حسن کمال
25 مئی 2021
چین کے ا یغور مسلمانوں
پرڈھائے جانے والے ’’انسانیت سوز مظالم‘‘ کو دیکھ کر امریکہ اور یورپ کا سفید ضمیر
اچانک جاگ اٹھا ہے۔ حد یہ ہے کہ ہندوستان کے نام نہاد قومی میڈیا نے کئی بار ان ’’مظلوم‘‘ مسلمانوں
کے لئے چند ٹسوے بہا ئے ہیں۔ ’ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘۔ جیسے گزشتہ
تین عشروں میں عراق، شام اور افغانستان میں مارے جانے والے مسلمان نہیں تھے۔اس وقت
اس سفید ضمیر کوسلایا نہیں بلکہ کلوروفارم سونگھا کر بیہوش کر دیا گیا تھا۔ اور
اسرائیل کی غزہ پر بمباری کے نتیجے میں
مرنے اور بے گھر بار ہونے والے مرد، عورتیں اور بچے بھی شاید مسلما ن تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ چین کے
صوبہ سنکیانگ ،جسے ژنجیانگ بھی کہا جاتا ہے، ایغور مسلمان صدیوں سے آباد ہیں۔چین
میں عرب تاجروں کی آمد و رفت تو صدیوں سے جاری تھی اور عرب یہ بھی جانتے تھے کہ
چین ایک بہت ترقی یافتہ ملک ہے اور علم و فن کا ایک بہت بڑا مرکز بھی ہے۔ شاید
رسول اکرم ؐ کی یہ حدیث کہ ’’علم کے حصول
کے لئے اگر چین بھی جانا پڑے تو جاو‘‘ چین کے بارے میںعربوں کے اسی تصور کا نتیجہ تھی۔اُس وقت چین کی جغرافیائی
کیفیت کیا تھی یہ تو وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ، لیکن مورخین کے مطابق اس وقت
کے چین پر ٹینگ خاندان کی حکومت تھی۔اس خاندان کا ایک فرمانروا گائوزینگ تھا۔ گائو
زینگ یوں تو خاصا طاقتور شہنشاہ تھا، لیکن
اس کی سلطنت میں بغاوتیں بہت ہونے لگی تھیں۔ وہ باغیوں کی یورشوں سے تنگ آچکا تھا
۔ گاوزینگ نے عرب تاجروں کے ہاتھوں خلیفۂ وقت کو پیغام بھیجا اور باغیوں کی
سرکوبی کیلئے ان سے مدد کی درخواست کی۔ گائو زینگ
جانتا تھا کہ مسلمان ایک جری اور قوی قوم بن چکے ہیں۔ انہوں نے روم اور
ایران جیسی عظیم سلطنتوںپر فتح حاصل کی ہے۔ اس برے وقت میں وہی اس کی مدد کر سکتے
تھے۔ اس وقت خلیفہ حضرت عثمان بن عفان ؓ تھے۔ خلیفہ نے گائو زینگ کی درخواست قبول
کر لی اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی قیادت میں ایک لشکر گائو زینگ کی سلطنت
سنکیانگ کی طرف روانہ کر دی۔ یہ ۶۵۲
عیسوی کا واقعہ ہے۔
سعد بن ابی وقاص سنکیانگ
آئے۔ انہوں نے گاو زینگ سے ملاقات کی۔ معاملات کو سمجھا۔ پھر ایک جامع حکمت
عملی بنا کر باغیوں پر اس شدت کی یلغار
کی کہ کچھ وقت تو لگا لیکن باغیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ گائو زینگ ظاہر ہے اس مدد کیلئے مسلمانوں کا بے
حد شکر گزار تھا۔ کچھ دن سنکیانگ میں گزارنے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے
واپسی کا ارادہ کیا۔ لیکن مسلم لشکریوں کی ایک
بڑی تعدا کو سنکیانگ کی آب وہو ا راس آچکی تھی۔ انہوں نے یہیں بس رہنے کا
فیصلہ کیا۔ گائو زینگ نے بڑی خوشی سے نہ صرف انہیں بسنے بلکہ وہاں اپنی مسجدوں کی
تعمیر اور دین کی تبلیغ کی بھی اجازت دے دی۔ ان مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور کچھ
عرصہ کے بعد سنکیانگ کے چینیوں کی بھی ایک بڑی تعدا مشرف بہ اسلام ہو چکی تھی۔ ان مسلمانوں کو ایغور کا
نام دیا گیا۔ پھر چین کی جغرافیہ اور تاریخ میں کئی بارتبدیلیاں ہوئیں۔ نہ جانے کتنی بادشاہتیں
آئی اور گئیں، لیکن ایغورمسلمان وہیں رہے ۔ ان کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔ پھر جب ۱۹۴۹ ءمیں چین جاپان کے تسلط سے آزاد ہوا اورمائو زی تنگ
نے اپنی حکومت بنائی، جوکہ لا مذہب یا بے دین حکومت تھی۔ اس حکومت نے چین میں
مذاہب کے ساتھ وہ سلوک تو نہیں کیا جو ۱۹۱۴ء
کے روسی انقلاب کے بعد روس میں ہوا تھا۔ یعنی گرجا گھروں، بودھ عبادت گاہوں اور مسجدوں پر تالے نہیں
لگائے گئے، لیکن ان کو کسی طرح کی سرکاری
پرستی بھی نہیں دی گئی۔ مذہب ماننے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ بہت سے
عیسائی ، بودھ اور مسلمان کمیونسٹ فلسفہ سے بھی متاثر ہوئے اور اپنے اپنے دین سے
دور بھی ہو گئے۔ پھر بھی با عمل پیروکار اپنے مذاہب کی حفاظت کرتے رہے۔ ان میں
مسلمان بھی شامل تھے۔تو پھر کیا یہ محض پروپیگنڈہ ہے کہ ایغور مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور انہیں
ہزاروں کی تعدا میں نظر بندی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے؟ نہیں یہ صرف پروپیگنڈہ
نہیں ہے، اس میں کچھ حد تک صداقت بھی ہے۔
گزشتہ صدی کے آخر اور رواں صدی کے آغاز میں جب القاعدہ اور داعش نے زور پکڑ رکھا
تھا۔ اس وقت دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں مسلمان آباد تھے، ان تحریکوں کا کچھ نہ
کچھ اثر ضرور دیکھا جا رہا تھا۔ نوجوان مسلمان ان سے بالخصوص متاثر ہو رہے تھے۔ ان
تحریکوںکا ان ممالک میں خاص اثر تھا، جن میں مسلمان کسی نہ کسی سطح پر تفریق کا
شکار تھے یا خود کو تفریق کا شکار سمجھ رہے تھے۔ ایغور مسلمانوں کو بھی ایک شکایت
تھی۔ چین کی سرکاری زبان مینڈران ہے۔ ایغور مسلمانوں کی زبان مقامی بولیوں، عربی اور
فارسی کا ملغوبہ ہے۔ انہیں مینڈران پر عبور حاصل نہیں ہوتا۔ا یغور مسلمان سمجھتے
تھے کہ اسی بناء پر ملازمتوں اور دیگر شعبوں میں ان سے تفرق برتی جاتی ہے۔یہ شکایت
کسی حد تک بجا بھی تھی۔
سنکیانگ میں کئی جگہ بم
اور خود کش دھماکے ہوئے۔ ظاہر ہے حکومت کیلئے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ لیکن حکومت
نے اسے کچلنے کیلئے وہ طریقے نہیں اختیار کئے جو دیگر ممالک میں اختیار کئے گئے ۔یقیناًنوجوان گرفتار بھی ہوئے اور جرم
ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت تک دی گئی، لیکن بہت زیادہ پکڑ دھکڑ اور انکاؤنٹر
نہیں کئے گئے۔ اس کے بجائے ہزاروں ایسے
طلباء کو تلاش کیا گیا جنہوں نے نچلی
جماعتوں میں اچھی کامیابی حاصل کی تھی۔ انہیں بیجنگ لایا گیا ۔ کیمپوں میں
رکھا گیا۔ انہیں مینڈرین بھی پڑھائی گئی اور اعلیٰ تعلیم بھی دی گئی اور ہاں ان کا غسل دماغی بھی
کیا گیا یعنی انہیں دین سے بیزار کرنیکی بھی کوشش کی گئی۔ پھر انہیں سنکیانگ اس
ہدایت کے ساتھ بھیجا گیا کہ وہ سنکیانگ کے ڈیولپمنٹ میں حصہ لیں۔یہ سلسلہ آج
بھی جاری ہے۔ لیکن ساتھ ہی سنکیانگ کی
مسجدوں میں پنج وقتہ اذانیں بھی ہو رہی ہیں۔لوگ روزے بھی رکھ رہے ہیں ، دینی تعلیم
بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ایک قصبہ میں تو ایک
ایسی مسجد بھی ہے، جس میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاںعورتیں ہی نماز پڑھتی بھی
ہیں اور پڑھاتی بھی ہیں۔ عورتیں قرآن حفظ کرتی بھی ہیں اور حفظ کرواتی بھی ہیں۔
لیکن یہ بھی جان لیا جانا چاہئے کہ آج ایک ایک چینی شہری غربت کی سطح سے اوپر اٹھ
چکا ہے اور ان میں ایغور بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ چینی حکومت بنیادی طور پر مذہب کے خلاف ہے ، صرف اسلام کے خلاف
نہیں۔ ایغور مسلمان چین میں اتنے ہی آزاد ہیں، جتنے بودھ اور عیسائی ہیں اور ان
کی مذہبی آزادی بھی اتنی محدود ہے جتنی کسی بودھ یا عیسائی کی۔ رہا
،مغربی پروپیگنڈہ تو اسے حب مسلماں سے زیادہ بغض چائنا کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔
25 مئی 2021 ،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism