New Age Islam
Sun Mar 16 2025, 11:40 AM

Urdu Section ( 13 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Another Blasphemy Conviction in Pakistan توہین رسالت کے لئے پاکستان میں دو مسلم نوجوانوں کو سزا

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

13مارچ،2024

پاکستان میں گذشتہ 25 فروری کو توہین قرآن کے الزام میں ایک عورت کی مشتعل ہجوم کے ذریعے ہراسانی کے بعد پنجاب کی ایک عدالت نے دو مسلم نوجوانوں کو توہین رسالت کے لئے سزا سنائی ہے۔ 22 سالہ جنید منیر کو سزائے موت جبکہ 17 سالہ عبدالحنان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ دونوں نوجوانوں نے توہین رسالت کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔

جنید منیر پر الزام ہے کہ اس نے واٹس ایپ پر توہین رسالت کا مضمون شیئر کیا تھا۔ جنید منیر کے والد منیر حسین نے کہا کہ ان کے بیٹے نے توہین رسالت کاارتکاب نہیں کیا ہے ۔ اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ منیر حسین اپنے کنبے کے ساتھ روپوش ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے گاؤں کے لوگ ان کی پوری فیملی کو جان سے ماردینا چاہتے ہیں۔منیر حسین نے ایک اخبار کے نمائندے کو فون پر کہا ۔"ہم مسلمان ہیں ہم اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔کوئی مسلمان اپنے محبوب نبی کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔"۔

پاکستان میں توہین کے تمام ملزمین کی کہانی ایک جیسی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان وہ توہین مذہب یا توہین رسالت کرہی نہیں سکتے لیکن پھر بھی انہیں کسی کیس اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسلام اور پیغمبر اسلام سے اپنی عقیدت اور محبت کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔

گزشتہ 25 فروری کو بھی لاہور کے اچھرا بازار میں آیک خاتون کو جنونی ہجوم نے گھیرلیا اور اس پر توہین قرآن کا الزام لگایا کیونکہ اس کی قمیص پر عربی میں حلوہ چھپا ہوا تھا۔ ہجوم اس کو ہلاک کرنے کے درپئے تھا۔ آخر کار ایک بہادر خاتون پولیس افسر نے اسے ہجوم سے بچایا ۔ اس نے تھانے میں کہا تھا ۔۔"میں ایک مسلمان ہوں اور میراگھرانہ دیندار گھرانہ ہے۔میرے خسر حافظ قرآن ہیں۔میں توہین اسلام و قرآن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔"

چند سال قبل ایک حافظ قرآن کے ہاتھ سے قرآن چھوٹ کر گھر کے چولہے پر گرگیا تھا اور کچھ اوراق جل گئے تھے۔اس کی بیوی نے گھبراہٹ میں یہ بات اپنے پڑوسن کو بتادی۔ اس نے محلے والوں کو بتادیا۔ کسی نے مسجد میں جاکر مائیک پر اعلان کردیا کہ فلاں حافظ نے قرآن جلادیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں مشتعل ہجوم نے حافظ کے گھر کو گھیر لیا۔ وہ گھر کی کھڑکی سے ہجوم کو یہ کہتا رہا کہ میں نے جان بوجھ کر قرآن نہیں جلایا ہے۔ میں ایک حافظ قرآن ہوں۔ میں کیسے قرآن کی بے حرمتی کرسکتا ہوں۔ لیکن ہجوم اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔پولیس آئی اور اسے ہجوم سے بچا کر تھانے لے گئی۔ لیکن وہاں کچھ جنونی ملا پہنچ گئے اور ہجوم کو اکسانے لگے ۔ باالآخر ہجوم نے اس حافظ قرآن کو پولیس تھانے سے زبردستی نکال لیا اور اسے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔

پاکستان میں توہین رسالت اور توہین قرآن کے الزام میں مارے جانے والے زیادہ تر لوگ تعلی یافتہ ہوتے ہیں اور انہیں مارنے والے لوگ ان پڑھ اور جاہل ہوتے ہیں۔ اچھرہ بازار میں بھی ہجوم کے ہتھے چڑھنے والی عورت تعلیم یافتہ تھی اور دیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے خسر حافظ قرآن تھے جبکہ جو لوگ اس پر توہین قرآن کا الزام لگارہے تھے وہ ان پڑھ تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس خاتون کی قمیص پر چھپا ہوا لفظ "حلوہ" کا معنی عربی میں میٹھا یا پیارا ہوتا ہے۔ اردومیں بھی حلوہ میٹھے پکوان کو کہتے ہیں۔

پنجاب کی عدالت نے جن دونوجوانوں کو سزائے موت اور سزائے عمر قید دی ہے ان نوجوانوں نے بھی توہین رسالت سے انکار کیا ہے۔ وہ لوگ اعلی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرینگے اور امکان قوی ہے کہ وہ اس الزام سے بری ہو جائیں کیونکہ پاکستان میں توہین کی سزا موت ہونے کے باوجود آج تک کسی کو موت کی سزا نہیں ہوئی ۔اس طرح کے الزامات اکثرو بیشتر ثابت نہیں ہوتے۔ پاکستان میں توہین کے مقدمے اقلیتی فرقے کے خلاف مذہبی تعصب کی بنا پر دائر کئے جاتے ہیں یا پھر مسلمان ایک دوسرے کے خلاف ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے توہین کا مقدمہ دائر کرتے ہیں۔

پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی بے شمار مثالیں سامنے آنے کے باوجود یہاں کے علماء توہین مذہب کے قوانین میں کسی قسم کی اصلاح پر راضی نہیں ہوتے۔ پاکستان کی عدلیہ نے ن لیگ حکومت کو ایک تجویز بھیجی تھی لیکن علماء کے دباؤ میں حکومت نے اس تجویز کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ عمران خان کی حکومت نے بھی اس تجویز کو نظرانداز کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنیدمنیر اور عبدالحنان جیسے نوجوان توہین کے جھوٹےمقدموں میں پھنسائے جارہے ہیں۔ بیشتر اوقات پاکستان میں مسلکی بنیادوں پر یا نظریاتی بنیادوں پر کسی کو توہین کا مرتکب قرار دے دیا جاتا ہے۔ کسی مذہبی موضوع پربحث میں اختلاف کے نتیجے میں بھی توہین کا الزام لگادیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کے ایک مدرسے کی تین خاتون ٹیچروں کے درمیان کسی مذہبی موضوع پر بحث ہو گئی۔ان میں دو ٹیچر ایک مسلک یا عقیدے سے وابستہ تبیں اور ایک کسی دوسرے عقیدے سے۔ اس بحث کے دوسرے دن جب وہ تینوں مدرسے کے دروازے پرملیں تو دونوں ٹیچروں نے ملکر مخالف مسلک کی ٹیچر کا گلا چھری سے ریت دیا کیونکہ پاکستان میں یہ نعرہ بہت مقبول۔ہے۔۔"گستاخ رسول کی ایک سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا ۔"۔

اس واقعے میں بھی مقتول ٹیچرایک عالمہ تھی اور اسےمعلوم تھا کہ کون سا عمل یا قول توہین کے زمرے میں آتا ہے پھر بھی اسے توہین رسالت کا گنہ گار قرار دے کر ذبح کردیا گیا۔ پاکستان کے عالم دین محمد علی مرزا کہتے ہیں کہ ان کے ایک شاگرد کا اس کے ایک ساتھی سے تراویح کو لیکربحث ہو گئی۔ لہذا ، اس کے شاگرد کو اس کے ساتھی نے قتل کردیا۔ ۔

توہین کے نام پر یا دینی موضوع پر صرف اختلاف رائے کی بنا پرقتل یا مقدمہ کی اتنی بڑی تعداد پاکستانی معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کا اشاریہ ہے۔ جنید منیر نے غالباً کوئی مذہبی پوسٹ کسی مخالف مسلک کے پیروکار کوبھیج دیا تھا جس پر مشتعل ہو کر اس نے اس کے خلاف توہین کا مقدمہ دائر کردیا اور مقامی عدالت نے اس پر اسے موت کی سزا سنادی۔

جنید منیر کے اہل خانہ کے خلاف بھی ان کے گاؤں کے لوگ اشتعال پھیلارہے ہیں اور ان کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔ جبکہ یہ طرز عمل بھی اسلام کے منافی ہے۔ پھر بھی پاکستان کی میڈیا اور علماء کی مجلسوں میں سناٹا ہے۔جنید اور عبدالحنان کو اگر اعلی عدالت سے رہائی بھی مل جائے تو عدالت سے باہر کچھ سرپھرے انہیں گولیوں سے بھون دینگے کیونکہ پاکستان میں اگر ایک بار کسی پر توہین کا الزام لگ گیا تو پھر اس کا بچنا مشکل ہوتا ہے۔۔ اسے عدالت سے بری قرار دئے جانے کے باوجود کسی مذہبی تنظیم سے وابستہ سرفروش جنت کی امید میں ہلاک کردیتے ہیں۔۔ کچھ سال قبل جھیلم کے ایک امام کے خلاف کسی نے توہین رسالت کا مقدمہ دائر کردیا۔وہ امام جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا۔بری ہونے کے بعد ایک دن وہ نماز پڑھانے کے لئےمسجد جارہےتھے کہ راستے میں کچھ لوگوں نے اسے گولیوں سے ہلاک کردیا۔

ان تمام واقعات میں زیادہ تر توہین رسالت کے ملزمین یا تو حافظ قرآن تھے ، یا مدرسے کے ٹیچر تھے یا پھر مسجد کے امام تھے کچھ تعلیم یافتہ افراد تھے جو جانتے تھے کہ توہین رسالت یا توہین قرآن کیا ہوتا ہے۔ وہ مسلمان تھے پھر بھی انہیں توہین کا مرتکب قرار دیا گیا اور عدالت سے بری ہونے کے باوجود انہیں ہلاک کردیا گیا۔صرف گزشتہ تیس برسوں میں 100 سے زائد افراد کو توہین کے الزام میں پاکستان میں ہجومی تشدد میں ہلاک کردیا گیا ہے۔ پھر بھی علمائے پاکستان اس غیراسلامی رجحان کو روکنے کے لئے کوئی پہل نہیں کرتے اور اگر عدلیہ اور سیاسی لیڈران توہین کے قانون میں اصلاح کا مطالبہ کرتے ہیں تو اسے مسترد کردیتے ہیں۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے ان غیر اسلامی قوانین کی مخالفت کی تھی تو اسے ممتاز قادری نام کے باڈی گارڈ نے ہی ہلاک کردیا تھا

فی الحال جنید اور عبدالحنان کے کنبے کے لوگ موت کے خوف سے روپوش ہیں اور جنید کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔ وہ دونوں ایک ایسے نظام کے قیدی ہیں جہاں ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ جہاں اس اسلامی اصول کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ دس قصوروار چھوٹ جائیں لیکن ایک بے قصور نہ پکڑا جائے۔

-----------------

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/blasphemy-conviction-pakistan/d/131907

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..