سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
11 اپریل 2025
اس آرٹیکل میں حضرت سید شاہ آل محمد مرہروی کے روحانی ورثہ پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور ہندوستان کی برکاتیہ صوفی روایت کے اندر، بطور برہان الموحدین ان کی پرہیزگاری، تعلیمات اور اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اہم نکات:
1. حضرت سید شاہ آل محمد مرہرویؒ ایک عظیم روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے، اور ان کی تعلیم و تربیت ان کے والد بزرگوار نے کی۔
2. ان کی زندگی شدید عبادت و ریاضت، سنت کی پیروی اور روحانی جدوجہد سے عبارت تھی۔
3. انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ عملی اور انقلاب آفریں طریقوں سے سالکین کی رہنمائی فرمائی۔
4. آپ نے دنیاوی شان و شوکت سے پرہیز کیا، درویشی کی زندگی اختیار کی۔
5. ان کی میراث ان کے روحانی جانشینوں کے ذریعے اب بھی جاری و ساری ہے۔
------
Khanqah-e-Barakatiyya, Marehra Sharif, Uttar Pradesh
---------
تعارف
ہندوستان کے اندر روحانی حلقوں میں، مارہرہ شریف صدیوں سے معرفت الہی اور تصوف و طریقت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے سب سے عظیم ترین بزرگوں میں سے ایک حضرت سید شاہ آل محمد مارہروی بھی ہیں، جنہیں عقیدت کے ساتھ برہان الموحدین بھی کہا جاتا ہے۔ آپ تقویٰ، ضبط نفس اور روحانیت میں ایک بلند پایہ شخصیت تھے، جنہیں ہندوستانی تصوف کی تاریخ میں ایک مرکزی مقام حاصل ہے۔ وہ اپنے عہد کے مشہور قطب حضرت سید شاہ برکت اللہ مارہروی عشقی کے بڑے بیٹے تھے، جنہیں صاحب البرکات بھی کہا جاتا ہے، اور جو مشہور قادریہ برکاتیہ صوفی سلسلے کے بانی بھی تھے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے ان کی شان میں لکھا ہے
حب اہل بیت دے آل محمد کے لیے
کر شہیدِ عشق حمزہ پیشوا کے واسطے"
ولادت اور ابتدائی حالات زندگی
حضرت سید شاہ آل محمد مرہروی 18 رمضان 1111 ہجری (10 مارچ 1700) کی بابرکت رات کو، حضرت سید شاہ برکت اللہ مرہروی عشقی کے بڑے فرزند کے طور پر، آج کے ضلع ہردوئی کے ایک چھوٹے سے قصبے بلگرام شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کو پیدائش کے وقت سے ہی ایک روحانی ماحول ملا، آپ کے والد برصغیر پاک و ہند کے عظیم صوفی شیوخ میں سے ایک تھے۔ اپنے عظیم والد کی تربیت میں ہی حضرت سید شاہ آل محمد نے اپنی ظاہری اور باطنی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد انہیں ان کے والد بزرگوار نے بیعت کیا اور سلسلے میں داخل کرنے کی اجازت و خلافت سے نوازا اور اپنی سجادگی عطا کی، جس کے بعد آپ تصوف و طریقت کے ماہ کامل بن کر چمکے۔
ان کے نام اور شخصیت کا اثر تھا کہ خانقاہ برکاتیہ کو "بڑی سرکار" یا "سرکارِ کلاں" کا خطاب حاصل ہوا، جو کہ اب بھی مرہرہ شریف کے اس عظیم ترین روحانی سلسلے کے لیے مذہبی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
عبادت و ریاضت اور سنت کی پیروی سے معمور زندگی
حضرت سید شاہ آل محمد مرہروی کی زندگی عبادت، ریاضت، مجاہدہ اور سلوک کے ذریعہ، معرفت الہی کے حصول سے عبارت تھی۔ آپ نے مسلسل 18 سال شدید روحانی مجاہدات اور خلوت نشینی میں گزارے، بشمول تین سال مسلسل اعتکاف کے۔ آپ کی عبادت اتنی زیادہ تھی کہ طویل سجدوں کی وجہ سے آپ کی پیشانی پر ایک واضح نشان بھی بن گیا تھا۔ آپ کی خوراک بہت معمولی تھی، جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کشی اور محبت الہی کی علامت تھی۔
اس طرح حد سے زیادہ مجاہدات کا اثر ان کی جسمانی صحت پر بھی ہوا۔ شدید مجاہدات کے نتیجے میں آپ سانس کی دائمی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ جب انہیں علاج کے لیے دہلی لایا گیا تو ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر یہ کہہ دیا کہ ’’ایسی روحانی بیماری کا علاج ہمارے پاس نہیں بلکہ صاحب البرکات حضرت سید شاہ برکت اللہ مرہروی پیمی عشقی کے پاس ہے‘‘۔
اگرچہ امرا، حکمران اور گورنر آپ کے در پر کھڑے رہتے تھے، لیکن حضرت سید شاہ آل محمد نے کبھی بھی دنیاوی معززین کو خود تک رسائی کی اجازت نہیں دی، اس کے بجائے آپ نے ہمیشہ حقیقی سالکوں، درویشوں اور غریبوں کو اپنی صحبت بابرکت سے نوازا۔ آپ کا دربار ہمیشہ ظاہری اور باطنی علوم کے علما سے بھرا رہتا تھا۔
گہری محبت اور روحانی لگاؤ
آپ صاحب البرکات حضرت سید شاہ برکت اللہ مرہروی پیمی عشقی کے سب سے پیارے اور بڑے فرزند تھے، جن سے آپ بے حد محبت کیا کرتے تھے۔ آپ کے صاحبزادے اور روحانی جانشین حضرت سید شاہ حمزہ عینی نے اس تعلق کو سادے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے:
’’میرے دادا حضرت صاحب البرکات کو حضرت آل محمد سے اتنی گہری محبت تھی، کہ اگر کبھی کسی شرعی عذر کی وجہ سے آپ کی نماز باجماعت چھوٹ جاتی تو میرے دادا کہتے، کہ آج مجھے نماز میں کوئی مٹھاس محسوس نہیں ہوئی، ان کا باہمی تعلق اور رفاقت ایسی تھی کہ حضرت آل محمدؐ نے اپنے والد کو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چھوڑا۔‘‘
حضرت آل محمد نے اپنے والد بزرگوار کو اپنے ہر کام کے بارے میں آگاہ رکھا، اور ان سے مشورہ کیے بغیر کبھی بھی کوئی اہم کام انجام دینے کی کوشش نہیں کی، جو کہ ان کے روحانی مقام و مرتبے کے مکمل تابع ہونے کی علامت ہے۔
روحانی ہدایات اور معجزاتی رہنمائی
حضرت آل محمد کی روحانی درس گاہ حکمت و معرفت سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔ انہیں ان کے والد نے صوفی سالکین کی تربیت سونپی تھی، اس ذمہ داری کو انہوں نے انتہائی تندہی اور پوری سمجھ بوجھ کے ساتھ انجام دیا۔ آپ کے اندر ان سالکین کو بھی فائدہ پہنچانے کی صلاحیت تھی، جو دوسرے شیوخ کی رہنمائی میں ٹھوکر کھا چکے تھے۔ وہ انہیں ان ہی جیسے اوراد و وظائف اور معمولات کے ذریعے راہ سلوک طئے کراتے تھے، جو انہیں اصل میں ان کے شیوخ نے دیا تھا، جس کی بدولت اکثر انہیں یہ محسوس ہوتا کہ یہ روحانی طور پر ان کے پہلے شیخ کی طرف سے ہی ہے، اس طرح ان کی وفاداری ان کے شیخ سے مضبوط ہوتی، بجائے اس کے کہ وہ اس کا کریڈٹ خود لیتے۔
ایک موقع پر ایک شخص حضرت آل محمد کے پاس آیا اور اس نے اپنی روحانی خستہ حالی، اور ذکر الٰہی میں غرق ہونے کی لذت سے محروم ہونے کی شکایت کی۔ حضرت نے اسے جواب کا انتظار کرایا، اور اپنے خادم کو حکم دیا کہ سالک کو جون کی گرمیوں میں ایک گرم کمرے میں بند کردے، اور اسے صرف سوکھی جوار کی روٹی اور مچھلی کھانے کو دے۔ نا امید اور مایوس اس شخص کو آخر کار شام تک اس کمرے سے نکالا گیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتا ہے تو اس نے چیخ کر کہا، "پانی!" حضرت نے مسکرا کر جواب دیا:
’’اگر تم نے اتنی آرزو اور تڑپ کے ساتھ خدا کی تمنا کی ہوتی تو اس کی یاد میں تم کو روحانی لذت میسر ہو جاتی۔‘‘
یہ حضرت آل محمد کا طریقہ تھا: باطنی شوق کو تجربے سے بیدار کرنا، نصیحت سے نہیں۔
علماء اور سالکین پر اثرات
اس سلسلے میں سب سے زیادہ دلکش بیان مولانا طفیل اترولوی بلگرامی کا ہے، جو ایک عالم دین اور سالک تھے، جو حضرت آل محمد کی زیارت کے بعد خانقاہ میں محبت الٰہی کی آگ سے سرشار ہوئے تھے۔ آنسو بہاتے ہوئے مولانا نے دنیاوی زندگی کو ترک کرنے، اور اپنی بقیہ زندگی حضرت کے روحانی گھر کے سائے میں گزارنے کا عہد کیا۔
جب مولانا کو بتایا گیا کہ انہیں سب سے پہلے اپنے دوستوں کو بلگرام واپس پہونچانا ہے، تو حضرت برکت اللہ نے انہیں اتنی محبت اور اعتماد کے ساتھ تسلی دی، کہ وہ دل ہی دل میں اطمینان کے ساتھ واپس بلائے جانے کا یقین کرتے ہوئے روانہ ہوگئے۔
شادی اور خاندان
حضرت سید شاہ آل محمد مرہروی نے اپنے ماموں حضرت شاہ عظمت اللہ کی بیٹی سے شادی کی۔ اس نکاح سے دو بیٹے پیدا ہوئے، حضرت سید شاہ حمزہ عینی اور حضرت سید شاہ حقانی، دونوں آپ کے روحانی نقش قدم پر چلے۔ آپ کی ایک بیٹی بھی تھی۔
انتقال اور آخری آرام گاہ
حضرت آل محمد مرہروی 16رمضان المبارک 1164ھ کو مرہرہ شریف اترپردیش میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ اپنے والد حضرت سید شاہ برکت اللہ کی قبر کے پاس ایک خصوصی تعمیر شدہ قبر میں آرام فرما ہیں۔ ان کی قبر پورے برصغیر اور بیرون ملک کے سالکوں اور عقیدت مندوں کے لیے مرکز عقیدت بنی ہوئی ہے۔
میراث اور روحانی وارث
حضرت آل محمد کی میراث سلسلہ برکاتیہ کی مذہبی تاریخ میں مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد کافی زیادہ ہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت سید شاہ حمزہ عینی، حضرت سید شاہ محمد حقانی، حضرت شاہ بزرگ مارہروی، حضرت مفتی جلال الدین اور حضرت شاہ محمد شاکر ہیں۔
ان اولیاء میں سے ہر ایک نے حضرت آل محمد کی روحانی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کی زندگی مخلصانہ زہد و تقوی، سخت نظم و ضبط، اور خُدا کی مرضی کے آگے سرتسلیم خم کرنے سے عبارت تھی۔ ایک ایسے دور میں کہ جب لوگ اکثر چند لمحوں میں روحانیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ کی مقدس زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سچی روحانیت کا حصول صبر و استقامت، خلوص اور نفس کشی ذریعے ہی ممکن ہے۔
آج بھی آپ کا نام سالکوں کے دلوں کو روشن کرتا ہے، اور آپ کی خانقاہ آج بھی برہان الموحدین کے تابندہ ورثہ، اتحاد و محبت کے مسکن کے طور پر پروان چڑھ رہی ہے۔
حوالہ جات
1. احمد مجتبیٰ صدیقی برکاتی "حیاتِ مشائخ مرہرہ"
2. عبدالمجتبیٰ رضوی (2002) "تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ" المجمع المصباح مبارک پور، اعظم گڑھ
------
English Article: Burhan al-Muwahhideen: The Spiritual Heritage of Hazrat Sayyid Shah Aal-e-Muhammad Marehrawi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/burhan-muwahhideen-spiritual-heritage-aal-marehrawi/d/135208
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism