سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
30 اپریل 2025
نویں دسویں صدی کے عظیم فارسی شاعر رودکی سمرقندی کو پدر شعر فارسی یا فارسی شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ غزل کو ایک آزاد صنف شاعری کی حیثیت سے فروغ دینے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ فارسی غزل کی صنف عربی شاعری کی مقبول ترین صنف قصیدہ سے وجود میں آئی۔قصیدے کے ابتدائی بند میں شاعر ممدوح کی مدح سے پہلے عشقیہ اشعار کہتا ہے۔اس جزو کو تشبیب یا تغزل کہتے ہیں۔ تشبیب کے بعد شاعر ایک یا دو شعر میں قصیدے کا رخ ممدوح کی طرف موڑتا ہے۔ قصیدے کے اس جزو کو گریز کہتے ہیں۔ گریز کا دوسرا نام تخلص ہے۔ رودکی نےقصیدے کی تشبیب کو ایک آزاد صنف غزل کی حیثیت سے فروغ دیا اور رفتہ رفتہ غزل فارسی شاعری کی ایک مقبول صنف بن گئی۔چونکہ عربی قصیدوں میں یا قصیدوں کی تشبیب میں تخلص کا رواج نہیں تھاچنانچہ رودکی اور ابتدائی دور کے دیگرشعراء کی غزلوں میں تخلص غزل کے ایک مستقل جزو کی حیثیت سے نہیں آتا ۔ البتہ قصائد ، قطعات اور رباعیات میں کبھی کبھی کسی شعر میں موقع کی۔مناسبت سے تخلص کا,استعمال ہوتا تھا۔ رودکی اور اس کے ہم عصر شاعر دقیقی کے کلام میں تخلص کا,استعمال ایک آدھ جگہ یں ہوا ہے۔
دیوانِرودکی میں قصائد ، قطعات ورباعیات میں کہیں کہیں شاعر کا نام آتا ہے:
بیا اینک نگہ کن رودکی را
اگر بے جان رواں خوبی تنی را
رودکی چنگ بہ گرفت و نواخت
بادہ انداز کوسرود انداخت
رودکی کے ہم عصر شاعر دقیقی کی غزلوں میں بھی تخلص کا استعمال نہیں ملتامگر وہ کبھی کبھی قطعہ یا,وصیدے کے آغاز یا وسط میں اپنا نام لے آتے ہیں۔ ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو۔
دقیقی چار خصلت برگزیدہ است
بہ گیتی از ہمہ خوبی و زشتی
لب یاقوت رنگ و نالہء چنگ
مئے خوش رنگ و کیش زردھشتی
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دسویں صدی تک غزلوں میں تخلص کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا لیکن چعرا اپنی شعری تخلیقات میں عرب شعراء کی طرح ضرورت شعری کے تحت کلام۔کے آغاز یا وسط میں اپنا نام لے آتے تھے۔ٹھیک اسی طرح جس طرح قبل مسیح دور میں تخلیق کئے گئے بودھ نغموں تھیر گاتھا تھیری گاتھا میں بھنیتا لازمی طور پر سستعمال۔نییں ہوتی تھی اور شاعر کبھی کبھی اپنا نام گیت کے کسی شعر میں لے آتا تھا۔
گیارھویںنصدی سے فارسی غزلوں میں تخلص کا باقاعدہ اہتمام ملتا ہے۔ قصیدے کے جز گریز کو تخلص بھی کہا جاتا تھا جو تشبیب کا,آخری شعر ہوتا تھا۔ اس طرح جب تشبیب کو قصیدے سے الگ کرکے ایک الگ صنف غزل بنا لی گئی تو اس کا,آخری شعر تخلص کہلانے لگا اور پھر غزل۔کے آخری شعر میں آنے والے شاعر کے نام کے لئے ہی تخلص کی اصطلاح استمال ہونے لگی۔گیارھویں صدی عیسوی کے فارسی شعراء بابا افضل کوہی شیرازی اور خواجہ عبداللہ انصاری کی غزلوں میں تخلص ایک مستقل جز کی طرح موجود ہے۔
گفت کوہی کہ۔منم جمع باسماء صفات
ہر چیز بینی بہ جہاں خشک وتری خیروشری
انصاریا دریغ کہ ہر کس نمی شور
واقف بہ سر صبح ومعمائے نیم شب
بہر حال نارہویں صدی کے صوفی شاعر حکیم۔سنائی کی غزلوں میں تخلص کا باقاعدہ اہتمام نہیں ملتا۔ ان کی کچھ غزلوں میں تخلص آتا ہے اور کچھ میں نہیں۔ لیکن مجموعی طور پر گیارھویں اور بارھویں کے شعراء کی غزلوں میں تخلص ایک مستقل جز کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اس کی تقلید میں تخلص اردو غزل۔میں بھی رائج ہوگیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کہ گیارھویں صدی میں فارسی غزلوں میں تخلص کا تصور کہاں سے آیا؟عربی قصائد میں یا وصائد کی تشبیب میں تخلص کا استعمال نہیں ہوتاتھا۔ اس لئے جب رودکی نے قصیدے کی تشبیب کو الگ کرکے غزل کو ایک آشاد صنف شاعری کی حیثیت سے فروغ دیا تو انہوں نے غزل کے آخری شعر میں تخلص کا استعمال نہیں کیا۔
عربی شاعری میں وصیدے کے آخری شعر میں تخلص کا تصور نہیں تھا۔ ہاں ، عرب شعراء کبھی کبھی قصیدے کے آغاز یا وسط میں مضمون کے تقاضے کے تحت اپنا نام۔لاتے تھے جیسے عنترہ ایک قصیدے میں اپنا نام۔لاتا ہے۔
یدعون عنتروالدماح کائنھا
اشطان بئر فی لبان الادھم
عربی کے پہلے صوفی شاعر یحی معاذرازی (متوفی 258۔: ھ) کی ایک غزل میں اپنا نام شامل
۔ کیا ہے۔
یقولون یحیٰجن من بعد صحة
ولا یعلم۔العژال مافی حشائیا
عنترہ ساتویں صدی عیسویں کے شاعر تھے اور رازی نویں صدی کے۔ یحی کی غزل سے بھی معلوم۔ہوتا ہے کہ نویں صدی کےعربی شعراء قصیدے کی تشبیب الگ سے عارفانہ اشعار کے لئے استعمال کرنے لگے تھے نویں اور دسویں صدی میں رودکی کے ہم۔عصر صوفی شاعر منصور حسین بن حلاج کی بھی ایک غزل۔مشہور ہے جو انہوں نے قبل ہونے سے قبل کہی تھی۔ اس غزل۔میں وہ اپنا نام کسی شعر میں نہیں لاتے۔ لہذا، قصیدے یا نظم۔کے آخری شعر میں تخلص کا استعمال۔عربی شاعری میں نہیں ملتا۔ اسی بنا پر ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا:
یہ بے مثال اختراع شعرائے ایران کی ہے۔ اور دنیا کی کسی اور زبان میں اس رسم۔کا پتہ نہیں ملتا۔"(اردو ادب کی۔مختصر تاریخ از انور سدید)
لیکن آٹھویں صدی کے بودھ گیت چریہ پدوں میں بھنیتا (تخلص) کی روایت کی روشنی میں ان کا یہ قول غلط ثابت ہوجاتا ہے۔ چریہ پدوں کی تخلیق کا سلسلہ آٹھویں صدیعیسوی سے قبل سے جاری تھا جبکہ فارسی کی غزلوں میں تخلص کا رواج گیارھویں صدی سے ہوا۔ انور سدید کے مطابق غزلوں میں تخلص کا استعمال تیرھویں صدی سے شروع ہوا۔ یہ درست نہیں ہے۔وہ لکھتے ہیں:
اس اصطلاحی معنی میں اس لفظ کا,استعمال آٹھویں صدی ہجری (1300ء) ء سے قبل نظر نہیں آتا۔"
(اردو ادب کی مختصر تاریخ انور سدید)
اس لئے یہ پورے وثوق سے کہا جاتا ہے کہ گیارھویں صدی کے فارسی شاعروں کے سامنے چریہ پدوں کے نمونے ضرور تھے اور انہوں نے چریہ پدوں کی نہج پر ہی غزلوں کے مقطع میں تخلص کی روایت کا آغاز کیا۔اگر نویں یا دسویں صدی میں رودکی نے اپنی غزلوں یا قصائد کے آخری شعر میں تخلص کا استعمال کیا بھی ہو تو چریہ پدوں کی قدامت کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے غزلوں کے مقطع میں تخلص کی روایت چریہ پدوں ہی سے مستعار لی کیونکہ اس وقت تک دنیا کی کسی بھی زبان کی شاعری میں تخلص کا رعاج نہیں تھا۔یہاںدو چریہ پدوں کے آخری شعر پیش ہیں:
کانہو کہتا ہے مہا سکھ کا زیور کیسا
گونگا جیسے بہرے کو سمجھائے
(کانہو پاد)
راہ پکڑ کر اوپر کی طرف بڑھتے چلو
سراہا کہتا ہے گگن میں داخل ہوگے
(سراہا پاد)
اد بات کے تارہخی شواہد موجود ہیں کہ دسویں گیارھویں صدی کے ایرانی عوام خصوصاً ایرانی شعراء بودھ شاعروں کے دوہوں اور نظموں سے واقفیت رکھتے تھے۔ عہد عسطی میں بودھ مذہب ہندوستان کے علاوہ افغانستان ، ایران اور چین میں پھیل چکا تھا۔ سمرقند میں (جو اس وقت ایرانی سلطنت کا ایک حصہ تھا)تھا بودھ مذہب اور زرتشتی مذہب یکساں طور پر مقبول تھے۔ ساتوہں صدی میں اسلام بھی اس خطے میں پہنچا اور ایران اور افغانستان کا خطہ ایک۔کثیرالمذاہب خطہ بن گیا جہاں اسلام۔، بودھ مذہب رزتشتی مذہب اور عیسائیت کے پیروکار ایک دوسرے کے نظریات ، فلسفے ، لٹریچر اور,ثقافت کا اثر قبول کررہے تھے۔ایران میں بودھ مذہب تقریباًایک ہزار سال تک مقبول رہااور زرتشتی مذہب اور اسلام کے ساتھ زندہ رہا۔تیرھویں صدی میں ایران میں ایل خاناں (ہلاکو خاں ) کی حکومت کے قیام کے ساتھبودھ مذہب 1256ء میں ایران کا سرکاری مذہب بن گیا اور,س کی یہ حیثیت 1295ء تک برقرار رہی۔بودھ مذہب نے شاعری ، موسیقی اورناٹک کی حوصلہ افزائی کی۔ بودھ سدھوں کے دوہے اور نظمیں پوری بودھ دنیا میں گائی جاتی تھیں ۔ بودھ سدھوں کے چریہ گیت بودھ مکتبوں کے درسی نصاب میں شامل تھے۔ پہلی صدی عیسوی کے بودھ شاعر اور ناٹک کار اشواگھوش کی دو نظمیں بدھ چرت ور سوندریہ آنند بودھ حلقوں میں بہت مقبول تھیں۔۔بدھ چرت گوتم بدھ کی حیات اور تعلیمات پر مبنی تھی اور یہ نظم۔ہندعستان اور دیگر بودھ اکثریتی علاقوں میں وسیع پیمانے پر مذہبی تقریبات میں گائی جاتی تھیں۔ اشعاگھوش کے تین ناٹک میںنسے ایک کا نام۔ساری پتر پراکرن ہے۔ یہ ناٹک بدھ کے بزرگ ترین حواری ساری پتر کی حیات پر مبنی ہے۔لہذا ، یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ عہد وسطی میں بودھ اکثریتی علاقوں میں مذہبی موضوعات پر لکھے گئے ناٹک بھی کھیلے جاتے تھے۔ایک چریہ پد میں بدھ ناٹک کا ذکر بھی ملتا ہے: چریہ پد ؎17 کا شعر ہے:
ناچنتی ناجل گانتی دیوی
بدھ ناٹک بسما ہوئی
(وجرآچاریہ ناچتے ہیںندیوی گاتی ہے بدھ ناٹک اختتام۔پذیر ہوتا ہے )
ان تمام دلائل وشواہد کی روشنی میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دسویں گیارھویں صدی کے شعرائے فارسی بودھ شعروادب خصوصاً چریہ پدوں سے واقف تھے اور یہ کہ فارسی غزل۔میں تخلص کا رواج چریہ پدوں کی بھنیتا سے ہی مستعار ہے کیونکہ اس وقت تک فارسی ، عربی یا کسی اور زبان کی شاعری میں تخلص کے رواج کا پتہ نہیں ملتا۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/buddhist-song-charyapada-urdu-ghazal/d/135380
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism