New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 04:40 PM

Urdu Section ( 23 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Bhagat Singh: The Hero of our Country Part-1 !بھگت سنگھ، ہماری دھرتی کا ہیرو

 پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

(حصہ 1)

21 مارچ 2023

دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و جبر ہوتا ہے، اور آزادی سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے، وہاں دھرتی کے بدن سے ایسے جانباز ہیرو نمودار ہوتے ہیں، جو اپنے وطن، اس کی مٹی، اور آنے والی نسلوں کی آزادی کی حفاظت کے لیے پہاڑوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ برصغیر میں برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کی تحریک بھی ایسے ان گنت سانحات سے بھری پڑی ہے۔ آزادی کی جدوجہد کتنی بھی پر امن کیوں نہ ہو، وہ جابر حکمرانوں کے مظالم کے جواب میں کسی نہ کسی لمحے پر پرتشدد ہو ہی جاتی ہے۔1857 ء کی جنگ آزادی، اور بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی جدوجہد ناقابل فراموش ہیں۔ 23 مارچ ہمارے لیجنڈری جنگجو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا یوم شہادت ہے، جنہیں قابض برطانوی سامراج نے 23 مارچ 1931 کو سینٹرل جیل لاہور میں پھانسی دے کر شہید کر دیا تھا۔ یہ وہی جگہ ہے، جہاں اس وقت لاہور کا شادمان چوک واقع ہے، اور ہمارے جیسے روشن خیال کارکن اس چوک کا نام تبدل کر کے اپنی دھرتی کے ہیرو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔

کلونیل دور (نوآبادیاتی عہد) میں قابض سامراجی قوتوں نے ایک طرف محکوم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا، تو دوسری طرف ان ممالک کے عوام میں ابھرنے والے آزادی کے جذبوں کو دبانے اور ان پر دہشت طاری کرنے کے لیے ان پر وحشیانہ ظلم و جبر اور استبداد کی تمام حدیں عبور کر دیں۔ برصغیر متحدہ ہندوستان پر برطانوی سامراج کے قبضے کی ابتدا 15 ویں صدی کے آغاز میں تجارت کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ ہوئی تھی تو اس قبضے کو مضبوط اور دیرپا بنانے، اور ملکی وسائل کی لوٹ کو تیز کرنے کے لیے برصغیر کے عوام پر ظلم و جبر کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ہم صرف 1857 ء کی جنگ آزادی کی حقیقی تاریخ ہی پڑھ لیں تو نوآبادیاتی نظام کے دور میں محکوم اقوام اور عوام کے ساتھ وحشیانہ درندوں جیسا سلوک آشکارہ ہو جاتا ہے۔ نامور تاریخ دان امریش مشرا نے 1895 ء کی جنگ آزادی کے بارے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ ایک ان کہی ہولوکاسٹ تھی، جس کی وجہ سے برصغیر میں 10 سالوں میں تقریباً 10 ملین افراد ہلاک کر دیے گئے تھے۔

برصغیر کے کرشماتی اور جنگجو انقلابی بھگت سنگھ ہفتہ 28 ستمبر 1907 ء کو چک نمبر 105 بنگے (بھگت سنگھ والا) ، تحصیل جڑانوالہ، ضلع لائل پور میں پیدا ہوئے۔ پانچ فٹ دس انچ لمبے اور نہایت مضبوط بناوٹ کے جوشیلے جوان بھگت سنگھ کی آواز بہت رسیلی اور جذبات سے بھری ہوئی تھی۔ ان کے والد سردار کشن سنگھ سندھو ایک متوسط درجے کے خوشحال دیہاتی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اور والدہ ودیا وتی ایک گھریلو خاتون تھیں، جو شوہر کا زمینداری میں بھی ہاتھ بٹاتی اور بچوں کی پرورش و گھر کا نظام بھی چلاتی تھیں۔ان کے دادا سردار ارجن سنگھ کا شمار بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا، کیونکہ ان کے بھائی دل باغ سنگھ اور دوسرے عزیزوں نے برطانوی سرکار کی خدمات اور خیر خواہی کے سلے میں بڑے عہدے اور مراعات حاصل کی تھیں، اور سماج میں کافی باعزت خیال کیے جاتے تھے۔ لیکن بھگت سنگھ کے دادا سردار ارجن سنگھ نے اپنے وطن کی آزادی اور اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا راستہ اپنایا، جس کی وجہ سے انہیں زندگی بھر مشکلات اور افلاس کا سامنا کرنا پڑا۔

سردار ارجن سنگھ کے تین بیٹے تھے، جن کا نام کشن سنگھ (بھگت سنگھ کے والد) ، اجیت سنگھ اور سوارنا سنگھ تھا، اور وہ تینوں اپنی حب الوطنی کے لیے پنجاب بھر میں مشہور تھے۔ اسی لیے ان کو زندگی بھر تکالیف، جیل یاترہ، جلاوطنی اور افلاس سے سامنا کرنا پڑا۔ بھگت سنگھ کے والد اجیت سنگھ کی تحریک آزادی اور محنت کش تحریک کے نامور راہنما لالہ لاجپت رائے سے گہری دوستی تھی۔ سردار کشن سنگھ ملکی آزادی اور انقلابی تحریکوں، بالخصوص دیہاتی کسانوں کو منظم کرنے میں سرگرم رہتے، اور تحریک آزادی کے لیے سرگرام تمام گروپوں کی مالی معاونت بھی کرتے رہتے تھے۔جب 1907 ء میں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آر بی ٹریری ریگولیشن نمبر 3 آف 1818 ء کا اجرا کیا گیا، تو اس نے انگریز سرکار کے ہاتھ مضبوط کر دیے۔ اس قانون کا مقابلے میں کسانوں اور مزدوروں کی تحریک منظم کر کے سردار اجیت سنگھ اور لالہ لاجپت رائے نے کیا تھا، جس کی پاداش میں انہیں جیل یاترہ پر بھیج دیا گیا۔

بھگت سنگھ کے چاچا سردار اجیت سنگھ کو برطانوی سامراج کے تسلط سے آزادی کی جنگ میں اہم قوم پرست ہیرو کا مقام حاصل تھا اور وہ غریب کسان کے حقوق کے تحریکوں کے بانیوں میں شامل ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر پنجاب کالونائزیشن ایکٹ (ترمیم) 1906 ء کے نام سے بنائے جانے والے کسان مخالف قوانین اور پانی کی شرح پر آبیانے میں اضافے کے احکامات کے خلاف پنجابی کسانوں کو منظم کر کے زبردست تحریک چلائی تھی۔مئی 1907 ء میں انہیں لالہ لاجیت رائے کے ساتھ جلا وطن کر کے برما کی بدنام زمانہ منڈالے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ بعد ازاں زبردست عوامی دباؤ اور ہندوستانی فوج میں بدامنی کے اندیشے کی وجہ سے برطانوی سرکار کو جلاوطنی کا بل واپس لینا پڑا اور اکتوبر 1907 ء میں دونوں راہنماؤں کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے اپنے بھائیوں کشن سنگھ، سورن سنگھ اور صوفی امبا پرشاد کے ساتھ ملک کر سیاسی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کو جاری رکھا، جس کی وجہ سے قابض سرکار انہیں گرفتار کر کے طویل مدت تک جیل میں ڈالنے کی منصوبی سازی کر رہی تھی۔ اپنے ساتھیوں کے اسرار پر وہ 1909 ء میں تحریک آزادی کے راہنما صوفی امبا پرشاد کے ساتھ فرار ہو کر ایران چلے گئے، اور آنے والے 38 برس جلا وطنی میں رہنے کے بعد مارچ 1947 ء میں ہندوستان واپس آ گئے۔

پندرہ جولائی 1913 ء کو غدر پارٹی کا قیام برصغیر کی تحریک آزادی میں ایک اہم انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے۔ یہ پارٹی ابتدائی طور پر امریکہ میں آباد تارکین وطن ہندوستانیوں نے برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی راج کا تختہ الٹنے اور ملک کو آزاد کروانے کے لیے قائم کی تھی۔ بعد میں یہ تحریک ہندوستان اور دنیا بھر میں ہندوستانی کمیونٹیز تک پھیل گئی۔ غدر پارٹی کے کلیدی راہنماؤں میں بھائی پرمانند، وشنو گنیش پنگلے، سوہن سنگھ بھکنا، بھگوان سنگھ گیانی، لالہ ہر دیال، تارک ناتھ داس، بھگت سنگھ تھند، کرتار سنگھ سرابھا، عبدالحفیظ، محمد برکت اللہ بھوپالی (المعروف مولانا برکت اللہ) ، سنت بابا وساکھا سنگھ دادیہر، بابا جوالا سنگھ، سنتوکھ سنگھ، راش بہاری بوس، اور گلاب کور شامل تھے۔ سوہن سنگھ بھکنا اس تحریک کے صدر تھے، کیسر سنگھ اور بابا جوالا سنگھ نائب صدر، کرتار سنگھ سرابھا ایڈیٹر، کانشی رام فنانس سیکرٹری، منشی رام سیکرٹری اور لالہ ٹھاکر داس ڈپٹی سیکرٹری تھے۔غدر پارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد انقلابی سرگرمیوں کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا۔ انہوں نے کرتار سنگھ سرابھا کی قیادت میں ’غدر‘ ، یعنی بغاوت کے نام سے اپنا ہفت روزہ اخبار نکالا، اور اس کی وسیع تر اشاعت کے ذریعے انگریزوں اور ان کے مراعات یافتہ مقامی کارندوں کے خلاف زبردست پراپیگنڈہ کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران 1914 ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا تو غدر پارٹی کے راہنماؤں نے انگریز سامراج کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔(جاری)

21 مارچ 2023، بشکریہ: روزنامہ اوصاف، لندن

-------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/bhagat-singh-hero-country-part-1/d/129383

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..