بل ورنر
29 ستمبر 2013
صومالیہ کی الشہاب جہادی تنظیم کے نمائندوں نے کینیا میں مال پر حملہ کرنے سے پہلے وہاں موجود تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان سے کچھ سوالات پوچھے اور پھر انہیں جانے کو کہا۔میڈیا کے مطابق اس کے بعد انہوں نے ان غیر مسلموں کو مارنا شروع کیا جو وہاں رہ گئے تھے۔ لیکن دہشت گردوں نے غیر مسلم کا لفظ استعمال نہیں کیا ہوگا ۔ بلکہ انہوں نے ان کے لیے ‘‘ کافر’’ یا لفظ کافر کی جمع "کفار" کا لفظ استعمال کیا ہوگا۔
دہشت گرد تنظیم الشہاب کے ممبران نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے مسلمانوں کو جانے کے لئے کہا اور کافروں کو روک کر انہیں مارنا کیوں شروع کر دیا؟ شروعات لفظ ‘‘دہشت’’گرد سے کرتے ہیں ۔ الشہاب کے ممبران دہشت گرد نہیں ہیں ؛ بلکہ وہ (بزعم خویش) جہادی یا مجاہدین ہیں ۔ وہ خود کو اسی نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
تو ہم کوئی بھی لفظ استعمال کریں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس سے دنیا میں تمام تفرقات پیدا ہوتے ہیں ۔ آپ مبہم اور غیر واضح الفاظ کے مضمرات نہیں سمجھ سکتے۔ ایک کافر ایک غیر مسلم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔
لفظ کافر میں زیادہ مضمرات ہیں۔ کافر بالکل وہی لفظ ہے جو قرآن غیر مسلموں کے لئے بیان کرتاہے۔ قرآن کے بارے میں بہت ساری قابل ذکر باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا نصف سے زائد حصہ کافروں کے بارے میں ہے۔ اس بات پر ذرا غور کریں کہ قرآن کا اکثر حصہ اس بارے میں نہیں ہے کہ ایک اچھا مسلمان کیسے بنیں بلکہ کافروں کے بارے میں ہے۔ کافروں کے بارے میں ہر آیت بری نہیں بلکہ ہولناک ہے۔ اللہ کافروں سے نفرت کرتا ہے اور ان کے خلاف تدبیریں کرتا ہے۔ جہنم میں المناک سزائیں کافروں کا انتظار کر رہی ہیں۔ لیکن اس کی پرواہ کسے ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کافروں کے لئے کس چیز کا وعدہ ہے - تشدد، نفرت، موت، تضحیک ، عصمت دری، غلامی، سیاسی تسلط، اور دھوکہ دہی۔
‘‘جنگجو ’’ اور ‘‘دہشت گرد ’’ کے برعکس ‘‘مجاہدین ’’ اور ‘‘جہادیوں ’’ کا بھی معاملہ یہی ہے ۔ لفظ ‘‘جنگجو ’’ اور ‘‘دہشت گرد ’’ سے ہمیں جنگجو اور دہشت گرد کی ترغیب و تحریک کے بارے میں کچھ نہیں پتہ چلتا بلکہ ‘‘جنگجو ’’ اور ‘‘دہشت گرد ’’ صرف تشدد کا استعمال کرتے ہیں ۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ لفظ ‘‘غیر مسلم ’’ اور ‘‘دہشت گرد ’’ کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہے ، وہ دونوں بالکل علیحدہ ہیں۔ ایک سے کسی دوسرے کی طرف کو ئی اشارہ نہیں ملتا ۔ لیکن ‘‘کافر ’’اور‘‘جہاد’’ کے بارے میں یہ تصور غلط ہے۔ جہاد سے کافر کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور اس کا برعکس۔
کافر اور جہاد اسلامی سیاست کا حصہ ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے 150 متبعین کے ساتھ 13 سال کی مدت میں اسلام کی تبلیغ کی ۔ جب انہوں نے سیاست اور جہاد کا رخ کیا تو تمام عرب کے حکمرانوں کو مار دیا ، اور عرب کا ہر فرد مسلمان تھا۔ مذہب اسلا م نا کام ہو چکا تھا اور اسلام کافروں کے خلاف جہاد اور سیاست کے ذریعہ غالب ہوا۔
اسلامی اصول کی بنیاد قرآن اور سنت پر ہے،اور شرعی قوانین نے پوری انسانیت کو مسلم اور کافر میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی تیسری تقسیم نہیں ہے۔ بد قسمتی سے یہودی اور عیسائی لیڈروں نے خود کے بارے میں اہل کتاب ہونے کا افسانہ گڑھ لیاہے۔ جب آپ خالص عبارت پڑھیں گے تو یہ ظاہر ہو گا کہ وہ دین ابراہمی میں بھائی ہیں جو ضرور سیاسی یا مذہبی طور پر مغلوب ہو گئے ہوں گے ، بہرحال یہ ایک مختصر تفصیل تھی۔
اگر جہاد ، مجاہدین اور کافر خالص اسلامی اصول ہیں تو اب ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ میڈیا ان الفاظ کی تصحیح سے انکار کیوں کرتا ہے جو مسلمان استعمال کرتے ہیں- اس بارے میں بھی غور کرنا ایک ہیبت ناک تجربہ ہے ۔ ہم آزاد دہشت گردی کے واقعات کا سامنا نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ نیروبی کینیا میں ویسٹ گیٹ مال یا بوسٹن میراتھن بن حملون میں ہوا ، بلکہ ہم ایک تاریخی دشمن کے ساتھ ایک ثقافتی جنگ کے درمیان میں ہیں – ایک ایسا دشمن جو اس لئے جیت رہا ہے کیوں کہ ہم مکمل طور پر مسترد کئے جا چکے ہیں ۔
ماخذ:
http://www.americanthinker.com/2013/09/separating_the_kafirs_from_the_muslims.html
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/separating-kafirs-muslims/d/13767
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/separating-kafirs-muslims-/d/98666