باسل حجازی، نیو ایج اسلام
8مارچ، 2014
معلوم ہوتا ہے کہ اب بالآخر قطر کو آگ سے کھیلنے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، عرب ممالک میں قطر سب سے چھوٹا ملک ہے تاہم اس کے سابقہ امیر حمد بن خلیفہ آل ثانی اور حالیہ امیر تمیم بن حمد نے بھی قطری قوم کے اربوں ڈالر پڑوس کے عرب ممالک میں تخریب کاری کی غرض سے صرف کیے جیسے عراق، شام، مصر، لیبیا اور لبنان وغیرہ۔۔ اور شاید عراق کو اپنے اندرونی معاملات میں قطری اور سعودی مداخلت کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، ان ممالک نے عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی مالی مدد کی جس کے نتیجہ میں لاکھوں عراقیوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں تاہم اب قطر کو اس بے جا مداخلت کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ بھی خلیجی تعاون کونسل کے رکن پڑوسی ممالک کی طرف سے، خبروں کے مطابق سعودیہ، بحرین اور امارات نے 5 مارچ 2014 کو قطر سے اپنے اپنے سفیر واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، بیان کے مطابق قطر سرِ عام مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کے ممالک میں قائم شدت پسند اسلامی تنظیموں کی سرِ عام حمایت اور مدد کرتا ہے، اس خلیجی فیصلہ کے بعد مصر نے بھی قطر کو کہا ہے کہ وہ “عرب قوم کی صفوں میں تفرقہ ڈالنے والی سیاست سے باز آجائے”اور عندیہ دیا کہ شاید وہ بھی مذکورہ تینوں عرب ممالک کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قطر سے اپنا سفیر واپس بلا لے۔
میرے خیال سے چونکہ عراق کو قطر کی ایسی سیاسی پالیسیوں سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا لہذا عراقی حکومت کو بھی ایسا فیصلہ لینا چاہیے بلکہ اسے تو یہ فیصلہ بہت پہلے لے لینا چاہیے تھا تاہم اب بھی وقت ہے کہ عراق اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قطر سے اپنا سفیر واپس بلا لے تاکہ قطر کے پالیسی سازوں کو کچھ تنہائی کا احساس ہو اور انہیں پتہ چلے کہ اخوان المسلمین اور اس کے بطن سے جنم لینے والی القاعدہ، طالبان، جبہۃ النصر اور داعش وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو پالنے کا نتیجہ کیا ہے۔
اخوان المسلمین اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی دیگر دہشت گرد جہادی تنظیمیں عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں جو سمجھتی ہیں کہ مغرب سے آئی تمام تر ترقی، علوم، فلسفے، ٹیکنالوجی اور جدیدیت سقراط سے لے کر اب تک سب جہالت بر جہالت ہے اور اصل ترقی اور تہذیب صرف قرآن اور سنت پر ایمان ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج کل اخوان المسلمین اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی میں سعودی عرب سرِ فہرست ہے اس کے با وجود سعودی عرب کا یہ موقف ایک ٹیکٹیکل موقف سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ مغرب کے سامنے اس کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے اور امریکہ بھی دنیا میں دہشت گردی کی سرپرستی کی سعودی پالیسیوں سے نالاں نظر آتا ہے خاص کر عراق اور شام میں، سعودی عرب اس وقت دوغلی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، بظاہر سعودی عرب مصر اور خلیجی ممالک میں اسلام پسندوں کی مخالفت کرتا نظر آتا ہے تاہم بعینہ اسی وقت وہ عراق، شام اور لبنان میں ان کی بھرپور مدد کرتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اخوان المسلمین نے بنیادی طور پر وہابیت کے بطن سے ہی جنم لیا ہے، اس کا جنم بیسویں صدی کے اوائل میں مصری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو وہابی بنانے کی کوششوں کے طور پر ہوا، لفظ “الاخوان”بھی وہابیت سے ہی مشتق ہے کیونکہ و خود کو بھی “الاخوان”کہتے تھے، ان کے عقیدے کے مطابق غیر مسلم تو کافر ہیں ہی، شیعہ سمیت مسلمانوں کے دیگر تمام فرقے بھی کافر ہیں لہذا انہیں وہابی اسلام قبول کرنے کے لیے تین دن کا وقت دینا چاہیے ورنہ ان کے مردوں کو قتل کرنا جائز، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر بازاروں میں بیچنا جائز ہے جیسا کہ قبل از اسلام کے “جاہلی”دور میں ہوتا تھا یا بعد میں “اسلامی فتوحات”کے دور میں ہوتا رہا، بعینہ یہی بیان امام کعبہ نے دو سال قبل بی بی سی عربی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا تھا۔
آج کے معیارات کے مطابق ایسی فکر انسانی تہذیب وتمدن کے لیے خطرہ ہے، مثال کے طور پر جب ابو حمزۃ المصری سے پوچھا گیا کہ جب آپ مغرب سے اس قدر نفرت کرتے ہیں تو آپ برطانیہ میں کیوں مقیم ہیں؟ تو صاحب نے جواب دیا کہ مغرب میں اس کی موجودگی عارضی ہے اور برطانیہ اس کے لیے قضائے حاجت کے ایک برتن کے سوا کچھ بھی نہیں!! برطانیہ کے احسان پر اس کا یہ جواب تھا! یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، اسلام پسند ابنِ تیمیہ کا یہ قول بڑی شد ومد سے دہراتے رہتے ہیں کہ: “اگر آپ کو تعلیم، علاج یا تجارت کے لیے دار الکفر میں رہنا پڑے تو ان کے درمیان رہتے ہوئے دل میں ان کے لیے عداوت رکھو”۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2010 میں امریکی محقق ایان جانسن (Ian Denis Johnson) کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا: “میونخ کی مسجد: نازیت، سی آئی اے اور مغرب میں اخوان المسلمین کا طلوع”(A Mosque in Munich: Nazis, the CIA, and the Rise of the Muslim Brotherhood in the West) جس میں مصنف نے بیان کیا ہے کہ گزشتہ صدی کے آغاز میں کس طرح ہٹلر کی نازیت نے اس تنظیم کو بنانے اور ابھارنے میں مدد کی خاص کر جبکہ اس وقت عرب کے اسلام پسند اور قوم پرست برطانوی استعمار کی مخالفت میں نازیت کی اس بنیاد پر حمایت کر رہے تھے کہ: “آپ کے دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے”، تاہم جرمن نازیت اور اطالوی فاشیت کی شکست کے بعد امریکی سی آئی اے نے اس بین الاقوامی اسلامی تنظیم سے فائدہ اٹھایا اور عرب اور اسلامی دنیا میں کمیونزم کے خاتمے کے لیے اس کا استعمال کیا۔
خلاصہء کلام یہ ہے کہ جو تنظیم دنیا کو “دار السلام اور دار الحرب”، اور مؤمن اور کافر میں تقسیم کرتی ہو، اور دوسروں سے نفرت کرنے پر اکساتی اور اس کی تعلیم دیتی ہو وہ یقیناً ایک فاشٹ تنظیم ہے بلکہ نازیت اور فاشیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے، اور قطر کی حکومت جو ایسی تنظیم کی نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ اس کی مدد بھی کرتی ہے وہ بھی ایسی تنظیم سے کم خطرناک نہیں، لہذا ایسی حکومت کا تب تک بائیکاٹ کیا جانا چاہیے جب تک کہ وہ ایسی جنونی پالیسیوں سے باز نہیں آجاتی، لہذا میری عراقی حکومت سے خصوصاً اور عالمی برادری سے عموماً یہ درخواست ہے کہ وہ اس ملک کا بائیکاٹ کریں کیونکہ اپنی ایسی پالیسیوں کی وجہ سے یہ ملک عالمی امن کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
نیو ایج اسلام کے کالم نگارباسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/iraq-recall-its-ambassador-qatar/d/56037