سعید نقوی
12 اگست،2024
بنگلہ دیش کاوجود میری
نظروں کے سامنے عمل میں آیا۔ میں ’دی
اسٹیٹس مین‘ کا رپورٹر تھا۔ میں حیران تھا کہ مجھے بنگلہ دیش کی جنگ کو کور
کرنے سے دور کھا جارہا تھا جہاں میرے دوست رگھورائے شاندار تصویریں تیار کررہے تھے
او ردی ٹائمز، لندن کے پیٹر ہیزل ہرسٹ، ’رپورٹر آف دی ایر‘ کا اعزاز جیتنے کے
راستے پر تھے۔ انہیں برطانیہ میں اس سال کے رپورٹر کا ایوارڈ ملا۔ میں خود سے سوال
کررہا تھا کہ آخر مجھے کیوں روکا جارہا تھا؟ وزارت دفاع کے ترجمان موہن راؤ (جو
پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے) کی کال سے کچھ راحت ملی جو جنگ کی
کوریج کے سلسلہ میں ایڈیٹر کے رابطے میں تھے۔انہوں نے میرے ایڈیٹر سے بات کی تھی
اور مجھ سے چند گھنٹوں کے اندر وزارت دفاع میں آنے کی درخواست کی تھی۔ یہ طے ہوگیا
تھا کہ فوج کی ایک گاڑی منتخب غیر ملکی نامہ نگاروں او رہم میں سے چند مٹھی بھر
صحافیوں کو مغربی تھیٹر تک لے جائے گی جہاں چھمب میں شدید لڑائی ہورہی تھی۔
گہرے غور وفکر کے بعد
ہمارے ایڈیٹر اور وزارت دفاع کے افسران اس نتیجے پر پہنچے کہ مجھے بنگلہ دیش کے
تھیٹر میں بھیجنا خطرناک ہوگا۔ کیونکہ ہوسکتاہے کہ مجھے پنجابی، پاکستانی مسلمان
سمجھ کر قتل کردیا جائے۔ سرکاری اداروں کو یہ احساس کرنے میں تھوڑی دیر لگی کہ
بنگلہ دیش کے ظہور نے برصغیر کے جغرافیہ کو یکسر تبدیل کردیا تھا۔ 1947 میں تقسیم
ہند نے دو قوموں، ہندوستان او رپاکستان کو ایک دوسرے سے دشمنی کے مقابلے میں بنایا
تھا۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے نقطہ نظر
سے برصغیر کے مسائل مثلاً کشمیر پر عالمی توجہ مبذول کرائی۔ 1971 میں بنگلہ دیش نے
اس جغرافیہ کو ڈرامائی طور پر تبدیل کردیا۔ ہندوستان چھوٹے ملکوں سے گھرا ہوا ایک بڑا
ملک بن گیا۔ ہندوستان کی عظمت کو سنبھالنے کے لئے بنگلہ دیش کے ضیاء الرحمان جیسے
لیڈروں نے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کے بارے میں سوچا۔ اس بڑے
سائز کے تنظیم کا انتظام کیسے کیا جائے گا؟ ہندوستان کو گھیرے ہوئے ممالک نے اپنی
گود میں چائنا کارڈ کوفروغ دیا۔
سارک کا آغاز 1980 میں کیا
گیا تھا، ٹھیک ایک سال بعد جب چین نے ڈینگ ژیاؤپنگ کی رہنمائی میں ”چار جدید کاری“
کا آغاز کیا۔دوسرے لفظوں میں، اپنے ”عروج“ کے آغاز سے ہی، چین سارک میں شامل تھا۔
ابھی بھی ماسکو، بیجنگ، واشنگٹن کے اسٹریجٹک توازن میں جکڑے ہوئے ہیں جو انہو ں نے
اکیلے طور پر قائم کیا تھا، ہنری کسنجر نے نئے دوست چین کے لئے مزید طاقت کی خواہش
کی۔ کیا بھارت اپنے فائدے کے لئے چھوٹی قوموں کو گھیرے میں لے سکتا تھا یا اس نے
سارک کو پاکستان نامی چٹانوں پر پھسلنے کی اجازت دے کر صحیح کام کیا؟۔
پہلی بار جب میں نے بنگلہ
دیش کا دورہ کیا تو میں ایک صحافیوں کے وفد کا حصہ تھا جو 1979میں وزیر اعظم مرار
جی دیسائی کے ساتھ تھا۔ ڈھاکہ سطحی طور پر خوشگوار تھا لیکن پیچیدگیوں کی تہوں پر
تہہ چڑھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
اشرافیہ کی کالونی گلشن میں بہت سے گھر
تھے جو گرمجوشی او رمہمان نوازی کے ساتھ ہندوستانی مہمانوں تک پہنچتے تھے
لیکن ان کو بھی ڈھاکہ بمقابلہ کولکتہ کے احساس نے رنگ دیا تھا۔
مرار جی دیسائی کے دورہ
کے دوران ایک مسئلہ ہندوستان او ربنگلہ دیش کے تعلقات کا استعارہ بن گیا تھا، جس
میں لین دین کا فیصلہ کی گیا۔ لین دین کی اشیاء میں بنگلہ دیش کو فوری طور پر
مطلوبہ غذائی اجناس کی کافی مقدار کا تحفہ بھی شامل تھا۔ وفد کی سطح پر بات چیت
ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم کے دفتر کے ایک سینئر اہلکار پرکاش شاہ نے ہم میں سے
کچھ کو اپنے کمرے میں مدعو کیا اور دستیاب واحد سرکاری بنگلہ ٹی وی کو آن کیا۔
دوسرے عہدیدار۔ ہنس مکھ شاہ راجمانی، جلد ہی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔وہ یہ جاننے کے
خواہشمند تھے کہ سرکاری میڈیا نے اس دورے کو کیسے چلایا، خاص طور پر اناج کی
منتقلی کے تعلق سے کیا تبصرہ کیا۔ کئی گھنٹے گزرگئے او راناج بھیجنے کے سلسلہ میں
کوئی کہانی نہ تھی۔ شاید اسے پرائم ٹائم کے لئے رکھا گیا ہو؟ لیکن وہ لمحہ بھی گزر
گیا۔ آخر کار اس دورے کاتذکرہ تو ہوا لیکن اناج کاکوئی ذکر نہیں ہوا۔
قیام بنگلہ دیش کے بعد دو
رویے سامنے آئے۔ جس طرح ہندوستانی قابل تحسین تشکر کے لیے بے چین تھے، بنگلہ فریق
ہندوستانیوں کو صرف اس سے انکار کرنے کے لئے اتنا ہی پرعزم تھا۔ یادرکھیں جو ہم نے
اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے: اچھائی کرو اور بھول جاؤ۔ وزیر اعظم اندرکاکمار گجرال،
ہمیشہ آگے کی بات سوچتے تھے، کبھی کبھی ساؤتھ بلاک (وزارت خارجہ) کو اچھی طرح پڑھے
بغیر، مجھے ان کے ساتھ ہندوستان،پاکستان، بنگلہ دیش کے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا
گیا جس کے انعقاد کے لئے انہوں نے جنوری 1998 میں ڈھاکہ میں سخت محنت کی تھی۔ ٹھیک
ہے، اس سفر میں میں نے اپنے آپ کو دوستوں کے ساتھ پایا لیکن سبھی بنگال سے تھے:
نکھل چکرورتی، ترون باسو اور ہر چٹرجی، مکھرجی ،سین، گھوش۔سب ساتھی گھل مل کر گئے۔
مجھے شاید ہندوستانی ٹیم کو ایک ’مسلم ذائقہ‘ فراہم کرنے کے لئے شامل کیا گیا تھا۔
امیگریشن او رکسٹمز کے بعد ہندستانی صحافیوں کاایک خوش گوار او رتقریباً جو ش گروپ
کسٹم ہال سے باہر نکلا اور سب لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے آنے والے صحافیوں
میں گھل مل گئے۔ ”باپ ری باپ“، ”کی خوبر“، ”بھالو،بھالو“ اور بنگلہ زبان کی دوسری
تمام قسم کی مبارکباد یں جو میں نہیں جانتاتھا۔مجھے بنگلہ زبان نہیں آتی تھی۔
میں نے اپنی پوری زندگی
میں کبھی بھی اپنی اسلامی شناخت کے ساتھ خود کو اتنا تنہا محسوس نہیں کیا جتنا آج
کیا تھا۔یہاں سب لوگ بنگلہ زبان میں ایک دوسرے سے بات کررہے تھے اور میں تنہا کھڑا
تھا۔آخر ہندوستان کے وزیر اعظم نے مجھ پر سفر کے لئے زور کیوں دیا تھا۔ یہاں لسانی
علاقائیت نے اسلام کو شکست دیدی تھی۔ کیا یہ بالکل وہی نہیں تھا جس نے 1971 میں
بنگلہ دیش کی پیدائش کے وقت دوقومی نظریہ کو توڑا تھا؟ واپسی پر میں ترون باسو کے
چہرے پر ایک مستقل مسکراہٹ کے طور پر لکھے ہوئے انتہائی اطمینان کے اظہار کو کبھی
نہیں بھول سکتا۔ وہ دریائے پدما سے الیش سے بھرا ایک بڑا آئس باکس لے کر جارہا
تھا، جو چترنجن پارک میں اس کے گھر کے باہر مچھلی کاایک چھوٹا سا کھوکھا کھولنے کے
لیے کافی تھا۔
کرسمس او رنئے سال کے
دوران، کسی کی سماجی مقبولیت کااندازہ ڈرائنگ رو م کے کارنیس پر گریٹنگ کارڈز کی
تعداد سے لگایا جاسکتاہے۔ اپریل کے وسط میں جب بھی مجھے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کی
طرف سے صاف ستھری لکھاوٹ میں آر ٹ پیپر پر مبارکباد موصول ہوتی تو میں نے اسے
ڈاکٹر جوشی کی شاندار عادتوں میں سے ایک کے طور پر قبول کیا۔ عقل اس و قت روشن
ہوئی جب میں نے خود کو ڈھاکہ میں 15 اپریل کو پوئیلوبیساکھ کے ایک شاندار جشن میں
موجود پایا، جو ان کے لئے نئے سال کے جشن جیسا تھا۔میدان میں رنگوں کاہنگامہ تھا۔
رنگ برنگے کرتوں میں مرد اور تمام رنگوں کی ساڑھیوں میں خواتین۔ کوئی جبیں ایسی نہ
تھی کہ جس پر بندی نہ ہو۔ مشہور ایڈیٹر محفوظ انعم کی رہائش گاہ پر ایک لنچ پارٹی
میں جشن کا سماں تھا۔ ان کی بیوی دروازے پر بندیوں سے بھری ٹرے لیے کھڑی تھی جو وہ
اندار آنے والے مہمانوں میں سے تمام خواتین کے ماتھے پر لگارہی تھیں۔ فاصلے پر ایک
خوبصورت آواز نے رابندرکا گیت گایا جو ٹیگور کے گانوں کے برعکس، تانڈو،درگا، کالی،
شیو کے ذکر سے بھر پور تھا۔
12 اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism