محمد فخر عالم
17مارچ،2024
المقدس پہلا قبلہ، جائے
معراج، مسلمان یہودی اور عیسائی بالاتفاق نبیوں اور رسولوں کا گھرتسلیم کرتے ہیں۔
ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جس کے اتنے سارے نام ہوں۔ اس زمانے
کے باشندے ’پیوسی‘کہلاتے تھے اور’اریل‘
انھیں کا رکھا ہوا نام ہے جس کے معنی شیرخدا کے ہے۔یہ لفظ اریل اصل میں یونانی
لفظ ہے۔مصر میں کھدائی سے موصول ہوئی تختیوں سے معلوم ہواہے کہ مصر کے گورنرشہر کے
مکتوب ہیں۔ ہم اسے یوروشلم لکھتے ہیں۔در اصل پروشلم رومی (رومن) لفظ ہے۔انگریزی
اورعبرانی نام جروزلم ہے۔صیہون ایک پہاڑی کا نام ہے اس سے بھی بیت المقدس مرادہے،
اسے صلح،امن ، آسودگی اورشانتی کاگھر بھی کہتے ہیں۔عرب اسے بیت المقدس یعنی متبرک
اور پاک مکان کے نام سے پکارتے ہیں۔ ولایت
یاصوبہ کا نام المقدس ہے۔مگریہاںشہرکے معنیٰ میں استعمال ہواہے۔افادیت اوراسلامی تاریخ
میں اس مقدس مقام کا نام البیت المقدس آیا ہے۔’شلم‘اس لفظ کے معنی امن، صلح،
آسودگی کے ہیں۔یہودی مفسرین لفظ شلم ، شلیم سے یروشلم مرادلیتے ہیں۔کیونکہ
زبور(پاک اورآسمانی کتاب)میں اس کو شلم کے لفظ سے خطاب کیا گیا
ہے۔یہ نہ پہاڑ کی چوٹی ہے اور نہ ہی وادی ہے۔ یہ بحرہ روم اور جھیل مروارکے درمیان
واقع ہے۔ یہ مشرق اورمغرب کا سنگم ہے۔ صحرااور سمندرکے درمیان ایک دوسرے کو
ملاتاہے۔جہاں چٹان اور زیتون کے درخت ہیں۔بیت المقدس کی کرسی تین طرف سے بلند زمین
پر ہے۔اوریہ مقام سمندرکی سطح سے۲۶۰۰؍فٹ
بلند ہے۔
بیت المقدس بے
شمارپیغمبروں کا مسکن اور مدفن ہے۔یہ ساری دنیاکی تہذیب کاسرچشمہ بھی ہےاورروحانیت
کا مرکزبھی۔یہ مقام زلزلے سےبتاہ ہوکرکھنڈرات کاپہاڑبن چکاہے۔ دنیامیں اس وقت کوئی
ایسامقام نہیں جو اس کثرت انقلاب سے دوچارہوا
ہو۔مسلمانوں اور یہودیوں کا ساجھاعقیدہ ہے کہ دنیاکا وسط بیت المقدس ہے۔قرآن
مجیدمیں
بیت المقدس کے نام سے اس کاذکر کہیں نہیں
آیاہے۔ البتہ احادیث اور دوسری ا سلامی روایتوں میں بیت المقدس کاذکر ملتا
ہے۔یہاں پر اساسائن کامشہور قلعہ تھا۔۱۰۰۰
قبل مسیح حضرت داؤدؑنے اس پر قبضہ کیاجب سے یروشلم یہودیوں کا قومی مرکز بن گیا۔
یہاں حضرت سلیمانؑ، زریابل اور ہیرودیس نے ہیکل تعمیر کرائے ۔ اس وقت یہ رومیوں کے
قبضے میں تھا۔ عیسائیوں کے اس شہرکے تقدس کاباعث حضرت عیسیٰؑ کو صلیب دیاجاناتھا۔
تاریخ میں درج ہے کہ چند ہزار سال قبل حضرت یعقوبؑ کی اولاد سے اسرائیلیوںکا حسب
نسب ملتا ہے ۔تاریخ کے مطابق حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل کانام دے دیا گیاتھا یہ لوگ
کنعان میں بس گئے تھے۔ اسی نبی اسر ائیل میں حضرت موسیٰؑ اورحضرت سلیمانؑ جیسے
جلیل القدر پیغمبرپیداہوئے تھے۔ بعد میں بابل کے حکمراں بخت نصرنے اسے تباہ کردیا۔ اس کے بعد
رومیوں نے فلسطین پرقبضہ کرکے یہودیوں پرمظالم ڈھائے۔یہو دیوں کو تمام عیسائی
ممالک میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا رہاکیونکہ ان پر الزام تھاکہ انھوں نے حضرت
عیسیٰؑ کو صلیب پرلٹکادیاتھا۔
۲۵۰۰قبل
مسیح سے بیت المقدس کی تاریخ کاپتہ مورخوں نے لگایا ہے جس میں د
رج ہے کہ ۲۵۰۰قبل
مسیح سے عرب اور آل سام آکریہاں آباد ہونے لگے تھے۔۲۰۰۸ قبل مسیح میں یہاں شالیم
کی حکومت تھی۔اور انہی کے نام سے شہر شالیم
موسوم تھا۔ ۱۴۵۱
قبل مسیح کو اسے حضرت یوشع نے فتح کیا تھااس سے قبل یہ شہرمصریوں کے قبضے میں تھا۔
۱۴۰۰ قبل مسیح میں سب سے پہلے
اس شہر کا محاصرہ حضرت یوشع کی وفات کے بعدہوا تھا۔۱۰۴۹ قبل مسیح میں یہاںحضرت
داؤدؑ نے چڑھائی کی اوراس شہرکو فتح کیاتھا۔ اپنے ہیکل کے لیے جگہ پسند کی
اوروادی کے دونوں جانب معاشرتی شہرآباد کیا۔۱۰۱۵ قبل مسیح میں حضرت داؤدؑکا
انتقال ہوا۔اور حضرت سلیمانؑ بادشاہ بنے۔ ۱۰۱۳قبل مسیح میںحضرت داؤدؑ کی پسند کی گئی
جگہ پر حضرت سلیمانؑ نے ہیکل کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کی تعمیر کا کام شروع
کیاتھا ۔ ۱۰۰۶
قبل مسیح میں یہ ہیکل تیارہوا۔۹۲۵ قبل مسیح میں حضرت
سلیمانؑ کاوصال ہوگیا۔ ۹۷۰
قبل مسیح میں مصری حکمراں صسیکب نے اسے تاراج کیا اور اس کے بعد
حضرت داؤدؑ کے گھرچند ہی یہودرہ گئے۔۸۸۶قبل
مسیح میں اس جگہ پر فلسطینیوں کا قبضہ ہوگیا۔۷۹۰قبل مسیح میں یہودی
حکمراں
یوآش نے قبضہ جمایا۔انھوں نے شمالی فصیل
مسمارکردی۔غریاہ نے اس کی مرمت کروائی۔انھوں نے ۷۸۰قبل مسیح سے۷۴۰ قبل مسیح تک حکومت کی۔ ۷۰۱قبل مسیح میں جب اسورکا
حصہ بناتو حزتباہ نے اس کی حفاظت کے واسطے فصیل بنائی۔۶۰۹قبل مسیح میں یہ مقام
پھرسے مصری حکمراں فرمون شاہ کے قبضے میں آگیا۔۶۰۷؍
۵۹۷۔۵۷۸ قبل مسیح میں بخت نصرنے
آخری مرتبہ شہر کوتباہ کیا۔۵۴۸قبل
مسیح میں
سیریں نے اس شہر کو اپنے قبضے میں لے
لیا اور پھر سے یہاں یہودی آباد ہونے لگے۔۳۲۶؍قبل
مسیح میں سکندر بغیرجنگ کے شہرمیں داخل ہوا۔
۶۸ء
حضرت عیسیٰؑ بارہ سال کے عمرمیں بیت المقدس آئے۔ ۲۹ء؍۳۰ء ۱۶؍اپریل
سن ۳۰ء
کو گڈفرائیڈے کے دن انھیں سولی دے دی گئی۔ سن ۷۰ء سے ۱۳۰ء کے درمیان یہاں پر بارہ
ہیکل بنائے گئے اور گرائے گئے۔سن ۱۳۶ء
کی بات ہے جب اس شہر کی تعمیر ازسرنو کی گئی اور رومیوں کو آباد کیا گیا۔ ۳۳۶ء میں قسطنطین اعظم کے
ہاتھوں اس شہر پر عیسائی حکومت قائم ہوئی اور کلیسا بنوائے گئے۔۴۶۱ء میں شہنشاہ بوڈوسیر نے
فصیل کے ساتھ ساتھ شہر کو وسیع کیا۔
فتح بیت المقدس کے بعد
حضرت عمرؓ نے اپنی پسند سے جگہ منتخب کی تھی۔اس مسجد کی تعمیرلکڑی سے کی گئی اور
اس کا نام مسجد الاقصیٰ ہے۔ اور یہ آپؐ کے نام سے بھی منسوب ہے۔ سن ۶۴۰ء میں مسجد الاقصیٰ کی
تعمیر مکمل ہوئی۔ ۶۹۱ء
میں خلیفہ عبدالمالک نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر ازسرنو کی اور مسجد کو گنبد دار
بنایا۔اس کی تعمیر ۶۸۴ء
میں شروع ہوئی۔ اوراس پر ملک مصرکا سات سال کا مالیانہ صرف ہوا تھا۔ ۸۰۰ء میں شہنشاہ شار لیمان
والی فرانس نے چند سفیر اس مقدس شہر میں خیرات کے واسطے بھیجے تھے۔ خلیفہ ہارون
رشید نے مزار مقدس اور دیگر جگہوں کی چابیاں انھیں سفیر کے ہاتھوںشارلیمان کو
بھیجیں۔
اورشارلیمان کو والی یروشلم اور مالک کلیسائے شہربنایا۔۸۳۰ء میں تموم
ابوحرب باغی نے اس شہر پر کچھ دنوں تک قبضہ جمائے رکھا۔ ۹۴۹ء میںخلیفہ معز فاطمی
خاندان نے اس پر قبضہ کیا۔ کلیسا اور مزار مقدس نذرِ آتش کر دیا۔۹۹۰ء میں خلیفہ معزاللہ نے
کلیسائے مزارمقدس کو بالکل بربادکردیا۔۱۰۷۷ء میں ملک شاہ کی فوجوں نے اسے تاخت و
تاراج کیا۔۱۰۸۸ء
میں ترکمان سردار ارتق کے قبضے میں شہر آگیا۔
یہودی عقیدہ کے مطابق
خدانے حضرت ابراہیمؑ کو بشارت دی تھی کہ وہ کنعان یعنی سرزمین فلسطین میں جاکر
آباد ہوجائیں۔ اس لیے اسرائیل مقبوضہ فلسطین کو
پرومائس لینڈ بھی گئے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اولاد کے
لیے سرزمین پر عطا فرمائی۔ یہودی دعویٰ کے مطابق آج کل وہ جس دیوار کے پاس توریت
کی تلاوت رو رو کر کرتے ہیں وہ ہیکل سلیمانی کا حصہ ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق ہیکل
سلیمانی کے اندر وہ گولڈن بوکس دفن ہے جس کے اندر اصل توریت دفن ہے۔ فلسطین جب
رومیوں کے قبضے میں آیا تو یہودی فلسطین سے نکل کر دنیا بھر میں تتر بتر ہوکر
پھیل گئے۔تاہم انھوں نے یہ وعدہ لیا کہ وہ ایک نہ ایک دن اس سرزمین پر واپس آئیں
گے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پید ائش اورظہوراسلام تک یعنی تقریباً ۶۰۰ ؍سال
بعد تک فلسطین میں یہودیوں کی اکثریت کم ہی ہوتی چلی گئی۔عیسیٰؑ
پیدائش کے وقت یہودی یہاں پراقلیت کے طورپرہی رہے۔تاہم عیسائیت کے ظہور پر ان کی
حضرت عیسیٰؑ کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں۔ مسیح کا درجہ حاصل کرنے والے اللہ کے
نبی حضرت عیسیٰؑ کوصلیب تک پہنچانے میں یہودیوں کا کردار واضح ہے۔ اور یہیں سے
عیسائیت اور یہودیت کی دشمنی کی بنیاد پڑی۔ اس کے بعد عیسائیوں نے ہر موقع پر جو
مظالم یہودیوں پرڈھائے وہ تاریخ کا ایک باب ہے۔ جو عیسائی اور یہودی تاریخ نویس نے
اس بات کی تصدیق یہاں پر حضرت یحییٰ ؑ حضرت ذکریاؑ اور حضرت سلیمانؑ کے مقبرے میں
ساتھ ہی ساتھ جنگ عظیم اوّل کے شہیدان کے مقبرے بھی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے متعلق
عیسائی ہدایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے اسحاقؑ کو وہاں قربانی کے لیے لے کر
گئے تھے۔ اس کے بعد اس جگہ پر یہودکا ہیکل بنا ایک اور عیسائی روایت کے مطابق اس
جگہ حضرت عیسیٰؑ کوسولی پر لٹکایا گیا تھا۔ اور قیامت اسی جگہ پر برپاہوگی۔ حضرت
سلیمانؑ کے عہد مبارک میں اس کی شان انتہائی عروج پر تھی۔ حضرت یعقوبؑ نے اسی مقام
پر خواب میں اللہ تعالیٰ سے باتیں کی تھیں۔ اس لیے اس جگہ کو بیت ایل یعنی اللہ
کا گھر رکھا گیا۔ اور حضرت داؤدؑ نے اس کی نئی بنیاد رکھی۔
حضرت سلیمانؑ نے خدا کے
حکم اور الہام کے مطابق یہاں مسجد ہیکل یا مسجد الاقصیٰ تعمیر فرمائی ۔ یہی مسجد
اور یہی شہر ہزارہا انبیاء علہیم السلام کا قبلہ مصلیٰ اور زیارت گاہ رہا ہے۔ حضرت
عیسیٰؑ اور ہزارہا پیغمبروں کے مزارات اسی شہر اور اس کے مقامات و نواح میں موجود
ہیں کوۂ
زیتون بیت المقدس کے بالکل قریب ہے ۔ یہاں الصحرہ اور قبۃ الخرہ ہے۔ یہاں مسجد عمر
اور حرم شریف ہے۔ یہاں ایک بڑا پتھر ہے۔ جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ آپؐ تکیہ لگا
کر بیٹھے تھے۔ یہ پتھر بیچ سے ٹوٹا ہوا ہے۔ ایک صندوق ہے جس میں ایک سوراخ
ہاتھ جانے کے لائق ہے۔ اس میں نادر قدم رسول مبارک بتائے جاتے ہیں ۔ آپ
کو یہیں سے معراج نصیب ہوئی تھی۔( جاری)
17 مارچ،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism