عامر حسین شاہ، نیو ایج اسلام
21 مارچ، 2013
(انگریزی سے ترجمہ : نیو ایج اسلام)
ایسا کیوں ہے کہ آج مسلم معاشرے اس طرح کی کمزور اور تکلیف دہ پوزیشن میں ہیں، انہیں فرقہ واریت کے ذریعہ تقسیم کیا جا رہا ہے، جنگوں کے ذریعہ تباہ کیا جا رہا ہے، اور صنعتی ملک کے ذریعہ مضبوطی کے ساتھ کنٹرول کیا جا رہا ہے، جو ان پر ان کے اپنے خیالات اور مر ضی مسلط کر تے ہیں ، مسلمانوں کے وسائل کا استحصال کر رہے ہیں ، اور مسلم ممالک کی کی کمزوری اور تقسیم سے ، اپنی طاقت حاصل کرتے ہیں ؟ ایک لفظ میں اس کا جواب، مناسب تعلیم کی کمی ہے۔ آج مسلم نوجوان ہر طرف سے شکوک و شبہات اور غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے مختلف رجحانات اور ملا مت کے درمیان بکھرے پڑے ہیں ۔ وہ یہ سنتے ہیں کہ مغربی تہذیب دیوالیہ ہو چکی ہے، لیکن اسی وقت وہ اقتصادی اور سیاسی قیادت میں اس کی طاقت دیکھتے ہیں ۔ ہمارے نوجوانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں ہے، کہ وہ اس کی، سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی بالادستی، انتظامی کارکردگی، اور سیاسی ہم آہنگی، جیسی مغرب کی کچھ بنیادی خصوصیات کو تسلیم کریں۔ ایک ہی وقت میں وہ مشرق میں مکمل طور پر اس کے برعکس دیکھتے ہیں ۔
وہ معاشرہ جو 'اقراء' ہونا چاہیے تھا، وہ معاشرہ 'اسمع ' کا ایک مجسمہ بن گیا ہے۔ اگر ہم دنیا کے سب سے بڑے 200 یونیورسٹیوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہم اس فہرست میں ایک بھی مسلم یونیورسٹی کو نہیں پاتے ۔ علم اور تعلیم والی اس کمیونٹی کو کیا ہو گیا؟ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے عقیدے میں البیرونی، الخوارزمی ، ابن سینا، الرازی، ابن هيثم اور دیگر بہت سے لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ آرٹس اور ہیومینیٹیز، سوشل سائنس، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی، میڈیسین اور نیچرل سائنس ایسے شعبے ہیں جہاں مسلمان ٹاپ 50 میں بھی نہیں ہیں۔ اگر ہم دن میں پانچ بار نماز ادا کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، حج ادا کرتے ہیں ،تو یہ سب ہم خود اپنے لئے کرتے ہیں، لیکن اگر ہم علم حاصل کرتے ہیں، تو اس سے نہ صرف یہ کہ ہم خود کو فائدہ پہنچاتے ہیں ، بلکہ اپنے بچوں، پورے گھرانے اور سارے سماج کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ سیکھنے والی کمیونٹی کہاں ہے؟ ہم کچھ بھی نہیں ہیں اور نہ ہی ماضی کی پرچھائیں ہیں۔ جیسے ہی امت مسلمہ علم، سائنس اور تحقیق کے راستے سے منحرف ہو ئی ، مغرب کے ہاتھوں شکار ہو گئی ۔ یہ سچ ہے، اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ، اکثر مسلم ممالک کے پاس ایسا تعلیمی نظام نہیں ہے، جو کہ مسلم نوجوانوں کو وسیع نقطہ نظر پروان چڑھانے اور تحقیق کے میدان میں مغرب کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکے ۔ کوئی بھی ملک یا کمیونٹی اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ جدید تعلیمی نظام کو اپنا نہ لے۔ ہم پیچھے ہیں، کیونکہ ہم تعلیم کے روایتی انداز کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو 'مدارس' کی تجدید کرنی ہوگی ۔ صرف اسی صورت میں وہ کامیابی کے قابل ہو سکتے ہیں۔ جو بچے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، انہیں صرف مذہبی تعلیم تک ہی محدود رکھا جاتا ہے ۔ حفظ قرآن ہی مدارس کے نصاب میں سب سے اہم ہے۔ بلکہ متن کے معنی کا تجزیہ اور اس پر گفتگو کرنے کی بہت کم کوشش کی جاتی ہے۔ جدید تجزیہ کار عام طور پر اس کے فن تعلیم کےصرف دو پہلؤں پر تنقید کرتے ہیں؛ محدود موضوعات پڑھائے جاتے ہیں، اور حفظ پر خصوصی انحصار ۔ عام طور پر طلبہ پر اس کا اثر پایا جاتا ہے ، جب وہ جدید ریاست کے ذریعہ پیشکش کی گئی رسمی تعلیم کا سامنا کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ طالب علم ، وسیع جلدوں اور عبارتوں کو حفظ کر سکتے ہیں، پھر بھی وہ اکثر اہم تجزیہ اور آزاد سوچ کی صلاحیت سےمحروم ہوتے ہیں۔
مسلمان ہمیشہ صرف مولوی نہیں تھے ۔ اسلامی سلطنت کے سنہرے دور میں (عام طور پر 10ویں اور 13ویں صدی کے درمیان)، اسلامی دنیا نکھرگئی اور وہ سائنس، آرٹ اور ادب کے بھی ماسٹر شمار کئے جاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب انہوں نے ، سائنسی اور فنکاری کی دنیا میں، اپنا بہت زیادہ تعاون دیا ۔ ان کا تعاون، کیمسٹری، بوٹینی ، فزکس، میڈیسن، ریاضی اور علم فلکیات میں تھا، جیسا کہ بہت سے مسلمان سائنسی حقیقت کو خدا تک رسائی حاصل کرنےکا آلہ شمار کرتے تھے، ۔ یہ وہ وقت تھا جب مغربی یورپ ذہنی طور پر پسماندہ اور جمود کا شکار تھا۔
علم کا اسلام میں ایک نمایا مقام ہے ، اسی لئے اتنا یہ کہا جاتا ہے کہ ، صرف علم والے ہی خدا سے ڈرتے ہیں ،اور نجات ہدایت سے منسلک ہے۔ (وہ علم بنیادی طور پر خدا، حقیقت بارے میں ہے، اور اس طرح وہ، بشمول سیکولر کے تمام علوم کی تعمیم کرتا ہے، اگر یہ الہی شعور کی بیداری کے ساتھ منسلک ہے، دراصل، خلاف دین کی طرح کوئی علم نہیں ہے، ایک نظریہ میں، جہاں خدا، ابتداء اور انتہاء ہے، اور تمام علوم کا موضوع اور مقصد) ۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا حقیقت ہے یا واحد جاننے والا ہے،اور جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں وہ واقعی علم الہی میں حصہ لینے کے ذریعہ ہے۔ قرآن کریم میں 800 سے زیادہ ایسے حوالہ جات ہیں جس میں تعلیم پر ایک بڑا انعام کا اعلان ہے۔ پہلی وحی علم (اقراء) کی وحی تھی۔ یہ ناخواندگی کو چیلنج تھا۔ اسلامی تحریک علم کے پیغام کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ قرآن نے تعلیم کی اہمیت پر بار بار زور دیا ہے، مثلاً، ‘‘جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا۔’’(58:11)۔ ‘‘میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے’’(20:114) ۔ " جیسا کہ خدا نے اسے سکھایا ہے، تو اسے لکھنے دو" (2:282)۔ یہ صرف یہاں نہیں ختم ہوتا ، بلکہ اسلامی تاریخ کی سب سے پہلی جنگ ‘‘ بدر’’ میں کیا ہوا تھا۔ ہر اس جنگی قیدی کو جو تاوان ادا کرنے کے قابل نہیں تھا، اپنی آزادی کے لئے دس مسلمانوں کو تعلیم دینے کاحکم دیا گیا تھا۔ ہم کسی بھی تاریخ میں ایسی منفرد سزا نہیں پاتے ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے کسی ایک خاص موضوع پر کبھی زور نہیں دیا ہے ۔ اللہ کے نبی کو ، اللہ کا سب سے پہلا پیغام ‘پڑھو’۔ پڑھنا / غور کرنا خالق، تخلیق، کائنات، بنی نوع انسان، سائنس، قلم کے موضوع کےبارے میں، تحقیق اور ریسرچ کا موضوع پہلی ہی پانچ آیات میں نازل کیا گیا تھا۔ اس سے اسلام میں جدید تعلیم اور سائنس کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
جمال الدین افغانی نے ایک بار کہا کہ "یہ سائنس ہے جس نے مغرب کو طاقتور اور عظیم بنا دیا، اور مغرب کا اسلامی دنیا پر غلبہ ہے، کیونکہ وہ اس کی طاقت اپنی جیب میں رکھتا ہے ۔ سائنس اصل میں اسلامی دنیا سے آیا، اور اسی لئے ، اسلامی سائنس، سائنس پر مغرب کی ملکیت اور مغرب کی اسلامی دنیا پر غلبہ کے لئے ذمہ دار ہے ۔ لہذا، تمام مسلمانوں کو جو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ، وہ اس سائنس کی اپنے لئےبازیافت کریں، تاکہ وہ ماضی کی عظمت تک پہنچ سکیں اور ایک طاقتور تہذیب بن سکیں" ۔ لیکن ابھی تک مسلمانوں کی عمومیت کو ضروری کام کرنا ہے ۔ ترکی اور ملیشیا نے کچھ پیش رفت کی ہے، اور سائنس کو آگے بڑھانے کی نقل کے لئے اچھی مثالیں ہیں۔
اسلامی حکومت کے دوران، صرف سیسلی 600 پرائمری سکولوں پر مشتمل تھا۔ دمشق میں صرف ایک ہی شہر میں قانون کے 130 کالج تھے، ہر ہسپتال میں ایک لائبریری تھی ، جو دوا کے بارے میں بہت ساری کتابوں پر مشتمل تھی۔ نظام الملک نے الپ ارسلان کی حکمرانی کے دوران (سلجوک سلطنت میں وزیر تعلیم) ایک وسیع اور حیرت انگیز نظام تعلیم قائم کر رکھا تھا۔ اس کے تحت ہر ایک گاؤں میں ایک پرائمری اور سیکنڈری اسکول تھا۔ ملازمین کو بغداد کے ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ، ایک بار اگر کوئی مریض اسپتال میں داخل کیا گیا، تو اس کے کپڑے تبدیل کر دئے جاتے ، اور ہر دیکھ بھال ہسپتال کے حکام کے ذریعہ کی جاتی، جب تک وہ ہسپتال انتظامیہ کےذریعہ گھر نہ روانہ کر دیا جائے ۔
امت کو ، اس چیلنج کو سمجھنے کی اور اس طرح کے تعلیمی نظام کو قائم کرنے کی ضرورت ہے، کہ وہ نئی نسل کو ایمان، اخلاق اور سائنس کی جنگ جیتنے کے قابل بنا سکے ۔ ہمیں علم کے اس پیغام کو لوگوں کے درمیان عام کرنے کی ضرورت ہے، جس سے جبرئیل نے وحی کے مشن کا آغاز کیا، تاکہ ہم امن، وقار اور عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔
عامر حسین شاہ نے جموں و کشمیر سے ایک کالج کے طالب علم ہے۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/change-game,-first-change-yourself/d/10837
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/change-game,-first-change-yourself/d/11675