باسل حجازی، نیو ایج اسلام
20 مارچ، اسی ماہ کی نو تاریخ کو فرانس کے ریڈیو کی عربی سروس نے عراق کے وزیرِ اعظم نوری المالکی کا ایک خصوصی انٹرویو نشر کیا جس میں نوری المالکی نے مندرجہ ذیل باتوں پر خوب زور دیا:
1- فرقہ وارانہ اور سیاسی وجوہات کی بنا پر قطر اور سعودی عرب نے عراق کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے لہذا یہ دونوں ممالک عراق کے حالیہ بحران کے ذمہ دار ہیں!
2- یہ دونوں ممالک دہشت گرد تنظیموں کی مالی، سیاسی اور میڈیا کی سطح پر بھرپور مدد کرتے ہیں۔
3- یہ دونوں ممالک دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں، جہادیوں کو تیار اور بھرتی کرتے ہیں اور انہیں اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
یہ جناب نوری المالکی کے انٹرویو کے اہم پہلو تھے بلکہ اگر ان پہلوؤں کو ان کے انٹرویو کا خلاصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اور مجھے یقین ہے کہ جب تک وہ مسندِ اقتدار پر براجمان رہیں گے یہی راگ الاپتے رہیں گے، اگر دیکھا جائے تو انہوں نے ویسے بھی کوئی ایسی نئی بات نہیں کی، یہ بات سارے عراقی جانتے ہیں چاہے وہ نوری المالکی کے حامی ہوں یا مخالف، یا چاہے وہ ان ممالک کی مداخلت کے مخالف ہوں یا حامی یا مشرقِ وسطی میں ان ممالک کی سیاست کے ناقد ہوں، سبھی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قطر اور سعودی عرب روزانہ کی بنیادوں پر عراق میں مداخلت کرتے ہیں اور عراق میں فرقہ وارانہ شیعہ نظام کی مخالفت میں وہ عراق کے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے یا بنواتے ہیں، یہاں تک بات درست ہے تاہم یہ بات قطعی درست نہیں کہ یہ ممالک گزشتہ دس سال سے عراق میں جاری سیاسی خلفشار کے ذمہ دار ہیں، بلکہ اس کا ذمہ دار عراق کا حالیہ فرقہ وارانہ سیاسی نظام اور اس کی مذہبی پالیسیاں ہیں، اس کے علاوہ عراق میں موجود مذہبی سیاسی گروہ جن میں شیعہ اور سنی دونوں شامل ہیں بھی اس سیاسی اتھل پتل کے ذمہ دار ہیں، امریکی حمایت اور طاقتور کرد اتحاد جو اب کمزور پڑ رہا ہے کی مدد سے جو یہ فرقہ وارانہ نظام کا ایک عجیب سا ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے اس نے عراقی شہریوں کے آزاد ومساوی شہری اصولوں کی نفی کردی ہے، اور لوگ محض عراقی بننے کی بجائے اپنے اپنے گروہوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں یعنی حب الوطنی کی جگہ فرقہ بندی نے لے لی ہے اور لوگوں کو منقسم کردیا ہے جو عراق جیسے مختلف النوع معاشرے میں ایک زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور قطر نے دینِ اسلام کا چہرہ ہی مسخ کر کے رکھ دیا ہے اور مشرقِ وسطی کو آگ لگا رکھی ہے تو ہم دراصل کوئی نئی بات نہیں کہتے لیکن اصولی طور پر یہ ممالک عراق کے مسئلہ کے ذمہ دار نہیں ہیں، ہاں وہ مسئلہ کو بڑھانے میں ضرور کردار ادا کر رہے ہیں تاہم مسئلے کی جڑیں عراق کے اندر ہیں باہر نہیں، مسئلہ کی جڑ فرقہ وارانہ نظام اور اس کی فرقہ وارانہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے عراقی قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے، جب تک فرقہ واریت کا یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک عراق آزاد نہیں ہوسکتا، اس وقت عراق کا چہرہ مسخ ہے، ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں، حکومت ہی ملک کی تباہی کی ذمہ دار ہے، یہ حکومت بری طرح شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، بلکہ اب تو وہ اپنی حفاظت تک نہیں کر پا رہی، اگر “الحی الاخضر” نہ ہوتا جس میں مقتدر طبقہ ملکی وغیر ملکی دہشت گردانہ کاروائیوں سے بچ بچا کر گھومتا پھرتا ہے تو “عراقی حکومت” نامی کوئی چیز نہ ہوتی۔
کسی بھی ملک میں بیرونی دہشت گردی تب تک پنپ نہیں سکتی جب تک کہ اسے اندر سے پناہ نہ ملے، جب تک اندر کی کوئی قوت ان کے کرتوتوں پر پردہ نہ ڈالے، اور ایسی قوتیں صرف ایسے ملک میں ہی پنپ سکتی ہیں جہاں حکومت فرقہ واریت پر یقین رکھتی ہو، ایسے ملک کا حشر بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ اس وقت عراق کا ہے۔ آئے روز دہشت گردانہ کاروائیوں میں درجنوں لوگ مرتے اور زخمی ہوتے ہیں کیا ایسی حکومت جو اپنے شہریوں کو تکفیریوں کے حملوں سے نہ بچا سکتی ہو اسے اقتدار میں رہنے کا ذرا بھی حق ہے؟ اگر انسانی شعور جاگ رہا ہوتا تو ایسے لوگ کسی صورت اقتدار تک نہ پہنچ پاتے!!
سعودی عرب اور قطر عراق میں اپنا گندا کھیل کھیلنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم نظام نے انہیں یہ گھنونا کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کیا، ایران کے ساتھ اس حکومت کے مشکوک اتحاد نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا جس نے اندرونی اختلافات کو مزید ہوا دی اور عصائب الحق اور منظمۃ بدر جیسی شیعہ دہشت گرد تنظیموں کی خوب مدد کی، منظمۃ بدر کے سربراہ ہادی العامری نے لبنانی جہاز کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ایسے دہشت گرد گروہوں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے جنہوں نے اب عراق میں اقتدار سنبھال رکھا ہے!!
ایسے میں جناب نوری المالکی صرف سادہ لوح شیعوں کو ہی بے وقف بنا سکتے ہیں مگر جو لوگ مسائل کی جڑ کو سمجھتے ہیں انہیں یہ کہہ کر بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا کہ مسئلہ کی جڑ ملک کے باہر ہے، یہ وہ مسئلہ ہے کہ جو ان کی اور باقی سیاسی اسلام کی پارٹیوں نے خود ملک میں پیدا کیا ہے، رہے بیرونی عناصر تو وہ اس سے نہ صرف فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ صورتِ حال کو جوں کا توں رکھنے کے لیے سرگرداں بھی ہیں۔۔ نوری المالکی بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ جاری وساری رہے اور بے قصور شیعہ مرتے رہیں کیونکہ یہ لاشیں انہیں اگلے الیکشن میں شیعوں کے ووٹ دلوائیں گی، انہیں لگتا ہے کہ شیعوں کو عراق کی مذہبی سیاسی شیعہ وسنی تنظیموں کے تخریبی کردار کی کوئی خبر نہیں۔
اگر عراق کو بچانا ہے تو سب سے پہلے اس فرقہ وارانہ نظام سے جان چھڑانی ہوگی، عراق کے ہر شہری کو چاہے اس کا مذہب کچھ بھی ہو تمام تر شیعہ وسنی سیاسی تنظیموں کو مسترد کرنا ہوگا جنہوں نے عراق کو سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں دیا اور اگر یہ تنظیمیں مزید اقتدار میں رہیں تو مستقبل شاید اس سے بھی زیادہ بھیانک ہو، عراقی قوم کو حقیقتِ حال کو سمجھنا ہوگا اور ان قوتوں کو تلاش کرنا ہوگا جو عراق کو فرقہ پرستی کی اس آگ سے نکال سکیں، انہیں آزادی، جمہوریت، مساوات، اقلیتوں اور انسانی حقوق کی بات کرنے والی قوتوں کو اپنانا ہوگا جو ایک سول جمہوری نظام قائم کر کے تمام شہریوں سے مساوی سلوک کریں، گزشتہ دس سال سے جہنم میں جلتی عراق قوم کو بچانے کا صرف یہی ایک واحد راستہ ہے۔
نیو ایج اسلام کے کالم نگار باسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔
https://newageislam.com/urdu-section/iraq-problem-their-own-making/d/56195