ڈاکٹر خواجہ افتخا ر احمد
23 اگست،2024
شیخ مجیب الرحمن سے شیخ
حسینہ واجدہ تک بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے سیاسی حالات غیر معمولی نوعیت کے
ہیں۔ لہٰذا بنگالی نفسیات او راس کی تاریخ کو جانے بغیر آج کامضمون آگے بڑھ ہی
نہیں سکتا۔ تقسیم ہند، قیام پاکستان، سکوت ڈھاکہ،قیام بنگلہ دیش او رمحض 45 منٹ
میں بظاہر ایک نوجوان تحریک کے نتیجے میں منتخب وزیر اعظم کو اپنی جان بچانے کے
لئے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا، جبکہ وہ گزشتہ 15 برس سے ملک کی سربراہ رہیں۔
بنگ بندھو شیخ مجیب
الرحمن کا قتل اور ان کی دختر حسینہ واجد جوبیس سال تک وہاں وزیراعظم رہیں،
نوجوانوں کی ایک مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں تختہ پلٹ اورجلاوطنی بنگالی نفسیات کے
سنجیدہ مطالعے کو لازمی قرار دیتی ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ قیام پاکستان میں
مسلمانان بنگال کے یکطرفہ جذبہ وجنون نے آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کی قیادت
(محمدعلی جناح)کو جو حمایت دی وہ گرم جوشی مغربی پاکستان کی ریاستوں میں نہیں تھی۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ قرار داد قیام پاکستان لاہور کے اجلاس میں پیش او رمنظور
ہوئی۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ دراصل وہ 14فیصد فارغ البال مسلمان جن کو آزادی سے
قبل رائے دہندگان کاآئینی حق حاصل تھا، انتخابی عمل اور تقسیم ہند کا وہی راست حصہ
بنے۔
بقیہ 86 فیصد کااستعمال
تو صرف فضا ہموار کرنے کے لئے استحصال کے طور پر کیا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ 14فیصد
مستند رائے دہندگان میں سے بھی محض 8فیصد نے اپنا حق استعمال کیا۔ گویا 92 فیصد
مسلم آبادی تقسیم ہند کے عمل سے باہر رہی! بنگالی مسلمانوں کا کردار قیام پاکستان
کی تحریک میں کلیدی ہے، اگر بنگال کامسلمان جناح کا ساتھ نہ دیتا تو بقیہ ہندوستان
میں و ہ فضا ہی نہ بنتیجس کے نتیجے میں اس کا قیام ممکن ہوسکا۔
ریاست پاکستان کے وجود
میں آنے کے بعد اردو کاقومی زبان بننا، مغربی پاکستان کی مشرق پاکستان پر مستقل
اورہمہ جہت بالادستی، جرنیلوں کے ذریعہ جمہوری سیاسی عمل کا بار بار عمل قتل کیا
جانا اور 1970 کے عام انتخابات میں مجیب الرحمن کی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل
ہونے کے باوجود اقتدار کے نہ سونپے جانے نے،آگ میں گھی کا کام کیا جو کئی دہائیوں
سے بنگالی آبادی کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور محرومیوں کے نتیجے میں وہاں پک
رہا تھا۔ عوامی غصہ، مکتی باہنی کی تشکیل وکردار، پاکستانی، افواج کابیجا ظلم
وتشدد، عصمت دری،قتل وغارت گری اور 1971 ء کی جنگ نے اس میں وہ آخری کیل ٹھونک دی
جس نے آخر کار پاکستان کو دولخت کردیا، جنگ میں شرمناک شکست ہوئی، 95000 فوجیوں نے
ہتھیار ڈالے اور وہ قوم جس نے کل عملاً پاکستان بنایا تھا آج وہی اس کو یہاں تک
لانے میں اپنے کردار سے اپنی مخصوص نفسیات کو پھر سامنے لارہی ہے۔قیام بنگلہ دیش
میں جنرل یحییٰ اور افواج پاکستان کا کردار راست ہے۔ آج بھی وہاں کے جرنیل اسی ڈگر
پر ہیں، جو بقیہ ہے ان کی طرف سے وہ سب کیا جارہاہے جو ایک بار پھر دوہرائے تو
کوئی تعجب نہیں، پر تو بیجا الزام لگایا جاتاہے جب کہ حقیقت گھر کو ہی آگ لگ گئی
گھر کے چراغ سے کے اصول پر کار بند ہیں۔
بنگالی نفسیات کو سمجھنے
کے لیے فاطمہ جناح (قائداعظم کی بہن) جو صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے
مد مقابل تھیں، شیخ مجیب الرحمن ان کی انتخابی سرگرمیوں کے تنہا انچارج تھے۔ ایسے
پکے اور پختہ پاکستانی شخص کو بنگ بندھو بابائے قوم بنگلہ دیش بننے بنانے، ملک کو
دولخت کرنے میں اس کے کلیدی کردار ادا کرنے او راپنے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کے
لئے کون ذمہ دار ہے؟ مسلمانان بنگال کا پہناوا، کھان پان، زبان و ثقافت میں
بنگالیت کاغلبہ رہا، مذہب وقتی طور پر حاوی رہا۔
پہلی نفسیات جب اس نے
انگریز کے خلاف نواب سراج الدولہ کی قیادت میں جنگ آزادی کا بگل بجا کر کیا، دوسرے
انگریز کے تقسیم کو شکست دے کر، تیسرے انگریز کی’پھوٹ ڈالو او رحکومت کرو‘ کی
پالیسی کے نتیجے میں قیام پاکستان کا داعی بن کر، چوتھے پاکستان سے علیحدگی و
بغاوت، پانچویں قیام بنگلہ دیش، چھٹے بابائے قوم اور اس کے خاندان کا قتل اور اس
اسی کی بیٹی اورچار مرتبہ کی وزیراعظم کا تختہ الٹ اور محض 45 منٹ میں ملک بدر
بنگالی نفسیات کی منفرد تاریخ ہے۔
معلوم ہوا کہ وہ غیر
معمولی اقتصادی ترقی جس نے بنگلہ دیش کی دنیا کی تیز ترین اقتصادیات میں سے ایک
بنایا وہ تنہا عوام کو مطمئن نہ کرسکی۔ 18 سے 30سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری،
آمریت کی انتہائی کیفیات، مخالفین پر جبر وتشدد کا بول بالا، اظہار رائے پر قدغن،
حزب اختلاف کا خاتمہ، ایک جماعتی سیاست ونظام حکومت اور اس پر طرّہ یہ کہ ترقی کے
عمل میں تعلیم یافتہ نوجوان کا متواتر بے روزگار ہوتے جانا۔ یہ وہ بنیادی عوامل
ہیں جنہوں نے حسینہ واجد کے لیے اپنے ہی ملک میں زمین تنگ کردی۔ آمر ہمیشہ یہ بھول
جاتے ہیں کہ جبر کی عمر کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اس کا انجام خود کشی، ملک بدر،
قتل یا پھانسی کے ساتھ موجود نظام کے تہس نہس پر ختم ہوتاہے۔ ایسا ہی بنگلہ دیش
میں ہوا۔ ایک پہلو جس پر تجزیہ نگاروں کی توجہ نہ رہی وہ بنگالیت ہے۔ مت بھولیے کہ
بنگالی ہندو ہوں کہ مسلمان ان کے مشترک ہیرو رابندر ناتھ ٹیگور اور قاضی
نظرالاسلام ہی رہے۔ زبان وادب اور فنون لطیفہ بھی مشترک رہے ان بندھنوں کو قیام
پاکستان بھی نہ فراموش کرواسکا؟
آ ج کی دنیا میں
دقیانوسیت، قدامت پسندی، تنگ نظری وتنگ دامنی کیلئے کوئی جگہ نہیں یہ بڑا مختلف
دور ہے جس میں ناانصافیاں، نا ہمواریاں، ظلم اور تشدد کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔
اقتصادی ترقی تنہا معاشرے کی ہمہ جہت بقا، سلامتی وہم آہنگی کے لیے کافی نہیں، عدل
او رمساوات پر مبنی معاشرے کا قیام وہ کنجی ہے جو استحکام کی تنہا ضمانت ہے۔ انتہا
پسندی ایک ناسور ہے۔
وطن عزیز ہندوستان کے
ساتھ بنگلہ دیش کا خصوصی تعلق،بڑھتے روابط، ذرائع آمد ورفت کا پھیلتا جال اور
تنازعات کے حل میں باہمی لچک کی جو زمین بنی وہ چین اورپاکستان کو بہت کھٹکتی رہی۔
امریکہ بھی وہاں اپنا دفاعی مفاد رکھتا تھا۔ اس سب میں حسینہ واجد کہیں نہ کہیں
کئی طرف سے نشانے پر آتی گئیں۔ ہندمخالف قوتوں نے اس نوجوان تحریک کو طاقت دی او
را س کے منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا خفی وجلی کردار ادا کیا۔ اس دوران
اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کے ساتھ جو بربریت ہوئی۔ اس نے عوام میں بنگلہ دیش کے لیے
سیاسی فضا کو مکدرکیا مگر مودی حکومت نے نہایت دانشمندی سے اس صورتحال کامقابلہ
کیا۔ اب نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو اقتدار سونپا گیا ہے، جو خوش آئند ہے وہ
مقبول بھی ہیں او ران حالات میں شاید نہایت موزوں انتخاب بھی۔ ان کے سامنے اصلاحات
کے حوالے سے بڑے چیلنجز ہیں۔ اقلیتوں کے تحفظ اور ہند بنگلہ تعلقات کے حوالے سے ان
کا بیان حوصلہ افزا ہے۔
آخر میں ایک پہلو جو نظر
سے اوجھل رہتاہے اس کا تعلق پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست اوردوسری جنگ
عظیم کے بعد چند ہی دہائیوں میں متعدد آزاد مسلم ریاستوں کا وجود میں آجانا اور ان
میں ترقی کا عمل ہے۔ بڑی عالمی قوتوں میں یہ اجماع ہے کہ مسلم دنیا میں اب نہ
قیادت کوابھرنے دینا ہے او رنہ ہی کسی ملک کو ترقی یافتہ بننے دیناہے۔ جب ایران
میں اسلامی انقلاب لایا گیا تب شاہ ایران 23 ایٹمی رینئیکٹرلگانے کا سمجھوتہ کررہے
تھے ان کا انجام، جب شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو او رکرنل قذافی عالم اسلام کو
متحد کرکے ایک عالمی قوت بنانے پر لگے تو ایک کا جوڈیشیل قتل، دوسرے کا بھتیجے کے
ہاتھوں قتل اور تیسرے کا بے رحمی سے مجرمانہ قتل ومعزولی، صدام حسین کے خلاف
کارروائی، انڈونیشیا، ملیشیاایشین ٹائیگرنوے کی دہائی میں بنے اور ترقی یافتہ
ممالک کی فہرست میں شا مل ہونے ہی والے تھے، جس طرح ان کے پر کتر ے گئے وہ آج تک
جدوجہد کررہے ہیں، آج ایران، ترکیہ او رپاکستان مکمل نشانے پر ہیں؟ کب کیا ہوجائے
دیکھتے جائیے؟ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات پر گرفت بڑھتی جارہی ہے۔ انڈونیشیا
کی چند سالوں میں دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بننے کی خبر ہے اللہ خیر کرے۔
بنگلہ دیش کے اس انقلاب کا
ایک پہلو یہ بھی ہے۔ مثالیں او ربھی ہیں پورا خلیج ایک بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے،
پاکستان، مشرقی پاکستان کو دوہرانے کے عزم کے ساتھ کام کررہاہے۔غزہ سامنے ہے، سیریا،
لبنان، سوڈان، لیبیا، ایران سب جل رہے ہیں۔ایران۔ اسرائیل تنازعہ، نائیجریا اورکتنی
مثالیں گردونواح میں گشت کررہی ہیں جو مسلم ملک یا اس کی قیادت کہیں کسی لائق بنتی
ہے اس کا انجام وہی ہوتاہے جو حسینہ واجد کا ہوا۔ یاد رکھیں سیاست اور سفارتکاری میں
جو دکھائی دیتاہے حقیقت اس کے برخلاف ہوتی ہے۔
23 اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism