By B. RAMAN
The assassination has strategic implications for India. It could weaken the Tajik leadership, which has been an objective ally of India. It could weaken Karzai with whom India has built up an excellent working relationship. In the uncertain period after the thinning out of the US presence starts, India would need strong allies in Afghanistan— in all the communities. It is likely that in the months to come more of the leaders who are perceived by the Taliban and the ISI as well disposed to India might be eliminated one by one.
What options would be available to India? This is a question that needs to be discussed by New Delhi with those in Afghanistan with whom it has a close relationship as well as with the US. Russia and the Central Asian Republics (CARs) have been cultivating Pakistan and vice versa. It is doubtful whether Russia would be amenable to the kind of co-operation that India and Russia had developed after the Taliban captured power in Kabul in 1996. Iran is out of question now in view of the hostility of the US to the present Iranian regime.
URL for English article:
Source of Urdu article: Inquilab, New Delhi
افغان صدر ربانی کاقتل اور
اس کے مضمرات
بی رمن
20ستمبر 2011کو افغانستان کے تاجک رہنما برہان الدین ربانی کا درد ناک
قتل ،ہند کی دفاعی حکمت عملی کے تئیں خاصی معنی خیز اہمیت کا حامل ہے۔ ربانی 1990کے
عشرہ میں اس وقت افغانستان کے صدر تھے جب بے نظیر (96-1993) پاکستان کی وزیر اعظم تھیں۔
1996میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد، وہ احمد شاہ مسعود کے تحریک
یافتہ سرکردہ تاجک غلبے والے اتحاد کے ممتاز قائد رہے ۔ واضح رہے کہ شاہ مسعود نےپس
از نائن الیون امریکہ کے ہاتھوں طالبان کی شکست میں سرگرمی سےحصہ لیا تھا۔ دریں اثنا
وہ ربانی ہی تھے جنہوں نے بے نظیر سے اتفاق رائے کے تحت ،اسامہ بن لادن کو سوڈان پر
امریکی دباؤ کے بعد خرطوم سے افغانستان میں واقع جلال آباد منتقلی کی راہ ہموار کی۔
پھر 1996میں طالبان نے جیسے ہی کابل پرغلبہ حاصل کرلیا تو اس نے لادن کواپنی پناہ میں
لیکر اسے قندھار منتقل کردیا، جو امیر طالبان ملاّ محمد عمر ، اور ان کی شوریٰ کا بھی
مستقر تھا۔ شمالی اتحاد اور طالبان میں ما بعد جو گھمسان کی جنگ چھڑگئی اس میں ، القاعدہ
اور پاکستان کی انٹر سروسیز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) نے طالبان کو کمک پہنچا ئی جبکہ
ہند، روس اور ایران کا حمایت یافتہ شمالی اتحاد
نے طالبان پر فاتحانہ یلغار کردی تھی۔ تاہم امریکی تسلط میں القاعدہ نے ایک عرب خود
کش بمبار کے ذریعہ نائن الیون سے ایک ہی دن پہلے مسعود کو دھماکہ سے اڑانے میں جو کامیابی
حاصل کی اس کے باوجود وہ شمالی اتحاد کی جن کی صلاحیت میں کوئی خم تک نہ ڈال سکا، جو
کہ امریکی افواج کی نئی مقتدر ہ میں اپنے کو حاشیہ پر محسوس کیا، جو کہ متفقہ طور پر
امریکی تائید سے جنرل پرویز مشرف کے دباؤ میں آکر ،جن کی نظر میں شمالی اتحاد ہند
۔ دوست اور پاکستان مخالف گٹھ جوڑ کے مترادف تھا۔ بعد ازیں صدر حامد کرزئی کے ذریعہ
ربانی کی بازیابی اور اعلیٰ امن کا ؤنسل (ایچ پی سی) سربراہ کے طور پر ان کا تقرر
تاکہ طالبان کو گفت وشنید پر مائل کر کے اسے فوجی تنازعہ سے باز رکھا جاسکے۔ کیو نکہ
وہ بلوچستان کے کوئٹہ علاقے میں قائم پناہ گاہوں سے متواتر چھاپہ ماری کرتے رہتے ہیں،
جن کے جارحانہ حملوں (23مئی 2011کو بحریہ کے مہران مستقر میں خود کش حملہ) نے پاکستان
کی وفاقی افواج کے صدر دفتر میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی
اور لفٹنٹ جنرل احمد شجاع پاشا ، جو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور بھی غنیم
کی اس جسارت کو ہندوستان کی مہربانی سے شمالی اتحاد کی فوجی طاقت کے احیا پر قیاس کرتے
ہیں۔ تاکہ صدر بارک اوبامہ کے ذریعہ وضع کردہ منصوبے کے مطابق کابل سے امریکی قیادت
والی ناٹو افواج کے انخلا کے ساتھ ہی مستقبل میں آئی ایس آئی کی حمایت سے کابل پر
رونما ہونے والے طالبان کے کسی ممکنہ غلبے کا تدارک کیا جاسکے۔
یاد رہے کہ جی ایچ قیو کی
تشویش میں اسی وقت اضافہ ہوگیا تھا جب گزشتہ جولائی میں افغانستان میں بحالی امن کی
مہم میں ہندوستان سے مدد حاصل کرنے کے جذبے کے تحت ربانی نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔
چنانچہ پاکستانی جی ایچ قیو نے اس دورے کے خفیہ مقصد کو بھانپ لیا....چونکہ ربانی کا
بل پر طالبان کے از سر نو برسر اقتدار آنے کے امکانات کے تئیں ہندستانی لیڈران سے
تبادلہ خیال کے خواہاں تھے اس لیئے بعض نامعلوم عناصر کے ذریعہ ربانی پر قاتلانہ حملہ
سوچی سمجھی سازش کے تحت انجام دیا گیا......جو کہ طالبانی یا حقانی نٹ ورک یا گلبدین
حکمت یار کے حزب اسلامی یا پھر ایمن الظواہری کے ماتحت القاعدہ کے پرور دہ رہے ہونگے
جنہیں شمالی محاذ اور اس کے اتحادیوں کے استحکام و اقتدار کی دعویدار طاقت کے طور پر
طالبان کا مدمقابل محاذ تشکیل پانا ہر گز منظور نہیں۔ لہٰذا سابق سرخیل ربانی پر حالیہ
جان لیوا حملہ مستقبل میں تاجک قبائل سے صدر حامد کرزئی کے ممکنہ گٹھ جوڑ کے تئیں ایک
انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔نیز اس خونریزی سے پشتونوں اور تاجکوں کے مابین دراڑ ڈالنے
کی شاطرانہ چال بھی ٓاشکار ہوچکی ہے۔ ورنہ اس بزرگ رہنما کے قتل کی کوئی اور توضیح
ممکن ہی نہیں ۔ اس پس منظر میں بعض زیرک تجزیہ کا ر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ربانی
کے بہمانہ قتل کا سبب امن کی گاڑیاں کو پٹری سے اتار دینا ہے۔
علاوہ ازیں اس حرکت سے طالبان
کے بیچ موجوددیگر غیر مطمئن عناصر کا ہاتھ بھی اجاگر ہوچکا ہے جنہیں مساعی امن سے للٰہی
بیر ہے ۔تاہم امن مذاکرات سے ناخوش طالبان اتنا تو کر ہی سکتے تھے کہ ربانی اور ان
کی مجلس مشاورت سےاعلانیہ علاحدگی اختیار کرلیتے ۔ تو انہیں ربانی کو قتل کردینے کی
ضرورت ہی کیا تھی۔ انہیں محض اس لئے نہیں قتل کیا گیا کہ وہ کسی کیلئے فوری خطرہ سمجھے
جارہے تھے، بلکہ طالبان اور اس کے حواری اپنی نشاۃِ ثانیہ کی صورت میں مستقبل کیلئے
انہیں خطرہ محسوس کرنے لگے تھے ۔ بہر کیف ان کے قتل سے کرزئی کو تاجک حمایت کمزور پڑسکتی
ہے نتیجتاً کرزئی بھی طالبان کے آگے اب تک سے کہیں زیادہ بے بسی محسوس کرینگے۔
بالآخر اس قتل کے ہندوستان
پر متعدد اثرات کا مرتب ہونا یقینی ہے۔ یوں تاجک قیادت بھی ممکنہ طور پر کمزور ہوگی،
جو عرصہ دراز سے ہندوستان کے تئیں موثر اتحادی طاقت ثابت ہوتی رہی ہے۔ یہ کرزئی کو
بھی کھوکھلا کردے گا جن سے ہندوستان نے بہترین روابطہ قائم کررکھے ہیں۔ چنانچہ جیسے
جیسے وہاں پر امریکہ وجود سمٹنا شروع ہوا ہے، ہندوستان کو افغانستان میں مضبوط اتحادی
درکار ہیں....جو تمام طبقات سے وابستہ ہوں۔ لیکن ایسا معلوم ہورہا ہے کہ آئندہ مہینوں
میں قابل فہم طور پر ایک ایک کر کے مزید ایسے لیڈران کی باری آسکتی ہے جنہیں طالبان
اور آئی ایس آئی ہندوستان کی بالادستی کے تئیں معاون سمجھتے ہوں۔ ایسی صورت میں ہندوستان
کیلئے کیا امکانا ت دستیاب ہوں گے؟ یہی وہ سوال ہے جو نئی دہلی کو نہ صرف افغانستان
بلکہ امریکہ میں موجود اپنے قریبی حلیفوں سے سرجوڑ کر بیٹھنے کا متقاضی ہے۔ دریں اثنا
روس اور سنٹرل ایشیائی جمہورتیں (سی اے آر ایس) کے ذریعہ پاکستان اور اس کے حواریوں
کی پشت پناہی جارہی ہے۔ لہٰذا یہ بعید از قیاس ہے کہ آیا 1996میں کابل پر طالبان کے
برسر اقتدار آجانے کے بعد سے ہندوستان اور روس کے تعلقات مستحکم رہ گئے ہیں ۔حکومت
ایران کے تئیں امریکی مخاصمت کے چلتے ایران کوئی الفور اس منظر نامہ سے دور ہی رکھنا
بھلا ۔امریکہ سے باہمی تعاون کو موقف ہی واحد دفاعی متنادل بچاہے ۔ امریکہ واضح طور
پر افغانستان میں پاکستان کے ہر حربے سے چوکنا ہے۔ چنانچہ ہند۔ امریکہ مشترکہ کاوش
کا مقصد آئی ایس آئی کی پشت پناہی سے طالبان کے اقتدار کی واپسی کا تدارک ہونا چاہئے
۔ حالانکہ امریکہ تا حال افغانستان کی سیکورٹی فورسیز کی تربیت میں ہندوستان کی مدد
لینے سے اس لئے گریزاں ہے کہ پاکستان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اس کے باوجود
ہمیں امریکہ کو اس کے احتساب پرآمادہ کرنا ہوگا تاکہ ہندوستان خطہ میں اہم رول ادا
کرسکے۔ یہی وہ پہلی مطلوبہ قدم ہے جو ہند کو درکار ہے۔ دیگر اقدام ہنوز شناخت طلب ہیں۔لہٰذا
ہند امریکہ کہیں بڑ بڑاتے ہی نہ رہ جائیں اور حالات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں۔
مضمون نگار سابق ایڈیشنل سیکریٹری
سیکریٹریٹ ،حکومت ہند اور فی الحال ڈائریکٹر برائے ناپیکل اسٹڈ یز چنئی ومشیر برائے
چنئی سینٹر برائے مطالعہ سچین ہیں۔
بشکریہ :۔ اردو روز نامہ انقلاب
،نئی دہلی
URL: