ودود ساجد
3 نومبر،2024
مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کی ظالمانہ قتل وغارت گری کا آج (اتوار 3نومبر)393واں دن ہے۔غزہ انتظامیہ کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک 45ہزار سے زائد فلسطینی شہید او رایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔ان میں عورتوں او ر بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ غزہ کی 80فیصد سے زیادہ عمارتیں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر جنگ آج رک جاتی ہے تو غزہ کو اسی پہلے جیسی حالت میں پہنچنے کے لئے تین صدیاں درکار ہوں گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب غزہ پہلے جیسی حالت میں کبھی نہیں پہنچ سکے گا۔ جو جانی نقصان ہوا ہے ظاہر ہے اس کی تو کوئی تلافی ہوہی نہیں سکے گی۔ لیکن دوسوال اپنی جگہ پر قائم ہیں اور اسرائیل کے شہر ی آج کل انہی سوالات کے جواب تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں: (1) کیا خود اسرائیل بھی اپنی پہلے جیسی حالت میں پہنچ پائے گا اور (2)یہ کہ جو ہمہ جہت نقصان وہ اٹھا چکا ہے کیا اس کی بھی تلافی ہوسکے گی؟۔ فی الحال اسرائیل کو ان دونوں سوالات کے جواب دریافت کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
فلسطین بظاہر اپنی تاریخ کے انتہائی تکلیف دہ دور سے گزر رہا ہے لیکن فی الواقع اسرائیل بھی اپنی تاریخ کے انتہائی بدترین دور میں داخل ہوگیا ہے۔دونوں کی طاقت اور دونوں کے نقصانات کے درمیان کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔لیکن دونوں کے امکانات اور دونوں کے وقار کے درمیان زمین آسمان کا فرق واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے۔ایران پر 23 اکتوبر کو اپنے دوسرے حملہ کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا تھاکہ ”ان حملوں نے اپنے تمام مقاصد کو حاصل کرلیاہے“۔جب کہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کے چیف جنرل ’ہرزی بالیوی‘ نے کہا تھا کہ ’یہ ایونٹ ابھی ختم نہیں ہواہے اور یہ کہ ہم نے کچھ نشانوں کو بچا رکھا ہے“۔ ان دونوں کے بیانات کو ملا کر پڑھا جائے تو ا س سے دوباتیں سامنے آتی ہیں: (1)یہ کہ نتن یاہو ایران کے کسی ممکنہ جوابی حملے سے خوف زدہ ہیں اور اسے یقین دلانا چاہتے ہیں کہ بس اب ہم حملہ نہیں کرینگے اور (2)یہ کہ فوج یہ کہنا چاہتی ہے کہ ابھی ایران کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا ہے۔ ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے حملوں کے دو روز بعد کہا تھاکہ اسرائیل کے حملہ کو کم بھی نہ سمجھا جائے او ر بڑھا چڑھا کر بھی پیش نہ کیا جائے۔
8اکتوبر 2023 کو حماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد عددی (مالی اور جانی) تناسب کے اعتبار سے زیادہ نقصان فلسطینیوں شہید ہوئے ہیں جب کہ حکومت اسرائیل کے مطابق اس کے 1139 شہری (جن میں اکثریت فوجیوں کی ہے) ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیل کے مشہور صحافی گیڈیون لیوی کاکہناہے کہ اسرائیل اور خاص طور پر نتن یاہو کی یہ عادت ہے کہ وہ نقصان کو اولاً توچھپاتے ہیں اور جب بتانا ضروری ہوتا ہے تو کم کرکے بتاتے ہیں۔لیکن یہ بات توواضح ہے کہ ہلاک ہونے والے اسرائیل کے فوجیوں کا تناسب حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد کئی گنا ہوگیاہے۔23 ستمبر سے یکم نومبر تک حز ب اللہ نے اسرائیل کے 95 فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ یہ بات تو خود اسرائیلی فوج کے مختلف ذرائع نے تسلیم کی ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ لڑائی بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔ اسی دوران یہ بات بہت تیزی کے ساتھ گشت کررہی ہے کہ امریکہ چاہتاہے کہ اسرائیلی حز ب اللہ کے ساتھ جلد از جلد جنگ بندی کا معاہدہ کرلے۔ پچھلے ایک مہینے کے دوران امریکہ کے کئی وزراء اور اعلیٰ حکام متعدد مرتبہ مصر، قطر، لبنان اور اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔خود یاہو نے بھی حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے اشارے دیئے ہیں۔حزب اللہ کے نئے قائد نعیم قاسم نے بھی چارج سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ہم نہ تو جنگ کو لمبی کرنا چاہتے ہیں او رنہ ہی تھکے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 1701 کے مطابق جنگ بندی کا ایک بامقصد معاہدہ ممکن ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے نتن یاہو سے جولائی میں کہا تھا کہ ’امریکہ کا صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد میرے دفتر پہنچنے سے پہلے جنگ ختم ہوجانی چاہئے۔
متعدد رپورٹوں او راسرائیلی وزیراعظم کے بیانات کی کڑیاں ملاکر دوباتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں: (1)یہ کہ نتن یاہو تھک گئے ہیں لیکن ان کی خون کی پیاس ابھی بجھی نہیں ہے۔(2) حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کے کس بل ڈھیلے کردئے ہیں۔حزب اللہ کی طرف سے داغے جانے والے میزائل ہر روز اسرائیل کے شہروں کے اندر اور خاص طور پر تل ابیب اور حیفا میں آکر گررہے ہیں۔پچھلے دنوں کئی میزائل تو نتن یاہو کی ذاتی رہائش گاہ سے ٹکرا گئے۔ اسرائیل کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں نتن یاہوکے خلاف ماحول شدید تر ہوگیاہے۔شہریوں اور حریف سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ نتن یاہو نے اپنی ضد کے سبب پورے اسرائیل کا مستقبل داؤ پر لگادیاہے۔اسرائیل کے سو سے زائد جو شہری ابھی تک حماس کے قبضہ میں ہیں ان کا کوئی سراغ تک نہیں لگ سکا ہے۔غزہ پر خطرناک ترین مادوں کے ساتھ بم باری کی گئی ہے۔ اس سے ماحولیات میں جو ہلاکت خیز کثافت پیدا ہوئی ہے اس سے اسرائیل کے سرحدی شہر بھی متاثر ہوئے ہیں۔اطلاعات یہ ہیں کہ یاہو کو خود اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔نتن یاہو کی ذاتی رہائش گاہ پر حزب اللہ کے حملوں کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حزب اللہ کو بہت سی خفیہ معلومات خود وزیر اعظم کے دفتر کے کئی حکام نے ہی پہنچائی ہیں۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ایسے کئی افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔
جو اسرائیل پوری دنیا کو تحفظ او رجاسوسی کی ٹکنالوجی فراہم کررہاتھا خود اس کی کابینہ زیر زمین میٹنگیں کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔کیا اسرائیل کے لئے یہ کچھ کم ہزیمت کی بات ہے؟ 28 اکتوبر کو اسرائیل کے انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف اسرائیل‘ نے سیکیورٹی حکام کے حوالے سے لکھا کہ ’اب کابینہ کی میٹنگیں وزیر اعظم کے د فتر یا ڈیفنس ہیڈ کواٹر پر نہیں ہوں گی بلکہ اب کسی زیر زمین خفیہ مقام پر ہوں گی‘۔تفصیل میں یہاں تک بتایا گیا تھا کہ اب کسی وزیر اور اعلیٰ حکام کے موبائل فون بھی باہر ہی رکھوالئے جائیں گے۔اخبار نے لکھا تھا کہ ان میٹنگوں میں اب چائے پانی کا بھی نظم نہیں ہوگا او رکسی ایک مقام پر ایک ہی بار میٹنگ ہوگی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم اور دوسرے شرپسندوزیر وں پر حزب اللہ کا کتنا خوف سوار ہوگیاہے۔اسرائیل اس کی بھی تحقیقات کررہاہے کہ آخر اس کے دفاعی نظام کو کیا ہوااور یہ کہ کیوں حزب اللہ کے داغے ہوئے کچھ میزائل، دفاعی نظام کو دھوکا دے کر اسرائیل کے اندر آکر گر رہے ہیں۔
اسرائیل میں حماس کے قبضہ میں موجود شہریوں کی گلو خلاصی کے لئے بھی مسلسل احتجاج ہورہے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں سے نتن یاہو کے خلاف ماحول بن رہاہے۔جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے کیلئے چو طرفہ دباؤ پڑرہاہے۔ اسرائیلی شہری کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ’اب حماس اور حزب اللہ سے معاہدہ کرنا ہی ہوگا اور اس کے بغیر نہ تو اغوا شدہ شہری واپس آسکیں گے اور نہ ہی اسرائیل کا امن وسکون واپس آسکے گا۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہوداولمرٹ نے کہا ہے کہ ’یہ ناممکن ہے کہ اسرائیل غزہ میں فتح حاصل کرلے یا وہ حماس کو تباہ کردے۔‘ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کے لئے عالمی حمایت میں مسلسل کمی ہو سرہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت نہ حماس اسرائیل کا دشمن ہے او رنہ ہی حز ب اللہ بلکہ اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن نتن یاہو ہی ہے۔ اولمرٹ نے رفح پر حملے کو بھی احمقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا خطرہ ہوگا کہ جس سے ہم نپٹ نہیں سکیں گے۔ اولمرٹ نے 7اکتوبر2023 کے حماس کے حملے کو نتن یاہو کے غرور وتمکنت کا نتیجہ قرار دیاہے۔
رپورٹوں کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ نتن یاہو کی ضد نے اسرائیل کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کو مزید خطرہ میں ڈال دیاہے۔ اسرائیل نے چاروں طرف اپنے خلاف محاذ پیدا کرلئے ہیں۔اسرائیل پر ایران کے جوابی حملے کا وہ ابھی تک ویسا ہی جواب نہیں دے سکا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ اور زیادہ سخت او رموثر حملے کی تیاری کررہاہے۔ اس ضمن میں اس خبر کی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ نتن یاہو حماس سے بھی جنگ بندی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ خبر اسرائیل کے اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں ہی چھپی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی خبر آئی ہے کہ حماس نے ایسی جنگ بندی سے انکار کردیاہے جس کے تحت اسرائیل پوری طرح غزہ سے نہ نکلے۔اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کو پوری طرح خالی کردے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسرائیل کی قید میں بند تمام فلسطینی شہریوں کو بیک وقت چھوڑ ا جائے۔ ان خبروں سے تو ایسا ہی لگتاہے کہ حماس کو جنگ بندی کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اسرائیل میں اندرونی طور پر عوامی سطح پر بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔وہا ں ہر شہری کو لازمی طور پر فوجی خدمات انجام دینی ہوتی ہے۔ لیکن انتہائی شرپسند اور غالی قسم کا ایک یہودی طبقہ ’ہریدی‘ اس لازمی شرط سے چھوٹ چاہتا ہے۔اس ضمن میں وہاں ایک قانون بنانے کی کوشش کے تحت پارلیمانی بحث بھی جاری ہے۔ لیکن دوسرے صہیونی طبقات اس سے ناراض ہیں کیونکہ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کی ہلاکت کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ اب صہیونیوں او ر انتہائی صہیونیوں کے درمیان تصادم ہورہے ہیں۔ انتہائی صہیونی اور خاص طو پر ’ہریدی‘ کہتے ہیں کہ ہمارا کام جنگ میں لڑنا نہیں ہے کیونکہ ہم اعلی وبرترنسل سے ہیں۔ صہیونیوں نے الزام لگایا ہے کہ محاذ جنگ پر زیادہ تر ہمارے ہی نوجوانوں کو مرنے کے لئے بھیج دیا گیاہے۔ ایسی صورت میں صہیونی اور انتہائی صہیونی آپس میں ہی الجھ گئے ہیں۔ کیا یہ ساری علامات اسرائیل کی بقاء کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟
3نومبر،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/bloodthirst-brutal-massacres-palestinians-israel/d/133613
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism