رام پنیانی، نیو ایج اسلام
29 دسمبر 2023
جب ہندوستان نے آزادی حاصل کی تو
نہرو کی 'ٹرسٹ ودھ ڈیسٹینی' تقریر نے ہندوستان کا مستقبل طے کیا۔ انہوں نے کہا، ‘ہندوستان
کی خدمت کا مطلب ان کروڑوں لوگوں کی خدمت کرنا ہے جو دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔
اس کا مقصد غربت، جہالت، بیماری، اور مواقع کی عدم مساوات کا خاتمہ ہے… ہماری نسل کے
عظیم ترین انسان کی خواہش یہ ہے ہر ہر آنکھ سے آنسو کا ہر ہر قطرہ پوچھ لیا جائے۔ ہو
سکتا ہے کہ یہ ہمارے بس سے باہر کی بات ہو، لیکن جب تک آنسو اور تکلیفیں ہیں، ہمارا
کام ختم نہیں ہوگا۔‘‘ انہوں نے بھاکڑا ننگل ڈیم کی افتتاحی تقریر کے دوران مارڈن ہندوستان
کے مندروں کے لیے اپنا نظریہ اس انداز میں پیش کیا۔
بابری مسجد (فائل فوٹو)
---------
ہندوستان ٹائمز کا اس پر تبصرہ
ملاحظہ ہو: "بڑے جذبات کے ساتھ وزیر اعظم نے ان مقامات کو "مندروں اور عبادت
گاہوں" سے تعبیر کیا جہاں ہزاروں انسان لاکھوں انسانوں کے فائدے کے لئے عظیم تعمیری
سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے ہیں۔"
'جدید ہندوستان کے مندر' کا
جملہ دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عوامی شعبوں، سائنسی مزاج کو فروغ دینے والے تعلیمی
اداروں، ہسپتالوں اور ثقافت کے فروغ کے اداروں کی منصوبہ بندی کی بنیاد بن گیا۔ ’ماڈرن
ٹیمپلز‘ کے جذبے سے سرشار تقریباً چار سے پانچ دہائیوں کے سفر نے 1980 کی دہائی میں
ایک اہم موڑ لیا۔ ایک طرف، اقلیتوں سے نمٹنے میں شاہ بانو کی ناکامی کے ردعمل سے تفرقہ
انگیز سیاست کا سیلاب آ گیا، کیونکہ فرقہ پرست طاقتوں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑے
پیمانے پر پروپیگنڈہ جنگ شروع کر دی۔ دوسری طرف منڈل کمیشن کے نفاذ کے ساتھ، پسماندہ
لوگوں کے لیے تعمیری اقدام نے، مندر کی سیاست کو ہوا دی، جو ہندو قوم پرستوں کو پہلے
سے ہی ایک حکمت عملی طور پر دستیاب تھی۔
’ٹیمپلس اف مارڈن انڈیا‘ کے
نہرو کے نظریہ کے برعکس، ’مسجد کے نیچے مندروں‘ کی ہوڑ نے بابری مسجد کا تنازع جنم
دیا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی پروردہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)،
1980 میں وجود میں آئی، اور اعتدال پسند اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ 'گاندھین سوشلزم'
کا لبادہ اوڑھا۔ اپنی اعتدال پسند شبیہ کے باوجود، واجپائی آر ایس ایس کے نظریے کے
زبردست حامی تھے۔
انہوں نے ہندو تن من ہندو جیون
کی تصنیف کی اور اپنی ہندو قوم پرست سیاست کو نقاب پوش کیا۔ واجپائی نے بعد میں لال
کرشن اڈوانی کے لیے راستہ ہموار کیا، جنہوں نے ’مندر وہیں بنائیں گے' کا نعرہ دیا۔
آر ایس ایس یہ تاثر پیدا کرنے میں
کامیاب رہا کہ بھگوان رام کی پیدائش عین اسی جگہ ہوئی تھی جہاں مسجد ہے۔ منڈل کمیشن
کی سفارشات کے نفاذ کے بعد رام رتھ یاترا نے زور پکڑا۔ تاہم، اس یاترا نے ہندوستان
کے سینے میں تشدد اور تفرقہ و فساد کا خنجر بھونک دیا۔ 1990 کے قریب لال کرشن اڈوانی
کی رتھ یاترا نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں تقریباً 1800 لوگوں کی جانوں کا نذرانہ
لیا۔ بالآخر یہ یاترا اس وقت رکی جب لالو یادو نے اڈوانی کو گرفتار کیا۔
6 دسمبر 1992 کے دن اس انہدام
کا منصوبہ بنانے والے کار سیوکوں نے مسجد منہدم کر دیا۔ اس انہدامی کاروائی کے دوران،
اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اور اوما بھارتی جیسے لیڈر اسٹیج پر موجود تھے، جہاں
"ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو" اور "یہ تو ابھی جھانکی ہے کاشی
متھرا باقی ہے" جیسے نعرے لگ رہے تھے۔
انہدام کے بعد ممبئی، بھوپال،
سورت اور ملک کے دیگر حصوں میں تشدد اور قتل و خونریزی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ خلاصہ
یہ کہ قانون نے بھی 'آستھا' کی بنیاد پر ہی اس مقدمے کا فیصلہ دے دیا اور انہدام کے
مجرمین کو سزا نہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اپنے فیصلے میں عدلیہ نے بابری مسجد
کی پوری زمین مندر کو دے دیا ہے۔
آر ایس ایس اینڈ کمپنی کی اس ’کامیابی‘
کی خوشی میں اندرون و بیرون ملک سے بڑے پیمانے پر فنڈز اکٹھے کیے گئے اور اب ایک عظیم
الشان مندر تمام تر ہندو رسومات کے ساتھ خود وزیر اعظم کے ہاتھوں افتتاح ہونے کے لیے
تیار ہے۔ یہ ایک "با قاعدہ سیکولر" ریاست کے سربراہ کی جانب سے منعقد کی
جانے والی تقریب ہوگی۔ بابری مسجد ایک باقاعدہ انتخابی مدعا تھی جب تک کہ اسے منہدم
نہیں کیا گیا اور اس کے بعد عظیم الشان رام مندر کی تعمیر بی جے پی کے انتخابی منشور
اور انتخابی وعدوں کا حصہ تھی۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ تشدد، مسلمانوں کے اپنی بستیوں
میں سمیٹنے، پولرائزیشن اور بی جے پی کی انتخابی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔
شعبہ سیاسیات، منی پور سنٹرل
یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر اے ایم سنگھ کے مطابق، "اقتدار میں آنے کے بعد سے،
بی جے پی کے زیادہ تر سیاسی بیانیے نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی
کو بڑھاوا دیا ہے۔ آئین ہند سے دفعہ 370 کی منسوخی اور 2019 میں سٹیزن امینڈ منٹ ایکٹ
(سی اے اے) کی منظوری کے ساتھ ان کا یہ طرز عمل اب تک جاری ہے… ہندوتوا کے اصولوں پر
ہندوستانی شہریت کی ازسر نو تعبیر کرکے، بی جے پی حکومت نے ہندوستان کے سیکولرازم اور
اس کی وراثت کی پری بھاشا ہی بدل دی۔ اب اپنی ہی بستیوں میں رہنے پر مجبور مسلمانوں
کو اب دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر حاشیے میں ڈال دیا گیا ہے۔
اب، چونکہ مندر کا افتتاح ہونے
والا ہے، اس موقع پر ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کو متحرک کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکہ
اور دیگر ممالک میں رہنے والے ہندوستانی ایک بڑی تعداد میں مختلف قسم کے پروگراموں
کا اہتمام کر کے اس تقریب کی تیاری کر رہی ہے۔ اور ملک کے اندر آر ایس ایس کے تمام
وابستگان کو، اس تقریب کے لیے ہندوؤں کو متحرک کرنے کے لیے بیدار کرے دیا گیا ہے، اور
انھیں یا تو نئے مندر میں آ کر یا مقامی مندروں کے اندر ان رسومات میں حصہ لینے کی
ترغیب دی جا رہی ہے۔
اس بارے میں ابھی کچھ اختلافات
ہیں کہ کس کو مدعو کیا گیا ہے اور کسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس انہدامی تحریک کے سالار
اول اڈوانی اور ان کے قریبی ساتھی جوشی کو پہلے تو مندر ٹرسٹ نے مشورہ دیا تھا کہ وہ
اپنی بڑھاپے اور ایودھیا میں سخت سردی کی وجہ سے افتتاحی تقریبات میں شرکت نہ کریں۔
لیکن بعد میں کچھ سوچ بچار کرنے کے بعدد سب سے بڑی تنظیم وی ایچ پی نے انہیں مدعو کر
دیا ہے۔
جیسا کہ بابری مسجد انہدام نے فرقہ
واریت کی سیاست کرنے والوں کو اقتدار کی کرسی تک پہنایا، مندر کا افتتاح پولرائزیشن
کو مستحکم کرنے اور اس سے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کا ایک ہتھکنڈا معلوم ہوتا ہے۔ اس
تقریب کے لیے بڑی تعداد میں خصوصی ٹرینوں اور بسوں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ مندروں
کی سیاست اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ سائنسی مزاج
کے فروغ کے ساتھ نہرو کے ’ٹیمپلس اف مارڈن انڈیا ‘ کے تصور کا سبق دنیا کو پھر سے پڑھایا
جائے۔ اس وقت مذہب پرستی اور اندھی عقیدت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ جب ہندوستان نے
نوآبادیاتی تاریکی سے باہر نکلنا شروع کیا، اس نے اپنے لیے ایک ایسی راہ عمل متعین
کیا جس میں 'ادنی سے ادنی' انسان آئین کی نظر میں سب کے برابر تھا۔ رام مندر اور پھر
کاشی اور متھرا کے مندروں کی سیاست نے ، اس 'ادنی شخص' کی محرومیوں اور نہرو کے 'ٹرسٹ
ودھ ڈیسٹینی' کے وعدوں کو خاک میں ملا دیا اور ملک کی تمام تر برائیوں کا ذمہ دار نہرو
کو ٹھہرایا جانے لگا۔
English
Article: From Babri Masjid Demolition to Ram Temple
Inauguration: The Trajectory of Indian Politics
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism