بلنڈا ایف ۔ ایسپریٹو، نیو ایج اسلام
14 مئی 2015
انسان اپنے اندر مختلف سطح پر بدی کا ارتکاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خبریں افراد اور قوموں کے درمیان جرائم، تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جنگوں، اور تنازعات کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ داعش کا اپنے شہری قیدیوں کا سر قلم کرنا؛ افریقہ اور مشرقی یورپ میں نسل کشی کا باعث بننے والی نسلی جنگیں؛ عراق کے خلاف امریکہ کی جنگ جس میں ہزاروں عام شہری جاں بحق ہوئے؛ اور گوانتانامو بے میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کے واقعات، یہ تمام واقعات عصر حاضر میں ان برائیوں کی چند مثالیں ہیں جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کر سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عصر حاضر میں مرکزی دھارے میں شامل ایسے اعتدال پسند مسلمان بھی ہیں جو طالبان (جس نے حال ہی میں فلپائن اور ناروے کے سفیر پاکو کستان کو لے جانے والے ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کی ذمہ داری قبول کی ہے) بوکو حرام، اخوان المسلمین، اور منڈانو اور فلپائن میں ابو سیاف جیسے اسلامی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ مذکورہ چند جرائم واضح مثالیں ہیں اس بات کی کہ کس طرح کچھ انسان دوسرے انسانوں کو ان کی جائداد ، زندگی اور ان کی عزت و وقار سے محروم کر سکتے ہیں۔ لوگ منصوبہ بند ڈکیتی، عصمت دری، اغوا، قتل عام اور نسل کشی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ زندگی کی ایک خوفناک سچائی یہ ہے کہ ایسے ایسے مقدمات کی بھی رپورٹ ملی ہے کہ جس میں لوگوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی جائداد اور املاک کو گنوا دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دوسروں کے برے اقدامات کی وجہ سے اپنی زندگیاں بھی گنوائی ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ تباہی صرف ان کی زندگی اور جائداد و املاک تک ہی محدود نہ ہو، بلکہ ممکن ہے کہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں نے خواتین کی جانوں سمیت ان کی عفت و طہارت اور ان کی پاکیزگی بھی چھین لی ہو۔ میکسیکو میں یونیورسٹی کے طلباء کو اغوا کیا گیا اور اس کے بعد ان کا قتل کرکے انہیں جلا دیا گیا۔ پاکستان میں طالبان کی ایک جماعت نے ایک اسکول پر حملہ کر کے 150 بچوں کا بہیمانہ قتل کیا۔ دنیا بھر کے مختلف حصوں میں افراد یا چند افراد پر مشتمل کوئی نہ کوئی جماعت خوفناک اور کراہت آمیز برائیوں اور جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔
خدا کا وجود ناقابل فہم و تصور تمام قسم کی کثافتوں سے پاک نور سے عبارت ہے اس لیے کہ وہ مظہر تقدس ، رحمٰن و رحیم اور انتہائی مہربان اور کریم ہے۔ اس کی لامحدود سخاوت اس امر میں عیاں ہے کہ وہ منصفوں اور ظالموں دونوں کو عطا کرتا ہے اور اپنی تمام مخلوقات کو دل کھول کر اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے۔ عیسائیوں کا ماننا ہے کہ اس نےاپنے ایک بیٹے کو زمین پر پوری انسانیت کو ان کے گناہوں سے نجات دلانے کے لیے بھیجا تھا اس لیے کہ اسے اپنی انسانی مخلوق سے بے پناہ محبت ہے۔ خدا کا دل اس کی انسانی مخلوق کے لئے نرمی اور لازوال محبت سے بھرا ہوا ہے۔
خدا قدوس، نگہبان، علیم و خبیر، قوی، سخی، رحیم و کریم ہے جو ہم تمام کو دیکھتا اور ہم تمام کو ہمارے ناموں سے جانتا ہے۔ وہ تمام چیزوں کو دیکھتا ہے اور سب کچھ جانتا ہے، اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ جلوت اور خلوت میں کی جانے والی نیک اور بدی دونوں کو دیکھتا ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اس مقدس خدا کو کیسا لگے گا جب وہ یہ دیکھے گا کہ اس کی انسانی مخلوق ہر طرح کی برائیوں اور گناہوں کا ارتکاب کر رہی ہے؟ اس نے ایک بار عظیم سیلاب کے ذریعے اس روئے زمین کو شریر مردوں اور عورتوں سے پاک صاف کر دیا تھا، لیکن اس کے بعد اللہ نے نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اب دوبارہ بنی نوع انسان کو تباہ نہیں کرے گا اور اس وعدہ کی علامت کے طور پر اس نے قوس و قزع کو آسمان پر چمکایا۔
خدا کا دل ایک مشفق باپ کے دل کی طرح ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے بندے خوفناک، نفرت انگیز اور ہیبت ناک برائیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں ، لیکن وہ انہیں مہلت دیتا ہے، ضمیر کو توبہ کرنے پر ابھارتا ہے، یہاں تک کہ اس کے گم گشتہ راہ بندے اس کی طرف لوٹ جائیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے جو کہانی بیان کی اس سے خدا کی نرم دلی کا پتہ چلتا ہے، اور یہ واقعی دلوں کو چھو لینے والی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ کہانی ایک نوجوان آدمی کی ہے جو ایک امیر باپ کا بیٹا ہے، ایک دن اس نے اپنے والد سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اس سے لطف اندوز ہو اور دیگر ممالک کا سفر کر سکے۔ اس کے والد نے اس کی میراث کا پورا حصہ اسے دے دیا، اگرچہ وہ اب بھی باحیات تھا، اور اس کے بیٹے نے ہر ممکنہ عیاشی میں اپنے سارے پیسے خرچ کر دیے یہاں تک کہ خرچ کرنے کے لئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ اس کے بعد وہ ایک مالدار شخص سے درخواست کر کے اس کے خنزیر کا رکھوالا بن گیا، دریں اثناء اس نے جب یہ دیکھا کہ اس کے خنزیر کے پاس کھانے کے لیے بہت ساری چیزیں ہیں جبکہ اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، تو اس کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ کیوں نہ میں خود اپنے والد کا ہی خادم بن جاؤں اس لئے کہ اس کے والد کے خادموں کو عمدہ کھانا ملتا تھا۔ لہٰذا وہ بد حالی کے عالم میں گندے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ندامت بھرا دل لیکر اپنے والد کی طرف لوٹا۔ اس کے والد نے اسے دور سے دیکھا، اسے معلوم ہو گیا کہ اس کا بیٹا اس کے پاس واپس آ رہا ہے۔ اور اس نے اپنے خادموں کو اس کی واپسی پر ایک پر تکلف ضیافت کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔ اس کہانی کا سب سے بہترین حصہ یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے دوڑا اسے چوما، گلے سے لگایا اور اپنے بیٹے کے چہرے کو خوشی حاصل کرنے کے لیے اپنی گردن پر جھکا دیا۔ اب اس کا بیٹا اس کے پاس واپس آ چکا تھا!
ہمارا رب بھی ایسا ہی ہے۔ وہ اپنے تمام بندوں سے بے پناہ محبت کرنے والا ایک ایسا رب ہے جو کہ اس کی طرف ہمارے رجوع کا انتظار کر رہا ہے تاکہ ہم پر وہ اپنی رحمتوں اور عنایتوں کی بارش کر سکے۔ وہ ہم سے پہلے بھی محبت کرتا تھا اور ہمارے رجوع کرنے پر بھی ہم سے محبت کرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ ہمارا یک منعم اور محب خالق ہے جسے ہم سے بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ صفانیاہ 3:20 میں ہے کہ:"وہ تمہیں اپنی محبت سے مطمئن کر دیگا اور سخن گوئی کر کے تم پر خوشی کا اظہار کرے گا"۔
دعا ہے کہ اللہ کے تمام سرکش بندے تائب دل کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں، اس سے محبت کریں، اس کی اطاعت کریں اور ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ خدا ہم سب کا ایک مشفق نگہبان ہے۔ اس کے طریقے ہمارے طریقوں سے الگ ہیں ؛ اس کی منشاء ہماری منشا اور خیالات سے الگ ہے۔ وہ عظیم تر مقاصد کے پیش نظر ہمیں دکھ اور تکلیف کے مراحل سے گزار سکتا ہے لیکن اس کے بندوں کے لیے اس کی محبت دائمی ہے اس لیے کہ وہ ہمار ایک نرم دل، مشفق اور مقدس خالق ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک انسان وہ مقدس اخلاقی کردا اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہم اس دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی میں اس کے لائق بندے کہے جا سکیں۔ آمین۔ ثم آمین۔
URL for English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/the-repulsiveness-evil-vis-à/d/102950
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-repulsiveness-evil-vis-à/d/103038