New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 07:09 AM

Urdu Section ( 25 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Christian West Persecuted and Expelled Jews While the Muslims Protected and Sheltered Them عیسائی مغرب نے یہودیوں کو ستایا ، باہر نکالا مگر مسلمانوں نے انہیں پناہ دے کر حفاظت کی

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 21 دسمبر 2023

 یہودی مسلمانوں کے ناشکرے ہیں۔

 اہم نکات:

عیسائی مغرب نے تاریخی طور پر یہودیوں کو ستایا ہے۔

پوپ انوسنٹ III نے 1215 میں عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان کسی بھی سماجی تعامل سے منع کیا تھا۔

1242 میں تلمود کے 20 بستیوں کو جلا دیا گیا۔

فلپ آگسٹس نے 1182 میں یہودیوں کو فرانس سے نکال باہر کیا۔

کنگ ایڈورڈ نے 1290 میں یہودیوں کو انگلینڈ سے نکال دیا۔

فلپ چہارم نے انہیں 1306 میں دوبارہ فرانس سے نکال دیا۔

 -----

Photo: New Indian Express

------

 اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ نے مشرق وسطیٰ اور بالخصوص فلسطینی مسلمانوں کے حوالے سے قوم یہود کی ناشکری کو اجاگر کیا ہے۔ آج یہودی ملک اسرائیل غزہ پر گولہ باری کر رہا ہے اور مغربی کنارے کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہا ہے باوجود اس کے کہ فلسطینی مسلمان اس خطے سے یہودیوں کی بیخ کنی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ صرف یہودیوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔

 مسلمانوں نے ہمیشہ ان کی حفاظت کی ہے اور انہیں اپنے علاقوں میں آباد ہونے دیا ہے اور وہ بھی اس دور میں جب مغربی عیسائی بادشاہ اور رانیاں انہیں فرانس، اسپین اور انگلینڈ میں ایک ٹکڑا زمین دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ فرانس کے بادشاہ نے فرانس واپس آنے پر ان پر جزیہ جیسا ٹیکس بھی لگایا تھا۔

 یہاں تک کہ عیسائیوں کے مذہبی سربراہان، پوپ انوسنٹ III اور پوپ جان XXII نے یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان تعلقات کو خراب کیا اور اس دوران مسلمانوں نے انہیں اپنی سرزمین میں آباد ہونے کی اجازت دی۔ اسلامی حکومتوں کے عروج کے دور میں، یہودی اسلامی حکومتوں میں امن و امان سے لطف اندوز ہوئے۔ عثمانی بادشاہ سلطان بایزید نے 1492 میں اسپین کے عیسائیوں کے ہاتھوں ان کے قتل عام کے بعد یہودیوں کو اپنی سلطنت میں بسنے کی اجازت دی۔ سلطنت عثمانیہ میں یہودیوں کے پاس 21 عبادت گاہیں اور 18 تلمودی کالج تھے۔

 اس سے پہلے بھی آٹھویں صدی میں بغداد میں انہیں مذہبی آزادی حاصل تھی۔ جہاں یہودیوں کی 23 عبادت گاہیں تھیں۔

 یہ عیسائی ہی تھے جنہوں نے قرون وسطی میں مغربی ممالک میں یہودیوں کو ستایا اور وہاں سے انہیں نکال باہر کیا جبکہ مسلمانوں نے انہیں بسنے کے لیے زمین بھی دی اور ان کی جان و مال کا تحفظ بھی کیا کیونکہ قرآن نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ اچھا سلوک کریں 1930 کی دہائی کے دوران یروشلم کے مسلم عالم امین الحسینی نے جرمن رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ یہودیوں کو فلسطین منتقل کر دیں۔

 ہٹلر نے بھی جرمنی میں یہودیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے۔ یہودیوں کا ہولوکاسٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہوا جس میں کہا جاتا ہے کہ 60 لاکھ یہودی مارے گئے۔ ہولوکاسٹ کے دوران مسلمانوں نے بہت سے یہودیوں کی حفاظت کی۔

 یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ عیسائی عالمِ مغرب غزہ میں اسرائیل کی بدترین جارحیت میں اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم کا دفاع کر رہا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو فلسطین سے بے دخل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ آئی ڈی ایف جان بوجھ کر بچوں اور خواتین کا قتل عام کر رہا ہے اور انہیں انتہائی وحشیانہ انداز میں گڈھوں میں پھینک رہا ہے۔

 زیر نظر مضمون میں اے۔ فیض الرحمن عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں پر ظلم و ستم اور فلسطینیوں کے ساتھ یہودیوں کی ناشکری کی تاریخ پیش کی ہے۔

 ------

Israel’s War On Palestine Is A Travesty Of History

فلسطین پر اسرائیل کی جنگ ایک تاریخی سانحہ ہے

 از، اے فیض الرحمن

 20 دسمبر 2023

 غزہ پر اسرائیل کی جاری جنگ کے سب سے ہولناک پہلوؤں میں سے ایک - جسے ناروے کی رفیوجی کونسل کے سیکرٹری جنرل "ہمارے دور میں کسی بھی شہری آبادی پر ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک" سمجھتے ہیں - یہ ہے کہ یہ ایک ایسی قوم پر مسلط کی گئی ہے جس کا دامن ماضی میں یہودیوں پر ڈھائے گئے مظالم سے پاک ہے۔

یہ عیسائی عالمِ مغرب ہی تھا - جو آج اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست بنا ہوا ہے - جس کے یہودیوں پر بے انتہا مظالم سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ مورخ جیرارڈ سلوان نے اپنے مضمون، 'Christian Persecution of Jews over the Centuries (صدیوں تک یہودیوں پر عیسائیوں کے ظلم و ستم)' میں لکھا ہے کہ جدید یہود دشمنی کی ابتدا "چرچ کی تبلیغ" سے ہوئی۔ آرنو مائر نے اپنی کتاب book Why did the heavens not darken میں لکھا کہ پہلی صلیبی جنگ (1099-1096) کے دوران یہودیوں پر حملے نے "یورپی نفسیات اور تخیل میں ایک مہلک زہر گھولا اور ایک تباہ کن مثال قائم کی"۔

 'مہلک زہر'، یقیناً، یہ بے بنیاد الزام تھا کہ یہودی حضرت عیسیٰ کے مصلوب کیے جانے کے ذمہ دار ہیں، جس نے سلیمان گریزیل کے مطابق، "ہمیشہ کی غلامی کا پٹہ ان کے گلے میں ڈال دیا"۔ گریزیل کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پوپ کے خطوط اور کونسلروں کے حکم ناموں نے عیسائی حکمرانوں پر دباؤ بنایا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ "یہود مسیحی مذہب کے سامنے دائمی غلامی کے طوق سے اپنا سر جھکائے رہیں اور اپنی گردن اٹھانے کی ہمت نہ کریں"۔ 1215 میں پوپ انوسنٹ III کے ایسے ہی ایک حکم نامے نے پوری عیسائی دنیا میں یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان کسی بھی سماجی یا کاروباری تعامل کو ممنوع قرار دیا۔ جس کے نتیجے میں 1242 میں پیرس میں یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود کے 20 بستوں کو جلا دیا گیا۔

 اس سے قبل 1182 میں فلپ آگسٹس نے فرانس سے یہودیوں کو نکال باہر کیا تھا۔ انہیں 1198 میں مختلف قسم کے استحصالی اور جابرانہ ٹیکس اور خدمات کی ادائیگی پر راضی ہونے کے بعد ہی دوبارہ فرانس میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ 1290 میں، ایڈورڈ اول نے یہودیوں کو انگلینڈ سے نکالا۔ انہیں 1306 میں فلپ چہارم نے دوبارہ فرانس بھگا دیا۔ تاہم، ان کی مصیبت یہیں ختم نہیں ہوئی۔ پوپ جان XXII نے 1322 میں ان سب کو اپنے خودمختار علاقے Comtat Venaissin سے بے دخل کر دیا۔ دریں اثنا، فلپ کے بیٹے لوئس نے 1315 میں یہودیوں کو فرانس میں واپس آنے کی اجازت دے کر کچھ مہلت دی، لیکن انہیں 1394 میں دوبارہ نکال دیا گیا۔

 1391 میں، یہودیوں کی تاریخ کا ایک بدترین قتل عام قشتالہ اور آراغون کے آئبیریائی شہروں میں ہوا جو 1492 میں عیسائی بادشاہوں فرڈینینڈ اور ازابیلا کے حکم پر 1492 میں اسپین سے یہودیوں کی بے دخلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ان کے بدنام زمانہ فرمان الحمرا میں یہودیوں کی "وفادار عیسائیوں کو ان کے مقدس کیتھولک عقیدے سے ہٹانے اور بہکانے" کی کوششوں کو اخراج کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا۔ بھاگنے والے یہودیوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر وہ واپس آئے تو سزائے موت ان کا انتظار کر رہی ہے۔

 جیسا کہ واضح ہے، عیسائیت کی غلط بیانی نے یہودیوں پر ان مظالم کو جنم دیا اور بالآخر یہی دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک ہولناک ہولوکاسٹ کا باعث بنی۔ لیکن عیسائیوں کی سام دشمنی کا ایک اور دلچسپ نتیجہ سامنے آیا - اور یہ وہ اعتماد تھا جو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہوا۔ یہ بات برطانوی-امریکی مورخ برنارڈ لیوس نے اپنے 1968 کے مضمون 'The Pro-Islamic Jews دی پرو اسلامک جیوز' میں لکھی ہے۔ لیوس نے لکھا کہ یورپ کے یہودی قرون وسطیٰ کے اسلام کی رواداری کو بڑی حسرتوں سے یاد کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے عیسائی ہم وطنوں نے انہیں اس آزادی اور مساوات سے محروم کر دیا تھا جو انہیں مسلمانوں کے دور حکومت حاصل تھی۔ اپنے مقالے میں اس نظریے کی تائید کرتے ہوئے اپنے مضمون 'The Golden Age of Jewish-Muslim Relations: Myth and Reality'، میں مؤرخ مارک کوہن اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسلامی قرون وسطی کی کئی صدیاں یہودیوں کے لیے "حقیقت میں ایک سنہرا دور تھیں۔" مسلم-یہودی تعاملات کا مزید تفصیلی احوال مؤرخ ایلن میخائل کی حالیہ کتاب، God’s Shadow: The Ottoman Sultan Who Shaped The Modern World، میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میخائل نے ایک پورا باب اس گرمجوشی کو اجاگر کرنے کے لیے وقف کیا ہے جس کے ساتھ مسلمانوں نے عیسائیوں کے ہاتھوں نکالے جانے کے بعد یہودیوں کا استقبال کیا۔ وہ ایک یہودی پناہ گزین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب تمام عیسائی ممالک یہودیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے مین مصروف تھے تو سلطنت عثمانیہ (جس میں فلسطین بھی شامل تھا) بحیرہ روم کا واحد علاقہ تھا جہاں "ان کے تھکے ہوئے پاؤں کو آرام ملا"، سلطان بایزید دوم کے 1492 کے فرمان کی بدولت جس نے اپنی سلطنت میں ان کا خیر مقدم کیا۔

اس سے یہودیوں کو ایک مسلم سلطنت یعنی سلونیکا کی بندرگاہ میں " ایک واحد یہودی اکثریتی شہر قائم کرنے کا موقع ملا جو دو ہزار سالوں تک قائم رہا"، جو اب یونانی شہر تھیسالونیکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آئندہ چار صدیوں میں، سلونیکا یہودی ثقافت کا اتنا بڑا مرکز بن گیا کہ اسے ’یروشلم آف دی بلقان‘ کہا گیا۔ قاہرہ بھی سفاردی تعلیم کا ایک بڑا مرکز بن گیا، جیسا کہ فلسطینی قصبہ صفد ہے، جس میں 21 عبادت گاہیں اور 18 تلمودی کالج تھے۔ بینسن بوبرک کے مطابق، 8ویں صدی میں بغداد میں بھی 10 رہبائی اسکول اور 23 عبادت گاہیں اور ایک تلمودی انسٹی ٹیوٹ تھا جس کی مدد سے "جنوبی یورپ میں رہبانی روایت خوب پھیلی"۔ یہ ماضی قریب کی بات ہے کہ ہولوکاسٹ کے دوران کچھ مسلمانوں نے یہودیوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال دیں۔ اس کو اجاگر کرنے کے لیے 2017 میں نیویارک کی ایک یہودی عبادت گاہ میں ایک نمائش کے دوران ہولوکاسٹ سے بچ جانے والی جوہانا نیومن نے کہا: "جو [مسلمانوں] نے کیا، بہت سے یورپی ملکوں نے نہیں کیا۔"

 یہی اسلامی جذبہ تھا جس نے فلسطینیوں کو 1947 میں اقوام متحدہ کے ہاتھوں اپنے ہی ملک کی غیر مساوی تقسیم کو قبول کرنے پر مجبور کیا حالانکہ وہ اسے غیر قانونی سمجھتے تھے۔ لیکن اپنی زمین کے ایک بڑے حصے پر اسرائیل کے وجود کے اس حق کو تسلیم کرنے کے باوجود فلسطینیوں کو باقی ماندہ زمین پر اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

 اگر اس سنگین ناانصافی کا علاج نہیں کیا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی عالمِ مغرب بین الاقوامی قانون اور یہودی عیسائی اقدار کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینیوں کو محکوم بنانے، انہیں بے دخل کرنے، بھوکے مرنے اور اب ان کی ہستی کو ہی مٹا دینے کی یہودی ریاست کی افسانوی کہانی کی بے سوچے سمجھے حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔

 -----

 Source: Israel’s War On Palestine Is A Travesty Of History

English Article: The Christian West Persecuted And Expelled Jews While The Muslims Protected And Sheltered Them

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/christian-west-persecuted-jews-muslims-sheltered/d/132199

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..