New Age Islam
Mon Jun 16 2025, 08:58 AM

Urdu Section ( 29 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Balanced Criticism Is Essential For Harmony متوازن تنقید ہم آہنگی کے لیے ناگزیر

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

29 اپریل 2025

کسی بھی شعبہ اور محکمہ میں فوز وفلاح اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار اسی وقت ہوا جاسکتا ہے جب کہ ہم اپنے اندر سے شکست خوردہ جذبے کو ختم کرڈالیں۔ مقابلے کے اس دور میں کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ  کامیابی کو چھوتے چھوتے رہ جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اپنے مد مقابل سے خوف پیدا ہوجاتا ہے اسی طرح اس کی کامیابی اور اپنی ناکامی کا یقین ہوجاتا ہے جو مسلسل اس کی نفسیات پر قبضہ کرلیتا ہے اور پھر پوری بازی جیتی ہوئی ہار میں تبدیل ہوجاتی۔ جبکہ کامیابی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اپنے مد مقابل سے ذرا بھی نروس اور سہمے نہیں، اگر اس کی صلاحیت و استعداد دیکھ کر  احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا تو ہقین جانئے ایسے شخص کی ہار یقینی ہے۔ بر عکس اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ استعداد و صلاحیت اور لیاقت و قابلیت میں کم ہوتے ہیں مگر انہیں اپنے اوپر پورا یقین و اعتماد ہوتا ہے ، احساس کمتری سے دور رہتے ہیں، خود اعتمادی ان کا زیور ہوتا ہے، اسی وجہ سے وہ بڑے بڑے مقابلے اور امتحانات میں نہ صرف خوش اسلوبی سے کامیاب ہوتے ہیں بلکہ وہ پوری دنیا میں سرخ رو ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ بالائی سطروں کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کامیابی، مقبولیت اور فتح کا پہلا اصول یہ ہے کہ انسان کو اپنے اوپر پورا بھروسہ ہو سامنے والے کی چمک دمک اور گھن گرج سے بالکل بھی متاثر نہ ہو اگر اس کے اندر ذرا بھی نرمی یا لچک آ ئی تو بہت ممکن ہے کہ وہ ناکام ہوجائے۔ البتہ خود اعتمادی  کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم یا ہمارے نوجوان خود ستائی  جیسی قبیح اور مکروہ بیماری میں مبتلا ہو جائیں۔ اس لیے دونوں کو سمجھنا اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرنا ضروری ہے۔ خود اعتمادی ایسا محبوب اور پسندیدہ راستہ ہے اگر اسے اختیار کیا جائے اور اس پر پورے انہماک سے عمل کیا جائے تو پھر کامیابی اور منزل مقصود تک پہنچنا بہت آ سان ہے۔

ہاں اسی سے ملتا جلتا ایک اور راستہ ہے جسے خود ستائی، عجب اور کبر کہا جاتا ہے ۔  ہوسکتاہے کہ وقتی طور پر لوگوں کو خوش کردے مگر یہ بات تاریخ ، تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہے کہ جس نے بھی اس کو اختیار کیا ہے اس کا انجام نہایت خطرناک ہوا ہے۔ لہذا ہمارے نوجوانوں کو ایسے پر خطر اور پر آشوب راستے سے نہ صرف دور رہنا ہے بلکہ اس کا خیال تک بھی ذہن میں نہیں لانا ہے۔ 

اس کے علاوہ یہی شکست خوردہ جذبہ آ ج جہاں انفرادی طور پر لوگوں کو ناکام بنانے میں لگا ہوا ہے وہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ قوموں اور معاشروں میں بھی اس کا اثر آ ئے دن دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ بناء بریں جو چیز سب سے پہلے ختم کرنی ہے وہ منفی سوچ ہے اسی کو سی وی رمن نے کہا تھا:

"میرے خیال میں ہم نے ایک احساس کمتری پیدا کرلی ہے اور آج ہندوستان میں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے اسی شکست خوردہ جذبے کو ختم کرنا" المیہ یہ ہے کہ آ ج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کی عادت بن گئی ہے کہ اگر کوئی بات اچھی بھی کی جاتی ہے تو اس پر نقد برائے تنقیص کرنے لگتے ہیں ان کے اس منفی اور جانبدار رویہ کی جہاں بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں وہیں ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے سامنے والا آ گے کیوں نکل رہا ہے اس سے ان کے اندر حسد اور جلن کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ بڑے بڑے اہل علم تک اب تنقید و تجزیہ کے مسلمہ اصولوں سے ناواقف ہیں اسی وجہ سے وہ جب بھی کسی کی بات یا قول پر تنقید کرتے ہیں  تو روش اور معتدل رویہ سے ہٹ کر ذاتیات پر آ جاتے ہیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو اس فکر سے جہاں شعوری وجدان کی حالت معلوم ہوتی ہے وہیں شکست خوردہ ذہنیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ تنقید باقاعدہ ایک فن ہے یقیناً تنقید سے علمی و تحقیقی اور فکری راہیں ہموار ہوتی ہیں اور اس کے معاشرے پر مفید و دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں  مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ تنقید کے اسلوب وآداب کی پوری رعایت کی جائے۔ آ ج کے تنقیدی ادب و لٹریچر پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اب زیادہ تر تنقید نہیں بلکہ تنقیص ہوتی ہے جس کی تحریر یا ادب و فن پر تنقید کی جارہی ہے اس سے یا تو ذاتی پرخاش ہوتی ہے یا پھر سامنے والے کو الجھانا مقصود  ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی صاحب تحریر کی توہین کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ تنقید کرنے والا جب تنقید کرتا ہے تو اس کے ذہن کے حاشیہ میں یہ بات ضرور ہوتی کہ صاحب تحریر کے سامنے میرا قد ورتبہ بلند ہوجائے اور لوگوں میں میری پذیرائی ہوجائے گی جو یقیناً ایک غیر مناسب اور نا معقول بات ہے ۔معروف کالم نویس مفتی ثناء الھدی قاسمی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے

اسلامی ادب کے ترجمان ادب کو صرف زندگی نہیں مابعد الموت کی حیات سے بھی جوڑتے ہیں۔ اس لیے ان کی پرکھ اور پسندیدگی کا پیمانہ کچھ اور ہے۔ تحریک ادب اسلامی کے بانی سید عروج قادری نے ’’اسلامی ادب‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اسلامی ادب ایک ایسا سدا بہار گلشن ہے، جو توحید کی زمین پر اگتا، وحیٔ الہی کی پاکیزہ بارش سے سیراب ہوتا ہے اور آخرت کی لازوال خوشبو سے مہکتا ہے‘"

مفتی ثناء الھدی قاسمی مزید تحریر کرتے ہیں

" اسلامی ادب کے تنقید نگار کو اسلامی ادب، اس کی ماہیت اس کے اغراض ومقاصد کو جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ وہ کسی فن کا ماہر نہ ہو تو بھی قوت تمیزی مضبوط ہونی چاہیے۔ اسے تخلیق کار کی شخصیت، اس کے افکار وعادات اور فن کو ان اصولوں کی روشنی میں جانچنااور پرکھنا چاہیے، میرے اپنے مطالعہ کی حد تک ان اصولوں کا انطباق حضرت مولانا علی میاںؒ کی نقوش اقبال میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مولانا عامر عثمانی کے کھرے کھوٹے بھی اسلامی تنقیدی اصولوں پر پورے اترتے، اگر وہ جماعت اسلامی کے مخالف لٹریچر پر تنقید کرتے ہوئے غیر جانب دار ہوتے۔ ماہر القادری کے تبصرے میں بھی یہی کمی راہ پا گئی ہے۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کی تنقیدیں اتنی مختصر ہیں کہ انہیں تنقید سے زیادہ رائے کہنا زیادہ مناسب ہے" ہم جیسا سوچتے ہیں ہماری شخصیت بھی ویسی ہو جاتی ہے ۔ زندگی کے ناخوشگوار حالات و واقعات میں ہر صورت حالات سدھرنے اور بہتری کی امید رکھنے کا مثبت طرزِ فکرکیا جاتا ہے ۔ کامیابی اور خوشی مثبت سوچ کی سہیلیاں ہیں اور ہر طرح سے اس کاساتھ دیتی ہیں ۔ محققین نے مثبت سوچ کے حامل افراد پر تحقیق کی اور یہ نتائج اخذ کیے کہ مثبت سوچ کے حامل افراد طویل عمر پاتے ہیں ۔ وہ مایوسی کا شکار بہت کم ہوتے ہیں اور مخالف حالات کا جوان مردی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت دوسرے لوگوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے ۔

یونیورسٹی آف کینٹکی امریکہ کے ماہرین نے اپنی تحقیقات کے بعد یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ "انسان جس طرح اپنی زندگی کے معاملات کے بارے میں سوچتا ہے، اس کے سوچنے کا وہ انداز اس کے جسم کی قوت مدافعت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ اگرکوئی انسان مثبت سوچ اور رویہ رکھتا ہے تو یہ چیز اس کی جسمانی اور ذہنی صحت میں بہتری کا سبب بنتی ہے"

منفی تنقید ہو یا پھر منفی فکر و سوچ دونوں کے نتائج مایوس کن اور متنفرانہ ہوتے ہیں۔ جب سے  صالح تنقید اور مثبت رویہ ترک کیا ہے اس وقت سے معاشرے میں علمی بنیادوں پر بحث واختلاف کا سلسلہ منقطع سا ہوگیا ہےاگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں اور اسلاف کے کارناموں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی بات پر تنقید کرتے ہیں تو اس میں علمی نکات اور قابل غور پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس طرح کی جملہ تحریروں سے خوشگوار ماحول تیار ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آج پھر علمی اور فکری ماحول پروان چڑھے تو پھر ہمیں صالح تنقید اور مثبت سوچ وفکر کو مستحکم کرنا ہوگا۔ اخذ واستنباط کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ہمارے یہاں اب علمی اختلافات کی روایت اٹھتی جارہی ہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ جن اداروں اور تعلیم گاہوں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے تھی آ ج سب سے زیادہ تنگ نظری اور کوتاہ چشمی پائی جاتی ہے۔ علمی بنیاد پر تنقید واختلاف کے معاشرتی سطح پر جو ثمرات حاصل ہوتے ہیں ان میں بنیادی طور پر برداشت، تحمل اور بردباری آ تی ہے نوجوانوں کے لیے غور وخوض اور بحث و تمحیص کے جدید گوشے اجاگر ہوتے ہیں۔ سوچنے، سمجھنے اور تعقل و تفکر کے لیے راہ ہموار ہوتی۔ معاشرے میں توازن و اعتدال اور امن و امان برقرار رہتا ہے ۔ اگر ہمیں فکری اختلافات کو کار آمد بنانا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے جذبہ صادق کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور منفی سوچ وفکر نیز جانبدار کردار اور رویہ معدوم کرنے کی اولین ضرورت ہے۔

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/balanced-criticism-essential-harmony/d/135362

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..