New Age Islam
Mon Jun 16 2025, 09:25 AM

Urdu Section ( 29 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Bulldozer: When will the Supreme Court take 'notice'? بلڈوزر: سپریم کورٹ کب ’نوٹس‘ لے گی؟

منو سیبا سٹین

27اگست،2024

بلڈوزر انصاف ملزمین کے خلاف فوری انتقامی کارروائی کے مترادف ہے جس کے تحت ان کے گھروں کوبڑی دھوم دھام سے مسمار کیا جاتاہے۔سنسنی خیرزمعاملات میں جہاں بہت زیادہ عوامی احتجاج ہوتاہے حکام اکثر عوامی جذبات کو تسکین دینے کے لیے اس شارٹ کٹ طریقہ کار کا سہارا لیتے ہیں۔اس رجحان کی شروعات اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کی تھی، جنہوں نے 2017 میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ ”میری حکومت خواتین اورمعاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف جرائم کے بارے میں سوچنے والے کسی بھی فرد کے گھر بلڈوزکردے گی“۔

2020 میں گینگسٹر وکاس دوبے اور ایم ایل اے مختا رانصاری کی عمارتوں کے خلاف انہدام کی کارروائیوں نے عوام کی توجہ حاصل کی۔ اسی سال ممبئی کارپوریشن نے کنگنا رناوت کی ایک عمارت کے کچھ حصوں کو گرادیا جب اس نے مہاراشٹر حکومت کے خلاف کچھ تنقیدی تبصرے کیے تھے۔ ان کارروائیوں پر بعض طبقات نے خوشی منائی۔بعض ریاستوں کے سیاست دانوں نے اس ماورائے عدالت طریقہ کو مناسب تحقیقات اور منصفانہ ڈٹرائل کے متبادل کے طور پر اپنالیا۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں یوگی آدتیہ ناتھ کی جیت کے بعد، ان کے حامیوں نے ریلیوں میں بلڈوزر لے کر جشن منایا۔”بلڈوزر بابا“، ”بلڈوزر بابا“ وغیرہ جیسی اصطلاحات یوپی اور ایم پی کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ وابستہ ہوگئیں، جو بظاہر ان کی جرات مندانہ اور تیز رفتار کارروائیوں کی صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔

آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے ہر شخص کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ”بلڈوزر انصاف“ قانون کی حکمرانی کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اس کے پہلے کہ قانون کے مطابق تفتیش مکمل ہوجائے اور ملزم کو عدالت سے مجرم قرار دیا جائے، تعزیری کارروائی کے طور پر ان کے گھر مسمار کردیے جاتے ہیں۔ پولیس کے علاوہ، یہ معلوم کرنے کاکوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے کہ آیاملزمین کے طور پر نامزد افراد جرم کے حقیقی مرتکب ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تفتیشی ایجنسیوں کے بے گناہ افراد کو پھنسانے کے لاتعداد معاملات ہیں،محض ان کے کہنے پر اس وقت تک کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ منصفانہ ٹرائل کے عمل کے ذریعے وہ الزام معقول شک و شبہ سے بالاتر نہ ہوجائے۔ منصفانہ ٹرائل کے حق کی نفی کے علاوہ جس کی آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت دی گئی ہے، اور قدرتی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، سزاکی غیر متناسب نوعیت کی وجہ سے بلڈوزر انصاف ناقابل قبول ہے۔ جب کسی ملزم کی رہائش گاہ گرائی جاتی ہے تو اس فرد کے خاندان کوبھی نقصان ہوتاہے۔ ایک فرد کے مبینہ جرم پر پورے خاندان کو سزادینا ایک وحشیانہ ردعمل ہے جس کی قانون کی حکمرانی والے مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔

بلڈوزر انصاف کی مضحکہ خیزی او رانتہائی غیر انسانی رویہ کا اندازہ 18 سالہ مسلم نوجوان عدنان منصوری کے کیس سے کیا جاسکتا ہے،جس کا گھر مدھیہ پردیش کے اجین میں گزشتہ سال مہا کال جلوس پر تھوکنے کے الزام میں منہدم کردیا گیا تھا۔ 150 سے زیادہ دن جیل میں گزارنے کے بعد، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس سال جنوری میں شکایت کنندگان اور گواہوں کے کیس سے مکرجانے کے بعد اسے ضمانت دے دی۔ شکایت کنندہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کیس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

کارروائیوں سے پتہ چلتاہے کہ اس طرح کی آئین او ر قانون مخالف کارروائیوں کا زیادہ تر مسلمان اور پسماندہ گروہ نشانہ بنے ہیں۔دہلی کے جہانگیرپوری (2022)، ایم پی کے کھرگون (2022)، یوپی کے پریاگ راج (2022)، ہریانہ کے نوح (2023) میں فسادات کے بعد متعدد مسلمانوں کے مکانات کو نشانہ بنایا گیا۔ ا س سال فروری میں شائع ہونے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کو انہدام کے 128 واقعات میں نشانہ بنایا گیا جس سے 617 افراد متاثر ہوئے۔ رپورٹ میں،ایمنسٹی انٹر نیشنل کے سیکریٹری جنرل’ایجنس کال مارڈ‘ نے کہا: ”بھارتی حکام کی طرف سے مسلمانوں کی جائیداد وں کی غیر قانونی مسماری، جسے بلڈوزر جسٹس کہا جاتا ہے، ظالمانہ اور خوفناک ہے۔ اس طرح سے لوگوں کواجاڑنا اور ان کے مکانات سے بے دخل کرنا انتہائی غیر منصفانہ،غیر قانونی او ر امتیازی ہے“۔پچھلے سال،پنجاب اورہریانہ ہائی کورٹ نے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد نوح میں انہدام کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ایک موثر مداخلت کی۔ ایک سخت حکم میں عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ایک ”خاص کمیونٹی“ کے گھر وں کو بغیر کسی قانونی عمل کے مسمار کر دیا گیا۔ عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ”ریاست کی طرف سے نسلی تطہیر کی مشق کرائی جارہی ہے“۔ اس سال کے شروع میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک ایسے خاندان کو معاوضہ دینے کا حکم دیتے ہوئے جس کی عمارت کو غیر قانونی طو رپر گرایا گیا تھا،مشاہدہ کیا، ”اب مقامی انتظامیہ اور بلدیاتی اداروں کے لیے یہ فیشن بن گیا ہے کہ وہ اصولوں اور فطری انصاف پر عمل آوری کیے بغیر کسی بھی مکان کو گرادیں او راسے اخبار میں شائع کرادیں“۔ عدالت نے کہا کہ اگر عمارت بنانے میں قوانین کی کچھ خلاف ورزیاں بھی ہوئی ہیں، تب بھی مالک کی تعمیرات کو ریگولر ائز کرنے کا موقع دینے بعد انہدام آخری راستہ اختیار کیا جانا چاہئے۔

یہ با ت انتہائی تشویشناک ہے کہ سپریم کورٹ نے ابھی تک اس ماورائے عدالت او رغیر آئینی طریقہ کار کی سخت مذمت نہیں کی ہے او رنہ ہی اس کا از خود کوئی نوٹس لیا ہے۔2022 میں،جہانگیر پوری او رکھرگون کے انہدام کے تناظر میں،انہدام کو ایک تعزیری اقدام کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دائر کی گئیں۔ اگرچہ عدالت نے جہانگیر پوی کی مسماری کو روکنے کیلئے عبوری حکم جاری کیا، لیکن بعد کی سماعتوں میں عدالت نے یہ موقف اپنایا کہ وہ ملزمین کے مکانات کو مسمار کرنے سے روکنے کے لیے کوئی عمومی آرڈر پاس نہیں کرسکتی اوریہ کہ ہر معاملہ میں الگ الگ تعمیراتی خلاف ورزیوں سے نمٹاجانا چاہئے۔ تاہم یہ ایک آسان موقف اختیار کرنے کے مترادف ہے جو زمینی حقائق کو دیکھنے میں ناکام ہے۔

یہاں ایک واضح رجحان ہے جسے نظر انداز کرنامشکل ہے: کسی بھیانک جرم یا فرقہ وارانہ فسادات کے فوراً بعد،کوئی سیاست دان یا وزیر کھلے عام اعلان کرتاہے کہ ملزمین کے گھروں کوبلڈوزر کردیا جائے گا۔ حکام، تقریباً ایک اشارے پر، مبینہ اشارہ کا انتظار ہی کررہے تھے۔ یہ کارروائیاں اکثر ایک یا دودن کے اندر اندر مکمل ہوجاتی ہیں، یہ ناقابل فہم ہے کہ درست قانونی عمل مثلاً شو کازنوٹس پیش کرنا، نوٹس دینے والے کے جواب پر غور کرنا، انہدام کا معقول حکم پاس کرنا، محض ایک یا دودن میں پورا کرلیا جائے۔ زیادہ تر ریاستوں میں مقامی اداروں کے قوانین کہتے ہیں کہ انہدام سے پہلے ایک سے دوہفتے کی مدت دیتے ہوئے نوٹس دیا جاناچاہئے۔انہدامی کارروائیوں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے، جو اکثر میڈیا کیمروں کی موجودگی میں انجام پاتی ہیں، اور سیاست دان اسے ”انصاف“ کے طور پر شہرت دیتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ پرجوش افسروں کے ذریعہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی چند مثالیں نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک جان بوجھ کر اورمنظم مہم ہے جو برسر اقتدار سیاستدانوں کی منظوری سے چلائی گئی ہے۔ مجرمین کو یقینا ان کے جرائم کی سزا ملنی چاہئے،لیکن عدالت میں منصفانہ ٹرائل کے ذریعے ان کا جرم ثابت ہونے کے بعد۔ انتظامی حکام کو جج، جیوری او ر جلاد کے طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، جو فوجداری قانون کے نفاذ کی آڑ میں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کررہے ہیں۔ بلڈوزر انصاف کا نمونہ اب قانون کی حکمرانی اور نظام عدل کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم ہوجائے گا اور خود عدالتی نظام کی موزونیت و افادیت ختم ہوجائے گی۔

27اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/bulldozer-supreme-court-notice/d/133070

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..