ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
2 فروری 2024
اس حقیقت سے انکار ممکن
نہیں کہ ہر ملک کی قومی شناخت اس کے نام سےہوتی ہے۔ کثرت میں وحدت کی بنیاد پر
ثقافت رکھنے والا ملک کل کا ہندوستان اور آج کا بھارت اب ایک ایسے دور کی طرف بڑھ
چلا ہے جہاں وحدت اہم ہوگی نہ کہ تکثیریت!جمہوریت میں سیاست، سیاسی نظام اورطرز
حکمرانی قومی مزاج اور ثقافت کو فیصلہ کن حد تک متاثر کرتے ہیں ۔ جس کا پس منظر
فاتح جماعت کا قومی ایجنڈا، نظریہ اور اس کی
قومی و ثقافتی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ اکثریت کی انتخابی حمایت، مقبولیت جماعت
خاص کو حکومت سازی و حکمرانی کا حقدار بناتی ہے اور اس طرح ملک کی باگ ڈور اس کے
ہاتھ میں آجاتی ہے ،نتیجتاً ملک اور تمام قومی ادارے اسی کے رنگ میں نہ صرف فطری
طور پر رنگتے چلے جاتے ہیں بلکہ پورے ملک کے مزاج اور ماحول پر اسی کی چھاپ قائم
ہو جاتی ہے۔ جس مزاج کی جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے اس کا المیہ اور طرہ ٔامتیاز
کچھ اس طرح کا ہے کہ اکثریتی جماعت قومی اعداد و شمار کے مطابق عملاً اقلیت ہوتی
ہے مگر تکنیکی اعتبار سے آئین اس کو اکثریتی رائے تسلیم کرتاہے اور حق اقتدار
سونپتا ہے۔
۲۰۱۴
میں نریندر مودی ملک کے پہلے ایسے وزیر اعظم بنے جن کی قیادت میں بی جے پی واضح
اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ یہ اس سیاسی کروٹ کا منطقی انجام تھا جس کی بنیاد
۱۹۹۶ میں سابق وزیر اعظم اٹل
بہاری واجپئی نےڈالی تھی۔ ۱۹۹۸
اور پھر ۱۹۹۹
میں ان کو مخلوط حکومت کی قیادت کا موقع ملا۔ البتہ ۲۰۱۴ تک پانی بہت بہہ چکا
تھا۔ اب دس برس سے قیادت نریندرمودی کے پاس ہے۔ ۲۰۱۹ کےلوک سبھا انتخاب میں
ان کی حمایت و مقبولیت نے تو بی جے پی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے اور وہ اور
انکی جماعت ملک کی مقبول ترین جماعت بن گئی ۔
نئے بھارت میں وزیر اعظم
مودی کی شخصیت کو سمجھے بغیران کے حوالے سے وضع ہر حکمت عملی فیل اور نا مراد
رہےگی۔ ایک متوسط طبقے اور پچھڑی ذات سےتعلق رکھنے والا شخص جس نے آر ایس ایس کے
کارکن سے لیکر’سنگھ پرچارک‘ کی حیثیت تک
زندگی کا بڑا حصہ گزارا ملک کا شاید ہی کوئی ایسا ضلع ہو جہاں انہوں نے قیام نہ
کیا ہواور وہ اس سے پوری طرح واقف نہ ہوں۔ شمال مشرقی حساس ریاستیں اور جموں کشمیر
لداخ میں طویل قیام، سنگھ کی دی ہوئی ذمہ داریاں انہیں ایک ایسے سیاستدان کی شکل
میں بھارت کی سیاسی زمین پر کھڑا کرتی ہیں جس کا فی الوقت دوردور تک کوئی ثانی
نہیں! بنا حقائق سےرو بروکئے آپکو وہاں لے جانا ممکن ہی نہیں جہاں یہ عنوان تقاضہ
کر رہا ہے۔
ہندو مہاسبھا، آر ایس
ایس، جن سنگھ اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کا قیام،اس کے بعد وشو ہندو پریشد اور
سنگھ پریوار سے جڑی ان گنت تنظیمیں ‘ادارےان کی
فعال کارکردگی، عوامی مقبولیت‘ اس تفصیل اور پس منظر میں ساورکر کا نظریہ
ہندوتواور آر ایس ایس کا ثقافتی نیشنلزم جس کے تحت ہر بھارتی ہندو ہے!سب کے اجداد
ایک ہیں! سب کا ڈی این اے ایک ہے! مسلم دور اقتدار حملہ آوروں کا دوراقتدار
ہے! جس میں مندروں کو توڑ کر کئی مسجدیں
بنائی گئی ہیں! جن میں خاص تین مگر ذکرمیں
ہزاروں ہیں۔ بابری مسجد قضیہ عدالت سے ہوکر رام مندر کا وجود پا چکا، کاشی میں شیو
مندر اور متھرا کی کرشن جنم بھومی جیسے معاملے اب پورے شد و مد کےساتھ عوامی جذبات
و احساسات کو گرمائےہوئے ہیں۔۱۹۹۱
کا عبادتگاہوں کےتحفظ کا قانون مکمل بے اثر ہو چکا ہے۔ ان تمام نکات کو جب تک آپ
سامنے نہیں رکھیں گے کسی حکمت عملی تک یقینا ًپہنچ ہی نہیں پائیں گے ۔
آئیے اب تھوڑا سا رخ
اپوزیشن اتحاد و جماعتوں کی روش و رجحان کی طرف کریں۔ صورتحال پوری طرح غیر ہے!
اگلے چند ہفتوں اور مہینوں میں جو نا قابل یقین و ادراک تبدیلیاں دیکھنے کو ملنے
والی ہیں‘ میرے لئے تو وہ نہ کوئی خبر ہیں اور نہ ہی کچھ بھی خلاف توقع! میں نے ۱۹۹۸ میں لکھا تھا کہ مسلمانان ہند سیکولرزم کے
جھانسے سے باہر آئیں ۔جب تک اس راستے اقتدار مل رہا ہے اکثریت میں سیکولرزم کا
فرضی بول بالا رہے گا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ” جمہوریت میں گاندھی اور نہرو کو اگر
میں وقت کا ولی اور کانگریس کو ولیوں کی جماعت بھی تسلیم کرلوں تو مجھے اس کی
ضمانت کون دے گا کہ کل کو اس کے متوازی مخالف نظریات کو عوام میں پذیرائی نہ ملےگی
اور یہ طبقہ اقتدار میں نہ آ ئیگا۔‘‘
آج پچیس برس بعد بالکل
ویساہی ہو گیا! آج میں پھر کچھ لکھ رہا ہوں ۔شاید اب سے۲۵ سال بعد میں ہوں یا نہ
ہوں! اللہ بہتر جانتا ہے ۔ہندوستان سے بھارت کاسفر ہندو راشٹر کے با ضابطہ اعلان
کی طرف بنیادی پیش قدمی ہے۔ سیاسی نظام اور آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی،
وندے ماترم کا قومی ترانہ بن جانا اور قومی پرچم کارنگ بھگوا ہوجانا یہ سب میری
توقعات اور توجیہات سے باہر نہیں! اس حوالے سے تمام زمینی تجربے کامیاب اور مقبول
عام ہیں! ساری اپوزیشن کی قیادت شکست خوردہ ہے ۔انکے عہدیداران لائن لگا کر پالا
بدلنے کے لئے صحیح وقت کا انتظار کر رہے ہیں جن کو سب سے بڑا سیکولر مانا جاتا ہے۔
وہ سب این ڈی اے کا حصہ رہ چکے ہیں کل پھر ہو جائیں تو کیسا تعجب؟
مسلم اقلیت کی بات الگ سے
کرنے کے پیچھے منطق و مصلحت یہ ہے کہ ہم بھی خود کو الگ رکھ کر چلتے ہیں اور
اکثریت بھی ہم کوایک الگ اکائی کے طور پر دیکھتی ہے۔ تمام رویے اور رجحانات کے
اشاریے بھی ایسے ہی ہیں۔ سابقہ انتخابات نے مسلم ووٹ بنک کی قلعی کھول دی ہے اور
اس غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ایک بھی مسلم نمائندگی کا بر سر اقتدار جماعت میں لوک
سبھا اور راجیہ سبھا میں نہ ہونا، قومی اقلیتی اداروں میں بھی مسلم قیادت کا ندارد
ہونا، کابینہ میں صفر حیثیت، قومی و بین الاقومی سطح پر تعلقات بالخصوص مسلم دنیا
کے ساتھ اس پہلو سے سب کی نظر پوشی، پوری طرح سرکاری سطح پر اتنی بڑی قومی وحدت کا
حاشیے پر چلے جانا اور من حیث الوحدت اپنے معاملات و مطالبات میں کچھ بھی منوانے
یا دبائو ڈالنے کی لیاقت کھو دینا اہل فکر و نظر کو یہ دعوت فکر دے رہے ہیں کہ
بیساکھیاں بھی اب ہٹ بچ رہی ہیں، خالص مسلم سیاست مزید سکڑن اور عدم نمائندگی کا
سبب بن رہی ہے، جن پر تکیہ رہتا تھا وہیپتے ہوا دے رہے ہیں، کوئی قومی سطح پر تھنک
ٹینک موجود نہیں جس کی عوام میں قبولیت و مقبولیت ہو۔ قیادت کا شائبہ بھی نہیں‘ چند افراد ہیں جو
قیادت کا دعوی کرتے ہیں۔
عوام میں بے چینی اور بے
یقینی کی کیفیت ہے! بے راہ روی کا عالم ہے، جتانے اور ہرانے کا کھیل اب تمام ہو
چکا، عزت نفس اور وقار کو کس حکمت و مصلحت سے بچایا جاسکتا ہے اس پر غور و فکر وقت
کی ضرورت ہے۔حکمراں طبقے کے ساتھ رشتوں کو انتہائی مخالفت و مخاصمت تک لے جایا جا
چکا ہے جو آپکے لئے بے نتیجہ اور فریق متعلق کے لئے بے انتہا سود مند ثابت ہوا ہے
اور متواتر ہو رہا ہے۔ قومی سطح پر ماحول میں جو تنگدستی و تنگ دامنی دیکھنے کو مل
رہی ہے اس گرہ کو کھولنے میں تاخیر مزید پیچیدگیاں بڑھاسکتی ہے۔
میں متواتر ایک ہی طرف
آپ سب کا ذہن لیجانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ روایتی طرز عمل میں وہ کشادگی پیدا
کئے بغیر جو اکثریتی نفسیات میں آپ کے لئے فیصلہ کن گنجائش پیدا کر سکے کسی خوش
نما تبدیلی کا امکان نہیں! آپ کہینگے دوسروں سے بھی تو کچھ کہئے ‘ میں کہوں گا کہ
بے سود ہے! اقتدار اور طاقت کے نشے میں میز کے اس پارجو کھڑا ہوتا ہے اسکی حیثیت
فریادی اورسوالی کی ہوتی ہے‘ سامنے والا جب تک اس میں اپنا فیض نہیں دیکھتا باتیں
اچھی کر تا ہے‘ لیکن زمین پر کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی۔
فی الوقت دو مسئلے سب سے
بڑے ہیں۔ پہلا فکری سطح پر کشادگی اور دوسرے اکثریت کے ساتھ تعلقات میں آئی
کشیدگی و کدورت کو دور کرنے کے لئے پہل کرنا۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ
آزادانہ سوچ اور پہل کے لئے نچلی سے اوپری سطح تک مسلم نفسیات تیار نہ ہو۔ اقتدار
میں حصے داری سے انکار نہیں مگر وہ کوئی خاطر خواہ نتیجہ دے پائی ہو ایسی تو کوئی
تاریخ نہیں! تعلیم، تربیت، تجارت، خود کفالت اور اکثریت کے ساتھ اعتماد اور بھروسے
کے تعلقات پیدا کرکے آنے والی نسلوں کی بنیادوں کو مستحکم کریں ۔سیاست میں شور
زیادہ ہے ‘نتائج برائے نام! کسی سے بیجا دوستی کسی دیگر سے بیجا دشمنی کا نتیجہ نہ
ہو یہ لحاظ ضرور رہے۔!
2 فروری 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism