New Age Islam
Thu May 15 2025, 02:42 PM

Urdu Section ( 27 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Bangladesh and the Political Behavior of Sheikh Hasina بنگلہ دیش: کچھ مماثلتیں کچھ شباہتیں

ودود ساجد

25 اگست،2024

شیخ حسینہ کی سیاسی فلم کا ایک ناپسندیدہ کردار بنگلہ دیش کی ’جماعت اسلامی‘ بھی تھی۔ اس کے عمر رسید ہ ارکان کو عدالتوں سے سزائیں دلواکر پھانسی پر چڑھایا گیا۔ 2013 میں اس جماعت پرپابندی عائد کردی گئی۔دوسرا سیاسی کردار’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘(بی این پی) تھی۔ اس کی لیڈر خالدہ ضیاء کو ایک عرصہ سے نظر بند رکھا گیا۔ ان کی پارٹی کی تمام سیاسی سرگرمیاں معطل تھیں۔ خالدہ ضیاء کو اب رہا کردیا گیا ہے۔ تیسرا کردار بنگلہ دیش کے وہ طلبہ او رنوجوان تھے جنہیں ایک طرف حکومت کی پالیسیوں نے بے روزگار رکھا تو دوسری طرف صدائے احتجاج بلند کرنے پر انہیں پولیس کی گولیوں کانشانہ بنناپڑا۔ لیکن اب نوبیل انعام یافتہ اور معروف ماہر معاشیات پروفیسر محمد یونس کی 17 رکنی عبوری کابینہ میں بی این پی اور جماعت اسلامی کی طرف رجحان رکھنے والے سات ارکان کو بھی شامل کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ طلبہ تحریک کے دو نمائندوں کو بھی جگہ دی گئی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کے نگراں محمد یونس خود شیخ حسینہ کے ستم رسیدہ ہیں اور ان پر مختلف مقدمات قائم ہیں۔ دومقدمات میں انہیں سزا بھی ہوچکی ہے۔

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کو ایک طرف تو دہشت گردوں کی حامی تنظیم قرار دیا گیا دوسری طرف اس سے وابستہ بہت سے ارکان کو 1971 کی بنگلہ تحریک کا دشمن قرار دیتے ہوئے ’رضا کار‘ کانام دیا گیا۔ رضا کار دراصل ملک سے غداری کرنے والوں کو کہا گیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کتنی دہائیوں تک مختلف حکومتیں قائم رہیں لیکن کسی نے بھی ان سیاسی مخالفین کو پھانسی پر نہیں چڑھایا۔لیکن شیخ حسینہ کی حکومت میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے لوگوں پر مقدمے چلائے گئے او رپھانسی کی سزا سنائی گئیں۔ دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں میں ایسے کردار اورطبقات پائے گئے ہیں جنہوں نے تحریک کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن انہیں غدار قرار دینے کاچلن کہیں نہیں دیکھا گیا۔عملاً پورے سیاسی منظر نامہ کو اپوزیشن سے پاک کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ایسے شخص (محمد یونس) کو بھی مختلف مقدمات میں الجھا دیا گیا جس نے بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں مالیاتی انقلاب برپا کرتے ہوئے ’گرامین بینک‘ قائم کئے۔ اپوزیشن کے بغیر الیکشن کرائے گئے اوریکطرفہ طو رپر جیت کر حکومت بنائی گئی۔ اپنے لوگوں کی بدعنوانی سے صرف نظر کیا گیا۔ یہی نہیں فوج کے ساتھ بھی ناانصافی کی گئی اور کئی اہل جنرلوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جونیئر جنرل کو کمان سونپی گئی۔

بنگلہ دیش کے واقعات پر انقلاب سمیت دوسرے متعدد اخبارات میں درجنوں مضامین شائع ہوچکے ہیں او رتاحال اس موضوع پر لکھا جارہا ہے۔ لیکن جونگتہ انتہائی دلچسپ اورمتحیرا العقول ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے پہلو ایسے ہیں جو بنگلہ دیش کے علاوہ خطہ میں دوسرے مقامات پر بھی ظہور پزیر ہوتے رہے ہیں۔ صحافی شبھ جیت رائے نے ڈھاکہ کے اپنے قیام کے دوران جماعت اسلامی طلبہ تحریک او ربنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے نمائندوں سے بھی گفتگو کی ہے۔ تفصیلات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ نے تمام جمہوری اقدار کو کچل کر رکھ دیا تھا اور ہر جمہوری ادارے کو عضو معطل بنادیا تھا۔بنگلہ دیش نیشنلٹ پارٹی کے لیڈر عمران صالح پرنس کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کی شبیہ ’مہانایک‘(سپرہیرو) کی بنائی او راس کے علاوہ باقی سب کو ’مہا دانو‘(شیطان اکبر) قرار دیا۔ بنگلہ دیش کے دوسرے ناقدین کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ یونیورسٹی میں سیاسیات کی پروفیسر تسنیم صدیقی کہتی ہیں کہ ہر پروگرام میں ان کی صرف ایک ہی زبان ہوتی تھی:”میرے والد’میرا خاندان او رمیں۔ان کی گفتگو میں کبھی لفظ ’ہم‘ کا استعمال نہیں ہوا“۔

شیخ حسینہ کا آمرانہ رویہ 2014 کے عام انتخابات میں دوسری بار کامیاب ہونے کے بعد منظر عام پرآیا۔ پہلی بار انہوں نے 2008 میں کامیابی حاصل کی تھی اوراسی مدت کار میں انہوں نے بنگلہ دیش کو سیاسی اور معاشی استحکام بخشا تھا۔ ان کے دور میں گھریلو شرح نموسات فیصد تک پہنچ گئی جب کہ اسی زمانہ میں ہندوستان کی شرح نمو 9 فیصد سے گھٹ کر 6.7 پر آگئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا عمل بھی شروع کیا۔ بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی اور ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘ کو ہندوستان مخالف قرار دیا گیا۔ اتفاق سے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حلیف تھیں۔لہذا شیخ حسینہ نے اپنے خلاف ایک مضبوط اتحاد کو توڑ کر رکھ دیا اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے خلاف دہشت گردی اور بدعنوانی کے تحت درجنوں مقدمات قائم کرادئے۔ 2014 کے بعد شیخ حسینہ نے تمام قومی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ ان میں عدلیہ، پولیس، الیکشن کمیشن، شہری انتظامیہ اورمیڈیا سب کچھ شامل تھا۔ مختلف رپوٹوں کا مطالعہ بتاتاہے کہ شیخ حسینہ نے ان تمام قومی اداروں اور میدانوں میں عوامی لیگ سے وابستہ افراد کو بھر دیا۔ ڈھاکہ میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ وہ ’ڈی این اے ٹیسٹ‘ کراتی ہیں او رجس کاکوئی بھی تعلق او رماضی کی کوئی معمولی سی وابستگی بھی ان کے حریفوں سے نکل آتی ہے تو اسے کسی عہدہ او رمرتبہ کے لئے ’ان فٹ‘ سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے فرار کے بعد احتجاجی نوجوانوں نے سب سے پہلے وہاں کے چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے کے لئے مجبور کردیا۔ بنگلہ دیش کے مشہور اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ نے لکھا ہے کہ شیخ حسینہ کے اعلیٰ مشیران کار میں سے ایک ’سلمان ایف رحمان‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وزیراعظم کے اثر ورسوخ کا استعمال کرکے بینکوں سے اپنے اور دوسروں کے کاروبار کے لئے بھاری قرضے لیتا تھا۔ سلمان کو نئی عبوری حکومت نے بدعنوانی کے ڈھیروں معاملات میں گرفتار کرلیا ہے۔ لوگ اسے ’مجرمانہ قرضوں کا باپ‘ قرار دیتے تھے۔

شبھ جیت نے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل ’غلام پرور‘ سے بھی خاصی تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جماعت اسلامی ہندوستان اوراس کے عوام کی خیر خواہ رہے گی اوریہ کہ وہ ہندوستان کے لئے کوئی خطرہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہند۔بنگلہ سرحد پرکوئی دہشت گردانہ سرگرمی نہیں ہونے دی جائے گی۔گزشتہ 20جولائی کو شیخ حسینہ کی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا تھا‘ اب انہیں رہا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ”ہندوستان ایک دوست ملک ہے‘ ہندوستان کے عوام ہمارے دشمن نہیں پڑوسی ہیں۔ مودی حکومت کی پالیسی نے عوامی لیگ کے سوا دوسری جماعتوں کو ہند مخالف قرار دے ڈالا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف عوامی لیگ ہی انہیں تحفظ دے سکتی ہے اور دوسری اسلام نواز پارٹیاں ’بشمول جماعت اسلامی‘ اگر اقتدار میں آگئیں تو دہشت گردانہ سرگرمیاں بڑھ جائیں گی‘ یہ بالکل غلط تصور ہے“۔اخبارات کے مطابق 2004 میں جماعت اسلامی کے سربراہ اور وزیر برائے انڈسٹری مطیع الرحمان نظامی کو ہند مخالف سرگرمیوں کیلئے اسلحہ سے بھرے ہوئے 10ٹرک فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اس کے بعد 2016 میں انہیں اس الزام میں سزائے موت دے دی گئی کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔غلام پرور نے بنگلہ دیش کے ہندوؤں پر حملوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام جرائم پیشہ گروہوں کاہے اورانہیں سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ عبوری حکمراں محمد یونس سے بھی پہلے جماعت اسلامی کے سربراہ شفیق الرحمان نے ڈھاکہ کے سب سے بڑے ’ڈھاکیشوری مندر‘ کادورہ کیا تھا اور ہندوؤں کے بڑے رہنماؤں سے مل کر انہیں تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ہندو اقلیت کے لیڈر ’باسودیب دھر‘ نے بتایا کہ شفیق الرحمان نے ہندو مندروں کے تحفظ کے لئے جماعت کے لوگوں کو بھیجا تھا اور آج بھی وہی پہر دے رہے ہیں۔ 2001-06 کے دوران خالدہ ضیاء کی حکومت تھی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ہند مخالف جذبات پائے جاتے تھے۔ غلام پرور نے کہا کہ 60وزراء میں سے صرف دووزیر جماعت اسلامی کے تھے جب کہ پارلیمنٹ کی 200 میں محض 20نشستوں پر ہمارے ممبران تھے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور ہم کسی سے نفرت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق جب ہم حکومت میں ہوتے ہیں تو ہم ملک کے ہر طبقہ او رہر فرقہ کے تحفظ کے پابند ہوتے ہیں۔

ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ خالدہ ضیاء کے والد شیخ ضیاء الرحمن نے شیخ حسینہ کے والد شیخ محب الرحمان کے قتل کی سازش کی تھی۔ لیکن جب بنگلہ دیش کے فوجی حکمراں جنرل حسین محمد ارشاد کے اقتدار کے خلاف شیخ حسینہ نے مہم چلا ئی تھی تو خالدہ ضیاء سے اتحاد کرلیا تھا۔ایک اور عنصر بڑا دلچسپ ہے۔ ماہر سیاسیات تاج ہاشمی نے 1971 سے 2021 تک کے احوال پر انگریزی میں ایک کتاب ’بنگلہ دیش کے پچاس سال‘ لکھی ہے۔ وہ 1971 میں ڈھاکہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے اورانہوں نے تحریک کا عروج دیکھا تھا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمان دراصل متحدہ پاکستان کاوزیراعظم بننے کا خواب پالے ہوئے تھے۔ جب کہ شیخ ضیا ء الرحمان کوبنگالی زبان وثقافت کی بنیاد پر پاکستان کے دوسرے حصہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انہوں نے مزید لکھا کہ 7مارچ 1971 کو شیخ مجیب نے جو تقریر کی تھی اس کا خاتمہ ’جوئے بنگلہ‘ جوئے پاکستان‘ پر کیا تھا۔یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان سے الگ ہونے اور الگ ملک بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں شیخ مجیب او رشیخ ضیاء دونوں نے مل کر حصہ لیا تھا۔ اول الذکر نے سیاسی محاذ سنبھالا تھا او رموخرالذ کرنے فوجی محاذ پر کام کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی تاریخ پر سیاسیات کے پروفیسر ’نیا نکا موکھرجی‘ نے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

سنگاپور یونیورسٹی میں بنگلہ دیش کی تاریخ پر ریسرچ کرنے والے ’امت رنجن‘ کاکہناہے کہ ’آزادی‘ کی لڑائی دونوں نے مل کر لڑی تھی، ریڈیو پر آزادی کا اعلان شیخ ضیاء الرحمان نے ہی کیا تھا لیکن انہوں نے شیخ مجب الرحمان کو ملککا لیڈر بھی تسلیم کیا تھا۔ لیکن عوامی لیگ نے اس طرح کا منظرنامہ تشکیل دیا کہ بنگلہ تحریک صرف شیخ مجیب اور عوامی لیگ ہی کا کارنامہ تھی۔ نیانکاموکھرجی نے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی تحریک کے عسکری رخ کو زیادہ اہمیت دیتی ہے جب کہ عوامی لیگ اس کے عوامی رخ کو۔ عوامی لیگ نے بنگلہ تحریک کے جس عوامی عنصر کو شدت کے ساتھ شہرت دی وہی عنصر شیخ حسینہ کو اقتدار بدرکرنے کا ذریعہ بن گیا۔ شیخ حسینہ کی سیاسی عادتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی بار محسوس ہوتاہے کہ یہ عادتیں ہم نے خطہ میں کہیں او ربھی دیکھی ہیں۔ کالم نگار’ادریجا رائے چودھری‘ کی یہ بات کنتی ’بھلی‘ لگتی ہے کہ بنگلہ دیش کا ہر حکمراں اپنے حساب سے ایک نئی تاریخ لکھتا ہے اور شیخ حسینہ نے بھی یہی کیا۔ ملکوں کی زندگی میں اقتدار ہی ایسا عنصر ہے جو بدلتا رہتاہے۔لیکن ہر حکمراں کے ذریعہ ایک نئی تاریخ لکھنے کاچلن آپ کو برصغیر کے علاوہ کہیں اور نہیں ملے گا۔ہم بھی اسی دور سے گزررہے ہیں۔میرا خیال ہے کہ صورتحال اسی وقت خراب ہوتی ہے جب حکمراں تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن تاریخ کے ساتھ اس چھیڑ چھاڑ او رمجرمانہ کھلواڑ کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔

25 اگست،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/bangladesh-political-behavior-sheikh-hasina/d/133051

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..