New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:35 PM

Urdu Section ( 14 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Challenges Facing Muslims in India and Their Solutions: A Thoughtful and Practical Guide ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل: ایک فکری و عملی رہنمائی

غلام غوث صدیقی

14اکتوبر،2025

ہندوستان :  یہ سرزمینِ وفا، یہ گلزارِ تہذیب، یہ رنگا رنگ تمدن کا گہوارہ ، جس کی فضاؤں میں مختلف قوموں کی قربانیاں گندھی ہوئی ہیں، اور جس کی خاک ہر قدم پر تاریخ کی صداؤں سے گونجتی ہے۔ اس  وطن عزیز کی دلکش کہانی میں ایک باب ایسا بھی ہے جو مسلمانوں کے خون، پسینے، علم، حکمت اور ایثار سے روشن ہے۔

مسلمانوں نے اس ملک کو صرف ایک جائے سکونت ہی نہیں جانا، بلکہ اسے اپنا روحانی وطن سمجھا، اس کی گلیوں کو اپنی دعاؤں سے سینچا، اور اس کے آنگن کو اپنی تہذیب کے رنگوں سے آراستہ کیا۔ یہاں کے علمی مراکز میں ان کے قلم بولتے تھے، خانقاہوں میں ان کی روحیں جھکتی تھیں، اور بازاروں میں ان کی دیانتداری کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن یہ داستان صرف تعمیر و ترقی تک محدود نہیں ،  جب اس ملک پر غلامی کی زنجیروں کا سایہ پڑا، تو اہلِ ایمان کے جذبے ہی وہ مشعلیں بنے جنہوں نے اندھیروں کو چیر ڈالا۔

1857 کی جنگِ آزادی ہو یا  یا شاہین صفت رہنماؤں کی صف بندی ، ہر موڑ پر مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں، قیادت، اور حریت پسندی ایک تاریخ ساز حقیقت کے طور پر ابھریں۔ ان کے عزم کے چراغوں سے آزادی کی صبح روشن ہوئی۔ ان کے لہو کی سرخی نے وطن کی پیشانی کو آزادی کا سندور عطا کیا۔ ان کی زبانوں پر تکبیر تھی، دلوں میں وفا کی آگ، اور ہاتھوں میں سچائی کا پرچم!

مگر آج...!

وقت کا مزاج بدل چکا ہے، اور چہرۂ حالات پر سوالات کی شکنیں ابھر آئی ہیں۔ آج کا دور مسلمانوں کے لیے آزمائشوں کا نیا موسم لے کر آیا ہے۔ جذبات کو بھڑکانے والے طوفان، مذہبی شناخت پر حملے، ناانصافی کے سایے اور فرقہ پرستی کے شعلے... لیکن ایسے دور میں بھی وہی سرخرو ہوتا ہے جو صبر کو ڈھال بنائے، قانون کو چراغ بنائے، اور حکمت کو رہنما بنائے۔

اب وقت ہے کہ مسلمان صرف ردعمل سے نہیں، بلکہ ادراک سے، تدبر سے، اور آئین کے سایے میں رہتے ہوئے اپنی بات رکھیں، اپنی شناخت بچائیں، اور ملک کی وحدت وسالمیت کے تانے بانے کو ٹوٹنے نہ دیں۔ یہ ملک ہمارا ہے، اور ہم اس کے وفادار بیٹے۔ اگر تاریخ ہمارے ماضی کی گواہ ہے، تو کردار ہمارا حال اور مستقبل بنا سکتا ہے۔

موجودہ حالات اور مسلمانوں کا طرزِ عمل

آج کا ہندوستان، یہ وہ عزیز دھرتی ہے جس کی پیشانی پر صدیوں سے تہذیب کا چاند چمکتا آیا ہے، جہاں دین اسلام  نے گلزار بن کر خوشبوئیں بکھیریں، اور جہاں اقوام نے انسانی بھائی چارے  کی ڈور میں بندھ کر دنیا کو امن و سلامتی  کا ایسا پیغام دیا جو وقت کے سفر میں بھی کبھی مدھم نہ ہوا۔یہ سرزمین وہ تھی جہاں دلوں کے درمیان فاصلے نہیں، فکری قربتیں تھیں۔

مگر افسوس! آج اسی سرزمین کے افق پر تعصّب کے سیاہ بادل چھا چکے ہیں۔ وہ بادل جن سے نفرت کی بجلیاں کوندتی ہیں، اور جن کی آندھیوں میں محبت کے چراغ بجھانے کی سازشیں پنپ رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وقت نے کروٹ لی ہے، اور وہ ہندوستان جو کبھی دلوں کو جوڑتا تھا، آج کچھ ہاتھوں کی شرارت سے ٹوٹتے خوابوں کا آئینہ بنتا جا رہا ہے۔

جہاں ایک طرف ترقی کی فلک بوس عمارتیں آسمان سے ہم کلام ہو رہی ہیں، وہیں دوسری طرف مسلمانوں کے وجود پر اندیشوں، الزامات، اور آزمائشوں کا کہرا چھا رہا ہے۔ ہر گزرتا لمحہ ایک نیا سوال لیے آتا ہے، ہر دن کسی نئی آزمائش کا دروازہ کھولتا ہے۔ کبھی کسی بے قصور نہتے کی سانسیں ہجوم اور لنچنگ کی درندگی میں دم توڑ دیتی ہیں، کبھی توہینِ رسالت یا توہینِ اسلام کے حساس جذبات کو چھیڑ کر دلوں میں آگ بھڑکائی جاتی ہے، اور کبھی مزارات اور مقدسات کی حرمت کو پامال کر کے، روحانی فضا کو لہو رنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، گویا روحیں زخمی ہو رہی ہیں، دل لہولہان ہو رہے ہیں، اور فضا سے وہ مانوس سکون بھی روٹھتا جا رہا ہے جو کبھی اس سرزمین کی پہچان تھا۔

یہ سب کچھ اُس فضائے ناگوار میں ہو رہا ہے، جسے میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز روش نے اور زیادہ مسموم بنا دیا ہے۔ افسوس کہ جس میڈیا کو حق، امن، اور سچائی کا علمبردار ہونا چاہیے تھا، وہی بعض اوقات سنسنی کی بھوک میں، مذہبی جذبات کو کھیل کا میدان بنا بیٹھا ہے۔ مسلمان اور ہندو جیسے نازک موضوعات کو غیر حساسیت کے ساتھ پیش کر کے، اس نے ذہنوں کو اس قدربد نظمی کا شکار بنا دیا ہے کہ راہ چلتے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو شک و نفرت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا صرف ایک ذریعۂ اظہار نہیں رہا، بلکہ یہ سوچوں کی تشکیل، جذبات کے بھڑکاؤ، اور نظریات کی سمت طے کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار بن چکا ہے۔ مگر افسوس کہ اس طاقتور پلیٹ فارم پر شر پسند عناصر نے اپنے مذموم عزائم کی بساط بچھا رکھی ہے۔ وہ ہر دن نئی چالیں چلتے ہیں، اور ماحول کو مسموم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ زبانوں سے نفرت ٹپک رہی ہے۔ مذاہب پر بے جا تنقید، عقائد کی توہین، اور فرقہ وارانہ طعن و تشنیع اب ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ ہر اس بات کو جوڑ توڑ کر پیش کیا جاتا ہے جس سے جذبات بھڑکیں، دل زخمی ہوں، اور معاشرہ مزید تشدد و نفرت کا شکار ہو۔ یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جہاں الفاظ گولیوں سے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں۔ جہاں سچائی دب جاتی ہے، اور فتنہ و فساد کا شور نمایاں ہو جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دلوں کے دروازے بند، اور زبانیں زہر میں ڈوب چکی ہیں۔

یہ منظر صرف معاشرتی زوال کا نہیں، بلکہ اخلاقی و فکری دیوالیہ پن کا آئینہ دار ہے۔ایسے پرآشوب اور نازک وقت میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہی ہے کہ وہ جذبات کی موج میں بہنے کے بجائے، عقل و تدبر کی کشتی میں سوار ہوں۔ اسلام کی عظیم تعلیم ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ صبر، عدل، تحمل اور قانون کی پاسداری وہ ستون ہیں جن پر قوموں کی عزت و وقار تعمیر ہوتی ہے۔ جب تک ملک کی فضاؤں میں آئین کی خوشبو باقی ہے، قانون کا سایہ موجود ہے، اور حق کو آواز دینے کا دروازہ کھلا ہے، تب تک مسلمانوں کو ہر قدم آئینی دائرے میں رکھنا چاہیے ، یہی اسلام  کی روشنی ہے، اور یہی عقلِ سلیم کا راستہ۔

عدالتوں سے رجوع کرنا، اپنی بات کو دلیل اور وقار کے ساتھ رکھنا، اور ظلم و ناانصافی کے خلاف قانونی محاذ پر ڈٹے رہنا، یہ سب وہ پرامن ہتھیار ہیں جن سے اہلِ ایمان نہ صرف اپنی حفاظت کرتے ہیں بلکہ تاریخ کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں۔

اور اگر، خدانخواستہ، بعض معاملات میں یہ احساس ہونے لگے کہ انصاف کی ’دیوی‘ کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور قانونی دروازے سے بھی مایوسی جھانک رہی ہے ،  تب بھی دل کو قنوطیت کے اندھیرے میں گم ہونے نہ دیں۔ مایوسی اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں۔ عدلیہ اگر خاموش ہو تو زمین و آسمان کے مالک حقیقی کے یہاں دروازے کھلے ہیں، قانون اگر تھک جائے تو دعا کی طاقت باقی ہے، انسان اگر بیوفا ہو جائے تو ربِّ عدل ہر وقت بیدار ہے۔

ایسے حالات میں بھی صبر، حکمت، اور عمل کو ترک نہ کیا جائے، تاکہ کل تاریخ کے صفحات پر یہ گواہی ثبت ہو سکے کہ مسلمان نہ صرف مظلوم تھے، بلکہ حق و انصاف کا پلڑا بھی ان ہی کے حق میں جھکا ہوا تھا۔ وہ ظلم کے سامنے بے سروسامان ضرور تھے، مگر کردار میں بلند، رویے میں شائستہ، اور راستے میں سچائی کے ہم سفر۔

یاد رکھیے، وہ سچ سب سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے جو خاموشی سے، وقار سے، قانون کی زبان میں، اور دعاؤں کی تاثیر سے کہا جائے۔ ہمیں ایسا معاشرہ بنانا ہے جہاں ہمارا صبر گواہ ہو، ہماری حکمت دلیل ہو، اور ہمارا عمل تاریخ کا عنوان بن جائے۔

حکمتِ عملی: ردعمل نہیں بلکہ اصلاح

مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی اشتعال یا ناانصافی کے جواب میں انتقام یا تنگ نظری کا راستہ نہ اپنائیں۔ ہر مخالفت کے سامنے دل میں عفو و درگزر کا سوز روشن رکھیں، اور حسنِ اخلاق کی شمع کبھی بجھنے نہ دیں۔ کیونکہ یہی وہ اخلاقی طاقت ہے جو انسان کو مادی شکستوں سے بلند مقام عطا کرتی ہے۔ اگر کوئی شرپسند، ناانصافی کی آگ بھڑکائے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی اسی اندھی روش کا پیچھا کریں۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی اسی اصول کی زندہ دلیل ہے، جنہوں نے بدترین حالات میں بھی بردباری، صبر، اور اعلیٰ اخلاق کا پرچم بلند رکھا۔ آپ ﷺ کی سیرت میں عفو و درگزر کا وہ درخشاں پہلو ہے جو ایمان کی بلندیوں کا نشان ہے۔

قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا" (جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو وہ سلامتی کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔)

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ عقلمندی، صبر، اور حسنِ سلوک ہی وہ راستے ہیں جو دلوں کو نرم کرتے ہیں، اور نفرت کے تند و تیز ہواؤں کو ماند کرتے ہیں۔

یہی حکمتِ عملی مسلمانوں کی شرافت، تہذیب، اور اخلاقی بلندی کا ثبوت ہے، اور یہی راہ وہ روشنی ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی اصلاح کی منزل کی جانب لے جاتی ہے۔ دشمن چاہے کتنی ہی درندگی دکھائے، نہتا اور کمزور سمجھے ، مسلمانوں کا جواب ہمیشہ بردباری اور محبت کی زبان ہونا چاہیے، تاکہ حق و صداقت کی جیت تاریخ کے اوراق میں تابناک ہو۔

تعلیم و تربیت: ترقی کی روشن کنجی

مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک بنیادی اور گہری وجہ تعلیمی کمی ہے، مگر صرف کتابی علوم کی کمی نہیں، بلکہ دینی اور اخلاقی تعلیمات سے بھی دوری نے ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آج کا نوجوان حساب، سائنس اور جدید ٹیکنالوجی جیسے مشین، چیٹ، اور اے آئی کو سیکھنے میں پیچھے نہیں رہا، لیکن ساتھ ہی انسانی اقدار اور اخلاق کی قلّت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ مسئلہ محض کسی خاص مذہب یا طبقے کا نہیں، بلکہ ایک ایسا عارضہ ہے جس نے ہر فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گھر کی دیواروں کے اندر والدین کا احترام، بڑوں کی عزت، اور بنیادی اخلاقی قدریں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔

خانقاہوں اور مدارس کا اصل مقصد تزکیہ نفس، توبہ و استغفار کی عملی تربیت ہے، لیکن افسوس کہ آج اکثر جگہیں محض قوالی کی محفلوں تک محدود ہو گئی ہیں، جہاں روح کی پاکیزگی کی بجائے محض جذبوں کی سطحی جھلک نظر آتی ہے۔ دین کی اصل روح، جو کردار سازی اور اخلاقی بلندی میں مضمر ہے، اسے فراموش کر دیا گیا ہے۔

تعلیم کا جادو ہی وہ روشنی ہے جو فرد کی شخصیت کو نکھارتی ہے اور قوم کی تقدیر کو سنوارتی ہے۔ مدارس سے لے کر جامعات تک مسلمانوں کی بھرپور اور موثر شمولیت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہی تعلیم کی روشنی ہے جو اندھیروں کو مٹاتی ہے، معیشت کو مضبوط کرتی ہے، سیاست کو شعور دیتی ہے، اور سماجی بگاڑ کو دور کر کے ہم آہنگی کی فضا قائم کرتی ہے۔

لہٰذا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم کی اس مقدس راہ کو نہ صرف کتابی علوم بلکہ اخلاقی و دینی تربیت کے ساتھ اپنا شعار بنائیں، تاکہ روشن خیالی، فہم و فراست، اور ترقی کا دیا ہر دل میں جل اٹھے، اور یہ قوم اپنے اصل جوہر سے آگاہ ہو کر ہر میدان میں کامیابی کی بلندیوں کو چھو سکے۔

اتحاد و اتفاق: قوم کی مضبوط بنیاد

یہ امر نہایت تلخ سچ ہے کہ ہماری قوم مسلم فرقوں اور مسالک کی کثرت میں بٹی ہوئی ہے، لیکن بنامِ اسلام، بنامِ مسلمان، ایسے بے شمار مشترکہ مسائل ہیں جن کی حل طلبی کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں وحدت اور اتحاد کا وہ پیمانہ بھرتا کرنا ہوگا جو ہر اختلاف کو اپنی روشنی میں گھول دے۔ ذاتی عناداور مصلحتوں کو پسِ پشت ڈال کر امتِ واحدہ کا تصور زندہ کرنا وقت کی سب سے بڑی  ضرورت ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں ہم سے واضح حکم دیا ہے:

"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور تفرقہ و اختلاف کے اندھیروں میں نہ گم ہو جاؤ۔ (آل عمران: 103)

یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر ہم اللہ کی راہ اور اس کے احکامات کو اپنی رہنمائی بنائیں، تو وہی رسی ہے جو ہمیں زندگی کے طوفانوں میں محفوظ رکھے گی، اور ہمیں ایک ایسی مضبوط کڑی میں پروے گی جہاں نہ کوئی اختلافی رکاوٹ ہوگی اور نہ کوئی تفریق کی دیوار۔

صبر، دعا اور خود احتسابی: کامیابی کے لازوال ستون

جب دنیا کے ہجوم میں مشکلات کی آندھیاں زور پکڑتی ہیں، اور حق کے لئے قانونی راہ بھی رکاوٹوں سے بھر جاتی ہے، تب مایوسی کا سایہ دلوں پر گہرا ہونے کے بجائے، ہمیں صبر کی روشنی اور دعا کے دامن کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے ہر دور میں امت کو یہی تلقین دی کہ صبر ہی وہ خزانہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص قرب اور مدد جڑی ہوئی ہے، جیسا کہ قرآن پاک نے ارشاد فرمایا:

"اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ"

یقیناً، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

لیکن صبر محض ایک پہلو ہے، دوسرا لازمی ستون ہے خود احتسابی۔ ہمیں ہر لمحہ اپنے نفس کی عکاسی کرنی ہوگی کہ کہاں ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا، اور کہاں ہماری کوتاہیاں، بے عملی، دینی بے راہ روی، اخلاقی زبوں حالی، اور تعلیم سے دوری نے ہماری کمزوری کو جنم دیا ہے۔ یہ خود شناسی ہی وہ آئینہ ہے جو ہماری کمزوریوں کو سامنے لاتی ہے اور ہمیں اپنی اصلاح کی راہ دکھاتی ہے۔

جب تک ہم اپنے اعمال کی باریکی سے جانچ نہیں کرتے، اور دل کی گہرائیوں سے سدھار کی کوشش نہیں کرتے، بیرونی دنیا میں مثبت تبدیلی کی توقع بے سود ہی رہے گی۔ کامیابی کا راز صبر کی چادر میں لپٹا، دعا کے سحر سے منور، اور خود احتسابی کی روشنی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔

اخلاق و کردار: سب سے بڑی طاقت، سب سے روشن میراث

مسلمانوں کی سب سے عظیم قوت ان کے اخلاق کی خوبصورتی میں پنہاں ہے۔ ایمانداری کی روشنی، عدل کی تلوار، دیانت کی مضبوطی، تحمل کی نرم ہوا، خلوص کی گہرائی اور حسنِ سلوک کی دلکش عادتیں ہی وہ زیور ہیں جو نہ صرف دشمنوں کے دلوں کو نرم کر دیتی ہیں بلکہ معاشرے میں عزت و وقار کے ستون مضبوط کرتی ہیں۔

رسولِ رحمت ﷺ کی سیرت کا ہر باب ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ نرمی، محبت اور حسنِ اخلاق کا جذبہ انسانوں کے دلوں کو فتح کرنے کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ جب انسان اپنی بات محبت کے موتی، صبر کے موتی اور اخلاق کی زینت سے کرتا ہے، تو نہ صرف دشمن بھی گھل مل جاتے ہیں بلکہ خود کو ایک عظیم ہستی کے روپ میں دیکھتا ہے۔

اخلاق و کردار وہ روشن چراغ ہیں جن کی روشنی میں دنیا کی تمام تاریکیاں مٹ جاتی ہیں، اور یہی وہ میراث ہے جو نسل در نسل فخر کے ساتھ دی جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ اپنی زندگی کی ہر شے کو اسی نور سے منور کریں، کیونکہ یہی سب سے بڑی طاقت ہے جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی کی بلندیوں تک لے جائے گی۔

معیشت و خود انحصاری: قوم کی بقا کا مضبوط ستون

غربت کی اندھیری چادر، بے روزگاری کی تلخ ہوا، اور معاشی مشکلات کا بوجھ مسلمانوں کی حالت زار کی وہ گہری جڑیں ہیں جنہیں کاٹنا از حد ضروری ہے۔ ایک مضبوط قوم کی بنیاد تبھی مستحکم ہوتی ہے جب اس کا ہر فرد خود انحصاری کے ستون پر قائم ہو۔

مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ نہ صرف اپنے کاروبار کو پروان چڑھائیں بلکہ پیشہ ورانہ تعلیم اور روزگار کے نئے و جدید ذرائع میں مہارت حاصل کریں، تاکہ معاشی میدان میں بھی وہ خود کفیل و خود مختار بن سکیں۔ زکات، صدقات اور وقف جیسے مقدس اسلامی اصولوں کو محض رسم و رواج نہیں سمجھنا بلکہ انہیں عمل کی صورت دینا ہے، تاکہ ہماری کمیونٹی اقتصادی اعتبار سے ایک مضبوط قلعہ بن جائے۔

یہی خود انحصاری کا راستہ ہے جو غربت کے سائے کو مٹاتا ہے، بے روزگاری کو ختم کرتا ہے، اور ہر فرد کو عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ معاشی مضبوطی ہی وہ چراغ ہے جو قوم کو اندھیروں سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی روشن راہوں پر لے جاتا ہے۔

ملک کی سالمیت کا تحفظ: وطن سے محبت کی عاقبت اندیشی

ہر مسلمان کے ضمیر میں مانندِ قلم کندہ نقش ہو جائے کہ وطن کی سالمیت کو مجروح کرنا شرعی اور اخلاقی اعتبار سے ناجائز ہے۔ محبتِ وطن انسانی فطرت کا جزوِ لاثانی ہے؛ آئین و قانون کا احترام، اور اجتماعی مفاد کو مقدم رکھنا ہر مومن کی ناقابلِ تفویض ذمہ داری ہے۔ جب کسی ناانصافی یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہو تو وہ آواز آئینی، پرامن اور باوقار انداز میں بلند کی جائے ،  اسی میں حکمت، عزت اور قوتِ اثر پنہاں ہے۔

تشدد، نفرت یا غیر قانونی سرگرمیوں  کا جواب انہی انداز میں دینا  نہ صرف ذاتی طور پر انجامِ کار نقصان دہ ہے بلکہ امتِ مسلمہ کو اندرونی طور پر کمزور کر کے ملک دشمن عناصر کو خوش ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات مظاہروں میں غیر متعلق یا شرپسند عناصر مداخلت کر کے امن و امان کا توازن بگاڑ دیتے ہیں  اور اسی لئے احتجاج کا ہر رخ باریک بینی سے دیکھنا، قیادت کی اکثریت کو مستحکم رکھنا، اور حکمتِ عملی میں احتیاط شامل کرنا لازم و ضروی ہے۔

قوتِ احتجاج تب مؤثر ہوتی ہے جب وہ سنجیدہ، منظم اور بامقصد ہو؛ جہاں دلوں میں جذبۂ اصلاح ہو، مگر ہاتھ قانون کے دائرے سے باہر نہ ہوں۔ آئین کا سہارا لینے، عدالتی راہوں کو اپنانے، اور پرامن احتجاج کو محفوظ بنانے کی کوشش کرنا ، یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم اپنے حقوق کی بحالی بھی ممکن بنا سکتے ہیں اور اسی کے ذریعے وطن کی سلامتی و اتحاد کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ جب ہم وطن کے وقار کو برقرار رکھیں گے تو ہی ہمارا مطالبہ بہتر انداز میں سنوار کر تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوگا۔

نتیجہ: جذبات نہیں، عمل کی حکمت

آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑی آزمائش یہ نہیں کہ ان کے خلاف کیا کہا یا کیا گیا، بلکہ یہ ہے کہ وہ کس انداز سے ردعمل دیتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم جذبات کی تیز آندھیوں کے بجائے عقل کی روشنی، حکمت کی بارش، اور اتحاد کی زمین پر قدم رکھیں۔

اگر ہم تعلیم کو اپنا شعار بنائیں، اخلاق کو اپنی پہچان، قانون کو اپنی ڈھال، اور دعا کو اپنی طاقت، تو نہ صرف ہم مسائل کی گرداب سے نکل سکتے ہیں بلکہ وطنِ عزیز کی تعمیر میں ایک روشن مینار بن کر ابھر سکتے ہیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب ہر مسلمان کو اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا پرتو بنانا ہے۔ ہمیں قرآن کی روشنی اور سنت کی خوشبو سے اپنے کردار کو یوں سنوارنا ہے کہ دنیا دیکھے: یہ ہیں وہ لوگ جو فتنے کے طوفان میں بھی چراغِ صبر و حلم لے کر کھڑے رہے۔

عزت و وقار، صبر و استقامت، اور تدبر و دانش ہی وہ اثاثے ہیں جن کے سائے میں قومیں زندہ رہتی ہیں  اور اگر ہم نے آج یہ سرمایہ سنبھال لیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف یاد نہیں کریں گی، بلکہ ہماری روشنی میں اپنا راستہ تلاش کریں گی۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/challenges-facing-muslims-india-solutions/d/137235

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..