New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 07:25 PM

Urdu Section ( 11 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

How Can It Be Believed That Every Indian Is A Hindu? کیسے مانیں کہ ہر بھارتیہ ہندو ہے؟

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

10 جنوری 2025

 اسجمعہ سے اب ان تمام حساس نکات کو آئندہ مضامین کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو دائیں بازو کی ہندو سیاست، ثقافت، حکمرانی اور طرز معاشرت کا محور ہیں۔ یہ طبقہ اس قومی شناخت کا داعی ہے جس کی  بنیاد نظریۂ ہندوتوہے۔ اسی کو وہ بھارت کی روح کا درجہ بتاتااور دیتا ہے۔ آئیے اس گرہ کو کھولتے ہیں۔حقائق کتنے ہی تلخ اور ناگوار طبیعت کیوں نہ ہوں مگر ان کو مکالمے اور مفاہمت تک لے جانے کے لئے تفصیلی تحریر کو سامنے لانا ایک منطقی تقاضہ ہے۔ اس سے پہلے کہ میں براہ راست اس طویل تسلسل کے پہلے سوال ’’ہر بھارتیہ ہندو ہے‘‘پر جاؤں بہتر ہوگا کہ کچھ گوشوں کی وضاحت کر دی جائے تاکہ ابہام اور بدگمانی کو زمین نہ ملے۔مذہبی ساخت اور شناخت سے انسان اور اس کی پوری معاشرت کا وجود جڑا ہوتا ہے۔ اس میں اس کا عقیدہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، طرز زندگی،اخلاقیات، تہذیب و تمدن کے خد و خال، نفسیاتی جہتیں، اقدارو روایات، ذہنی و فکری توجیہات،منطق اور دلائل، زبان و ادب، ثقافت، عادات و اطوار گویا کسی بھی شعبہ زندگی کو اس سے علیحدہ رکھنا ممکن نہیں۔ دوسرے یہ تو رہی بات دنیا کی اب آئیے آخرت اور نجات پر یہاں کا تو سارا معاملہ ہی مذہب (عقیدہ اسلامی) سے راست تعلق رکھتا ہے جس کی  اسلامی اصطلاح دین ہے۔ اب اگر کسی دوسری ’آستھا ‘(مت یا مذہب) سے وابستہ کوئی دیگر شناخت جس کا استعمال مذہبی شناخت کےطور پر نافذالعمل ہے تو اسے میں بحیثیت مسلم کیسے تسلیم کر سکتا ہوں؟

ہندوستان ہزاروں سال پرانی اپنی تہذیب و ثقافت رکھتا ہے۔ اس کاسیدھا تعلق ویدوں، اپنشد، بھاگوت پوران، گیتا، رامائن اور منو اسمرتی سے جڑتا ہے۔ دائیں بازوکی ہندو قوتوں کے نزدیک آج کے بھارت کا تصوروہ بھارت ہے جو محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے کا بھارت تھا۔ان کا مطمع نظر اس کا  احیاء ہے۔ دوسرے اس نظریے کی ابتدا ہندوستانی سیاسی و سماجی منظر نامے پر ہندو مہاسبھا کے قیام، ویر ساورکر کے نظریہ ہندوتو، ہیگڑےاوراس کی آر ایس ایس، ہندوراشٹر ، ہندو راشٹرواد، دین دیال اپادھیائے کا’ ایکاتم واد‘ (Integral Humanism) اور جن سنگھ؍ بھاجپا کے قیام سے جاکر سیدھا جڑتا ہے۔ آج بھاجپا سب سے امیر سیاسی جماعت اور راشٹریہ سوئم سنگھ سب سے بڑی بین الاقوامی ثقافتی تنظیم ہے ۔ آرایس ایس کی شاکھاؤں کا ملک بھر میں جال پھیلا ہوا ہے۔ مرکز میں قیادت اور اقتدار آج بھاجپا کے پاس ہے جو آر ایس ایس کی کوکھ سے نکلی ہے۔نظریہ ہندوتو سے اس کی وابستگی صاف، جگ ظاہر اور بنا کسی ابہام کے ہمارے سامنے موجود ہے۔اس نظریے کے مطابق بھارت میں رہنے اور بسنے والا ہر شخص ہندو ہے اور یہی اس کی واحد ساخت اور شناخت ہے۔ یہ سوچ سیدھے ہندو راشٹرکے تصور، سناتن روایات اور مذہبی کتابوں، خیالوں اور ’آستھاؤں‘ کی زندگی کے ہر شعبہ حیات میں بالادستی کے قیام کی مہم جوئی اور نفاذ سے راست جڑتی ہے ۔نظام تعلیم، قومی سیاست، ثقافت، معاشرت، طرز حکمرانی، نظریاتی حدود و قیود، ادارہ سازی، قانون سازی اور آئین سازی تک اس کا دائرہ کار جاتا ہے۔اس کے نفاذ سے موجودہ سیاسی و سماجی ڈھانچہ پوری طرح تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ سیکولرزم کا موجودہ مفہوم ہی صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔اس فکر و نظریے کے داعی اور مبلغین آج صاحب اقتدار ہیں۔ ان کو یہ اقتدار تیسری مرتبہ پانچ سالہ مدت کے لئے جمہوری طریقے سے حاصل ہوا ہے ۔کوئی تعجب نہیں کہ جب کبھی بھی اس کو دو تہائی اکثریت ملے تو ملک کا آئین، نظام حکومت، شہریت کے اصول و ضوابط، قومی ترانہ، جھنڈا اور ایوانوں کی کارروائی کا انداز سب کچھ یہ بدل ڈالیں؟ بابائے قوم سے لے کر وہ تاریخ اور اس کے اکابرین جگہ پائیں جو اس کی نظریاتی اساس کی نمائندہ، ترجمان اور ضامن ہوں؟

ہر بھارتیہ ہندو ہے، ہندو تہذیب پر مبنی حب الوطنی اس کا بنیادی فلسفہ حیات ہے، آہستہ آہستہ اس کوپروان چڑھایا جارہا ہے۔ فی الوقت اکثریتی طبقات میں تین سیاسی زاویے موجود ہیں۔ بڑی اکثریت نظریہ ہندوتو کی حامی، حواری، حلیف، داعی اور اس میں یقین رکھنے والوں کی ہے۔ دوسرا ایک بڑا ریاستی سیکو لر سیاسی جماعتوں کا ٹولہ ہے جو دل سے اس کا مخالف نہیں، مگر کھل کر اس کی حمایت سے ابھی اپنی مصلحتوں کےباعث گریز کرتا ہے۔ خاموشی سے نہ اسے برا جانتا ہے اور نہ ہی معیوب سمجھتا ہے ۔ضرورت پڑنے پر ان سے ہاتھ بھی ملا لیتا ہے۔ تیسرا طبقہ جس میں کانگریس اور کمیونسٹ آتے ہیں ان کی زمین لگاتار سکڑ رہی ہے ۔یہ طبقات اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ووٹ بنک پرسیاست کرتے ہیں اس کےاقتدار کا حصول کسی درجہ راست اقلیت نوازی سے جڑا ہے۔ہر ہندوستانی شہری کواگر ہندو جو اکثریت کی مذہبی شناخت ہے بتلایا اور تسلیم کیا جائے تب مسلمان، مسیحی، یہودی، پارسی، سکھ، بودھ، جین اور بہائی ہرایک کی مذہبی شناخت کا کیا ہوگا؟ یہ خلط ملط اپنے اندر ایسا کافی کچھ سمیٹے ہوئے ہے جس سے بین الاقوامی طور پر مسلمہ و مستند اقلیت کی اصطلاح، متعلقہ تحفظات، حقوق انسانی، ظلم و جبر، تفرقہ، تعصب اور کسی بھی طرح کی تفریق کےتدارکی عمل اورمہم جوئی پر سیدھے آنچ آ رہی ہے۔یہ ہیں وہ پیچ و خم جو” ہر بھارتیہ ہندو ہے‘‘اس مفروضے پر سوال قائم کرتے ہیں؟

نظریہ ہندوستان کیا ہے اس پر نظر ڈالنی ضروری ہے۔ یہ اس آئیڈیا آف انڈیا کا داعی ہے جس کی بہترین نمائندگی و ترجمانی ہمارا آئین اور اس کی تمہید کرتی ہے۔ اس میں سب کی حیثیت مساوی ہے۔متبادل سیاسی نظریہ ہندوتو پرمبنی’ راشٹرواد‘ ہے جو اب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکاہے ۔یادرکھئے ہندو، ہندوتو کی تعریف کا معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا تب فیصلہ یہ آیا تھا کہ’’ ہندوتو ہندو مذہبی بنیاد پرستی سے جدا تصور ہے، ہندوتو ایک طریقۂ زندگی ہے، آگے کہا گیا کہ ہندوازم یا ہندو مذہب کی تشریح و تعریف مشکل ہے کیونکہ اس میں کئی اعتقاد، ایمان، عمل اور عبادت کے طریقے شامل ہیں، ساتھ ہی اس کو سخت ہندو عقائد سے جوڑکر نہ دیکھا جائے۔ البتہ اگر ہر ہندوستانی اکائی اپنے آپ کو ہندو تسلیم کرلے اور ایسا کہناو لکھنا شروع کردے تو داؤ پر کیا لگتا ہے؟‘‘پہلی بات جب ہندو تمام سرکاری و غیر سرکاری ریکارڈ میں مذہب ومذہبی شناخت کے طور پر آج درج اورتسلیم کیا جاتا ہے تب دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے اسے کیسے قبول کریں۔ کوئی اس کی منطق سمجھائے؟ دوسرے اسے جب ہندو ثقافت کے دائرے میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے تب اس سے مراد اس خاموش تحریک کی ارتقاء اور اس کا وہ منطقی انجام نظر آتا ہے جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ سب کی شناخت ہندو ہی بن جائیگی اور دیگر مذاہب فطری طور پر اسی اصطلاح میں ضم ہو جائیںگے؟ تیسری بات نظریہ ہندوتو اقلیت کی اصطلاح کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا کیونکہ اس کے نزدیک یہاں جو ہندو نہیں ہے وہ بھی ہندو ہے، بقول اس نظریے کے حامیوں اور حواریوں کے جبراًتبدیلی ٔ مذہب کے نتیجے میں صرف پوجا کے طریقے ہی تو بدلے ہیں۔آباء واجداد تو ایک ہی ہیں ؟ چوتھے جب تک آئین میں ہندو مذہب کومذہبتسلیم کیا جا رہا ہے تب تک ہر بھارتیہ ہندو ہے یہ زاویہ نا قابل قبول ہے۔آج آئین کی روح سے وطن عزیز کی شناخت بھارت اور انڈیاہے یعنی ہر شہری کی شناخت بھارتیہ یا انڈین ہے۔ ہندو مذہبی خانے کی شناخت ہے قومیت و شہریت کی نہیں۔آر ایس ایس کا یہ کہنا ہے کہ وہ ہر بھارتیہ کو ہندو مانتی ہے۔ آپ بھارتیہ کہو، ہندوستانی کہو یا انڈین! ہمارے نظریے سے ہر ایک ہندو ہے!

 یہ تفصیل اپنے آپ میں ایک آئینی سوال کھڑا کرتی ہے۔ آئین میں قومیت اور شہریت کے تعلق سے نہ کہیں ہندو اور نہ ہی ہندوتو کا ذکر یا حوالہ ہے۔ جب تک یہ آئینی صورتحال ہے یہ موضوعِ بحث تو ہو سکتا ہے۔ اس کے آگے کا سفر ممکن نہیں۔ دوسری بات ہمارے ہندو بھائی بہن پہلے خود یہ طے کریں کہ ہندو مذہبی شناخت ہے یا۰۰۰

آخر میں کہنا چاہوں گا کہ علاوہ خدائے وحدہٗ لا شریک کے ہر وحدت کثرت سے مشروط ہے۔ آپ تینتیس کروڑ دیوی دیوتاؤں کو مانتے ہیں۔ ویدک روایات میں خدا کا تصورتثلیثیت یعنی برہمن، شیواور وشنو کو ملا کر ہے۔’ اوتار‘ ایک نہیں کئی ہیں۔ دیگر تفصیل و تشریح بھی متعدد اور متضاد ہیں۔

 کثرت میں وحدت فطرت خداوندی کی مشیت ہے۔ جھنڈا، شناخت، قومی ترانہ، نشان، پہچان، تعلیم،  نظام سیاست، حکومت، ترجیحات یہ سب ایک ہو سکتے ہیں مگر فنون لطیفہ اور سماجی نظریات اور مذہبی انفرادیت کیسے ایک ہو سکتے ہیں ان باریکیوں کو سمجھنا پڑیگا؟ یہ ضد، شدت پسندی اور ہٹ دھرمی کا سوال نہیں منطق سے سیدھے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ اگر سارا سناتن سماج ہندو کی اصطلاح کو اتفاق رائے سے دھرم کی شناخت سے ہٹا کر کسی دیگر متبادل پر اتفاق کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تب اس مسئلے کا شاید قومی حل ممکن ہو سکے۔ میرا مشورہ ہے کہ جس طرح ہندوستان کو ترک کردیا گیا انڈیا کو بھی ترک کر دینا چاہئے۔ تنہا بھارت ہماری قومی شناخت ہو ،اس پر آج بھی اتفاق رائے موجود ہے۔

10 جنوری، 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/believed-every-indian-hindu/d/134304

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..