سلطان شاہین، فاؤنڈنگ ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
26 اگست 2024
سیاست دانوں اور ممکن ہے کچھ نام نہاد "علماء" کی باتوں میں آ کر، کچھ مسلمان اسلاموفوب کے ہاتھوں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبینہ کردار کشی پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد یہ دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ جب بھی کوئی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو گرفتار کر لیا جائے، ان کے گھر مسمار کر دیے جائیں، تو وہ صرف حدیث، فقہ یا تاریخ کی مستند اسلامی کتابوں سے، صرف ایک واقعہ نقل کر دیتا ہے۔ ہندوستان میں اس قسم کا احتجاج طویل عرصے سے جاری ہے، خاص طور پر جب سے امام خمینی نے، سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات پر مسلمانوں کو بھڑکایا تھا۔ یہ شیطانی آیات بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی کی تمام کوششوں کی طرح، حدیث کی ایک مستند کتاب سے ماخوذ ہے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب من گھڑت اقوال کا مجموعہ ہے۔
زیادہ تر ہندوستانیوں کو شیطانی آیات نامی ایک کتاب کے بارے میں یہ خبر ملی تھی کہ ہندوستان میں اس کتاب پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اور پھر اس کے بعد، مسلمان اس وقت بمبئی کی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نکل پڑے، اور خوشی خوشی پولیس فائرنگ میں کئی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اب وہ خوشی خوشی مختلف الزامات کے تحت گرفتار ہو رہے ہیں، جو کئی کئی سالوں تک جیلوں میں رہیں گے، اور انہیں ضمانت تک نہیں ملے گی۔ جب ان کے گھر منہدم کر دیے جائیں گے، اور ان کی نوکریاں چلی جائیں گی، تو وہ جیل سے باہر کریں گے بھی کیا؟!
لیکن برصغیر میں توہین مذہب پر احتجاج کا سلسلہ، علم الدین یا علیم الدین (4 دسمبر 1908 - 31 اکتوبر 1929) سے شروع ہوا۔ وہ ایک ہندوستانی مسلمان اور پیشے سے بڑھئی تھا، جس نے مہاشائی راجپال نامی پبلشر کو "رنگیلا رسول" نامی کتاب شائع کرنے پر قتل کر دیا تھا، کیونکہ مسلمانوں نے اس کتاب کو پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین قرار دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں اسے پھانسی دی گئی۔ علیم الدین کو غازی کا خطاب دیا گیا۔ پاکستان میں، علیم الدین کی زندگی پر ایک مکمل فیچر فلم بھی بنائی گئی، اور دنیا بھر میں ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی۔ (وکی پیڈیا)
میرے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی نفسیات کا سب سے سبق آموز واقعہ درج ذیل ہے: "اس کی لاش کو قبر میں رکھتے ہوئے، پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال، جنہوں نے نظم 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا' لکھا تھا، جذباتی انداز میں یہ کہا، "یہ ان پڑھ نوجوان، ہم پڑھے لکھے لوگوں سے آگے نکل گیا۔" ’’ہم میں سے بہت سے لوگوں میں وہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، جو علم الدین نے سب کے لیے کیا۔‘‘ (گوگل)
اگر علامہ اقبال یہ کہہ سکتے ہیں تو میں اوسط درجے کے مسلمانوں کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
میں نے "رنگیلا رسول" نہیں پڑھا، اور نہ ہی میں نے دیکھا کہ موجودہ اسلامو فوب رامگیری نے کیا کہا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے، کہ کوئی بھی اسلامو فوب وہ نہیں کہہ سکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی توہین میں مستند کتب حدیث میں لکھا ہوا ہے، جنہیں ہم مسلمان عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی باتیں ضرور، ہمارے قابل احترام حدیثوں اور فقہ کی کتابوں سے یا تاریخِ طبری سے ہی ماخوذ ہوں گی۔ ان کتابوں کو پڑھتے ہوئے میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا صحابہ کے پاس ان کی فحش حرکات ریکارڈ کرنے سے بہتر کوئی کام نہیں تھا؟ اور کیسے ماضی کے اتنے سارے محدثین و ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے اور آج تک کرتے چلے آرہے ہیں؟ کیا مسلمانوں کو یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ مکی دور کے حملوں، خونریز لڑائیوں اور رات بھر کی عبادتوں کے باوجود، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس اتنا وقت کہاں سے تھاکہ وہ مسلسل جنسی افعال میں مبتلا رہیں؟ ایک نبی جنہوں نے 25 سال کی عمر میں، ایک بیوہ سے شادی کی، جس کی عمر 40 سال تھی، اور 65 سال کی عمر میں اس کی موت تک، اسی کے وفادار رہے، جن کے تمام بچے صرف انہی سے تھے، حالانکہ، اس نبی نے دوسری بیواؤں اور ایک کنواری سے بھی، مختلف سیاسی وجوہات کی بنا پر شادیاں کیں؛ کیا ایسے نبی اپنے اصحاب کو جو کہ ان کے مقاصد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے ایک جنسی جنون کے شکار کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ اور خود ان اصحاب کے پاس اتنا وقت کیسے تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خود سے متعلق اتنی اتنی کہانیاں بیان کریں کہ اس سے حدیثوں اور تاریخ کی کتابوں کے صفحات کے صفحات بھر جائیں۔
مجھے امید ہے، کہ میرے کچھ مسلمان بھائی اور بہنیں جو پیغمبر اسلام کی کردار کشی کی وجہ سے اسلاموفوب کی کوششوں پر ناراض ہیں، ان اسلامی اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا شروع کر دیں گے، جو امام بخاری، امام مسلم، نسائی، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، طبری، بیہقی، امام ابوحنیفہ، امام مالک، ابن قدامہ وغیرہ کی کتابیں پڑھاتے ہیں۔ اسلامی فقہ کی کتاب فتاویٰ عالمگیری، جو مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے طویل دور حکومت میں لکھی گئی، اور ہمارے فقہاء کو پڑھائی گئی، اس میں بھی ایسے مواد موجود ہیں، جنہیں توہین رسالت قرار دیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو جیل بھیجنے اور ان کے گھروں کو مسمار کرنے کی کوشش میں، اب اسلامو فوب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی کے لیے، مواد تلاش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اسے صرف حدیث کی کوئی کتاب یا تارخ طبری کھولنے کی ضرورت ہے، جو اب پی ڈی ایف فارمیٹ میں، بآسانی آن لائن دستیاب ہیں۔
اگرچہ اکثر علماء نے ان کتابوں کو پڑھا ہے، اور ان کے فحش مواد کو پڑھانے سے وہ لطف اندوز بھی ہوتے ہیں، لیکن شاید بہت سے عام مسلمان ان کتابوں سے واقف نہ ہوں۔ چنانچہ میں ذیل میں مسلم مفکر ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب ’’اسلام کے مجرم‘‘ کے اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر شبیر نے ان میں سے کچھ مثالیں، انتہائی مستند حدیثوں کی کتابوں، اور امام بخاری کی صحیح سے نقل کی ہیں۔
’’صحیح‘‘ بخاری سے غلط
یہاں دیے گئے زیادہ تر حوالہ جات بخاری کے ہیں، جو مدینہ پبلشنگ کمپنی، کراچی، 1982، پرنٹر حامد اینڈ کمپنی نے شائع کیے ہیں۔ مترجم "مولانا" عبدالحکیم خان شاہجہاں پوری ہیں۔
شروع میں یہ جان لیں، کہ اسلام کے ایک عظیم عالم عبید اللہ سندھی نے اعتراف کیا ہے، کہ ’’میں شرم کی وجہ سے کسی نوجوان کو یا غیر مسلم کو بخاری کی حدیث نہیں پڑھا سکتا‘‘ (الہام الرحمن کا دیباچہ)۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا…
محمود بن ربیع بیان کرتے ہیں، کہ "مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب میں پانچ سال کا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ میں پانی لیا اور پھر میرے منھ میں ڈالا" (کتاب العلم جلد 2، حدیث 77)۔ کیا پیغمبر اسلام کسی انسان کو اس درجہ کمتر سمجھ سکتے ہیں؟
کتاب العلم احادیث 91، 92، 93 میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سرخ ہو گئے، آپ کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ . . وغیرہ۔ یہ بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے بالکل متصادم ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔ یہ ان سیکڑوں روایات میں سے صرف ایک ہے، جس کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پر جلال پیش کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت، غیر معمولی ضبط نفس کے حامل، ٹھنڈے مزاج کے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فخر سے کہا، کہ میں ایک رات میں ایک سو عورتوں کو حاملہ کروں گا، لیکن صرف ایک عورت حاملہ ہوئی، اور اس نے ایک ناقص بچے کو جنم دیا (بخاری، کتاب النکاح 3:110)۔ یہ سانحہ اس لیے پیش آیا، کیونکہ سلیمان نے اپنی سو بیویوں کے پاس جانے سے پہلے "انشاء اللہ" نہیں کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات اپنی تمام نو ازواج کے پاس جایا کرتے تھے (بخاری، کتاب النکاح 3:52)۔ دوسری طرف بخاری میں کئی جگہ یہ روایت موجود ہے، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساری ساری رات نماز میں کھڑے رہتے تھے۔ اس قدر کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج مطہرات سے، دن اور رات کے ایک گھنٹے میں (بغیر غسل کیے) جماع کیا کرتے تھے، اور آپ کی ازواج گیارہ تھیں۔ اس مقام پر راوی یہ کہہ کر ایک اعتراض کو پہلے سے دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) 30 مردوں کی (جنسی) طاقت کے حامل تھے (بخاری، کتاب 1:189)۔ ملاؤں نے ہمارے عوام کے ذہن کو اس قدر بری طرح متاثر کیا ہے، کہ انہیں اس طرح کے تضحیک آمیز بیانات بھی، قابل تعریف معلوم ہوتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے ایک کامل رہنما تھے۔ وہ بے لگام جنسی خواہشات سے بھرے آدمی نہیں تھے۔ جو عورتیں آپ کے گھر میں رہتی تھیں، وہ بنیادی طور پر وہاں پناہ گزین تھیں۔ صرف ایک گندے ذہن کا انسان ہی مومنوں کی ماؤں، کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنسی تسکین کا سامان سمجھ سکتا ہے۔ بخاری نے ایک خاص سرخی لگا کر مندرجہ بالا حدیث پر روشنی ڈالی ہے: "صرف ایک غسل سے بہت سی عورتوں سے ہمبستری کرنا۔"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پیروکاروں میں بہترین انسان وہ ہے، جس کی بیویوں کی تعداد زیادہ ہو (بخاری، کتاب النکاح 3:52)۔ قرآن (49:13) ہمیں بتاتا ہے، کہ بہترین انسان وہ ہے جس کا اخلاق بہترین ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس غلام کو مجھ سے کون خریدے گا؟ حضرت نعیم نے اسے 800 درہم میں خریدا (بخاری، کتاب الاکراہ صفحہ 669)۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام بیچے؟!
عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ اپنے اونٹ کو اس درخت سے نہیں چرائیں گے، جس کے پتے ابھی تک نہیں چرائے گئے؟ عروہ بن زبیر نے کہا، کہ اس سے عائشہ کی مراد یہ تھی کہ، وہ واحد کنواری تھیں جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی تھی (بخاری، کتاب نکاح 3:55)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی جابر کے، ایک بیوہ سے شادی کرنے کے منصوبے، کو ناپسند کیا اور پوچھا کہ تم نے کنواری سے شادی کیوں نہیں کی، کہ تم اس کے ساتھ ملاعبت کرتے اور وہ تمہارے ساتھ ملاعبت کرتی؟ (وہ حوالہ)۔ (دراصل) حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کے ساتھ نہایت شفقت فرماتے تھے۔
حضرت علی نے بیان کیا کہ میں مسلسل "جیریان" (پروسٹیٹ رطوبتوں کے اخراج) میں مبتلا تھا (بخاری، کتاب العلم صفحہ 150)۔ اس فرضی حالت کو عالم مشرق میں بڑے پیمانے پر، قوت مردانگی کو مکمل طور پر ختم کرنے والا مانا جاتا ہے۔ کوئی اسلام کے اس عظیم مجاہد کی بے عزتی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے (بخاری 2:134)۔
حضرت ابراہیم نے تین بار جھوٹ بولا (بخاری، کتاب النکاح 3:57)۔ دین کے سردار کی توہین کرنے کے بعد، راوی بے سرو پا کے دلائل سے، اس الزام کو درست ثابت کرتا ہے۔
سقوط خیبر کے بعد، لوگوں نے دشمن کے مقتول سپاہی کی نئی دلہن، صفیہ بنت حی کی خوبصورتی بیان کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لیے چن لیا۔ مدینہ کے راستے میں آپ رکے اور اس سے ہمبستری کی۔ آپ کے صحابہ کو یہ معلوم نہیں ہو سکا، کہ وہ بیوی ہے یا لونڈی۔ بعد میں، ان کے اور مردوں کے درمیان ایک پردہ کھینچ دیا گیا، تب انہیں معلوم ہوا کہ وہ بیوی ہے (بخاری، کتاب البیوع اور کتاب النکاح 3:59)۔ دوسری جگہ اس کہانی کا راوی کہتا ہے، کہ صفیہ شروع میں وحیہ کلبی کو دی گئی تھی، لیکن اس کی خوبصورتی کی وجہ سے، نبیﷺ نے اسے اپنے لیے چن لیا، اور وحیہ کو دوسری عورت سے شادی کرنے کو کہا۔ ایک اہم یاددہانی: قرآن (47:4) حکم دیتا ہے، کہ جنگی قیدیوں کو یا تو تاوان کے بدلے، یا احسان کے طور پر رہا کر دیا جائے۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام، انسانوں کو کیسے غلام بنا سکتے تھے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "بد نصیبی، بدبختی اور عذاب بیوی، گھر اور گھوڑے میں ہو سکتے ہیں" (بخاری، کتاب النکاح 3:60)۔
’’میرے زمانے کے بعد مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتیں ہوں گی‘‘ (بخاری، کتاب النکاح 3:61)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا، "میں تمہیں اس عورت کا مالک بناتا ہوں، کیونکہ تم قرآن کی کچھ سورتیں پڑھ سکتے ہو" (بخاری، کتاب نکاح 3:69)۔
"ایک عورت نے اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غور سے، اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر اپنا سر جھکا لیا" (یعنی اسے رد کر دیا) (بخاری، کتاب نکاح 3:71)۔
کیا آپ نے مندرجہ بالا پانچ احادیث میں، عورتوں کی تحقیر پر غور کیا؟ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل ہو سکتا ہے؟ قرآن گواہی دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین اخلاق کے حامل تھے (68:4) اور تمام بنی نوع انسان کے لیے نمونہ عمل تھے (33:21)۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، تو ان کی عمر 6 سال تھی، اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے لگیں، جب وہ 9 سال کی تھیں (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 54 سال تھی) (بخاری، کتاب النکاح 3:75)۔ دوسری طرف قرآن شادی کو جوانی، اور اسے ایک پختہ عہد قرار دے کر، ذہنی پختگی سے جوڑتا ہے (4:21)۔ بخاری کی اس روایت کے خلاف پختہ تاریخی شواہد موجود ہیں، لیکن ہمارے ملا کو اس قسم کے لغویات کے سوا کچھ بھی پسند نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قرآن کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ ’’ان کا کردار قرآن تھا۔‘‘ (حضرت عائشہؓ)۔
میں نے دیکھا کہ جہنم کے دروازے سے داخل ہونے والوں میں زیادہ تر عورتیں تھیں (بخاری، کتاب النکاح 3:97)۔
فتنہ مشرق میں ہے (بخاری، کتاب الطلاق 3:132)۔ ہمیں اس بات پر شک ہے، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللہ تعالیٰ نے "رحمۃ للعالمین" کہا ہے، اپنی نظر کو مشرق یا مغرب تک محدود کر سکتے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ”آہ! میرا سر پھٹ رہا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، "کاش ایسا ہوتا۔" عائشہ نے جواب دیا: "آپ چاہتے ہیں کہ میں مر جاؤں، تاکہ آپ اگلی رات دوسری بیوی کے ساتھ گزار سکیں" (بخاری، کتاب الطب، جلد 3)۔
کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو (بخاری، کتاب الطب 3:259)۔ اس کے خلاف متعدد منابع میں تضاد ملاحظہ فرمائیں: ’’متعدی بیماری جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔‘‘
ایک آدمی نے دریافت کیا، کہ ہم ان لونڈیوں سے آمدنی کرتے ہیں، (دوسری روایتوں میں جسم فروشی کا ذکر ہے) تو کیا ہم ان کے ساتھ ہمبستری کر سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں‘‘ (کتاب القدر 3:543)۔ 20ویں صدی کے سب سے مشہور ملا مودودی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، کہ ایک آقا کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی لونڈی کی کسی دوسرے سے شادی کر دے، اور اسے تمام ذاتی خدمات (سیکس کے علاوہ) کے لیے استعمال کرے (تفہیم 1:340)۔
مدینہ میں کچھ لوگ بیمار ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اونٹنی کا پیشاب اور دودھ پینے کا مشورہ دیا۔ جب وہ ٹھیک ہو گئے تو انہوں نے ایک چرواہے کو مار ڈالا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں، اور ان کی آنکھیں نکال لی جائیں۔ انہیں جلتی ریت پر رکھا گیا۔ انہوں نے پانی مانگا تو انکار کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے ریت کھانا شروع کر دیا، یہاں تک کہ وہ مر گئے (کتاب المحاربین اور کتاب الطب صفحہ 254)۔ محترم قارئین، کیا رحمت و رافت والے نبی انسانوں کو اذیت دینے کا حکم دے سکتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس حدیث کا راوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحشی کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہو؟ کیا یہ راوی سچا مسلمان ہو سکتا ہے؟
خواب میں کالی عورت کا دیکھنا آنے والی وبا کی علامت ہے (کتاب التعبیر) ۔ ہاے غریب عورت! مزید ملاحظہ فرمائیں …
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ایک صبح دیر سے بیدار ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’بہت سی عورتیں جو اس دنیا میں لباس والی ہیں، آخرت میں بے لباس ہوں گی‘‘ (کتاب الفتن 3:718)۔
بعض مسلمان کفار اور مشرکین کے ساتھ ہو گئے، اور انہیں پیغمبر پر حملہ کرنے کی دعوت دی! (کتاب الفتن 3:723)۔ قرآن نے تمام صحابہ کرام کو پختہ مومنین کے طور پر ذکر کیا ہے (8:74) جن سے اللہ راضی ہے (9:100)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ میں قیامت میں سب سے پہلے پیدا ہوں گا، لیکن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا دامن پکڑے ہوئے پاوں گا (حدیث 1750 ص784)۔ یہ حدیث ظاہر ہے کہ بعض غیر مسلموں نے حضرت موسیٰ کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر فضیلت کو ظاہر کرنے کے لیے گڑھی ہے۔
میں باہر چل رہا تھا کہ اچانک حرا کے فرشتہ کو ایک تخت پر بیٹھا ہوا دیکھا، جس نے زمین و آسمان کو بھر دیا تھا۔ میں اتنا گھبرا گیا کہ میں زمین پر گرنے ہی والا تھا (حدیث 471 صفحہ 224)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے زیادہ بہادر انسان تھے، اور فرشتوں کو انبیاء کے ساتھ چال بازی کا شوق نہیں ہے۔
علی مرتضیٰ اور فاطمہ نے تب ہی نماز پڑھی جب وہ نیند سے بیدار ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرزنش فرمائی، ’’انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے‘‘ (کتاب الاعتصام)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ کو ایک غیر مسلم، کعب بن اشرف کو دھوکے سے قتل کرنے کی اجازت دی تھی (کتاب الجہاد 2:134)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی آسمان کو ابر آلود دیکھتے تو بہت بے چین اور خوفزدہ ہو جاتے تھے (بخاری، بدء الخلق 2:213)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بد شگونی اور توہمات کے خلاف تبلیغ کی، اور بڑے حوصلے مند انسان تھے۔
حوریں (آسمان کی حسینائیں) پوری چھاتی والی اور حیض سے پاک ہوں گی (بخاری، بدء الخلق 2:225)۔
اہم نوٹ: حور عربی میں جمع ہے جس کا مطلب ہے "ذہین اور صالح ساتھی"۔ احور مرد کی جنس ہے اور حورہ مادہ ہے۔ جنت میں ایسے ساتھیوں کے وعدے کا تذکرہ قرآن کریم کی 44:54 اور 52:20 میں ہے۔ صدیوں سے ہمارے مورخین اور اماموں نے، حوروں کو صرف جنتی خواتین کے طور پر پیش کیا ہے۔
جہنم نے اللہ سے شکایت کی کہ میرا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھا رہا ہے۔ چنانچہ جہنم کی آگ کو دو سانس لینے کی اجازت دی گئی ایک گرمی میں اور ایک سردیوں میں۔ اس طرح آپ موسموں کی تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں (بخاری، بدء الخلق 2:231)۔
اذان، (نماز کی اذان)، شیطان کو بھاگنے پر مجبور کرتی ہے، جب وہ بھاگتا ہے تو گیس نکالتا ہے (بخاری، بدء الخلق 2:237)۔
شیطان رات کو تمہاری ناک میں آرام کرتا ہے (بخاری، بدء الخلق 2:241)۔
ایک مرغ فرشتوں کو دیکھتا ہے، اور ایک گدھا شیطان کو دیکھتا ہے (بخاری، بدء الخلق 2:213)۔
چوہا اسرائیل کا کھویا ہوا قبیلہ ہے، کیونکہ وہ اونٹنی کا دودھ نہیں پیتے، بلکہ بکری کا دودھ پیتے ہیں (بخاری، بدء الخلق 2:244)۔ اونٹ بنی اسرائیل کے لیے غذا کے طور پر ممنوع تھا۔
مندرجہ بالا بیانات پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ صرف ایک احمق انسان ہی، ان سب کو ایک ایسے انسان کی باتیں تسلیم کر سکتا ہے، جو کرہ ارض پر سب سے زیادہ عقلمند تھے۔
پانچ جانور گنہگار ہیں، لہٰذا انہیں مکہ میں بھی مار ڈالو: چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا (بخاری، بدء الخلق 2:245)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا (بخاری، بدء الخلق 2:247)۔ دوسری جگہ ہے، کہ تمام کالے کتوں کو مارنے کا حکم دیا گیا تھا۔
عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔ اسے ٹیڑھی چھوڑ دو (بخاری، بدء الخلق 2:251)۔ یہ بائبل کا بیان ہے۔ بعد میں، اس کا صرف ذکر کے اس کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ قرآن نے یہ نہیں بتایا، کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام غسل فرما رہے تھے۔ اس پر سونے کی ٹڈیاں برسنے لگیں (کتاب الانبیاء)۔
میمونہ نے کہا، کہ میں ہمبستری کے بعد غسل کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتی رہی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شرمگاہ دھوتے ہوئے دیکھا (بخاری، کتاب الغسل 1:193)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ حیا اور ایمان آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ صدیوں سے ہمارے ملا یہ کہتے رہے ہیں کہ ’’دین حیا سے خالی ہے‘‘۔ اس مفروضے پر بہت سی خواتین کی بے عزتی ہوئی ہے۔ حضرت عائشہ کے نام سے ایک حدیث گڑھی گئی، جس میں شرم و حیا کی پرواہ کیے بغیر سوال کرنے پر، انصاری عورتوں کی تعریف کی گئی ہے۔ ہمارے ائمہ اور ملاؤں کے نزدیک مذہب کے سوالات کا بڑا حصہ، جنسی عمل، غسل، حیض، لونڈیاں، کثیر شادیاں، طلاق وغیرہ پر مشتمل ہے۔ بے شرمی کی ایک اور مثال دیکھیں:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ "جب عضو تناسل کے سرے مل جائیں، اور مرد عورت کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر دھکا دے، تو غسل واجب ہو جاتا ہے" (بخاری 1:95، باب 201) تفصیلات کے لیے شکریہ!
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تکیہ رکھتے تھے، حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی، پھر آپ قرآن کی تلاوت فرماتے تھے۔ (بخاری، کتاب الغسل)۔ کیا ایک عام مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے؟
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم حیض والی بیوی سے ہمبستری کرنا چاہتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لنگوٹی باندھنے کا حکم دیتے تھے، اگرچہ حیض عروج پر ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جماع کرتے تھے۔ جس نے بھی اس حدیث کو گھڑا ہے وہ اس کے برعکس ہے: عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم میں سے کسی کو اپنی خواہشات جسمانی پر اتنا اختیار نہیں جتنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا۔ (کتاب الحیض 1:98، باب 207)۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز پڑھ رہا تھا، شیطان میرے سامنے آیا اور مجھے نماز توڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی، اللہ نے مجھے اس پر قدرت دیا اور میں نے اسے نیچے پھینک دیا، میں نے اسے ستون سے باندھنے کا سوچا، تاکہ صبح تم اسے دیکھ سکو (بخاری 1:469، باب 766) ایک اور حدیث کے مطابق، جو قرآن کے مطابق ہے، ہر شخص کے اندر شیطان (فتنہ) ہوتا ہے۔
روزہ شہوت کو ختم کرتا (بخاری 1:685)۔ کوئی تبصرہ نہیں
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں، ہم سے ہم بستری کرتے اور ہمیں بوسہ دیتے۔ پھر وہ مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹ گئی (بخاری 2:691)۔
خولہ بنت حکیم نے اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ عائشہ نے کہا، کہ عورت کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی! تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی آنے لگی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکایت کی: یا رسول اللہ! میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوڑتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب النکاح صفحہ 67)۔ یہاں کوئی مجرم مقدس وحی میں شک پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حدیث نمبر 309 کا خلاصہ یہ ہے، کہ ایک فرشتہ ماں کے پیٹ میں ہی اس کی تقدیر لکھتا ہے، وہ مرد ہے یا عورت، اچھا ہے یا برا۔ دولت، عمر، موت وغیرہ بھی پہلے سے طے شدہ ہیں۔ محترم قارئین، تعجب کی بات نہیں کہ عقلمند انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ پھر اللہ کا ہدایت ظاہر کرنا کیوں ضروری تھا!
اب کتاب الصلوٰۃ شروع ہوتی ہے (بخاری میں):
حدیث نمبر 339 میں ہے، کہ مکہ مکرمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی چھت پھٹ گئی، اور فرشتہ جبرائیل نازل ہوا۔ پھر میرا سینہ چاک ہو گیا اور زم زم کے پانی سے دھویا گیا۔ پھر میرے سینے میں ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا سونے کا تھال ڈالا گیا، پھر بند کر دیا گیا۔ پھر فرشتہ میرا ہاتھ پکڑ کر سیدھے آسمان پر لے گیا۔ براہ کرم یہاں نوٹ کریں، کہ یہ معراج، یا "عروج" کا بیان ہے، اور یروشلم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور "البراق" کے بارے میں کیا خیال ہے! اور اگر ایمان اور حکمت کو جراحی کے ذریعے حضور کے سینے میں انڈیل دیا جائے، تو کیا آپ کا انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہونا باقی بچتا ہے؟ دوسری حدیث میں ہے کہ اس واقعہ کے دوران، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ام ہانی کے گھر سو رہے تھے، یہ ایک بہتان ہے۔
اسی کتاب میں، حدیث نمبر 339 میں، آپ کو موسیٰ کی کہانی ملتی ہے، کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار نصیحت کرتے رہے ہیں، کہ وہ روزانہ کی نمازوں کی تعداد (50 سے 5 تک) کرنے کے لیے خدا کے پاس جائیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ یہودی ذہن، محمد پر موسیٰ کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ علیم و نظیر اور خبیر و بصیر ہے۔ وہ آسمانوں تک محدود نہیں ہے۔ پس کسی کا اس سے ملاقات کے لیے جانا، ایک غیر قرآنی تصور ہے۔ سورہ اسرا 17:60 واضح کرتی ہے کہ یہ نبی کا خواب تھا جو لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا۔
لوگوں نے عائشہ (ام المؤمنين) سے کہا کہ اگر کتا، گدھا یا عورت سامنے آجائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، کہ تم نے ہمیں کتے میں شمار کیا (484)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی صفیہ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے گنجے سر والی ہلاک ہونے والی۔ (بخاری، کتاب الطلاق ص 143)۔
محترم قارئین، اس کتاب کے کئی حوالے پریشان کن ہیں۔ ہم نے انہیں بھاری دل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ یہ کام اس لیے کیا گیا ہے، کہ ہماری نوجوان نسل ان گستاخیوں کو اسلام کا حصہ نہ سمجھے۔ یہ ضروری ہے کہ ان بے ضابطگیوں کو توہین سمجھا جائے۔
عمرو بن میمون نے بیان کیا، کہ میں نے ایک بندر کو دیکھا جو دوسرے بندروں کے غول سے گھرا ہوا تھا۔ اس نے ایک مادہ بندر کے ساتھ زنا کیا تھا۔ چنانچہ تمام بندروں نے اسے سنگسار کر دیا۔ میں نے بھی پتھر پھینکے۔‘‘ یہی حدیث کچھ یوں بھی بیان کی گئی ہے، کہ "مادہ بندر ایک ادھیڑ عمر کے نر کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی، کہ ایک نوجوان نر آیا اور اپنی آنکھ سے اشارہ کیا۔ مادہ نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ درمیانی عمر کے بندر کے سر کے نیچے سے ہٹایا، اور خاموش سے اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔ پھر اس نے نوجوان بندر کے ساتھ زنا کیا۔ بوڑھے بندر کو اس کی بھنک لگ گئی، اور اس نے چیخ ماری اور آس پاس کے تمام بندروں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ انہوں نے دونوں (زناکاروں) کو سنگسار کر دیا۔ (بخاری 2:261)۔ محترم قارئین، کیا اس توہین پر کسی تبصرے کی ضرورت ہے، سوائے اس کے کہ ہمارے ملا اسے سنگساری کی حمایت میں نقل کرتے ہیں، جس کا قرآن میں کوئی حکم نہیں ہے۔
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے جانور کو دیکھا ہے، جو بگڑے ہوئے اعضاء کے ساتھ پیدا ہوا ہو؟ (بخاری 1:525) جانور جسمانی عیب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اس روایت میں، کوئی شخص اپنی جہالت کو، اب تک کے سب سے زیادہ علم والے کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ جب وہ آیت 2:223 پر پہنچے، تو انہوں نے نافع سے پوچھا کہ کیا تم اس آیت کے اطلاق کو جانتے ہو؟ پھر انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: "تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، لہٰذا اپنی کھیتی میں جاؤ، جیسے تم چاہو۔ اگر تم چاہو تو اس کے پاس جاؤ... (بخاری 2:729)۔ یہ حیران کن ہے کہ اصل عربی متن میں بھی کچھ نہیں ہے!
جب عورت اپنے شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کرتی ہے، تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں، جب تک کہ وہ واپس نہ آجائے (بخاری، کتاب النکاح صفحہ 96)۔
احادیث نمبر 228 اور 229 اور اسی طرح کی لاتعداد احادیث پڑھیں، ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مستمر حالت کو ثابت کرتی ہیں۔ جنب سے مراد ہمبستری کے بعد ناپاکی کی حالت ہے۔ قارئین کو صرف بخاری جلد اول کی کتاب الغسل کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، اس روئے زمین کے مصروف ترین انسان تھے، جنہوں نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا۔ آپ کے پاس ان لغویات کے لیے وقت کیسے ہو سکتا ہے؟!
حدیث نمبر 185 میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا۔ اس میں ہاتھ اور چہرہ دھویا۔ پھر اس میں اپنا منہ دھویا اور اس کے بعد ابو موسیٰ اور بلال کو حکم دیا، کہ وہ استعمال شدہ پانی پی لیں۔ محترم قارئین، اگر آپ اپنے بچوں اور غیر مسلموں کو اس اسلام کی طرف بلا سکتے ہیں، تو اللہ آپ کو طاقت دے!
کتاب الغسل نمبر 246: ابو سلمہ اور عائشہ کے بھائی ہمبستری کے بعد غسل کے بارے میں جاننے کے لیے عائشہ کے پاس گئے۔ آپ نے پانی کا ایک برتن لیا اور غسل کیا۔ ان کے اور آپ کے درمیان ایک پردہ تھا۔ کیا ایک عام عورت بھی اس قدر نیچے گرے گی؟ اگر انکے درمیان پردہ تھا، تو یہ تعلیم کیسے ہو سکتی ہے، یہ اسی وقت ممکن ہے جب تک کہ پردے کے آر پار نظر نہ آئے؟ کیا زبانی ہدایت کافی نہیں تھی؟ ایسی "روایات" کی صداقت کو صرف ایک ناپاک ذہن ہی قبول کرے گا۔
حدیث نمبر 261 میں سیدہ میمونہ کے بارے میں کہا گیا ہے، کہ وہ نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے لباس دیکھتی ہیں، بلکہ وہ بیان بھی کرتی ہیں۔ حدیث نمبر 273 میں ہے کہ ام ہانی نے، جو کہ اہل بیت میں سے بھی نہیں تھی، نبیﷺ کو غسل کرتے دیکھا۔
276 میں راوی کے مطابق، ابوہریرہ اچانک منظر سے غائب ہو گئے۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وجہ پوچھی، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں جنبی تھا۔ اب تک آپ جان چکے ہوں گے کہ جنبی کیا ہے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے ایک گروہ سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا، ”خواتین، صدقات و خیرات کرو، کیونکہ میں نے تمہیں بہت زیادہ جہنم میں جلتے دیکھا ہے۔ عورتوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا:
"تم عورتیں بہت لعنت بھیجتی ہو!"
’’تم اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔‘‘
’’عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم عقلمند آدمی پر غالب آنے پر قادر ہو۔ تم ایک ایسی مخلوق ہو جس کی مثال نہیں ملتی۔
کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی نہیں؟ یہ ہے تمہاری عقل کی کمی کا پیمانہ!
"اور یاد رکھو، جب عورت کو حیض آتا ہے تو اسے نماز یا روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ دین میں تمہاری کمی کا پیمانہ ہے۔
محترم قارئین، قرآن صنفی مساوات پر زور دیتا ہے۔ خالق نے مردوں اور عورتوں کے جسم اور جسمانیات کو تخلیق کیا ہے۔ تو عقل اور دین میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس نوعیت کی ’’روایات‘‘ عورتوں کو غلام بنانے کے لیے گھڑ لی گئی تھیں۔
حدیث نمبر 305 بھی جمالیات اور عقل کی شدید توہین ہے۔ حیض کے بعد طہارت حاصل کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے، عورت کو مشورہ دیا گیا ہے، کہ عورت مشک کی خوشبو میں ڈوبی روئی لے، پھر خون آلود جگہ کو چھوئے (اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ طریقہ ایک عورت کو دکھایا ہے)!
کتاب العلم کی حدیث نمبر 120، اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ خطرناک ظلم کا ارتکاب کرتی ہے: ابوہریرہ بیان کرتے ہیں، "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کے علم سیکھے۔ ایک جو میں نے تم سب کو بیان کر دیے، لیکن اگر میں نے دوسرا علم ظاہر کیا، تو لوگ میرا گلا کاٹ دیں گے۔ پیارے قارئین، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کبھی ایسی بکواس نہیں کر سکتے تھے۔ اس حدیث کو عبداللہ ابن سبا نے گڑھا تھا، تاکہ متن کے "پوشیدہ معنی" کے ذریعے قرآن کی مخالفت کا دروازہ کھولا جا سکے۔ کیا قرآن اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پوری طرح پہنچا دیا ہے؟ کیا صرف ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے؟
یہ باب بخاری کی صرف ایک جھلک تھی۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں، کہ آج بھی خدا کی زمین پر ایسے لوگ موجود ہیں، جن کے مطابق بخاری اور مسلم احادیث کی ایک روایت کا انکار کرنے سے، مسلمان فوراً کافر ہو جاتا ہے؟
-------
حوالہ: اسلام کے مجرم، ڈاکٹر شبیر احمد
https://www.newageislam.com/books-documents/the-criminals-islam-dr-shabbir/d/946
-------------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism