سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
18نومبر،2024
گزشتہ 5 اگست کو ہونے والے تختہ پلٹ کو بنگلہ دیش کےطلبہ کی اصلاحی تحریک کاشاخسانہ کہا گیا تھا لیکن اس تختہ پلٹ کے بعد نظریاتی سطح پر بنگلہ دیش میں جس طرح کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اوربنگلہ دیش کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو بدلنے کے جسطرح کے اقدامات کئے جارہے ہیں ان سے بتدریج یہ واضح ہورہا ہے کہ طلبہ کی یہ تحریک دراصلبنگلہ دیش کے نظریاتی ڈھانچے کو دل کر اسے نظریاتی طور پر ہندوستان سے دور اور پاکستان سے قریب کرنا ہے۔ اگر صرف سماجی عدم مساوات ہی طلبہ تحریک کی بنیاد ہوتی تو شیخ حسینہ حکومت کو اس عدم۔مساوات کی پالیسی کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا اور جولائی کے مہینے میں حکومت نے طلبہ کے کچھ اہم مطالبات کو مان بھی لیا تھا اور عدالت نے ریزرویشن میں خاطر خواہ تبدیلیوں کا حکمنامہ جاری کردیا تھا۔ عین جب تحریک ختم۔ہونے لگی تھی اسی وقت طلبہ کے گروپ نے نئےمطالبات پیش کردئیے اور ان میں سرفہرست مطالبہ شیخ حسینہ کا استعفی تھا جو حکومت کونا منظور تھا۔اس سے یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ طلبہ تحریک کے پیچھے کوئی نظریاتی گروہ کام کررہا تھا جوسماجی عدم مساوات کو ختم کرنے سے زیادہ تصور بنگلہ دیش کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 5 اگست کے بعد کی شورش میں شیخ مجیب کے مجسموں اور انکے میوزیم اور باقیات کو پوری طرح مسمار کردیا گیا اور سرکاری دفاتر اور اداروں سے ان کی تصویروں کو ہٹادیا گیا۔شیخ حسینہ ایک سیاسی پارزٹی کی سربراہ تھیں اور ان کی پارٹی 15 برسوں سے برسراقتدار تھی۔ لہذا، انکی حکومت کی غلطیوں اور ناکامیوں کے لئے تصور بنگلہ دیش کو ہی ذمہ دار ٹھہرانا مضحکہ خیز بات ہے۔
جال ہی میں بنگلہ دیش کے اٹارنی جنرل اسدالزماں نے بنگلہ دیش کے آئین میں ترمیم کرکے اس میں سے بنگالی نیشنلزم اور سیکولزم کے تصور کو ہٹادیا جائے کیونکہ وہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے اور ملک کی مسلم اکثریت کےمزاج سے میل نہیں کھاتےانہوں نے بنگلہ دیش کی آئین کے آرٹیکل 8 اور 9 میں ترمیم کی سفارش کی ہے۔ آرٹیکل 8 میں سماجواد اور سیکولزم کو منظوری دی گئی ہے اور آرٹیکل 9 میں بنگالی نیشنلزم کومنظویدی گئی ہے۔اس کے علاوہ آئین کی 15ویں ترمیم۔کے ذریعے شیخ مجیب الرحمن کو بابائے قوم کا درجہ دیا گیا ہے۔ اسدالزماں نے ببگلہ دیش کے آئی سے سماج واد ، سیکولرزم اور بنگالی نیشنلزم کو ہٹانے اور شیخ
مجیب کو بابائے قوم کے منصب سے بھی ہٹانے کی سارش کی ہے۔
اسدالزماں کی یہ سفارشات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ طلبہ کی تحریک محض ایک فریب تھی اور اس کے پیچھے بنگلہ دیش کے سماجی ، ثقافتی اور سیاسی ڈھانچے کو پوری طرح بدلنے کا منصوبہ تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ادالزماں کی ان سفارشات کے ردعملمیں طلبہ تحریک کے نمائندوں کا کوئی بیان نہیں آیا ہے جس سے یہ واضح ہو کہ وہ ان سفارشات کی حمایت کرتے ہیں یامخالفت۔ یہ واضح ہے کہ اسدالزماں نے یہ سفارشات پاکستانی لابی اور پاکستان نواز مذہبی تنظیموں کی ایما پر پیش کی ہیں جو بنگلہ دیش کو ہندوستان سے دور کرکے اسے دوبارہ ہندوستان کے خلاف استعمال کرسکے۔ اسدالزماں بنگلہ دیش سے بنگالی نیشنلزم ، سماجواد اور سیکولرزم کو ختم کرکے ملک میں جمہوری قدروں کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں بنگالی نیشنلزم ، سماجواد اور سیکولزم ہی جمہوریت کے استحکام اور فروغ کی ضمانت تھا۔ پاکستان سے سیکولرزم اور سماج واد کو ختم کرکے جمہوریت کو جس طرح سےپامال کیا گیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ جاگیردارانہ نظام پاکستان میں قائم رہا جس کے تحت زمینداروں کی ایک متوازی حکومت چلتی ہے۔ ان کا اپنا قانون اور اپنی جیلیں ہیں۔ الامی قوم پرستی کی آڑ میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیاگیا اور ہندوستان کی مخالفت اور اس کے خلاف تخریبی سرگرمیوں کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنایا گیا اور بنگلہ دیش کی سرزمین کو دہشت گردی کے اڈے میں تبدیل کردیا گیا۔
اسدالزماں بنگلہ دیش سے بنگالی نیشنلزم کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی قومیت بنگلہ زبان ، بنگلہ ادب اور اس خطے کی صدیوں پرانی ثقافت پر مشتمل ہے۔ بقائے باہم ، رواداری اور سماجی مساوات اس ثقافت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ رابندرناتھ ٹیگور اورقاضی نذرالاسلام ، اس بنگالی نیشنلزم کے اہم ستون ہیں۔اور اس بنگالی نیشنلزم نے ہندوستان کے مغربی بنگال ، جھارکھنڈ ، بہار اور دیگر ریاستوں میں مقیم دیگر خطوں میں بسنے والے بنگالیوں کے درمیان یگانگت اور یکجہتی کا رشتہ قائم کررکھا ہے۔اسی بنگالی قومیت نے مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے بنگلہ داں ہندوؤں ، مسلمانوں اور عیسائیوں کے علاوہ آدیواسیوں کو ایک تہذیبی دھاگے میں باندھ رکھا ہے۔بنگلہ داں طبقہ رابندرناتھ ٹیگور اور قاضی نذرالاسلام میں تفریق نہیں کرتا ۔ رابندرناتھ ٹیگور اپنے سوا صرف قاضی نذرالاسلام اور ستیندر بوس کو ہی شاعر مانتے تھے جس وجہ سے دوسرے بنگالی شعراء نذراسلام سے حسد کرتے تھے۔تقسیم ہند کے نتیجے میں جب بنگال دو حصوں میں تقسیم۔ہوگیا اور مشرقی بنگال پاکستان میں چلا گیا اور 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو اس تقسیم در تقسیم سے تنگ آکر ایک بگلہ شاعر نے کہا
بھول ہوئے گے چھے بالکل
آر سوب کی چھوبھاگ ہوئے گے چھے
بھاگ ہوئے نی کو نذرل
(بہت سی غلطیاں ہوگئی ہیں
لیکن سب کچھ بٹ جانے کے بعد بھی نزرل کو نہیں بانٹا جاسکا)
واضح ہو کہ بنگلہ دیش نے نذرالاسلام کو قومی شاعر کا درجہ دیا لیکن مغربی بنگال میں نذراسلام کی قدرومنزلت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی نذرل بنگال کے ببگالیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔
لہذا ، بنگلہ دیش کے آئین سے بنگالی نیشنلزم اور سیکولزم کو تو ہٹایا جاسکتا ہے بنگالی قوم کے ذہن ودل سے ببگلہ نیشنلزم کو نہیں ہٹایا جاسکتا۔سیکولزم بنگلہ قوم پرستی کی روح اور اس کا جزولاینفک ہے۔ اسدالزماں اور ان کے گروہ کے عزائم۔بہت خطرناک ہیں اور وہ لوگ بنگلہ دیش کو ایک طویل نظریاتی جنگ کی آگ میں جھونک کر اس خطے اور بنگالی قوم کی حصولیابیوں کو مٹی میں ملادینا چاہتے ہیں۔
---------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/bengali-nationalism-secularism-idea-/d/133745
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism