مرد جیل جانے کے خوف سے طلاق
نہیں دینا چاہتے
اہم نکات:
1. سپریم کورٹ نے تین طلاق
کو ایک جرم قرار دیا تھا۔
2. تین طلاق کو ایک جرم قرار دیے جانے کے بعد اس میں
کمی آئی ہے۔
3. مرد اب اپنی بیویوں کو چھوڑ
دیتے ہیں۔
4. یہ مہجور عورتیں دوبارہ
شادی نہیں کر سکتیں۔
5. مہجوری کی وجہ سے خواتین ڈپریشن کا شکار ہو رہی
ہیں۔
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
2 اگست 2022
30 جولائی 2019 کو، سپریم کورٹ
نے فوری طلاق یا تین طلاق پر ایک تاریخی فیصلہ سنایا تھا اور اسے غیر آئینی اور ایک
جرم قرار دیا تھا جس میں 3 سال قید کی سزا بھی مقرر کی گئی تھی۔ کچھ حقوق نسواں کا
کارکنان اور این جی او سالوں سے طلاق ثلاثہ پر پابندی کا مطالبہ کر رہے تھے اور آخر
کار مرکزی حکومت نے اس کے لیے پہل کی۔
مسلم تنظیموں بالخصوص اے آئی ایم
پی ایل بی نے طلاق ثلاثہ کا دفاع کیا اور طلاق ثلاثہ میں کسی بھی تبدیلی کو مسلم پرسنل
لاء میں مداخلت قرار دیا لیکن اعتدال پسند مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے اور بالخصوص مسلم
خواتین نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ تین طلاق کو جرم قرار دیے
جانے سے ان کی مصیبتیں ختم ہو جائیں گی۔ اس پابندی نے بے شک مسلم مردوں میں فوری طلاق
کا رجحان ختم کر دیا ہے لیکن اس سے خواتین کو طلاق دیے بغیر چھوڑنے کا ایک اور مسئلہ
پیدا ہو گیا ہے۔ اب جو مرد اپنی بیویوں سے خوش نہیں ہیں وہ انہیں طلاق نہیں دیتے بلکہ
ان کے مستقبل کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس صورت حال میں جو عورتیں
پریشان حال ازدواجی زندگی سے نکلنا چاہتی ہیں وہ طلاق کے بغیر دوبارہ شادی کا راستہ
بھی اختیار نہیں کر سکتیں۔ جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ذہنی اذیت اور پریشانی کا شکار
ہو رہے ہیں۔
کچھ خواتین ڈپریشن میں بھی چلی
گئی ہیں۔ اب عورتیں طلاق لینا چاہتی ہیں لیکن مرد جیل جانے کے ڈر سے طلاق نہیں دیتے۔
کیرالہ ہائی کورٹ نے 2021 میں ایک فیصلہ سنایا جس میں ان مہجور خواتین کو خلع لینے
کا اختیار دیا گیا تھا لیکن وہ بھی مردوں کے عدم تعاون کی وجہ سے زیادہ مددگار ثابت
نہیں ہوا۔ اور کیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ریاست سے باہر نافذ العمل نہیں ہے۔
حکومت ہند نے یکم اگست کو مسلم
ویمنز امپاور ڈے قرار دیا ہے لیکن اس کی اہمیت صرف علامتی ہے کیونکہ قانون نے ان کے
مسائل کا کوئی مؤثر حل فراہم نہیں کیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر کسی مسئلے
کے حل کے لیے دیانتدارانہ اقدامات نہ کیے جائیں اور صرف سیاسی مفادات کو مدنظر رکھا
جائے تو مسئلہ ایک اور مسئلے کو جنم دیتا ہے۔ اس معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہوا دکھائی
دے رہا ہے۔ مسلم علماء نے تین طلاق کے مسئلے کی شدت کو تسلیم کرنے اور اجتہاد کی طرف
کوئی قدم اٹھانے سے انکار کر دیا جیسا کہ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق
کے طویل عمل کے مہلک رجحان کے پیش نظر کیا تھا۔ عورتوں کے حق میں عصری تقاضوں کے پیش
نظر فوری طور پر تین طلاق کو جائز قرار دینے کے حضرت عمرؓ کے ہنگامی حکم کو طول دے
کر اب اسے ایک مستقل قانون بنا لیا گیا ہے۔ مسئلہ ختم ہوتے ہی اسے ختم کر دیا جانا
چاہیے تھا۔
طلاق کا قرآنی طریقہ طلاق کی اجازت
مرحلہ وار انداز میں دیتا ہے۔ لیکن فقہ حنفی میں طلاق عمری پر ہی زور دیا گیا ہے کیونکہ
اسے حضرت عمر نے ایک مقامی مسئلہ کے حل کے لیے ایک انتظامی اقدام کے طور پر متعارف
کرایا تھا۔
تین طلاق کے وسیع پیمانے پر
رواج نے مسلم معاشروں میں سماجی مسائل کو جنم دیا۔ طلاق بہت بڑھ گئی اور بسا اوقات
طلاقیں غصے میں اور معمولی وجوہات کی بنا پر دی جاتی ہیں۔ پھر بھی ہندوستانی علماء
کا اصرار ہے کہ تین طلاق شریعت کے مطابق ہے۔ کچھ علمائے نے اگرچہ تسلیم کیا ہے کہ فوری
طور پر تین طلاق صحیح نہیں ہے لیکن اس برقرار رکھا ہے کہ ایک بار جب کوئی شخص تین طلاق
دے دیتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اسے منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ
جب کسی کو گولی مارتا ہے تو وہ مر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر قاتل یہ کہے کہ اس نے غصے
کی حالت میں اسے گولی ماری تھی اور اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، آدمی تب بھی
مارا جاتا ہے اور اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز
کرتے ہیں کہ یہ تشبیہ درست نہیں ہے۔
تین الفاظ بولنا اور کسی کو
بندوق سے گولی مارنا ایک جیسا نہیں ہے۔ اسلامی فقہ کہتی ہے کہ جب روزہ دار غلطی سے
کچھ کھا لیتا ہے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا حالانکہ روزے کا مقصد بھوکا رہنا ہے۔ کھانے
کے بعد آدمی بھوکا نہیں رہتا، پھر بھی اسے روزہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی نیت کھانے
کی نہیں تھی۔
مسئلہ کی سنگینی کے باوجود
علمائے کرام نے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ مسلم خواتین شدت سے اس
سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی ہیں۔ آخر کار مرکزی حکومت کو پہل کرنی پڑی اور معاملہ
عدالت میں چلا گیا۔ عدالت نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیا اور تین طلاق کے حامی قرآن
سے تین طلاق کے حق میں دلائل نہیں دے سکے۔ اگر علمائے کرام طلاق ثلاثہ پر پابندی لگانے
کے لیے اقدامات کرتے اور مسلمانوں کو اس عمل کے ناجائز ہونے کے بارے میں احساس ہوتا
تو وہ مسلم معاشرے میں اصلاح کی راہ ہموار کرتے اور حکومت اور عدلیہ کو اس میں دخل
اندازی کا موقع نہیں ملتا۔
اس کے بجائے انہوں نے مردوں کو
تین طلاق کا حق استعمال کرنے کی ترغیب دی تاکہ مسلمان خواتین کو نقصان پہنچے حالانکہ
بنگلہ دیش سمیت کئی اسلامی ممالک میں تین طلاق پر پابندی ہے۔ وہاں میاں بیوی کو طلاق
کے لیے عدالت میں درخواست دینا پڑتی ہے اور درخواست واپس لینے کے لیے تین ماہ کا وقت
دیا جاتا ہے۔ 3 ماہ کے بعد طلاق کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان میں
علماء خواتین کی مہجوری کے مسئلے پر ہوش کے ناخن لیں اس سے پہلے کہ حکومت مہجوری کو
روکنے کے لیے ایک اور غیر حساس قدم اٹھائے۔
-----
تین طلاق
کے قانون کے 3 سال: اس نے بہت سی مسلم خواتین کو کس طرح بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔
فاطمہ خان
30 جولائی 2022
3 دسمبر 2020 کو شادی کے بعد
سے سیدہ عائشہ کو کبھی سکون کا لمحہ میسر نہیں ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر اور سسرال
والوں نے میری زندگی کو "ناقابل برداشت" بنا دیا ہے۔ حاملہ نہ ہونے پر اس
کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، اس کی رضامندی کے بغیر اس کے زیورات بیچے گئے، اس کے کمرے
سے تمام بلب ہٹا لیے گئے تاکہ وہ اندھیرے میں رہنے پر مجبور ہو- 24 سالہ عائشہ کا کہنا
ہے کہ زادے کے بعد میری زندگی بدتر ہو گئی تھی۔
مئی 2022 میں، اس کے شوہر نے اسے
واپس اس کے والد کے گھر چھوڑ دیا اور کہا کہ میں اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتا۔
"تو میں نے کہا پھر تم مجھے طلاق کیوں نہیں دیتے؟ اس سے میری زندگی آسان ہو جائے
گی،" حیدرآباد کے رہائشی نے دی کوئنٹ کو بتایا۔
Ayesha
has been abandoned by her husband.
Chetan
Bhakuni/ The Quint
----
لیکن اس کے شوہر نے جواب دیتے ہوئے
کہا کہ میں یہ بالکل نہیں چاہتا۔ "اس نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تین طلاق اب
ایک مجرمانہ عمل ہے، اور میں جیل نہیں جانا چاہتا۔ لہٰذا اب وہ مجھے نہ تو طلاق دے
گا اور نہ ہی مجھے اپنے پاس رکھے گا۔ لٹکا کے چھوڑا ہوا ہے"۔
شاہین ویمن ریسورس اینڈ ویلفیئر
ایسوسی ایشن - تلنگانہ کے حیدرآباد میں ایک ایسا مرکز ہے جو کئی دہائیوں سے طلاق ثلاثہ
سے متاثرہ خواتین کے لیے کام کر رہی ہے، وہاں موجود کئی خواتین کی یہی شکایت ہے کہ
'لٹکا کے چھوڑا ہوا ہے' ۔
30 جولائی 2019 کو پارلیمنٹ
کے ذریعے طلاق ثلاثہ کو جرم قرار دینے والے قانون کو پاس کرنے کے تین سالوں کے علاوہ،
ویمن ہیلپ سنٹر کو شاید ہی کبھی کسی خواتین کے حوالے سے طلاق کی شکایات موصول ہوں۔
اس کے بجائے، انہیں صرف ان مظلوم مسلم خواتین کی شکایات اور گذارشات ملتی ہیں جنہیں
ان کے شوہروں نے چھوڑ دیا ہے۔ طلاق ثلاثہ کو جرم بنانے سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا
ہے: خواتین کو چھوڑ دینا۔
'اس نے مجھے لٹکا کر چھوڑ دیا'
عائشہ کی طرح، بہت سی ایسی خواتین
ہیں جنہیں ان کے شوہروں نے چھوڑ رکھا ہے — کیونکہ انہیں اب معلوم ہے کہ بیوی کو طلاق
دیے بغیر کس طرح اس سے تمام تعلقات منقطع کیا جائے اور کس طرح باضابطہ تین طلاق نہ
دے کر قانون کی گرفت سے بچا جائے۔
جمیلہ نشاط 2002 سے شاہین ویمن
ہیلپ سنٹر چلا رہی ہیں، اور کہتی ہیں کہ تین طلاق کو جرم قرار دیے جانے سے بہت سی مسلم
خواتین کو فائدہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ "طلاق کو جرم قرار دیے جانے اور اس کے
متعلق قانون کے نفاذ کی اس قدر تشہیر کی گئی کہ آج ہر ایک مسلمان مرد جانتا ہے کہ اسے
'طلاق' کا لفظ نہیں بولنا ہے۔ یقیناً طلاق لینے کے اور بھی راستے ہیں، لیکن اب ان میں
ایک ایسا خوف پیدا ہو گیا ہے کہ وہ صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمیں اس جھنجھٹ میں پڑنا
ہی کیوں چاہیے۔ نشاط نے دی کوئنٹ کو بتایا کہ اب ایسے میں بیوی کو چھوڑ دینا ہی مردوں
کو ایک آسان راستہ لگتا ہے‘‘۔
2017 میں، مسلم ویمن (پروٹیکشن
آف رائٹس آن میرج) ایکٹ، 2019، جسے 'تین طلاق قانون' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پارلیمنٹ
سے منظور ہونے سے دو سال قبل ہی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں اس عمل کو 'غیر
آئینی' قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔
بہت سے ناقدین نے نشاندہی
کی تھی کہ چونکہ اس پریکٹس کو سپریم کورٹ نے پہلے ہی کالعدم قرار دے دیا تھا، اس لیے
اسے ایک جرم قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ "فیصلے کے بعد، یہ تین الفاظ - طلاق،
طلاق، طلاق - بے معنی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی مرد تین طلاق دیتا ہے تو ہم قاضی
کے پاس جا کر اسے کہہ سکتے ہیں کہ اسے طلاق نہ سمجھا جائے۔ نشاط نے کہا کہ "اس
قبل گفت و شنید اور مفاہمت کی زیادہ گنجائش تھی‘‘۔
نشاط نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے
کہ سینٹر کو طلاق ثلاثہ کے معاملات اب نہ موصول ہو رہے ہوں لیکن یہ مہجور مسلم خواتین
کو کچھ راحت پہنچانے کے لیے کافی محنت کر رہی ہے۔ "جولائی 2019 کے بعد سے سینٹر
نے جتنے بھی معاملات نمٹائے ہیں، ان میں سے 32 فیصد ایسے مسلم خواتین کے ہیں جنہیں
چھوڑ دیا گیا ہے۔ باقی گھریلو تشدد، جہیز، یا کچھ خاندانی مسائل کے معاملات ہیں۔ شاید
ہی 1 یا 2 طلاق ثلاثہ کے معاملات آئے ہوں"۔
انہوں نے مزید کہا، "یہ شرح
تین طلاق کو جرم قرار دیے جانے سے قبل سینٹر کو ملنے والے مہجور خواتین کے معاملات
کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔"
خلع میں بھی
بہت سی پیچیدگیاں ہیں
ایسی صورتوں میں جب مرد طلاق نہ
دے رہا ہو، لیکن عورت طلاق چاہتی ہو، اسلامی قانون یا شریعت میں 'خلع' کا راستہ کھلا
ہے - جس میں بیوی طلاق کا عمل شروع کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔
24 سالہ شاہین بیگم کی شادی
2018 میں ہوئی تھی لیکن شادی کے چند ماہ کے اندر ہی اس کے شوہر نے اسے واپس اپنی ماں
کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ وہ اسے عارضی طور پر واپس اپنے گھر لاتا اور پھر فورا اسے دوبارہ
اس کے گھر واپس بھیج دیتا۔ یہ کچھ دنوں تک چلتا رہا جس کے بعد شاہین نے 2021 میں اایک
نتیجے پر پہنچے کا فیصلہ کیا۔ “لیکن اس کے شوہر نے کہا کہ میں تجھے طلاق بھی نہیں دوں
گا۔ اس نے کہا تو ایسے ہی سڑ،‘‘ شاہین نے دی کوئنٹ کو بتایا۔
چنانچہ، شاہین نے خلع لینے کی کوشش
کی، لیکن اس کے لیے بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔ لیکن شاہین کے شوہر کسی بھی کارروائی
میں شامل ہی نہیں ہوئے۔ قاضی صاحب اسے نوٹس بھیجتے رہے لیکن وہ کبھی نہیں آیا۔ اور
نہ ہی کبھی اس نے خلع کے کاغذ پر دستخط کیے۔ میں اب زندگی بھر کے لیے پھنس چکی ہوں"۔
Ayesha
has been abandoned by her husband.
Chetan
Bhakuni/ The Quint
----
تاہم، اپریل 2021 میں، کیرالہ
ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عورت یکطرفہ طور پر خلع لے سکتی ہے،
اور اس کے لیے شوہر کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے۔
دہلی کی وکیل نبیلہ جمیل نے دی
کوئنٹ کو بتایا "یہ فیصلہ ماورائے عدالت طلاق میں عدالت کی منظوری کو شامل کرتا
ہے۔ تاہم، اسے خواتین کو خلع حاصل کرنے میں درپیش مسائل کے ایک مثبت حل کے طور پر دیکھا
جا سکتا ہے کیونکہ ہندوستانی قانون کے تحت قاضیوں کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیرالہ کا فیصلہ صرف کیرالہ میں نافذ العمل ہے‘‘۔
شاہین اب ڈپریشن کی مریضہ بن چکی
ہے، اور اس کی دیکھ بھال اس کی ماں کرتی ہے۔ شاہین کی والدہ کہتی ہیں "مجھے اس
آدمی سے اس کی شادی کرنے کا افسوس ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ اسے صرف طلاق دیدے تاکہ وہ
آگے بڑھ سکے، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتی،" ۔
پیسے کے معاملات
ان میں سے بہت سے تنازعات کا تعلق
پیسے اور گزر بسر کے سوال سے بھی ہے۔ مہر پہلے سے طے شدہ ایک رقم ہے جو شوہر شادی کرنے
پر بیوی کو ادا کرتا ہے۔
نبیلہ بتاتی ہیں، ’’طلاق کی صورت
میں، شوہر کو مہر کے ساتھ ساتھ عدت کی مدت (طلاق کے بعد تین ماہ تک) نان و نفقہ بھی
دینا چاہیے۔
26 سالہ ریشماں بیگم کے ہاں
بچے کی پیدائش کے فوراً بعد، اس کے شوہر نے کہنا شروع کر دیا کہ اب میں تمہارے ساتھ
مزید نہیں رہنا چاہتا۔
تاہم، اس نے اسے طلاق دینے سے انکار
کر دیا، اور اس کے بجائے اسے خلع لینے پر مجبور کیا۔ لیکن اس نے خلع کے دستاویز میں
کچھ ایسی شقیں شامل کر دیں جن سے وہ مہر یا نان و نفقہ کی رقم دینے سے آزاد ہو گیا۔
ریشما، جس نے باقاعدہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی ہے، اس نے کہا کہ مجھے کافی دنوں کے
بعد اس بات کا احساس ہوا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ "میں ناخواندہ ہوں اس لیے میں
دستاویز کو نہیں سمجھ سکی۔ میں بالآخر سمجھ گئی کہ اپنی آزادی میں بھی میں پہلے سے
زیادہ بے بس تھی"۔
ایسے حالات میں جو عورتیں
طلاق کے بغیر چھوڑ دی گئی ہوں، وہ کسی اور سے شادی بھی نہیں کر سکتیں۔
عائشہ صدیقہ کو ایک 17 سالہ بچے
کی ماں ہیں وہ بھی گزشتہ کچھ عرصے سے اپنی 18 سالہ شادی کے رشتے کو ختم کرنا چاہتی
ہیں۔ "میں ایک ایسے ساتھی کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں جو معاون اور مہربان ہو، تاکہ
میں اپنی زندگی بھی سکون سے گزار سکوں اور اپنی خواہشات کو پورا کر سکوں۔ لیکن طلاق
کے بغیر، میں آگے نہیں بڑھ سکتی"۔
مسلم خواتین
کو بااختیار بنانے کی سیاست
بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن (بی
ایم ایم اے) کی بانی ذکیہ سومن جو سپریم کورٹ کیس میں درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں،
جو آخر کار تین طلاق پر پابندی کا باعث بنی، انہوں نے کہا کہ اسے ایک بنانے کی وجہ
سے ہو سکتا ہے کہ طلاق ثلاثہ کی تعداد میں ظاہر ہوئی ہو۔ لیکن تصویر مکمل طور پر صاف
نہیں ہے۔
سومن نے دی کوئنٹ کو بتایا
کہ "طلاق ثلاثہ کو ایک جرم قرار دیے جانے کے بعد بھی، ملک بھر کے زیادہ تر تھانے
اس قانون کے تحت مقدمہ درج نہیں کرنا چاہتے۔ خاتون کو مقدمہ درج کروانے کے لیے ادھر
ادھر دوڑنا بھاگنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پورا نظام پدر سرانہ ہے"۔
Reshma
has been abandoned by her husband.
Chetan
Bhakuni/ The Quint
-----
بی جے پی حکومت نے طلاق ثلاثہ
کے نافذ ہونے کی تاریخ کو یاد۔ رکھنے کے لیے یکم اگست کو ’مسلم ویمن امپاورمنٹ ڈے‘
قرار دیا ہے۔ سومن نے اسے آنکھوں میں دھول جھونکنا قرار دیا ہے۔
سومن نے مزید کہا کہ "یہ محض
سیاست ہے۔ ایک ایسا قانون جس سے امید تھی کہ یہ خواتین کے لیے معاون ہوگا، اسے صحیح
طریقے سے نافذ ہی نہیں کیا گیا۔ اور دوسری بات یہ کہ مسلم خواتین بھی اسی ملک کی شہری
ہیں۔ آج جبکہ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر
چلائے جا رہے ہیں اور فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت اس قدر پھیلی ہوئی ہے... آپ ان سے
بااختیار ہونے کی توقع کیسے کرتے ہیں،‘‘ ۔
'مسلم عائلی قوانین کو صنفی
بنیادوں پر انصاف پرست بنانے کی ضرورت ہے'
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین
کو بالآخر زیادہ بااختیار محسوس کرنے کے لیے ان کے ازدواجی اور طلاق کے حقوق کو مضبوط
کرنے کی ضرورت ہے۔
حیدرآباد یونیورسٹی میں پی ایچ
ڈی کی طالبہ افرا سلیم جو خواتین کے حقوق اور قانونی تکثیریت پر کام کر رہی ہیں، کہتی
ہیں کہ "قاضیوں کو ایسے معاملات میں نکاح ختم کرنے کا اختیار دینے کی ضرورت ہے
جب عورت خلع کے لیے درخواست دیتی ہے اور شوہر بار بار کوشش کے باوجود پیش ہونے یا تعاون
کرنے سے انکار کرتا رہتا ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ مسلم خواتین اذیت ناک شادی کے بندھن
یا ایسے رشتہ ازدواج سے آزاد ہونے کے قابل ہوں گی جہاں ان کے شوہر ان کے ساتھ نہیں
رہنا چاہتے، لیکن انہی طلاق دینے سے بھی گریزاں ہیں"۔
لیکن ماہرین نے کہا کہ طلاق
کے فوری سوال سے ہٹ کر، مسلم عائلی قوانین پر بھی زیادہ جامع انداز میں ازسرنو کام
کرنے کی ضرورت ہے۔
ذکیہ سومن نے کہا کہ مسلم میرج
ایکٹ اور مسلم عائلی قوانین کو مزید صنفی انصاف پسند بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا
کہ "مسلم عائلی قوانین میں ترمیم کر کے انہیں صنفی انصاف پسند بنانے اور انہیں
مساوات کے قرآنی احکامات کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ ہمارے آئینی انصاف کے اصولوں
کے مطابق ہے"۔
ماخذ: 3 Years
of Triple Talaq Law: How It Has Left Many Muslim Women Abandoned
English
Article: After The Criminalisation of Triple Talaq, Women Face
Abandonment
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism