New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 11:31 PM

Urdu Section ( 24 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Thank you Bhagwat Ji but... شکریہ بھاگوت جی لیکن۰۰۰

ودود ساجد

 22دسمبر،2024

ْٓآر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے تازہ بیان کی بیشتر حلقوں میں بڑی پزیرائی ہورہی ہے۔ یہ بیان فی الواقع اتنادلکش ہے کہ اس کی پزیرائی ہونی ہی چاہئے۔انہوں نے مہارشٹر کے شہر پونے میں منعقد ’ہندوسیوا‘ پروگرام میں ان لوگوں کی سرزنش کی جو ایودھیا میں رام مندر کے بعد دیگر تنازعات اٹھاکر خود کو ہندوؤں کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا یہ بیان ان کے اسی تبدیل شدہ موقف کا توسیعی سلسلہ ہے جس میں انہوں نے جو 2022 میں کہا تھا کہ ’ہر مسجد کے نیچے شیولنگ کیوں تلاش کرنا‘ کیوں جھگڑا بڑھانا‘۔انہوں نے نئے تنازعات کواٹھانے والوں کی کوششوں کو ناقابل قبول قرار دیااو رکہا کہ ہم سب کو مل جل کر رہنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ’رام مندر کامسئلہ عقیدہ کا مسئلہ تھا لیکن صرف انتہائی،بغض، دشمنی کی وجہ سے یومیہ بنیادوں پر اس طرح کے نئے مسائل کو اٹھانا ناقابل قبول ہے۔

موہن بھاگوت

-------

اس میں تو کوئی اشکال ہی نہیں کہ موہن بھاگوت کایہ بیان اپنے جرأتمندانہ الفاظ ہیئت ترکیبی اور دلکشی کے اعتبار سے بہت بڑا بیان ہے۔ اصل سوال توزمین پراس بیان کی اثر پزیرائی کا ہے۔شرپسندوں کی طرف سے مذکورہ نوعیت کے تنازعات کا براہ راست اثر اس ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں پر ہوتاہے۔لہٰذا جہاں تک موہن بھاگوت کے اس نوعیت کے تازہ یا پرانے بیان کاتعلق ہے تو مسلمانوں نے من حیث القوم پہلے بھی خیر مقدم کیا تھا اور آج بھی وہ اس بیان کی ستائش کررہے ہیں۔ ہم نے بھی انہی کالموں میں ان کے پہلے بیان کا بھی خیر مقدم کیا تھا اور آج بھی کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہی ہے کہ بھاگوت کے بیان کا روئے سخن جن شرپسندوں یا جن لیڈروں کی طرف تھا کیا انہوں نے بھی اس بیان کا کوئی اثر لیا؟ موہن بھاگوت کا اس نوعیت کاپہلا بیان جو 2022میں آیا تھا۔ لیکن اس وقت سے دسمبر 2024 تک ملک کی مختلف عدالتوں میں مسجدوں اور درگاہوں کے خلاف 10عرضیاں دائر کردی گئیں۔ گیان واپی سمیت دیگر کئی مقامات پر مقامی عدالتوں نے ان عرضیوں پر سرسری سماعت کرکے بجلی کی رفتار سے سروے کے احکامات جاری کردئے۔ ایجنسیوں او ر انتظامیہ نے بھی سرعت کے ساتھ سروے کرڈالے۔ اور اس کا تازہ بھیانک نتیجہ یہ نکلاکہ مغربی اتر پردیش کے شہر سنبھل میں پولیس نے گولیاں چلائیں اور پانچ بے قصور نوجوان جاں بحق ہوگئے۔ مسجدوں کے نیچے مندروں کے باقیات تلاش کرنے والے شرپسندوں نے اس پر بھی اکتفانہیں کیا اور اجمیر میں آٹھ صدیوں سے قائم درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خلاف بھی مقامی عدالت میں عرضی دائر کردی۔

ممبئی میں 3جون 2022 کو موہن بھاگوت نے اپنے سینکڑوں عہدیداروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’ٹھیک ہے کہ کاشی سے ہماری پرانی عقیدت ہے‘ وہاں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دارانہ ہندو ہیں او رنہ مسلمان‘ کچھ قانونی اشوز ہیں جو عدالت میں زیر غور ہیں لیکن ہر مسجد کے نیچے شیولنگ کیوں ڈھونڈنا؟ ہندو یہاں کے مسلمانوں کے مخالف نہیں ہیں‘ وہ بھی ہمارے ہی ہیں‘ ان کے آباؤاجداد بھی ہندو ہی تھے ان کا عبادت کا طریقہ بھلے ہی باہر سے آیا ہو لیکن وہ تو ہمارے ہیں‘ ہمارے یہاں کسی خاص طرز عبادت کی مخالفت نہیں ہے آخر جھگڑا کیوں بڑھانا‘ روز ایک نیا معاملہ نکالنا‘ یہ بھی نہیں ہوناچاہئے۔“ اس سے بھی پہلے 4 جولائی 2021 کوانہوں نے جو تقریر کی تھی اس نے درحقیقت ایک سنسنی خیزی پیداکردی تھی۔ دانشور اور قلم کارڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب’دی میٹنگ آف مائنڈس‘ کی تقریب رسم اجراء میں انہوں نے ’لنچنگ‘ کرنے والوں کو ہندوتو مخالف بھی قرار دیا تھا۔کتاب کے مصنف خواجہ افتخار احمد نے موہن بھاگوت کے سامنے مسلمانوں کے عقیدے کی حساسیت اوراہمیت کو جس مضبوطی کے ساتھ رکھا اس کی بھی ستائش ہوئی تھی۔لیکن پھر وہی سوال ہے کہ جولائی 2021 کے بعد سے دسمبر 2024 تک کیا ماب لنچنگ کے واقعات نہیں ہوئے؟

میں نے وشو ہندو پریشد کے صدر آلوک کمار سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا جو 5فروری 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جو لوگ وی ایچ پی کے نام سے مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں پولیس کو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شرپسندی پھیلانے والے لوگ ان کی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے۔لیکن پھر وہی سوال ہے کہ کیا ماب لنچنگ اور دوسری قسم کی شرانگیزی کے واقعات بند ہوئے؟ وی ایچ پی کے تعلق سے یہ بتانابھی برمحل ہوگا کہ پچھلے دنوں اسی کے پروگرام میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کے برسرکار جج جسٹس شیکھر یادو نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی تھی۔ ان کے خلاف ملک بھر میں رائے ظاہر کی گئی اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں ان کی مواخذہ کی تحریک جمع کرائی اور خود سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ سے رپورٹ طلب کی اور سپریم کورٹ کا لجیم نے جسٹس شیکھر پر اس کا کوئی اثر ہوا؟ اگر اثر ہوا ہوتا تو وہ دھرم سنسد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف شرانگیز ی کرنے والے یتی نرسنگھا نند سے نہ ملتے۔یتی نے ان  سے ملاقات کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے اپنے موقف پر نہ صرف قائم رہنے بلکہ اسے آگے بڑھانے کی درخواست بھی کی۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تک نے جسٹس یادو کی تائید کرڈالی۔ پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ اور وزیر اعظم نے کانگریس سے اپنا سیاسی حساب کتاب بے باق کرنے کیلئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ کانگریس مسلمانوں کو ریزرویشن دے دیگی۔

ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے ایسے قابل ستائش بیانات کے بعد ان سے رسم وراہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ خود موہن بھاگوت بھی مسلمانوں کے بعض اداروں میں گئے۔جمعیت علماء نے بھی ان سے رابطہ کیا۔ مولاناارشد مدنی نے ان سے ملاقات کی۔مولانانے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ”میرے پاس ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو بی جے پی کے ہمنوا ہیں‘ آر ایس ایس سے بھی تعلق رکھنے والے ہیں‘ کچھ بہت پڑھے لکھے اور صاحب فکر لوگ او رکچھ ایسے بھی جو بی جے پی میں اندر تک رسائی رکھتے ہیں‘ لیکن وہ موجودہ صورتحال سے عاجز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک جس راستہ پرجارہاہے وہ بربادی کا راستہ ہے۔ جب میں ان کی زبان سے یہ بات سنتا ہوں تو مجھے تعجب بھی ہوتاہے۔لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ ملک کے مفاد میں ایسا سوچتے ہیں۔میں اس نظریہ کو بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔میری کچھ دوستوں نے جو آر ایس ایس کے بنیادی لوگ ہیں‘پیش رفت کرکے موہن بھاگوت سے ملاقات کرائی۔ بھاگوت نے دوگھنٹہ کی گفتگو کے بعد مجھ سے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی، میں آپ کو دوڈھائی سال میں اپنے اجتماع میں بلاؤ ں گا اور جوباتیں یہاں ہوئی ہیں ہماری خواہش ہوگی کہ آپ وہاں بھی دہرائیں۔ میری پوری گفتگو کا محور یہی تھا کہ ہم بھی ہندوستانی ہیں او رہمارے آباواجداد بھی ہندوستانی تھے‘ جہاں تک مذہب کا سوال ہے تو وہ ہر فرد کا ذاتی اختیار ہے۔زبردستی کسی کو اپنے مذہب کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم بہت آہستہ چلتے ہیں، اسی لئے میں نے آپ کو دوڈھائی سال کے بعد بلانے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں تیز چلوں گا او رکہیں پہنچ کر مڑکر دیکھوں گا تو میں اپنے آپ کوتنہا پاؤں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں اور سب اسی ملک کے رہنے والے ہیں اورپچھلے 1300سال سے ہم امن ومحبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دیہات دردیہات مسلمان موجود ہیں وہ باہر سے آئے ہوئے نہیں ہیں۔ ان کی برادری یہیں ہے۔ مسلمان گوجر بھی ہے، چودھری او رٹھاکر بھی ہے۔ ہربرادری کے مسلمان یہاں موجود ہیں۔ اگر ایک دو فیصد کوئی باہر سے آیا بھی ہوتو وہ یہاں اتناگھل مل گیاہے کہ اب اس کی انفرادیت ختم ہوگئی ہے۔آخر آج کو ن سی نئی بات ہوگئی ہے کہ کل مسلمان رہ سکتاتھا آج نہیں رہ سکتا۔یہ سمجھنا کہ آپ اسے ہندو بنالیں گے تو یہ نہیں ہوپائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ بھاگوت نے میری ان باتوں کی نہ صرف یہ کہ تردید نہیں کی بلکہ بغور سنا بھی۔ ان سے پہلی ملاقات کو ساتھ آٹھ برس ہوگئے ہیں انہوں نے بلایا ہی نہیں۔میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس نظریہ کو پیش کرناچاہا اور جو ان سے میری بات ہوئی تھی اس پر چلنا چاہالیکن مجھے لگتاہے کہ آر ایس ایس نے 95 برس تک جس نظریہ کو فروغ دیا آج اتنے عرصہ کے بعد کوئی دوسرا نظریہ پیش کرنا موہن بھاگوت کے لئے بڑی ٹیڑی کھیر ہے“۔

زیرنظر موضوع مزید تفصیل کا متقاضی ہے لیکن مختصراً یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ موہن بھاگوت آر ایس ایس کی 100سالہ زندگی کے چھٹے سربراہ ہیں۔ ان کے پانچوں پیش رواں سے مختلف تھے۔بہت سے ہندو تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ وہ ایک اصلاح پسند سربراہ ہیں۔انہوں نے اس راستے سے کچھ ہٹ کر چلنے کی کوشش کی ہے جس کی تعمیر پچھلے سو برس سے کی جارہی ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ راتوں رات بہت کچھ بدل کررکھ دیں گے مناسب نہیں ہوگا۔ان کے ایک طرف تو بی جے پی کی تاریخ کے طاقتور ترین لیڈر نریندرمودی ہیں اور دوسری طرف اس ہندوتو کے نظریہ کے حامل افراد ہیں جس کی پرورش ایک صدی سے کی جارہی ہے۔ایسے میں اگر و ہ مسلمانوں سے رسم وراہ کا تیسرا محاذ کھولنے کی جراٌت کررہے ہیں تو ان کی اس جرأت کی ستائش کی جانی چاہئے۔ یقینی طورپر ایک طرف جہاں اقتدار کے گلیاروں سے ان کی ’اصلاح پسندی‘ کو تائید و حمایت نہیں مل رہی ہوگی وہیں دوسری طرف خود ان کے اپنے متبعین بھی ان سے نالاں ہوں گے۔ ہمیں موہن بھاگوت کے تازہ ترین بیان کی دلکشی کی غیر مشروط ستائش کی کوئی عجلت نہیں ہے۔جو کام ہمارا نہیں ہے اور جس کے کرنے سے کوئی بڑا فرق آنے والا نہیں ہے وہ ہم نہیں کریں گے۔لیکن موہن بھاگوت کا یہ بیان ہندوستانی مسلمانوں او ران کی مذہبی سماجی اور سیاسی قیادت کو ایک بار پھر ایک سنہرا موقع فراہم کرتاہے کہ وہ ان کے بیان کے بہانے سے ہی سہی ان کے قریب جائے اور ان سے وہی سوالات کرے جو اس وقت ایک عام مسلمان کے ذہن ودل کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے پا س یقین کاہتھیار سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی یقین کے سبب اپنے کھلے جانی دشمنوں کے قریب جاتے تھے۔ کیا ہمیں اللہ کے رسول سے بھی زیادہ تکلیفوں کا سامنا ہے؟

22 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/bhagwat-ji-but/d/134122

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..