باسل حجازی، نیو ایج اسلام
23اپریل، 2014
اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردانہ فکر ہی دہشت گردی کی تخلیق کا سبب بنتی ہے، دہشت گرد تو ایک اوزار سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے ہاں غور وفکر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بہت سارے دہشت گردوں کو تو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ ان کا شکار دراصل ہے کون اور وہ اسے کیوں قتل کرنے جا رہے ہیں، جس دہشت گرد نے فرج فودہ کا قتل کیا تھا جب اس سے عدالت میں پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس کا جواب تھا کہ: کیونکہ وہ کافر تھا، اور جب وکیل نے اس سے یہ پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ کہ وہ کافر تھا۔۔ کیا تم نے اس کی کوئی کتاب پڑھی؟ تو اس کا جواب تھا کہ وہ ان پڑھ ہے!؟
ظاہر ہے کہ ایسا احمق ایسی دہشت گردانہ فکر کا ایک اوزار ہی تھا، یہ فکر اتنی خطرناک ہے کہ معاشرے، خاندان بلکہ ممالک تک کو تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لوگ ایک دوسرے سے نتائج کی پرواہ کیے بغیر نفرت کرنے لگتے ہیں، زعم یہ ہوتا ہے کہ اس سے اسلام پھیل رہا ہے یا اسلام کا ان سے یہی مطالبہ ہے جو یقیناً ایک لنگڑی منطق ہے جو ان کی خونین سوچ کا پتہ دیتی ہے۔۔ اور پھر دہشت گردی بھی صرف اسلامی تنظیموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ممالک بھی دہشت گردی کرتے ہیں جیسے اسرائیلی دہشت گردی اور استعماری ممالک، اور اگر دائرہ کار مزید پھیلائیں تو بات قبیلے اور خاندان تک جا پہنچتی ہے۔
ہم اس وقت ایک جدید دور میں جی رہے ہیں، آج کے حالات زمانہ قدیم کے حالات سے یکسر مختلف ہیں، جو اُس زمانے میں “حجۃ الاسلام”یا “خلیفہ”تھا اسے آج یہ سہولت میسر نہیں، خلفاء کے دور میں خلیفہ رعیت کی خبر لینے اور ان کا حال جاننے کے لیے ان کے درمیان گھومتا پھرتا تھا۔۔ یہ سادگی آج میسر نہیں، اور نا ہی دستیاب ہوسکتی ہے، شہروں کا پھیلاؤ جناتی ہوگیا ہے اور گھر کروڑوں میں، رابطوں کے ذرائع بھی بدل گئے ہیں تاہم لگتا ہے کہ نئے دور کے مفتیان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔۔ یا وہ اسے ہضم نہیں کر پا رہے۔۔
چنانچہ دہشت گردانہ فکر کے قلع قمع کی کوشش مذہب سے جنگ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ بڑے وثوق سے دعوی کرتے ہیں اور جو غالباً اس فکر کے خاموش حامی ہوتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ترقی پسند ہیں اور دنیا میں رائج رہن سہن کے اطوار کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، لیبیا، مصر اور تیونس میں جو انقلابات اور ردِ عمل برپا ہوئے اور ہو رہے ہیں اس اہم حقیقت کی طرف نشان دہی کرتے ہیں کہ قوموں میں اب اتنا شعور تو آ ہی چکا ہے کہ وہ اسلام اور دہشت گردانہ فکر کے فرق کو سمجھنے لگے ہیں جن میں بعض اوقات فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے دونوں کو اس قدر مدغم کردیا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ دونوں کو الگ کرنا یا ایسا سوچنا ہی نہ ممکن تھا۔
القاعدہ ایسی دہشت گردانہ فکر کا ایک بہترین نمونہ تھی اور شاید رہے گی تاہم لگتا ہے کہ اگر اس فکر کا جلد قلع قمع نہیں کیا گیا تو حالات وقت کے ساتھ ساتھ دگرگوں ہوتے چلے جائیں گے، اور یہ فکر وقت کے ساتھ ساتھ مزید بھیانک شکل اختیار کرتی چلی جائے گی، مثال کے طور پر آج ہمارے پاس القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک تنظیم موجود ہے، جو القاعدہ کا ایک اعلی ورژن ہے، یہ تنظیم “داعش”کہلاتی ہے، اڑتیس دن ان کی قید میں گزارنے والے ایک قیدی نے بتایا کہ یہ لوگ انسانوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلتے ہیں، مزید برآں انہوں نے اپنے ہاتھ پاؤں بندھے قیدیوں کو ایک انسانی ذبح خانے کی “سیر”بھی کروائی جہاں سر کٹی انسانی لاشیں لٹک رہی تھیں جبکہ کچھ دیگر انسانی لاشوں کے ٹکڑوں کا ایک ڈھیر ایک طرف پڑا تھا!!!۔۔۔ اس تنظیم کی فکر جو القاعدہ کا ترقی یافتہ نسخہ ہے کو سعودی کالم نگار جمال خاشقجی “انتہا پسندی کی انتہا پسندی”کہتے ہیں۔۔
بہرحال جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عالمی “ٹھیکہ”لیا تھا تو ہم جیسے سادہ لوح لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب بس دنوں کی ہی بات ہے اور یہ سب دہشت گرد “کتے کی موت”مارے جائیں گے مگر لگ بھگ ڈیڑھ دہائی گزرنے کے بعد لگتا ہے کہ حالات مزید دگرگوں ہو رہے ہیں اور دہشت گردانہ فکر کہیں غاروں میں نمو پا کر پہلے سے زیادہ خطرناک صورت میں سامنے آرہی ہے۔۔۔ مجھے اعتراف ہے کہ ہم جیسے لوگ بے وقوف تھے، دہشت گردی کم نہیں ہوئی بلکہ مزید بھیانک شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے، اگر اعداد وشمار کا کھیل ہی کھیل لیا جائے تو گزشتہ سال دہشت گردی کا نشانہ بننے والے لوگوں کی تعداد گزشتہ تمام سالوں سے زیادہ نکلے گی تو ایسے میں اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ تمام تر قلمی، تقریری، میدانی اور دیگر محاذوں پر دہشت گردی کے خلاف جنگ ناکام ہو رہی ہے۔۔ متاثرہ قوموں کے ساتھ ساتھ اب ان قوموں کو بھی میدانِ عمل میں اترنا ہوگا جو اب تک خود کو محفوظ سمجھتے آئے ہیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب عالمی برادری کے دامن میں لگی آگ ان تک جا پہنچے گی۔
نیو ایج اسلام کے کالم نگار باسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/war-terror-succeeding/d/76682