بان کی مون
31جنوری 2016
اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں 2016 کا آغاز بھی 2015 کی ہی طرح انتہائی نا قابل قبول تشدد اور یکطرفہ عوامی مباحثے کے ساتھ ہوا۔ پلورائزیشن کا مظاہرہ اس وقت ہو جب میں نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ہال میں ایک سادہ حقیقت کی نشاندہی کی کہ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ لوگ ہمیشہ قبضے کی مخالفت کریں گے۔
کچھ لوگوں نے میری باتوں کو توڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی اور میری باتوں کو تشدد کے لئے ایک گمراہ کن جواز میں غلط طریقے سے پیش کیا گیا، فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنا کر اسرائیلیوں کا لوگوں پر حملے کرنا اور گاڑیوں کو اڑانا قابل مذمت ہے۔ اور تشدد کو بھڑکانے اور قاتلوں کی تعریف کرنے کا بھی عمل قابل مذمت ہے۔
کسی بھی بہانے سے دہشت گردی کا جواز نہیں پیش کر سکتا۔ میں دوٹوک انداز میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔
اگرچہ، یہ بات ناقابل فہم ہے کہ صرف حفاظتی اقدامات ہی تشدد کی راہیں مسدود کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ تقریبا نصف صدی تک قبضے کی وجہ سے فلسطینی لوگوں کی مایوسی اور شکایات میں آضافہ ہو رہا ہے۔ اس کو نظر انداز کرنے سے یہ ختم نہیں ہو گا۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قبضے کی روزمرہ کی حقیقت غصے اور مایوسی میں اضافہ کر رہی ہے، جو کہ تشدد اور انتہا پسندی کے اہم محرکات میں سے ایک ہے اور اس سے دو ریاستی حل کی تمام امیدیں کمزور ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اسرائیلی بستیوں کی توسیع اب بھی جاری ہے۔ حکومت نے مقبوضہ مغربی ساحل پر غیر قانونی بستیوں میں 150 سے زائد نئے گھروں کی منصوبہ بندی کو منظوری دی ہے۔ گزشتہ ماہ مغربی کنارے پر 370 ایکڑ زمین کو "سرکاری زمین" قرار دیا گیا، جو کہ ایک ایسی خاص حیثیت ہے جسے خصوصی طور پر اسرائیلی آبادکاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اور ساتھ ہی ساتھ اس کی وجہ سے ہزاروں فلسطینیوں کے گھروں کو انہدام کا خطرہ لاحق ہےاور اس کی وجہ مغربی کنارے پر پیش آنے والی رکاوٹیں ہیں جو کہ کاغذی طور پر تو قانونی ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر یہ ایک یکطرفہ کاروائی ہے۔ فلسطینی اور خاص طور پر نوجوان لوگ ایک سخت، ذلیل کن اور لامتناہی قبضے کی وجہ سے اپنی امیدیں گنواں بیٹھے ہیں۔ اسرائیلی تقریباً روزانہ کے حملوں کی چپیٹ میں ہیں اور فلسطینیوں ساتھ ایک جامع امن و استحکام کے امکان کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ، یورپی یونین اور روسی فیڈریشن کے ساتھ اقوام متحدہ نے بھی فلسطینی اتھارٹی کی اقتصادی، ادارہ جاتی، اور سیکورٹی ستونوں کو مستحکم کرنے کی پالیسی میں اہم تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو امن اور سلامتی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری حمایت حاصل کرنے کے لئے خطے کے عرب ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
ہم غزہ کی تعمیر نو اور ایک تباہ کن تصادم سے بچنے کے لیے اور حقیقی قومی مصالحت پر فلسطینیوں کو زور دینے کے لیے فلسطینی حکام کے ساتھ مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک پائیدار معاہدے کو انجام دینے کے لیے دونوں اطراف کے رہنماؤں اور عوام کو ایک مشکل سمجھوتہ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اسرائیلی حکام کو فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی اداروں کے لیے واضح حمایت کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اسرائیل کے جائز سیکورٹی خدشات کا تحفظ کرتے ہوئے مغربی کنارے اور غزہ کے تئیں پالیسیوں میں اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
اس طرح کے اقدامات قدرتی وسائل تک رسائی، پانی، توانائی، مواصلات اور زراعت کے ساتھ شروع کیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر مغربی کنارے میں اسرائیل کے زیر تسلط سی (c) علاقے میں فلسطینی کمیونٹیز کی طرف سے مجوزہ ماسٹر پلانز کو فوری طو پر رمنظوری دینا بھی اس میں شامل ہونا چاہئے جس سے سرمایہ کاری اور ترقی میں اضافہ ہو گا۔
اور ان کا یہ کام ہے کہ فلسطین کو غزہ اور مغربی کنارے کو اپنے ایک قومی تنظیم دی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی قیادت میں ایک سیاسی سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب مسلسل اور مضبوطی کے ساتھ دہشت گردی کی مذمت کرنے اور غزہ سرنگ کی تعمیر پر روک لگانے سمیت اسرائیلیوں پر حملے کو روکنے کے لئے احتیاطی کارروائی کرنا ہے۔
میں ہمیشہ اسرائیل کے وجود کے حق کو چیلنج کرنے والوں کی اسی طرح حمایت کروں گا جس طرح میں اپنی ایک الگ ریاست رکھنے کے فلسطینیوں کے حق کا دفاع کروں گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس بارے میں فکر مند ہوں کہ ہم دو ریاستی حل کے لئے ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور میں اسرائیل کی حکومت کے سینئر ارکان کے ایسے بیانات سے انتہائی پریشان ہوں کہ اس منصوبہ کو مکمل طور پر ترک کر دیا جانا چاہئے۔
اس منصوبے کو ترک کرنے میں دونوں فریقوں کے لئے سنگین خطرات ہیں جن میں دہشت گردی اور قتل کے مہلک لہر کا تسلسل؛ فلسطینی اتھارٹی کا خاتمہ؛ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ اور اسرائیل اور فلسطینی کے معاشروں کی اخلاقی بنیاد کا متزلزل ہو جانا بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی تنقید یا میرے خلاف حملے اسی علاقے کے ساتھ ہیں۔ لیکن جب اسرائیل کے قریبی دوستوں سمیت اتنے ذرائع سے پیدا ہونے والے تنگ نظر نظریات یا اخلاقی طور پر پست پالیسیوں کے تعلق سے میرے خدشات بیدار ہوتے ہیں تو ہر نیک نیتی پر مبنی تنقید پر حسن ظن رکھنا پائیدار نہیں ہو سکتا۔
ہر انسان میری گفتگو سے اپنی پسندیدہ یا نا پسندیدہ باتوں کو چننے اور منتخب کرنے کے لئے آزاد ہے۔ لیکن اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور بین الاقوامی برادری کے لیے دیوار پر نوشتہ تحریر کو پڑھنے کا وقت آچکا ہے دوسرے لوگوں کو غیر متعینہ مدت تک زیر تسلط رکھنے سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کا تحفظ اور مستقبل کمزور ہو جائے گا۔
بان کی مون اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔
ماخذ:
nytimes.com/2016/02/01/opinion/dont-shoot-the-messenger-israel.html?emc=edit_ty_20160201&nl=opinion&nlid=71783194&_r=0
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/don’t-shoot-messenger,-israel/d/106198
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/don’t-shoot-messenger,-israel-/d/106207