم ممالک سے بہترین تعلقات اس سب میں تعریف اور سراہنےکے لائق کچھ تو ہوگا؟
میں شکایات، تنقید اور
احتجاج کے خلاف ہر گز نہیں، مگر توازن کادامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوٹے اس کا ضرور
قائل ہوں۔
22 مارچ،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism