New Age Islam
Thu Apr 17 2025, 08:52 PM

Urdu Section ( 31 Oct 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Change in the position of Arab countries on Iran ایران پر عرب ممالک کے موقف میں تبدیلی

اسد مرزا

29 اکتوبر،2024

اس ماہ کے اوائل میں فلسطین میں جاری جنگ کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہوگیا۔اس تنازعے کے ایک جانب زیادہ ترعالمی ممالک جو صرف لفاظی کرتے ہیں وہ اسرائیل کو فلسطین میں اپنے حملے بند کرنے کے لیے مشورہ دیتے نظر آرہیہیں، حالانکہ وہ خودہی خفیہ طور پر اسرائیل کی ہتھیار وں، گولہ بارود او رمالی مدد بھی کررہے ہیں۔ دوسری جانب تنازعے میں ایران کے کسی ممکنہ داخلے نے علاقائی عرب ریاستوں کو مزید ایک بڑی تشو یش میں ڈال دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر عرب ریاستیں تنازعہ کو حل کرنے کیلئے دوریاستی فارمولے کی وکالت کرتی ہیں، لیکن موجودہ جاری تنازعہ کو روکنے کے لئے حقیقی سیاستی مفادات نے انہیں ایران کے ساتھ زیادہ روادارانہ رویہ اپنانے پر مجبور کردیاہے، جو کبھی ان کا مخالف سمجھا جاتاتھا۔دفاعی اورنظریاتی دونوں لحاظ سے۔

ماہرین کا کہناہے کہ عالمی معیشت کو سنگین منفی نتائج سے روکنے کی کوششیں بہت ضروری ہیں۔ ایرانی میزائل حملے کے بعد یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ اسرائیل ایران میں تیل یا جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور تہران یا تو اسرائیل پر براہ راست حملہ کرنے یا آبنائے ہر مزکو بندکرنے کا انتخاب کرسکتاہے۔ جو دنیا کا سب سے اہم تیل کی نقل و حمل کا مقام ہے، عالمی تیل کا پانچواں حصہ آبنائے ہر مز سے گزرتا ہے، اس طرح تیل کی قیمتیں عالمی سطح پر مزید بڑھنے کے امکانات بھی بڑھ رہے تھے۔

موجودہ حالات میں سب کے ذہن میں سب سے واضح سوال یہ ہے کہ عرب ریاستیں ایران کے براہ راست جنگ میں شامل ہونے کی صورت میں اس کی حمایت کریں گی یا نہیں۔ اب تک ایران نے خطے میں حماس اور حزب اللہ جیسے گروپوں یا غیر ریاستی عناصر کے ذریعے کام کیا ہے۔ لیکن ایران کے براہ راست ملوث ہونے کی صورت میں مستقبل کے اتحاد مذہبی نظریات اور مختلف عرب ریاستوں کے جغرافیائی محل و قوع کی بنیاد پر بھی منحصر رہے گا۔

زیادہ امکانات یہ ہیں کہ اگرایران۔اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو سعودی عرب، اردن اورمتحدہ عرب امارات جیسے عرب ممالک اپنے علاقائی مفادات کے خلاف کسی بھی قیمت پر ایران کی حمایت نہیں کریں گے۔

اس کے ساتھ ہی روایتی مذہبی نظریاتی اختلافات اورمتضاد عزائم کی بنیاد پر زیادہ تر عرب حکومتیں ایران کو ایک مخاطب کے طور پر دیکھتی ہیں۔1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے، سعودی عرب نے ایران کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔ جب کہ ریاض او رتہران نے حال ہی میں تعلقات کو بہتر کرنے کا مرحلہ وار کام شروع کیاہے۔

10 مارچ 2023 کو ایران اور سعودی عرب کے نمائندوں نے جو چینی دارالحکومت بیجنگ میں پانچ دن تک خفیہ طور پر ملاقات کررہے تھے، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے چین کے زیر اہتمام ایک معاہدے کا اعلان کیا۔

ریاض نے سات سال قبل تہران سے باضابطہ تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ تعلقات کوبہتر کرنے کے لیے دونوں ممالک کی کوششیں عوامی علم میں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی عراق اور عمان نے ایرانی اور سعودی حکام کے درمیان مذاکرات کے پچھلے دور کی میزبانی بھی کی تھی، لیکن معاہدے کو حتمی بنانے میں چین کا کردار ضرور غیر متوقع رہا۔ تینوں ممالک کی طرف سے جاری ہونے والا مشترکہ سہ فریقی بیان ایک جغرافیائی سیاسی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتاہے جس میں چین کو ایک ایسے خطے میں ایک بڑا کردارادا کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے جہاں امریکہ طویل عرصے سے غالب رہاہے اور یہ بھی ایک اہم تبدیلی ہے۔

ریاض اور تہران کے مسابقتی علاقائی ایجنڈوں نے یمن اور شام میں تباہ کن جنگیں شروع کردی ہیں او رلبنان اور عراق میں عدم استحکام کو ہوا دی ہے۔کئی خلیجی عرب ریاستیں طویل عرصے سے ایران نواز گروپوں کی طرف سے براہ ریاست دھمکیوں او رحملوں کے ساتھ ساتھ اختلافی تحریکوں کے لیے مبینہ ایرانی حمایت کے بارے میں فکر مند بھی ہیں۔ اپنی جانب سے تہران سعودی عرب پر کردستان، بلوستان اور دیگر شورش زدہ صوبوں میں مخالف ایرانی میڈیاکے ساتھ نسلی مخالف گروہوں کی پشت پناہی کاالزام لگاتا چلا آیا ہے۔

یہاں جو چیز ان ریاستوں کو ایران کے بارے میں اپنا رویہ بدلنے کی ترغیب دے سکتی ہے وہ رائے عامہ ہے، جو زیادہ تر عرب ریاستوں میں فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اگر عرب حکومتیں فلسطینیوں کے خلاف ا سکی جنگ میں واضح طور پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں، تو اس سے عوام کی نظروں میں ان کے رہنماؤں کی قانونی حیثیت کم ہوسکتی ہے، حالانکہ زیادہ تر عرب حکمرانو ں کو اس راے عامہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ کیونکہ اس میں سے زیادہ تر ممالک جمہوری نہیں بلکہ بادشاہی نظام کے تحت آتے ہیں جہاں عوام کی رائے کوئی معنی رکھتی ہے۔

دوسرے ایک وسیع جنگ کی صورت میں جس میں ایران براہ راست ملوث ہو، اسرائیل کی حمایت کرنے والی حکومتو ں کو جارح کے طور پر دیکھا جاسکتاہے۔اگرچہ امریکہ نے ایران کے پڑوسیوں کے سلامتی کے مفادات کی حمایت کی ہے، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ایساہی کرتا رہے گا۔

اس کے ساتھ ہی ان ممالک کی ایران سے جغرافیائی قربت بھی ایک اہم وجہ ہے۔زیادہ تر عرب ممالک نہیں چاہیں گے کہ کوئی قریبی پڑوسی خطے میں جارحانہ رویہ اختیار کرے یا اس کی بالادستی وہاں قائم ہوجائے۔ ساتھ ہی ایک بڑی علاقائی جنگ ان ممالک کے لیے معاشی طور پر ایک بوجھ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

مکمل طور پر ایران کا ساتھ نہ دینے سے کچھ عرب ممالک ابھی تک اسرائیل او ر مغرب کی نظروں میں دوسروں سے بہتر کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں اورانہیں مغرب کی حمایت بھی جاری ہے۔ اسی طرح اسرائیل کا مکمل ساتھ نہ دے کر، ان میں سے بعض نے ایران کی طرف سے بھی زیادہ پریشانی کو دعوت نہیں دینے کی کوشش کی ہے۔ بحران میں گھر ے خطے میں اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اس طرح کا انداز انتہائی سفارتی اور حکمت عملی سے بھر پور ہے۔

تاہم، مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا تنازعہ خطے کو ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرے کے دہانے پردھکیل سکتاہے۔ درحقیقت، مشرق وسطیٰ میں تحمل امریکی اسٹریٹجک مفادات کے مطابق ہوگا۔ تاہم، اسرائیل نواز لابی کا زور واشنگٹن کی فیصلہ سازی کو کمزور کرتا نظر آرہا ہے۔

جس طریقے سے حال ہی میں امریکی افواج کو اسرائیل میں بھیجا گیا ہے، جدید ترین گولہ بارود جیسے ٹرمینل ہائی ایلٹیٹو ڈایر یا ڈیفنس سسٹم (THAAD) وہ ایران کو اپنی جارحانہ صلاحیتوں کو مضبوط بنا کر اپنی ڈیٹرنس کو مضبوط کرنے پرمجبور کرسکتاہے۔ایران نے خبردا ر کیا ہے کہ اگر اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اپنے جوہری اصول کو تبدیل کرسکتاہے یعنی کہ پھر ہمیں ایک جوہری جنگ کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اب تک ایران کی وسیع سیکورٹی پالیسی اپنے اور دیگر عرب ممالک کے مشترکہ مفادات کے ساتھ خطے میں غیر ریاستی عناصر کے ساتھ قریبی روابط کو فروغ دینا شامل رہا ہے۔2003 میں ایران نے امریکہ سے یہاں تک کہا تھا کہ اگر ایران حماس سے علیحدگی کرلے اور حز ب اللہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کے لئے تیار ہوجائے تو امریکہ کو ایران پر عائد معاشی پابندیاں ہٹانا ہوگا، لیکن تہران کے مطالبات پر امریکہ کی جانب سے کبھی بھی مناسب توجہ نہیں دی گئی۔

ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور حماس کی قیادت کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں نے ایران کو مزید برہم کردیا ہے۔ اسرائیل کے اس طرح کے یکطرفہ اقدامات ایران کو اپنے اسٹریٹجک نظریے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔تاہم، اگر ایران اپنے دفاعی انداز میں تبدیلی کرتاہے تو یہ دونوں فریقوں کے درمیان حالیہ میل جول کے باوجود سعودی عرب کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔

مزیدیہ کہ فلسطینی کا زکومشرق وسطیٰ کے ممالک کے قومی اور تزویراتی مفادات سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان موثر تعاون اس سے زیادہ ضروری کبھی نہیں تھا اور یہ وقت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سمت میں کچھ نمایاں تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب امریکی حکومت خو د کو اسرائیل نواز لابی کے اثر و رسوخ سے نکالے اور عالمی امن کے تحفظ اور انسانی حقوق کے دفاع کے لیے خود کو وقف کردے۔ یہ نہ صرف صحیح کام ہوگا بلکہ یہ تاریخی ذمہ داری بھی ہے جسے امریکہ کوقبول کرنا ہوگا۔

29 اکتوبر،2024، بشکریہ: روز نامہ صحافت،نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/change-position-arab-countries-iran/d/133587

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..