New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 11:33 AM

Urdu Section ( 22 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Anti-Islam Film Sparks Violence and Killings: Complex Challenge اسلام مخالف فلم کی وجہ سے تشدد اور قتل کی چنگاریاں: ایک پر پیچ چیلنج

 

سی ادے بھاسکر ،  نیو ایج اسلام کے لئے

(انگریزی سے ترجمہ : نیو ایج اسلام)

اسلام مخالف ایک ویڈیو کی تشہیر کے بعد ، پر تشدد احتجاج کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ جاری ہے ۔ افریقہ اور ایشیا کے کئی حصوں میں ، گہرے مغرب مخالف جذبات پھیل رہے ہیں ۔اس لئے کہ  یورپ میں بھی اس طرح کے حملوں کا ہدف ،امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں میں سے کچھ کے سفارتی اور فوجی قضیے  ہیں۔ اس تبصرہ کو  لکھنے کے وقت، تقریباً  15 ممالک نے اس طرح کے احتجاج درج  کروائے ہیں  - بشمول ہندوستان کے  - جہاں چنئی اور کشمیر کے کچھ حصوں نے اس طرح کے واقعات درج کروائے ہیں ۔

بدقسمتی سے، منگل (12 ستمبر) کو لیبیا کے لئے  امریکی سفیر  ، جے کرسٹوفر سٹیونس کا قتل تین سفارتی عملے کے ساتھ ،بن غازی  لیبیا میں کیا گیا ،اور جمعہ (14 ستمبر) کو ، طالبان نے افغانستان کے صوبے ہلمند میں، ایک امریکی فوجی اڈے پر حملہ کیا اور دو امریکی بحری فوجیوں کو ہلاک کر دیا ۔ اس حملے کے جانی نقصان کی تفصیلات کا ابھی تک انتظار ہے ۔ دیگر اس قسم کے احتجاج میں، (سوڈان) خرطوم (تیونس) تیونس اور قاہرہ (مصر) میں سات افراد مارے گئے تھے ، اور وہاں مزید بد امنی کے گہرے خدشات ہیں۔ جن میں سے بعض کو ان ممالک میں رجعت پسند، انتہا پسند گروپوں کے ذریعہ بھڑکایا جا رہا ہے۔

جن لوگوں نے اس مختصر ، اسلام مخالف ویڈیو کو دیکھا ہے، ان میں سے زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ انتہائی نازیبا  اور عمداً اشتعال انگیز ہے ۔ مزید برآں، یہ ایک غیر تسلی بخش فلم کلپ ہے، لیکن اس نے جس قدر  موت، تباہی، اور فرقہ وارانہ نقصان کیا  وہ نمایا ہے - فوری طور پر سیاق و سباق اور طویل مدت، دونوں کے لئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا نے بھی اس  جھٹکے کو محسوس کیا ہے جو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں احتجاج میں واضح ہے۔

اس غالب خیال میں بہت کم اختلاف رائے ہے کہ ہو سکتا ہے کہ  فلم اشتعال انگیزہو  ،لیکن  اس کے ایسا ہوتے ہوئے بھی اس قسم کا تشدد اور تباہی جائز نہیں ہے - اور اس کی مذمت کی جانی چاہئے ، اور قصورواروں کو کتاب تک لایا جانا چاہئے۔ کرنے سے آسان ،کہنا  ہے ، اگرچہ قاہرہ میں مصر کے صدر مورسی نے  انتہائی  سخت کارروائی کی ہے اور آئندہ چند روز ،مصر اور عرب دنیا کے لئے نازک ہونگے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ، اس طرح کے اسلام سے متعلق  ،امریکہ مخالف تشدد اس پیمانے پر ہوئے،  اور یہ کہ وہ واقعات 9/11 کی 11 ویں سالگرہ کے ایک دن کے بعد رونما  ہوئے ، یہ  خیال ڈالتے ہوئے کہ ہو سکتا ہے کہ ایسی دیگر طاقتیں ہوں  جو منصوبہ بندی کر رہی ہوں ، اور ان المناک واقعات کے سلسلہ  کو فروغ دے رہی ہوں ، جو گزشتہ پانچ دنوں کے دوران ظہور پذیر ہوئے  ہیں۔ اس چیلنج کے مضمرات پیچیدہ ہیں ،اور اس شورش کے ساتھ معروضیت اور مضبوطی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے – اور اس کے علاوہ ہمدردی کے ساتھ ۔

عرب دنیا جو 'عرب بہاریہ' کی دوسری سالگرہ منائے گی ، جو  کہ 18 دسمبر 2010 کو تیونس میں شروع ہوا تھا ، وہا ں ابھی ہنگامی صورت حال  ہے ،اور مصر پوشیدہ طور پر  کشیدگی اور تشویش کی علامت ہے ، جو کہ سطح پر آ گئے ہیں ۔ آمرانہ حکومتوں کو مسترد کر دیا گیا ہے اور مصر کے حسنی مبارک  اس علاقے کے نمونو کی نمائندگی کرتے ہیں  ، جہاں امریکہ نے  اکثر ، لوگوں کے مفادات کے خلاف ، ظالمانہ حکومتوں کی حمایت کی ہے۔

گہرے امریکہ مخالف جذبات ،   جمہوریت سے روک رہے  ہیں ، آمرانہ تقسیم عرب کی گلی میں زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ 9/11 کے نتیجہ میں ،یہ جذبات ان قدامت پسند ،مذہبی گروہوں کے  ذریعہ بھڑکائےگئے ، ان کا استحصال کیا گیا ہے، جو کھلے طور پر تشدد اور ایسے سخت اسلامی اسکولوں  کی حمایت کرتے ہیں جو اسلام کی وہابی -سلفی شاخ سے منسلک ہیں  ، اور مزید القاعدہ ،طالبان اور دیگر دہشت گرد جماعتوں کے ذریعہ مسخ کئے گئے ہیں  ۔

اسی طرح احتجاج اور قتل کی موجودہ لہر جو کہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں اس شدت کے ساتھ  فروغ پزیر ہے ، اور بعض صورتوں میں، مقامی جماعتوں نے ، اپنے ایجنڈوں  کے فروغ دینے کے موقع کو استعمال کیا ہے ۔ لیبیا میں جلدباز اور کوتاہ اندیش لوگوں نے  قذافی کی حکومت کا  تختہ پلٹ کرامریکہ مخالف کے لئے راہ ہموار کر لیا  ، قدامت پسند  اسلامی جماعتیں  ،اس حلقہ کے ذریعہ، اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لئے اور امریکی سفیر کے قتل کو پہلے سے منصوبہ بند قتل سے منسوب کیا جا رہا ہے ۔ ہلمند میں کیمپ کے گڑھ پر طالبان کے حملے سے اسی طرح کے طرز پر عمل ظاہر ہوتا ہے ،اور اس بات کا امکان ہے کہ ایسے موقع پرست  حملے ظہور پذیر ہوں گے  ۔

خاص کر ہندوستان  کے لئے، جس طرح سے چنئی میں امریکی قونصل خانے کو تقریباً  1500 ایسے مظاہرین کے ذریعہ  نشانہ بنایا گیا جنہیں  جانچ پڑتال کے مطابق ،تامل ناڈو کے مقامی مسلم آبادی  Munnetra  Kazhagam  سے لایا گیا تھا ۔ پرامن احتجاج اور مظاہرے ،جمہوری تجربے کا حصہ ہیں، جس انداز میں امریکی قونصل خانے کو نشانہ بنایا گیا ، وہ کئی سولات ابھرتے ہیں –اسی کے پیش نظر ، حال ہی میں کرناٹک اور آندھرا پردیش میں ہوئی جہادی دہشت گردوں کی گرفتاریوں کے خلاف بھی سولات ابھرتے ہیں ۔ کیا ہندوستان میں خانگی  مسلم کے کچھ حصوں کے جذبات کو گمراہ کیا جا رہا ہے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا ممکنہ جہادی سلیپر سیل ہیں  جواس طرح کے مذہب کے بھڑکانے والے  تشدد کی تشہیر کے لئے سرگرم ہو سکتے ہیں،  تاکہ کچھ خاص  قوم مخالف ، سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا سکیں ؟

یہاں ہندوستان  کے لئے پریشان کن سوالات ہیں ،لیکن انہیں عوام الناس  میں اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔ جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی اشتعال انگیز معلومات، اشتعال انگیز تصاویر اور سرکش  افواہوں کو تیزی پھیلا  دیتی ہے – جیسا کے ہندوستان  نے بنگلور سے شمالی امریکہ کے باشندوں  کے خروج کے دوران دیکھا تھا ۔ ایسی ترقی حاصل کرنے کی ضرورت ہندوستانی  ریاست کے لئے سب سے بڑی ترجیح ہو گی اور اس  کا مطلب پیشہ ورانہ صلاحیت اور ادارہ جاتی سالمیت دونوں کا حصول ہو گا ۔ افسوس، کہ  اس وقت دونوں کی کمی ہے ۔

ہندوستان پہلے سے ہی دو طرح کے سرطان کی گرفت میں ہے،بد عنوانی  اور مختصر مدت کے انتخابی فوائد کے لئے ذات کی  ترش ہیرا پھیری ۔ اگر فرقہ وارانہ اختلاف کی نحوست مملکت میں  داخل ہو گئی ، تو 1947 سے 1984 اور 2002 تک ماضی کی زیادتیاں اور شدت  واپس لوٹ آئیں گی  اور  انتہائی سخت انداز میں برصغیر میں  بسیرا کریں گی۔

اس تشدد کی نا عاقبت اندیشی ، جو  اس اسلام مخالف ویڈیو کی اشاعت  کے بارے میں خبر کے بعد ، رونما ہوئی ، وہ ایک انتباہ ہے۔ عمداً،  مذہب  کو مذموم مقاصد کے ساتھ مسخ کرنا ،معاشرے کے سماجی و سیاسی ساخت کے لئے انتہائی  سرعت کے ساتھ سم قاتل ہو سکتا ہے  اور ایسا نقصان جو  اکثر ناقابل تلافی ہو سکتا ہے ۔ ریاست اور شہری معاشرہ  ، دونوں کو اس واقعہ پر ایک تعمیری اور نرم مزاجی کے انداز میں غور وفکر  کرنے کی ضرورت ہے۔

سی ادے بھاسکر نئی دہلی کے حکمت عملی کے تجزیہ کار ہیں۔ انہیں ہندوستان  کے معروف دفاعی تجزیہ کاروں کے درمیان شمار کیا جاتاہے اور انہوں نے  پیشہ ورانہ جرائد میں  50 سے زائد تحقیقی مضامین / پیپرس  اور کتابیں لکھی ہیں جو  ہندوستان  میں اور بیرون ملک شائع ہوئے ہیں۔

URL for English article:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/anti-islam-film-sparks-violence/d/8696

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/anti-islam-film-sparks-violence/d/13169

 

Loading..

Loading..