بلال احمد پرے
8 فروری 2022
اللہ رب العالمیین نے اشرف
المخلوقات کو پیدا کر کے ہم پہ بے حد احسان فرمایا ہے - مرد و زن کی زندگی کو ایک دوسرے
کے لئے لازم و ملزوم ٹھہرا دیا ہے ۔ انہیں ایک دوسرے کی خوشگوار زندگی کا ہمسفر بنایا
ہے ۔ عورت جیسی صنف نازک کو دنیا میں لاکر ایک منفرد مقام عطا کیا ہے ۔ یوں تو معاشرے
کے کمزور طبقات خصوصاً خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں
لیکن ان کی سب سے بھیانک اور خطرناک شکل وہ جسمانی تشدد ہے جس میں تیزاب استعمال کیا
جاتا ہے۔ ایسی خواتین نہ صرف زندگی بھر کے
لیے معذور ہو جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات انہیں اپنی قیمتی جان بھی گنوانی پڑتی ہے۔
نیشنل جرائم ریکارڑز بیورو
(NCRB) کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں 'ایسڈ اٹیک‘ کے سب سے زیادہ 309 واقعات سنہ 2017ء میں پیش آئے
جبکہ سنہ 2018ء میں 277 واقعات درج کئے گئے ہیں ۔ ان دو برسوں میں مجموعی طور پر
623 خواتین متاثر ہوئیں لیکن اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر برس صرف 149 افراد
کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی، جوکہ ہر سال پیش آنے والے واقعات کے نصف سے بھی کم ہے ۔ سنہ 2018ء میں سب سے زیادہ
61 فیصد یعنی 523 کیس، مقدمے کے لیے عدالتوں تک پہنچے تاہم ان میں سے صرف 19 واقعات
میں ہی مجرموں کو سزا مل سکی ہے ۔
ریاست جموں و کشمیر میں پیرواری
کے نام سے مشہور و معروف سر سبز و شاداب وادی
'وادئ کشمیر' میں اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ اور یہاں تیزاب پھینکنے
کے واقعات صفر کے برابر تھے ۔ لیکن اب آہستہ آہستہ ہمارے یہاں دل دہلانے والے واقعات
فلمی انداز میں رونما ہونے لگیں ہیں۔ سنہ ۲۰۱۳ء میں وادئ کشمیر سے پہلا ایسڈ اٹیک رونما ہوا
جس میں موٹر میکنک پیشہ سے وابستہ حملہ آور نے سرینگر ضلع سے وابستہ لڑکی پہ اس قسم
کے بھیانک جرم کا ارتکاب کیا ، جس سے فاسٹ ٹریک کورٹ نے فروری ۲۰۱۴ء میں دس سال کی قید معہ جرمانہ
کی سزا سنائی تھی ۔ یہ اس نوعیت کا پہلا کیس تھا ۔ اس کے بعد سنہ ۲۰۱۴ء میں اِسی طرح کا دوسرا کیس
اس وقت رونما ہوا جب ۲۱
سالہ قانون کی طالبہ پہ نامعلوم کار سواروں نے ایسڈ سے حملہ
کیا ۔گزشتہ سال کے ماہِ اکتوبر میں ضلع شوپیان سے ایک اور تیزاب پھینکنے کا واقع پیش
آیا تھا ۔ جہاں ۱۸
سالہ لڑکی کو تیزاب پھینک کر بری طرح سے متاثر کیا گیا تھا
،اور رواں سال کا پہلا واقعہ حال ہی میں سرینگر میں پیش آیا ، جس نے نہ صرف ہماری وادی
میں رہنے والوں کو بلکہ ریاست کے طول و عرض میں سبھی لوگوں کو ایک بار پھر جگا دیا
ہے اور انتظامی سطح کے لوگوں کو اس کا سدباب کرنے اور اس کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھائے
جانے پر مجبور کیا ہے ۔ اس تازہ ترین واقعہ میں سرینگر کی ۲۴ سالہ
جوان لڑکی پر چند بد صفت حملہ آور نوجوانوں نے تیزاب پھینکا اور اُس کی شکل کو بری
طرح سے خراب کر دیا ۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا
کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب یکم فروری ۲۰۲۲ء منگل کی شام ۶ بجے
متاثرہ لڑکی گھر کی طرف لوٹ رہی تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ لڑکی کی شادی حملہ آور
جوان سے طے ہوئی تھی اور وہ اس سے بار بار مختلف بہانے ڈھونڈ کر تنگ و طلب کرتا آیا
ہے ۔ اس وقت مذکورہ متاثرہ لڑکی کے چہرے اور آنکھوں کی بینائی بری طرح سے متاثر ہو
چکی ۔ اس ضمن میں پولیس نے کیس درج کیا، جس
کے فوراً بعد ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اور اِس وقت پولیس کی ایک خصوصی ٹیم
کیس کی تفتیش کر رہی ہے تاکہ ملوث افراد کو
بہت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ اس واقعہ میں جس تیزی سے پولیس نے کاروائی عمل
میں لائی وہ قابل تعریف ہے ۔رپورٹ کے مطابق اِس واقعہ میں ملوث افراد میں سے بنیادی
مجرم بھی شامل ہے جو ایک طبی اسٹور پر کام کرتا ہے ، اور اِس حملہ آور نے لڑکی کو صرف
شادی کے انکار کرنے پر تیزاب پھینک دیا ۔ اس طرح اس درندہ صفت حملہ آور نے اس معصومہ
کو کُھلونا سمجھ کر اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے خراب کر دیا ، جس کے خلاف سماج کے
ہر طرف اور ہر طبقے نے آواز اٹھائی ہے۔
آخر متعدد قوانین اور سپریم
کورٹ کی ہدایات کے باوجود خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رُکنے کا نام کیوں نہیں
لے رہے ہیں ؟ باریک بینی سے دیکھا جائے تو تیزاب کا ذخیرہ اور اس کی فروخت تشویش کی
بات بنی ہوئی ہے ۔ حالانکہ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں اور سپریم کورٹ نے رہنما خطوط
بھی وضع کر دیے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کیمیکل کے طور پر تیزاب جیسی
جان لیوا خطرناک شئی ہر جگہ کُھلے عام فروخت ہوتی ہے ۔ جو انتظامیہ کے لئے کئی سوالات
کھڑا کرتی ہے۔ آج کل تیزاب کی فروخت بہ آسانی چل رہی ہے ، اور ا سے سب سے سستا ہتھیار
مانا جاتا ہے ۔ جس سے درندہ صفت حملہ آور انتقام
گیری یا بدلہ لینے کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں ۔ اس سے وہ متاثرہ شخص کی انتہائی تکلیف
دہ حالت دیکھ کر ذہنی تسکین تو حاصل کرتے ہیں ، لیکن حقیقت میں اُنہیں پچھتاوے کے سوا
کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔
ایسے انتہائی انتقام گیری
سے مغلوب افراد چاہتے ہیں کہ وہ متاثرہ شخص کو ذہنی، جسمانی، معاشی اور جذباتی ہر لحاظ
سے ہمیشہ کے لئے معذور بنا دیں ۔
قارئین کرام! آپ کے ذہن میں
بھی اس طرح کے سوالات کھٹکتے ہوں گے کہ کیا ایسے افراد درندہ صفت جانور بن کر انسانیت کے اعلٰی مقام پر برقرار
رہ سکتے ہے ؟ کیا امن کا پیغام پھیلانے والا دینِ اسلام اس طرح کی حرکات کرنے کی اجازت
دے دیتا ہے ؟ کیا اس طرح کے حملہ آوروں کو سماج میں رہنے کا حق ہے ؟ ان سبھی سوالوں
کا جواب آپ نفی میں دیں گے ۔ اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ یہ سب غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی طرزِ عمل ہے جس کی ہر حال
میں مذمت کی جانی چاہیے اور اِن افراد کی ملامت کی جانی چاہیے ۔
اس واقعہ نے ہماری ریاست کے موجودہ قانون دانوں، فقہاء اور
دانشورانِ قوم کو اس طرح کے واقعات کے خلاف لائحہ عمل مرتب کرنے پر مجبور کیا ہے ،
اور انتظامیہ سے تیزاب جیسی بھیانک چیزوں کی خرید و فروخت پر خصوصی ٹاسک فورس تشکیل
دینے کی مانگ کی ہے ، جو بھارت کے سپریم کورٹ کے حکم نامہ بتاریخ ۱۸ جولائی
۲۰۱۳ء میں دیے گئے ضابطوں کی پاسداری کو نافذ العمل بنانے میں
اپنا کلیدی کردار ادا کر سکے اور مزید اس طرح
کے واقعات کو روکنے کے لئے سخت سے سخت نظر بنائے رکھے۔
دینِ اسلام میں عفو و درگزر
کی تعلیمات
دینِ اسلام عفو و درگزر کرنے
کی تعلیم دیتا ہے ۔ بھلائی اور نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ لوگوں سے اچھا معاملہ کرنے
کی تلقین کرتا ہے ۔ برائی کو بھلائی سے ختم کرنے کا معاملہ بیان کرتا ہے تاکہ اس طرح
سے ہمارے آپسی اختلافات دور ہو جائے، دشمنی دوستی میں بدل جائے، نیک بختی اور دل کو
سکون حاصل ہو سکے۔ اسی لئے قرآن کریم میں عفو و درگزر کی متعدد آیات مبارکہ بیان کی
گئی ہیں ۔ارشاد باری تعالی ہے کہ
"اور جو غصّہ کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں
اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے " (آل عمران؛ ۱۳۵)
اللہ کے آخری رسولﷺ کا ارشاد
ہے کہ " معاف کر دینے سے اللہ تعالٰی بندے کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے " (المسلم؛
6592)
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے کبھی اپنے نفس کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا
بلکہ ہر وقت عفو و درگزر اور احسان کا معاملہ اختیار فرمایا ہے ۔ آپ ﷺ خود سراپا
عفو و درگزر والے رحمت للعالمین نبی ہیں ، جن کی یہ اونچی شان رہی ہے کہ بڑی سے بڑی
ناقابل معافی حرکت کو بھی اپنی اعلیٰ ظرفی سے معاف فرمایا ہے ۔ عفو کا معنی
معاف کرنے، بخش دینے، درگزر کرنے اور بدلہ نہ لینے کے ہیں۔ کسی کی زیادتی اور
برائی پر انتقام کی قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود بھی انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا
ہی حقیقی عفو کہلاتا ہے ۔ حالانکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان کو غصّہ کے وقت اپنے
لئے گئے فیصلے پہ بالآخر شرمسار ہونا پڑتا ہے - اسی لئے عفو کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ
آدمی معاف کر دے، بدلہ لینے کے بارے میں نہ سوچے، خواہ طبیعت اس پر آمادہ نہ بھی
ہو ، اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دلی خوشی کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو تو قصوروار کے
ساتھ کچھ احسان کا معاملہ بھی کرے ۔ ایسے ہی لوگوں سے اللہ پاک محبت فرماتا ہے ۔
سیرت رسول ﷺ میں ایسا کوئی
واقع نہیں ملتا ہے کہ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی
کسی سے بدلہ یا انتقام لیا ہو بلکہ ہمیشہ عفو و درگزر کا معاملہ اختیار کیا ہے ۔ نبی
کریم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر دشمنانِ اسلام سے احسان کا معاملہ فرمایا حتٰی کہ اپنی
لخت جگر حضرت زینبؓ کے قاتل ہبار بن الاسود جس نے بڑی بے دردی سے آپ ؓ کو نیزہ مارا
اور ان کا حمل بھی ساقط کر دیا تھا سے بھی عفو و درگزر کا معاملہ فرمایا ۔ خیبر میں
زہر دینے والی یہودی عورت زینب بنت الحارث کو ناقابل برداشت غلطی کرنے پر بھی
معاف فرمایا ۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہؓ کے قاتل حبشی غلام وحشی بن حرب اور سنگدل
ہندہ کو بھی معاف فرمایا ۔ اسی طرح اہلِ ایمان کے خون سے اپنے دامن کو داغدار کرنے
والے ابو سفیان بن حرب کو بھی درگزر فرمایا ۔
الغرض اسلام عفو و درگزر کرنے
والا دین ہے جہاں عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ احسان کو بھی انتہائی اعلٰی مقام حاصل ہے
اور یہ دین صرف امن و امان کا پاس و لحاظ برقرار رکھنے والا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ذاتی
اغراض کے لئے انتقام گیری یا بدلہ لینے کا روادار بھی نہیں ہے ، یہی اسلام کی سچی تعلیمات
اور اس کا منفرد پیغام ہے ۔
تیزاب کے متعلق موجودہ قوانین
قانون دراصل وہ رسمی اصول
و ضوابط ہے جو اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام ہے کہ جس کو عموماً حکومت کی جانب سے کسی معاشرے
کو منظم کرنے اور اس کو تضبیط کرنے کے لیے نافذ العمل بنایا جاتا ہے اور ان ہی اصولوں
پر ایک معاشرے کے اجتماعی رویوں کا دار و مدار ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زمین پر
رہنے والے لوگوں کے لئے شر انگیزی، فتنہ و فساد اور لڑائی و جھگڑے کرنے والوں کے لئے
عدل و انصاف کا قانون موجود نہیں ہے۔ قانون چونکہ مکمل معاشرے پر لاگو کیا جاتا ہے
اس لیے یہ اس معاشرے میں بسنے والے ہر ہر فرد کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
آئینِ ہند کی دفعہ 326A کے مطابق جو کوئی بھی شخص، کسی شخص کے جسم کے کسی
بھی حصّے کو مستقل یا جزوی نقصان پہنچائے یا خراب کرے یا جُھلس دے یا معذور کرے یا
اس شخص کو تیزاب پھینک کر یا اس کے استعمال سے شدید چوٹ پہنچائے تو اُ سے دس سال سے
کم قید کی سزا نہیں دی جائے گی جو عمر قید تک بڑھائی جا سکتی ہے اور ساتھ میں جرمانہ
بھی عائد کیا جائے گا جو کہ متاثرہ کے علاج
کے طبی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے معقول ہو ،
اِس دفعہ کے تحت متاثرہ کو ادا کیا جائے گا ۔
اسی طرح دفعہ 326B کے مطابق جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تیزاب پھینکے
یا پھینکنے کی کوشش کرے اور اُس شخص کو مستقل یا جزوی نقصان پہنچائے، خرابی پیدا کرے
، جھلس دے یا بگاڑے یا معذوری یا شدید تکلیف پہنچانے کی نیت سے پھینکے تو اُ سے پانچ
سال سے کم قید کی سزا نہیں دی جائے گی جس سے سات سال تک توسیع کی جا سکتی ہے اور ساتھ
میں جُرمانہ ادا کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔
انڈین شواہد ایکٹ کے تحت سیکشن
114B 'تیزاب کے حملے کے بارے میں قیاس' بھی موجود ہے ، اس سیکشن کے مطابق
عدالت مقدمے کے حالات اور متاثرہ کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قیاس کرے گی کہ کیا ایسے شخص نے شدید چوٹ پہنچانے کی نیت سے خاتون پر
تیزاب پھینکا ہے ؟
تیزاب کے حملوں سے نمٹنے کے
"جرائم کی روک تھام (تیزاب کے ذریعے) ایکٹ - 2008" کی ایک اور کارروائی بھی
باضابطہ طور پر موجود ہے ۔ بھارت میں خواتین کے قومی کمیشن (NCW) نے بھی تیزاب گردی کے
متاثرین کی بحالی اور امداد فراہم کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی ہے ۔اس تنظیم نے باضابطہ
طور پر ایک مسودہ بل 'جرائم کی روک تھام (تیزاب کے ذریعے) ایکٹ - 2008' کی تجویز پیش
کی ہے جس میں قومی امدادی بورڈ برائے ایسڈ متاثرین (National
Assistance Board for Acid Victims) قائم کرنے کی تجویز دی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ لکشمی بمقابلہ یونین
آف انڈیا کے سرکردہ کیس میں سپریم کورٹ نے ہندوستان میں تیزاب کی فروخت کے حوالے سے
ضابطے بنائے ۔ عدالت نے اس معاملے میں ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ تیزاب کی فروخت کے
ضابطے اور تیزاب حملے کے متاثرین کی بازآبادکاری کے لیے مناسب دفعات نافذ کریں ۔
تیزاب کے حملوں کو روکنے کے
لئے سخت سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں بین الاقوامی ضابطوں پر عمل
کرنے کا وقت آپہنچا ہے ۔ہمارے یہاں صرف سخت قوانین کا ہونا خوش آئند بات مانی جاتی
ہے اور اگر کسی قانون میں کوئی کمی لگ جائے تو اس کو ترمیم سے درست کیا جا سکتا ہے
۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک معاشرے کے اندر یہ احساس اُجاگر نہ ہو کہ
عورت پرظلم کرنا غلط بات ہے تب تک اس طرح کے واقعات کو روکنا ناممکن ہے ۔
لہذا وقت کا تقاضا یہی ہے
کہ بچوں کو تعلیمی اداروں میں اپنی زندگی کا دفاع کرنے کی مکمل ترغیب دی جانی چاہئے
۔ جس طرح سے بھارتی کریمنل لا میں ایسڈ حملے کے دوران متاثرہ خاتون یا مرد کو اپنا
دفاع کرنے کی پوری اجازت حاصل ہے اور قریب میں موجود افراد کی جانب سے دفاعی اقدامات
کی مکمل اجازت دی گئی ہے تاہم لاعلمی کے سبب اس حق کا استعمال شاذ و نادر ہی ہو پاتا
ہے، جس کی وجہ سے حملہ آوروں کو فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے ۔ مزید غیر قانونی طور پر ایسڈ کے کاروبار کرنے والوں
کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائے ۔ رجسٹرڈ اور قانونی طور پر چلائے جانے والوں کی
رجسٹر (Register) چیک کیا کرے ۔ ضلع کے ڈرگ کنٹرولر کو چاہیے کہ رجسٹرڈ ایسڈ بیچنے
والوں کا ایک واٹساپ گروپ تیار کرے جس میں وہ ایسڈ بیچتے ہی سبھی ضروری اطلاعات شئیر
کر سکیں ۔ ۱۸
سال کے کم افراد کو
ایسڈ بیچنے سے روکا جائے ، اور بالغ خریدنے والوں سے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی
لینا اور اس کے خریدنے کی معقول وجوہات و مقاصد
پوچھنا نہ بھولیں۔ قانون کی پاسداری کرنے والے اداروں (law
abiding agencies) کو مضبوط تفتیشی دلائل و
شواہد اور دیگر ثبوتوں
کے ساتھ ایسے کیسوں میں ملوث افراد کو فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعے سخت سے سخت سزا
دلانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کا نہ صرف اعتماد برقرار رکھا جا سکے بلکہ ایسی
گھناؤنی حرکتوں سے بھی لوگوں کو دور رکھا جا سکے ۔ انتظامیہ کو اس طرح کا واقعہ رونما ہونے کے بعد حرکت میں آنے سے قبل ہی ایسے
مؤثر اقدامات اٹھانے چاہیے جس سے مستقبل میں اس طرح کے واقعات پیدا ہونے سے قبل ہی
بچایا جا سکے ۔
----------------
جناب بلال احمد پرے نیو ایج
اسلام کے ایک مستقل کالم نگار ہیں ۔ آپ کا تعلق
ریاست جموں و کشمیر کے جنوبی علاقہ ترال سے ہے ۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے
اسلامیات میں ماسٹرس کیا ہے۔ آپ کے مضامین اکثر اسلامی سماجی مسائل پر ریاست کے متعدد روزناموں
میں انگریزی و اردو زبان میں شائع ہوتے رہتے
ہیں۔
-----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism