بی ایس پرکاش
21 اکتوبر 2013
ایک ایسے ملک جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں اور ایک ‘اسلام پسند ’ ملک میں ایک امتیاز پیدا کرنا ضروری ہے ۔
کیا‘ سیاسی اسلام’ اور جمہوریت کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے ؟یہ ایک ایسا اشتعال انگیز سوال ہے جس پر مغرب میں اسلامی علمائے کرام ، اصول سیاسیات کے طلباء اور تجزیہ کار بحث و مباحثہ میں سرگرم ہیں۔ یہ کوئی نیا سوال نہیں ہےلیکن بہار عرب کی افسردگی نے اس میں موضوعیت کا عنصر شامل کر دیا ہے ۔
لیکن کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سوال کیوں اٹھایا جانا چاہئے ؟کیا ترکی، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ملیشیا اور پاکستان میں جمہوری طور پر منتخب طرز حکومت قائم نہیں ہے ؟کیا ان ممالک میں غیر مسلموں کی اقلیت نہیں ہے کیا یہ حکومتیں چند اعتبار سے ‘اسلام پسند ’ نہیں ہیں ؟
سب سے پہلے ایک ایسے ملک جس میں مسلمان بکثرت موجود ہیں ، خواہ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ، اور ایک ‘اسلام پسند’ ملک کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بعد اس ‘طرز’ کو بیان کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے وہ ممالک ‘اسلام پسند’ ہیں خواہ وہ طرز صرف ظاہری یا معنوی اعتبار سے ہو یا وہ طرزعمل حقیقتاً معمول کا حصہ ہو ، اگر معاملہ ایسا ہو تو تفصیلات اور کدو کاوش کا درجہ اس مباحثے کا مرکزی نقطہ ہے ۔ موجودہ دلائل کا محور عرب کے ممالک اور ایشیا کے خطے ہیں اس لئے کہ مختلف نظریات کے حامل ‘سیاسی اسلام ’کے نظریہ ساز مصر، سعودی عرب یا ایران کی پیداوار ہیں ۔ نظام حکومت پر اسلام کے اثرات کا ایک مخصوص نظریہ تیار کیا جا رہا ہے اور ہم نے اس کے کونخوار حمایتیوں کو ان خطو سے اٹھتے ہوئے دیکھا ہے ۔
ترکی، بنگلہ دیش یا انڈونیشیا میں حکومتیں ہو سکتا ہے کہ اسلام کا احترام کرتی ہوں لیکن وہ سیاسی اسلام کے اصول کی اشاعت اور توثیق میں بہت کم مشغول ہیں۔ آخر ‘ سیاسی اسلام’ ہے کیا؟ اور یہ ایک ایسی اصطلاح جس کا آج بکثرت استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کا کوئی خاص عقیدہ مراد نہیں لیتے بلکہ ایک ایسا مذہب مراد لیتے ہیں جس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ اور نظام حکومت قائم کرنا ہے جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو ۔ اس تصور کا تعین کرنے سے پہلے ہم چند مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔
اسلامی معتقدات اور قوانین کے مطابق ملک کو چلانا اخوان المسلمین کا مقصد ہے ہر چند کہ وہ ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جو مصر میں انتخاب کے ذریعہ اقتدار میں آئی ۔ اس کی ایک اور مثال الجیریا میں اسلامی سالویشن فرنٹ (FIS) ہے جس نے 1991 میں انتخاب میں کامیابی حاصل کی لیکن اسے اس دلیل کے ساتھ کبھی بھی حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ اگر اس نے اقتدار قائم کر لیا تو وہ دوبارہ انتخاب کی اجازت کبھی نہیں دے گا ۔ القاعدہ اس حد تک کہ وہ ایک سیاسی نظام ہے اس کی ایک اور مثال ہے اسی لئے اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے معتقدات اسلام سے ماخوذ ہیں ، تاہم یہ نظریہ پرامن لوگوں کے لئے کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو ۔ مسلسل تین دہائیوں ایران کا نظام حکومت بھی سیاسی اسلام کی ہی ایک شکل ہے ۔ تیونس، لیبیا اور شام میں دوسرے نام اور لیبل بھی پائے جاتے ہیں، اور ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ ایک عام عنوان کے تحت مختلف معیار پائے جاتے ہیں۔
اس عالمی نظریہ کی بنیادیں کیا ہیں ؟
اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اسلام نہ صرف یہ کہ روحانی تحریک یا مذہبی ضرورت کا حل پیش کرتا ہے بلکہ یہ ایک سماجی اور سیاسی نظام بھی پیش کرتا ہے ۔اس معنیٰ میں اسلام پسند کا کی اصطلاح نہ صرف یہ کہ انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا تعین کرتا ہے اور اس کا نظام پیش کرتا ہے بلکہ وہ اسی طرح انسانوں کے درمیان تعلقات کا تعین کرتا ہے اور اس کا نظام بھی پیش کرتا ہےجس میں حاکم اور رعایا کے درمیان تعلقات بھی شامل ہیں۔ اس کے پروکار یہ بھی کہتے ہیں کہ مثالی معاشرہ وہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اندر رہتے تھے اور اس زمانے کے معمولات کی طرف ضرور رجوع کیا جانا چائے۔ اسلامی قوانین (شریعت ) کے مطابق حکومت قائم کرنا ایک بنیادی عقیدہ ہے ۔
سیاسی نظام
ایک جمہوری سیاسی نظام کے لئے اس مذہب کے مضمرات کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں واضح کرنا ضروری ہے کہ ‘جمہوریت ’ کا مطلب آخر ہے کیا ۔ہمیں اسے جفیرسن کے نظریہ یا برطانوي پارليمنٹ یا دیگر کے خاص تناظر میں یا ناگزیر طور انتخابات کے ذریعہ تبدیل ہونے والےحکومتی ماڈل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے ۔ ہمیں دوسری خصوصیتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے اور وہ یہ ہیں مختلف معتقدات کی گنجائش ، اختلاف رائے کے امکانات،تکثیریت کی توثیق ، اقلیتوں کے حقوق اور ذاتی ازادی ۔
اتنی بات سمجھنے کے بعد ہم مساوات کے دو عقدہ کے درمیان ہاہم تعامل کا جائزہ لے سکتے ہیں اور وہ ‘اسلام پسند ا’ اور ‘جمہوری ’ طرز حکومت ہیں۔ان ممالک میں ناقدین نے اکثر یہ دلیل پیش کی ہے کہ ان کا طرز حکومت کافی حد تک نہ تو ‘اسلامی ’ ہے اور نہ ہی ‘جمہوری ’ ہے۔تجزیہ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم ان دونوں عقدہ کے جبلی منطقی انتہا کا رخ کرتے ہیں۔
اصول پرست سیاسی اسلام کے پیرکار یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ ذاتی، سماجی اور سیاسی سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں کے مسائل کا حل موجود ہے اور انہیں اسلامی کتابوں اور قدیم معمولات میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ معتقدات اور اس قسم کے قوانین میں میں کسی بھی مفاہمت ،غلطی، مغالطہ اور اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
یہ ضرور یاد رکھا جانا چاہئے کہ ایسے بھی علمائے کرام موجود ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے اصول پرست نظریات غیر مجاز ہیں اور یہ کہ اسلامی روایت میں متون کی تشریح (اجتہاد)اور شوریٰ کی گنجائش ہے ، اور عام زندگی میں ان کا وجود موجودہ حقائق سے وابستہ سماجی معمولات میں سہولت فراہم کرنے کے لئے ہے ۔ لیکن اس طرح کے نظریات کو مسترد کر دیا گیا ہے اور انہیں اصل ، خالص اور ان غیر منحرف معمولات سے کم اہمیت دی گئی ہے جن کی وکالت سخت مذہبی پیروکاروں نے کی ہے ۔اسلام کے اندر بحث و مباحثہ کا یہی موضوع ہے ۔
اسلام کسی خاص نظام حکومت کا تعین نہیں کرتا ہے ۔ لیکن اس طرح کا اصول پرست نظریہ جو کہ اوپر مذکور ہے ایک جمہوریت کے تحت مفاہمت ، اختلاف رائے ، متفرق کردار اور ان غیر رسمی معمولات کے توقعات کو پورا نہیں کرتا جن کے تئیں رواداری کا مظاہرہ کیا جا تا ہے ۔ اگر جمہوریت سے ہم صرف عوامی منشاء مراد لیتے ہیں تو اس میں کوئی ذاتی نزاع نہیں ہے ۔ لیکن اگر اس سے ہم ہر قسم کے افراد کے لئے ہر قسم کی آزادی مراد لیتے ہیں تو دو مختلف نظام کے درمیان مسائل پید اہوتے ہیں۔جنس، اقلیتوں، توہین رسالت اور تعزیراتی قانون سے متعلق معاملات کی صورت میں ہما رے پاس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔
لہٰذا ہم آہنگی کے سوال کا واضح جواب کیا ہے ؟اس کا جواب ان ریاستوں کے معمولات میں پایا جائے گا جہاں اسلام پسندوں کی درحقیقت حکومت ہے اور اس بات میں پایا جائے گا کہ وہ روز مرہ کے حقائق کا کس طرح سامنا کرتے ہیں اور اور انہیں معمول پر لاتے ہیں۔لیکن اگر دور حاضر کی بات کریں تو ہم نے ایسی حکومتیں بہت کم دیکھی ہیں – ایران، طالبان اور اخوان المسلمین کی مدت مختصر تھی اور کسی نتیجہ تک پہنچنےکے لئے ان کا کارنامہ کافی نہیں ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
بی ایس پرکاش سابق سفیر اور فی الحال جامعہ ملیہ سنٹرل یونیورسٹی کے وزٹنگ پروفیسر ہیں۔
ماخذ: http://www.deccanherald.com/content/364406/a-question-compatibility.html
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/are-‘political-islam’-democracy-compatible/d/14147
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/are-‘political-islam’-democracy-compatible/d/14219