ودود ساجد
13 اپریل،2025
اس موضوع پرلکھتے ہوئے ذہن ودل ساتھ نہیں دیتے۔’کی بورڈ‘ پر انگلیاں چلتی تو ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے انگلیاں اپنے ہی خون میں ڈبوکرچلائی جارہی ہیں۔فلسطین کے مظلوموں کے احوال زار کی تفصیلات اور اطلاعات توآرہی ہیں لیکن وہ ساری اصطلاحات ختم ہوچکی ہیںجن کے سہارے اسرائیل کی درندگی کی شدت کا اظہارکیاجاتا تھا۔وہ سارے فلسفے اور ساری منطق بھی ختم ہوچکی ہے جس کے سہارے بتایا جاتا تھا کہ اگرفلسطینیوں کا نقصان ہورہا ہے تو اسرائیل کا بھی ہورہا ہے۔ہرچند کہ 23لاکھ مظلوموں میں سے کوئی 20-22لاکھ ابھی زندہ ہیں لیکن عملاً ان سب کو بھی قتل کردیا گیا ہے۔ان کے پاس اب نہ کھانے کو کچھ ہے اور نہ پینے کو‘ نہ اوڑھنے کوکچھ بچا ہے اور نہ پہننے کو ۔لیکن اس کے باوجودغزہ کی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبوں ‘ٹوٹے پھوٹے درودیواروں‘ زمین پر گرے ہوئے مساجد کےمیناروں ‘لاشوں سے اٹے پڑے قبرستانوں اوراجڑے ہوئے ہسپتالوںسے ایک آوازمسلسل آرہی ہے : حسبنا اللہ ونعم الوکیل
سچی بات یہ ہے کہ غزہ سے آنے والی حسبنا اللہ ونعم الوکیل کی آوازیں ہمارے مردہ جسموں میں کچھ تحریک پیدا کردیتی ہیں۔یہ آوازیں یقین دلاتی ہیں کہ ابھی اہل غزہ زندہ ہیں‘ابھی باطل کاغلبہ نہیں ہوا ہے‘ابھی ان کاایمان سلامت ہے۔ اقوام متحدہ اور غزہ کے انتظام کاروں نے اطلاع دی ہے کہ ڈیڑھ سال سے جاری حملوں میں شہید ہوجانے والوں کی تعداد اب 60ہزار کو پار کرچکی ہے۔14مئی1948سے آج تک کے 77برسوںکا ایک سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ ایسا کوئی موقع کبھی نہیں آیا کہ جب اسرائیل اور فلسطین کے مرنے والوں میں کچھ تناسب قائم ہوا ہو۔14مئی1948کواسرائیل کے قیام کے بعداولین عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی توچھ ہزار 373مارے گئے جبکہ فلسطینی 16ہزارسے زیادہ شہید ہوئے۔ سات اکتوبر2023کے حماس کے حملہ میں 1200اسرائیلی ہلاک ہوئے اور اس کے جوا ب میں اسرائیل اب تک 61ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔فی الواقع یہ اب تک کی سب سے غیر متناسب اور انتہائی غیر متوازن جنگ ہے۔
لیکن کیا اس جنگ سے صرف اہل فلسطین کا ہی نقصان ہورہا ہے؟اس سوال کی بنیاد پر کئے جانے والامطالعہ تصویر کا دوسرا رخ بھی واضح طورپر پیش کرتا ہے۔ابھی تک اسرائیل کے ایک ہزار فوجی اور ایک ہزار شہری مارے جاچکے ہیں۔اسرائیل کے عبرانی زبان کےاخبار’یدیعوت اہرونوت ‘ نے لکھا ہے کہ ’اسرائیل کا اقتصادی بحران بھی زیادہ بدترین ہوگیا ہے اور’پاس اوور‘کی تقریبات منانے کیلئے ہزاروں اسرائیلی خیراتی اداروں کے ’فوڈ پارسل‘لینے کیلئے قطاروں میں کھڑے ہیں۔پاس اوور ایک یہودی تہوارہے جسے عبرانی زبان میں’پیساش‘ کہتے ہیں۔اس کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔یہودی علماء عبرانی زبان میں لکھی ہوئی جس بائبل کےاصل ہونے کا دعوی کرتے ہیں اس میں ’پیساش‘ کا ذکر ملتا ہے۔یہ تقریبات ان یہودیوں کی یاد میں منعقد کی جاتی ہیں جنہوں نےبائبل کے مذکورہ نسخہ کے مطابق سینکڑوں سال پہلے اہل مصر کی غلامی سے تنگ آکرہجرت کی تھی۔یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہودیوں سے ہی’ اہرام مصر‘ تعمیر کرائے گئے تھے۔لہذا ہر سال اسی ہجرت اور غلامی سے نجات پانےکی خوشی میں اسرائیل میں سات روزہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ان سات دنوں کو ’پاس اوور لیو‘کہا جاتا ہے۔ان میں پہلے اور آخری دن سرکاری طورپر عوامی چھٹی ہوتی ہے۔ان دو دنوں میں کام کرنا ممنوع ہوتا ہے۔یہی نہیں اس پورے ہفتے روایتی کھانا بھی ممنوع ہوتا ہے۔ان دنوں میںبس ایک مخصوص کھانا کھایا جاتا ہے جسے ’سیدر‘کہا جاتا ہے۔اس میں غیر خمیری روٹی اور تلخ جڑی بوٹیوںکا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سال یہ تقریبات 12اپریل کی شام سے 25اپریل تک منعقد کی جارہی ہیں۔
اسرائیل کے نیم سرکاری اخبار یدیعوت اہرونوت کے مطابق جنگ کے سبب پیدا ہونے والی اقتصادی بدتری سےہزاروں اسرائیلی شہری مذکورہ خصوصی کھاناتک بنانے کے متحمل نہیں رہے۔اس کیلئے انہیں خیراتی اداروں کے ذریعہ تقسیم کئے جانے والے ’سیدر‘پر قناعت کرنی پڑ رہی ہے۔لہذا آج کل اسرائیل میں اس طرح کے خیراتی اداروں کے آگے ہزاروں کی تعداد میں لوگ قطار اندر قطار کھڑے نظر آرہےہیں تاکہ وہ کھانا مفت حاصل کرسکیں جو ان سات دنوں کے دوران کھایا جاتا ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل میں اس وقت اقتصادیات کا کیا حال ہے۔اسرائیل روئے زمین پر واحد ملک ہے جس کے ہرشہری کامعیار زندگی اور فی کس آمدنی امریکہ‘برطانیہ اور یوروپ کے کئی شہریوں سے بہت اعلی ہے۔لیکن اب اس معیار میں زبردست کمی آئی ہے۔ اخبار یدیعوت اہرونوت نے لکھا ہے کہ ’حالیہ دنوں میں، پورے اسرائیل میں خیراتی اداروں نے ہزاروں ضرورت مند خاندانوں کو’ پاس اوور‘ کے لیے امدادی پیکج لینے کے لیے آتے دیکھا ہے۔ تین بچوں کی ماں’ لیات‘ کہتی ہے کہ ’’مدد کے بغیر میں پاس اوور نہیں منا سکوں گی‘‘۔ سات بچوں کی ماں ایلانیت نے کہاکہ’’مددحاصل کئےبغیر ہمارے گھر میں کھانا نہیں ہوگا‘‘۔مختلف رپورٹوں کا تجزیہ بتاتا ہے کہ 2023میں اسرائیل کی 20فیصدآبادی غربت کی سطح سے نیچے آگئی تھی۔20لاکھ لوگوں کا غریبی کی سطح سے نیچے آجانا اسرائیل کیلئے کوئی وقار کی بات نہیں ہے۔38ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادیات کو فروغ دینے والی تنظیم ’اوای سی ڈی‘ نے اسرائیل کو ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ شرح غربت رکھنے والا ملک قرار دیدیا ہے۔اسرائیل بھی اس تنظیم کا رکن ہے۔
ایک بہت دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیل میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اور 2025میں اسرائیل کی اقتصادیات سب سے افضل مقام پر ہوگی۔اسی طرح اپنے ملک سمیت پوری دنیا کو ’ٹیرف‘کے جال میں پھنساکر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ ’امریکہ میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اورامریکہ جلد ہی اپنی تاریخ کے افضل ترین دور میں ہوگا۔کچھ اسی طرح کی بات کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے دورہ کے دوران پنجابی زبان میں ہمارے وزیر اعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ ’سب چنگا سی‘۔ ٹرمپ کا ذکر آیا تو یہ ذکربھی ضروری ہے کہ ٹرمپ نے اپنے جارحانہ ٹیرف سے چند ہی دنوں میں کھربوں ڈالر تو کمالئے ہیں لیکن اس ٹیرف کے کھیل نے ہمہ رخی خطرات بھی پید کردئے ہیں۔جہاںپوری دنیاکی اقتصادیات اتھل پتھل ہوگئی ہے وہیں امریکہ بھی خطرات سے گھر گیا ہے۔متعدد ماہرین اقتصادیات نے تجزیہ کیا ہے کہ اگر ٹرمپ کو نہ روکا گیا تو خود امریکہ کی اقتصادیات کو زبردست نقصان ہوگا۔چند ہی دنوں میں امریکہ میں 32فیصد لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے۔بہت سے ملکوں نے امریکہ کو کی جانے والی برآمدات سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔کئی بڑے ملکوں نے جن میں چین بھی شامل ہے دوسرے ملکوں میں مارکیٹ کی تلاش شروع کردی ہے۔ اس ٹیرف وار سے ہندوستان بھی متاثر ہوا ہے ‘حالانکہ ٹرمپ ہمارے وزیر اعظم کے دوست ہیں۔نتن یاہو بھی ٹرمپ کو اپنا دوست بتاتے ہیں لیکن امریکہ نے اسرائیل پر بھی 24فیصد ٹیرف لگادیا ہے۔
عالمی اقتصادیات ایک طویل اور تفصیل طلب موضوع ہے۔واپس اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں۔سات اکتوبر 2023کے حملہ کا بہانہ بناکر اسرائیل کے وزیر اعظم نے خفیہ ایجنسی ’شن بیت‘کے سربراہ رونن بارکو برخاست کردیا تھا۔لیکن وہاں کی ہائی کورٹ نے اس حکم پر روک لگادی ہے۔گھریلو محاذپر نتن یاہو کی یہ بہت بڑی شکست ہے۔اپوزیشن کا الزام ہے کہ نتن یاہو دراصل اپنے خلاف بدعنوانی کے معاملات سے توجہ ہٹانے کیلئے ان افسروں کو ہٹارہے ہیں جو ان کے جنگی جنون کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔شن بیت کے سربراہ رونن بھی انہی میں سے ایک تھے۔رونن بار کی حمایت میں 250کمپنیوںکی یونین نے اعلان کیا تھا کہ اگر نتن یاہو نے عدالت کا حکم نہ مانا تو پورے اسرائیل کی اقتصادیات کو ٹھپ کردیا جائے گا۔ایک رپورٹ کے مطابق 2023میں اسرائیلی شہریوں نے جس تعداد میں ملک چھوڑ دیا تھا اس میں 2024میں59فیصد کا اضافہ ہوگیا تھا۔ان لاکھوں اسرائیلیوں میں بڑی تعداد ٹیکنکل ماہرین کی ہے۔ بدعنوانی کے معاملات میں سماعت کے دوران نتن یاہو کو ججوں کی لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا جب وہ چیخ چیخ کر بولنے لگے۔ججوں نے کہا کہ اپنی حد میں رہئے۔اب ایک ہزار ریزرو فوجیوں نے خط لکھ کر نتن یاہو سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ کی بجائے گفتگو کی جائے اور اسرائیل کے شہریوں کو حماس کی قید سے آزاد کرایا جائے۔ان فوجیوں کی حمایت میں متعدد تعلیمی اداروں کے دو ہزار افراد نے بھی نتن یاہو کو خط لکھاہے۔جو فوجی جنگ کے دوران مارے گئے ان کے اہل خانہ نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے فوجیوںکومزید جنگ میں نہ جھونکے اور بات چیت کا راستہ اختیار کرے۔جو اسرائیلی ابھی تک حماس کی گرفت میں ہیں ان کے اہل خانہ کی تنظیم نے اسرائیلی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ یہودیوںکی عید فصح (مذکورہ پاس اوور کی تقریبات) کے موقع پر بڑے پیمانے پر مظاہرے کریں۔
ٹائمز آف اسرائیل میں ایمانول فیبیان نے لکھا ہے کہ اسرائیل غزہ میں بفر زون کا دائرہ بڑھاتا جارہا ہے تاکہ حماس پر دبائو بڑھ سکے لیکن حماس کا ایک بھی بندوق بردار سامنے نہیں ہے لہذا ان کے خلاف کوئی لڑائی فی الحال نہیں ہورہی ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیلی درندے ہر روزدرجنوں شہریوں کو قتل کرنے کے باوجود نہ تو اپنے شہریوں کا سراغ لگاسکے ہیں اور نہ ہی حماس کے بندوق برداروں کا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے حماس کو کس طرح دھمکی آمیز احکامات دینے شروع کئے تھے لیکن حماس نے ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔اب معلوم ہوا ہے کہ امریکی مذاکرات کارمصر میں حماس کے ساتھ اپنے مردہ شہریوں کی لاشوں کا سودا کر رہے ہیں۔مضمون پریس کو بھیجے جانے کے وقت ایک خبر یہ آئی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ بندی کیلئے گفتگو کرنے اور حماس کی شرط پر اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے مصری فارمولہ پربات کرنے کیلئے تیار ہوگیا ہے۔اسرائیل ان علاقوں سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار ہوگیا ہے جن پر اس نے 18مارچ کے بعد دوبارہ جنگ شروع کرکے قبضہ کرلیا تھا۔ادھرنیوکلیائی توانائی کے سوال پر ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والی گفتگو پر نتن یاہو سخت افسردہ ہے۔کیونکہ اس کی خواہش تھی کہ ایران پر امریکہ بم برسادے لیکن اب امریکہ مسقط کی میزبانی میں ایران سے گفتگو کر رہا ہے۔حالانکہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ایران سے جنگ کرنی پڑی تو نتن یاہواس جنگ کی قیادت کریں گے لیکن امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ ایران سے ہرگز جنگ نہیں کرنا چاہتے۔ ٹرمپ کا تازہ بیان بھی آگیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میری خواہش ہے کہ ایران ایک خوشحال اور پرامن ملک بن جائے لیکن اسے نیوکلیر طاقت بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔بہرحال ہمیں یقین کامل ہے کہ غزہ سے حسبنااللہ ونعم الوکیل کی آواز بند ہونے سے پہلے نصرت الہی ضرورآئیگی اور ظالموں کو ہماری آنکھوں کے سامنےعبرت ناک انجام سے دوچار ہونا پڑےگا۔
13 اپریل 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/blood-stained-fingers/d/135173
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism