عزیز بلگامی
30 دسمبر، 2014
اغیار کے کاشانوں سےمسلمانوں کے خلاف کچھ ایسی ‘‘ سازشیں’’ رچی گئیں یا رچی جارہی ہیں کہ اب اِس قوم میں نہ صرف دراڑیں اُبھری ہیں ،بلکہ اس کے بعض حصے بنیادوں سے اُکھڑ کر زمین بوس ہوگئے ہیں۔ جن ممالک میں یہ خود مختار اکثریت رکھتے ہیں وہاں یہ دشمنان اسلام ملکوں کی سازشوں کے نرغے میں ہیں ۔ اِس کا ردِّعمل یہ ہےکہ یہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پھرتے ہیں ، ایک دوسرے پر خود کش بم باری کرتےہیں اور ایک دوسرے کی مسجدوں کو جلانے جیسے کارہائے ‘‘ ثواب’’ میں مصروف دکھائی دیتےہیں ۔ اور جہاں یہ اقلیت میں ہیں، تو ملک کی اکثریت ان کے خلاف سرگرم سازش ہے۔ اس کا ردِّ عمل یہ ہے کہ وہ زندگی بھر ایک برہمی اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں اور اپنے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرنے سے غافل نظر آتے ہیں ۔
سترویں صدی کے اواخر میں لفظ ‘‘ سازش’’ کاچلن عام ہوا۔ کبھی اشیاء کی قیمت کو کنٹرول کرنے کی غیر قانونی سرگرمیوں کو سازش کہا گیا، کسی کمپنی کے انتظام کواپنے ہاتھ میں لینے کی خفیہ کوشش کو سازش کہا گیا، حکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے فوج کے ایک مختصر مگر بااثر جنرلوں کے گروپ کی رازدانہ مہم جوئی کو سازش کا نام دیا گیا۔ غرض کہ سازشوں کی نوعیتوں کے اعتبار سےاِن کے مختلف نام تجویز کے گئے ، جیسے ‘‘ سازش خموشی’’ ہے جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کسی معاملہ میں کسی واقعہ پر خاموشی اختیار کی جائے۔ یعنی اس کےبارے میں زبان سے کوئی لفظ نہ نکالا جائے ۔ مثلاً پولس کے ظلم و ستم پر عوام کی خاموشی دراصل ایک:سازشی خموشی’’ ہے ۔ دو تاجر وں کے درمیان ایک ایسا زبانی یا تحریری معاہدہ کہ جس کی رُو سے وہ ایک دوسرے کے تجارتی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ یاکسی Establishment کے انتطامیہ اور اس کے مزدوروں کے مابین ہونے والا معاہدہ بھی ‘‘ سازش خموشی’’ کے زمرے میں آتا ہے ۔ اِمتدادِ زمانہ کے ساتھ اِس کے تصور میں مزید ترقی ہوئی اور ایک مخصوص نظریہ کے ساتھ اِسے سمجھا جانے لگا ، جس کاخلاصہ یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد نفوس پر مشتمل کسی برانگیختہ گروپ Angry Lot کی جانب سے کسی قوم یا ملک کے خلاف کسی غیر قانونی یا Treacherous act یا نقصان دہ کام یا Plot کو کسی راز دارانہ منصوبے کے تحت کسی شیطانی مقصد کے لیے سر انجام دینے کا نام ‘‘ سازش’’ ہے۔ یہاں ہم ایسی ہی کچھ سازشوں کا تذکرہ کریں گے جو عالمی و ہندوستانی سیاق و سباق میں مشہور ہوئیں اور اب تک بھی زیر بحث رہی ہیں۔
گائے فاکس Guy Fawkes کی قیادت میں انگلستان میں کیتھولک فرقے پر توڑ ے گئے ظلم کے خلاف 1605 ء میں جیمس اول کو اور انگلستانی پارلیامنٹ کے دونوں ہاؤزس سمیت اُڑادینے کی سازش مشہور ہے۔ یہ گن پاؤڈر پلاٹ کے نام سے جانی جاتی ہے ، جب کہ لفظ ‘‘سازش ’’ مستعمل نہیں تھا۔ نائن الیون کی واردات بھی اسی زمرے میں آتی ہے اور اس کے بارے میں آئے دن کچھ نہ کچھ شائع ہوتا رہتا ہے اور آج تک بھی کوئی فرد یا گروپ و ثوق کے ساتھ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ نیویارک کے عالمی تجارتی مرکز کی تباہی کے پیچھے کون ہے!!۔ ہندوستانی پس منظر میں ‘‘ دس نمایاں ہندوستانی سازشیں ’’ Indian Conspiracy Theories10 کے عنوان سے آج بھی کچھ نمایاں سازشی تھیور یز عوام کی گفتگو کاموضوع بنتے رہتے ہیں او رمعاشروں میں بے چینی اور دلچسپی کی ملی جلی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ہم یہاں اِن کا اِختصار کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔ عقدہ ابھی تک کھلا نہیں کہ کیا ہندوستان اب بھی انگلستان کی ملکہ کی نو آبادی Colony ہے؟ کیوں کہ 1947 میں جب اقتدار کی منتقلی کامعاہدہ مرتب ہوا تھا تو ، گوکہ ہندوستان کو ایک آزاد ملک ڈکلیر کیا گیا، لیکن اِس حقیقت کے ساتھ کہ یہ ایک ‘‘ دولت مشترکہ ملک’’ کے طور پر رہے گا جسے اِس سےقبل ‘‘برٹش دولتِ مشترکہ ممالک’’ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اِس کامطلب یہ تھا کہ تمام ‘‘ دولت مشترکہ ممالک’’ ہمیشہ ملکہ کے کالونیز رہیں گے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس سازش کی رُو سے ہمارا قومی ترانہ ‘‘ جن گن من’’ ابتداً ملکہ کی تعریف بیان کرنے کے لیے لکھا گیا تھا ، نیز یہ کہ اِس میں صرف اُن ہی علاقوں کے نام شامل ہیں جو برطانیہ کے زیر تسلط تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ انگلستان کی ملکہ کے لیے اُن آباد ممالک Colonies کا دورہ کرنے کے لیے ویزا کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ چنانچہ 1997ءمیں جب ملکہ نے بلاویزا ہندوستان کا دورہ کیا تھا تو ہندوستانی پارلیامنٹ میں ایک وبال سا مچ گیا تھا ۔ اس سازش کا پردہ مشہور سماجی کارکن راجیوڈکشٹ نے فاش کیا تھا جو اس نوع کی آواز بلند کرنے والوں کی علامت بن گیے تھے۔
2۔ بھگت سنگھ کی سزائےموت ؟ حقیقت کیا ہے: بھگت سنگھ کو ہندوستانی آزادی کی جد وجہد میں ایک نہایت ہی با اثر انقلابی کی حیثیت سےیاد کیا جاتاہے۔ اِنقلاب کے دوران بھگت سنگھ کے جاں بازانہ اقدام میں دو کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔ اولاً اسسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ آف پولس جان پی سانڈرس کا قتل اور 1929 ء میں مرکزی مقننہ عمارت کی بمباری ۔ بھگت سنگھ کو بعد میں گرفتار کیا گیا اور اقدام قتل کی فرد جرم عائد کی گئی اور موت کی سزا سنائی گئی۔ اس سلسلے میں جو سازش بتائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ خود مہاتماگاندھی موت کی اِس سزا کو روکنے کا آپشن رکھتے تھے، مگر انہوں نے ایسا کرنے سے خود کو باز رکھا تھا۔!! کیونکہ بھگت سنگھ کی تحریک تشدد پر مبنی تھی اور گاندھی جی عدم تشدد کے پر زور داعی تھے ۔ گوکہ گاندھی جی بھگت سنگھ کی حب الوطنی کے قائل ضرور تھے لیکن وہ اُن کی پر تشدد سرگرمیوں سے متفق نہیں تھے۔
3۔ اسی طرح ہندوستان کی قدیم جو ہری جنگ کے تذکرے اور مہا بھارت میں موجود اِشاروں کو لے کر بھی سازش کی اور دلچسپ تفصیل ہمیں انٹر نیٹ پر ملتی ہے۔
4۔ DRDO کی تزئین کردہ اگنی 5، کی 19 اپریل ، 2012 کو کامیاب اُڑان کے بعد اِس کے رینج کے بارے میں بھی کئی سازشی تھیور یز عام ہیں کہ یہ کتنی دوری تک مار کر سکتا ہے ، 5000 یا 5500 کلو میٹر ۔ کوئی کچھ تو کوئی کچھ کہتا رہا ، یہاں تک کہ چین نے اِس کے بارے میں کہا کہ یہ 8000 کلو میٹر تک مار کرسکتا ہے ۔ کسی کو کچھ خبر نہیں کہ کس لیے اِس کی حقیقت چھپائی گئی ۔
5۔ اسی طرح270 قبل مسیح میں شہنشاہ اشوک کے زمانے میں قائم کی جانےوالی نو افراد پر مشتمل ایک پر اسرار سوسائٹی کا ذکر بھی ملتاہے جس کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ علم و حکمت کی نوسکریٹ کتابوں کو چھپائے رکھیں اور غلط ہاتھوں میں نہ جانے دیں ۔ ان نفسیاتی جنگ، فشیا لوجی ، مائکر و بایو لوجی ، الکمیا ، مواصلات extraterrestrials کے ساتھ مواصلاتی نظام، کشش ثقل اور اِس کے توڑنے والے آلات کاعلم، علم فلکیات ، وقت اور Hyper Space کے علم، سفر ، روشنی اور سماجیات کے علم سے جڑی معلومات کا ذخیرہ تھا ۔ لیکن آ ج تک کسی کو خبر نہ ہوسکی کہ حقیقت کیا تھی ۔
6۔ پروفیسر پی این اوک کی قیادت میں تاج محل یا تیجو مہالیہ کے شو ا ٹمپل ہونے کو لے کر ایک سازشی تھیوری چلائی گئی جسے 2005 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ میں اور 2000 میں سپریم کورٹ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
7۔لال بہادر شاستری جی کی موت پر بھی سازشوں کے پردے پڑے رہے جو آج تک نہیں اُٹھائے جاسکے۔ تاشقند میں سابق وزیر اعظم کی موت کو قدرتی موت نہیں مانا گیا اور یہ تھیوری آج بھی سازش کا حصہ ہے کہ انہیں زہر دے کر مارا گیا ۔ مارنے والے کون تھے، کس نے مارا اِس پر حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکا ۔ RTI کے ذریعہ بھی اِس کی تفصیلات کے حصول کی کوششیں ہوئیں، لیکن ملکی مفادات اور اُمور خارجہ کے حق میں اِسے ضرر ساں کہہ کر چھپایا گیا ۔ اور حقیقت سازش کا لبادہ اوڑھے رہی ۔
8۔ ہومی بھا بھا ایک جوہری توانائی کےماہرین میں شمار ہوتے تھے ۔ انہیں ‘‘ بابا ئے ہندوستانی نیوکلیر پروگرام ’’ بھی کہا جاتا ہے ۔اِن کی موت بھی پرُ اسرار ہوائی حادثے میں ہوئی تھی اور اِس پر سازش کے پردے پڑے رہے۔ اس میں CIA کے ملوث ہونے کی تھیوری پیش کی گئی ، کیونکہ ہندوستان کے جوہری توانائی کے پر وگرام کو نقصان پہنچانا مقصود تھا۔
9۔ سبھاس چند ربوس کی موت بھی آج تک پر اسرار بنی ہوئی ہے اور سازشوں کے تذکرے عام ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ 1945ء میں وہ تائیوان میں ہوائی حادثے کا شکار ہوئے ۔ کوئی کہتاہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد USSR نے انہیں جاپان کی ہم نوائی کے شبہ میں پکڑ لیا او راِن کو جنگی مجرم قرار دے کر قید میں ڈال دیا اور وہ حالتِ اسیری ہی میں سائبیریا میں انتقال کر گئے ۔ سازش کی اِس تھیوری میں آج بھی ہمارے دانشور و اخبار نویس اُلجھے ہوئے ہیں لیکن گتھی ہے کہ سلجھتی نہیں ۔
10۔ لداخ کے قریب چین اور ہندوستان کی سرحدوں پر ہمالیہ میں ‘‘ کونگکالا پاس ’’ پر کچھ یو ایف او سرگرم عمل ہیں Unidentified flying Objects یہ ہر ملک کےلیے ایک پر اسرار علاقہ ہے۔ کہا جاتاہے کہ یہاں یویف اوکا اڈّا پایا جاتاہے ۔ لیکن کسی کو کچھ خبر نہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ ہندوستانی پس منظر میں یہ بھی سازشی تھیوریز کا ایک نہایت ہی گرم موضوع ہے۔
یہ تو صرف ہندوستان سے متعلق معدود ے چند سازشی تھیوریز کا تذکرہ ہے، ورنہ ایسے تذکرے او ربھی اور تقریباً ہر ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے ایک ایسے زمانے میں جب کہ سازشوں کو لے کر دنیا کا تقریباً ہر ملک کسی نہ کسی حیثیت میں اپنی دلچسپی یا تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے ، مسلمان اور خاص کر برّ صغیر کا مسلمان کیسےبچا رہ سکتا ہے۔ چنانچہ آج تقریباً ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ اُس کی پسماندگی ، رسوائی، زبوں حالی میں اغیار کی یا دشمنان اسلام کی سازشیں کار فرما ہیں۔ چنانچہ اس وقت وہ اس خیال کو لے کر اغیار کی مسلمانوں کے خلاف کئی گئی سازشوں کے جال بچھے دکھائی دیتےہیں ۔ کبھی اُسے گجرات کے مودی سے ڈرلگتا ہے تو کبھی وہ آر ایس ایس کی سر گرمیوں میں اپنے تباہی کے منصوبے دیکھتا ہے ۔ کبھی وہ جارج بش سے خوف کھا جاتاہے تو کبھی اوباما کی ‘‘ سازشیں’’ اُس کی راتوں کی نیند چھین لیتی ہیں۔ کبھی وہ اسرائیل کی سازشوں سے گھبراجاتاہے تو کبھی اُسے روس کی سازشوں کاہوّا ڈراتا ہے ۔ یہ وہی مسلمان ہے جس کے پاس کتاب اللہ موجود تھی اور ہے۔ کتاب اللہ سے بے خبر مسلمان آج خود کو سازشوں کا ہدف سمجھتا ہے اور خوف کے سایے میں زندگی گزارتا ہے تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے ۔ ورنہ اگر وہ کتاب اللہ سے کسب ہدایت کرنے والا ہوتا تو وہ سازش کی کسی بھی تھیوری کو پائے حقارت سے ٹھکرا دینے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ سازش کی اس تھیوری پر مزید گہرا رنگ چڑھانے میں مذہبی افراد و جماعتوں سے لےکر سیاسی افراد و جماعتوں کے رول کے علاوہ اُردو اور عربی میڈیا کابھی بہت بڑا کردار رہا ہے۔ آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ لفظ سازش نے مسلمانوں کے قومی کردار ، ان کی شجاعت و دور اندیشی ، دانش مندی و سلیقہ شعاری پرمن حیث القوم کیسے کیسے اور کس گہرائی تک منفی اثرات ڈالے ہیں۔ پھر ہم ان کےتدارک پر بھی غور کرتےہیں۔
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہماری قوم مرض کا علاج خود اپنے پاس رکھنے کےباوجود صدیوں تک نت نئے عارضوں میں مبتلا ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور دنیا میں اُسی طبیب کی دوائی لی، جو خود اِس کے بقول اِن کے خلاف سازشیں کرتاہے اور اِن کی عزت و آبرو سے کھیلتا ہے ۔ قرآن میں سازش کے لیے لفظ ‘‘مکر’’ یا ‘‘کید’’ کااستعمال ہوا ہے۔
سورۂ اعراف (7) کی یہ دو آیتیں ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں : ‘‘ ......اےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ، ان سے کہوہ کہ ( اے سازشیو!!) اپنے شریکوں کو دعوت دے لو، پھر تم ( اپنی محفلوں میں) سب مل کر میرے خلاف سازشیں رچاؤ او رمجھے ہر گز مہلت نہ دو۔ ( پھر دیکھوگے کہ) میرا ولی ، میرا مددگار اللہ رب ذوالجلال ہے، جس نے الکتاب نازل فرمائی ہے اور وہ صالحین کا ولی اور مدد گار وہی ہوا کرتا ہے۔’’ ( 195:196)
اگر اِس آیت پر مسلمانوں کی جانب سے عالمی سطح پر غور کیا جائے تو کسی سازش میں کوئی دم باقی نہیں رہے گا، نہ اس کی کوئی حقیقت ہی باقی رہے گی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی مرد مومن ایسا نہیں کہ جسےپورے و ثوق کے ساتھ صالحین میں شمار کیا جا سکے؟ ہم میں سے اب کوئی ایسا دکھائی نہیں دیتا جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا ہو۔ کیاکوئی ہےجو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہو کہ جس ‘‘ الکتاب’’ کو اللہ نے نازل فرمایا، کیا ہمارا اب اس سے عملاً کوئی تعلق باقی بھی رہ گیا ہے؟ ساری دنیامل کر ہماری خلاف سازشیں رچائے ، اپنے سارے دانشوروں کو لے کر ہمارے خلاف ہماری بربادی کے منصوبے بنایے اور ہمیں کوئی مہلت بھی نہ دے تو کیا وہ ایک ایسی قوم کےخلاف کبھی کامیاب ہوسکے گی، جس کاولی انتہائی قدرتوں اور طاقت کامالک ‘‘ عالم الغیب والشہادہ’’ اللہ ہو؟ خرابی دراصل یہ ہے کہ ہم نے اللہ کو اپنا ولی Protector ، ناصر اور حامی بنایا ہی نہیں۔ نہ اُس کی الکتاب سے ہمارا کوئی واسطہ ہی ہے، نہ ہم صالحین کے گروہ میں شامل ہونے کے قابل رہ گیے ہیں۔ یہی سبب ہےکہ ہر نام نہاد سازش ہمیں برا نگیختہ کر دیتی ہے او رہمارے رہنما ورہبر ، ہمارے ادیب قلمکار ، ہمارے صحافی و اخبار نویس دن رات سازشوں کی تھیوریاں پیش کر کر کے خود بھی پریشان رہتے ہیں اور پریشان حال مسلم عوام کو چین و قرار بھی چھین لیتےہیں ۔ کیونکہ اُسوۂ انبیاء کاایسا نمونہ اُن کے پیش نظر نہیں رہتا ، جن کو ان چند سطروں میں پیش کرنے کی ہم سعادت حاصل کررہے ہیں:
سورہ یونس (10) میں بھی ایسی ہی ایک Situation کے درمیان نوح علیہ السلام نے سازشیوں کو چیلنج دیا تھاکہ تمہاری منصوبہ بندیاں میرے توکل علی اللہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔ ملاحظہ ہو سورہ یونس (10) کی یہ آیت : ‘‘ اور ( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اِنہیں نوع علیہ السلام کی ( وہ) خبر سنادو: جب اپنی قوم ( کے افراد) سے ( مخاطب ہوکر اُنہوں نے) عرض کیا تھا کہ اے میری قوم ( کے لوگو.....!) اگر ( تمہارے درمیان) میرا قیام اور اللہ کی آیات سے میرا نصیحت کرنا( تم پر) گراں ( گزرتا) ہے تو ( سن لوکہ) میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے، چنانچہ اپنے شریکوں کے لے کر ( اب میرےخلاف) تم اپنے ( جملہ) کام مقرر کرلو، اِس طرح کہ ( تمہاری پلاننگ Perfect ہو اور) تمہارے کام میں کوئی شبہ باقی نہ رہ جائے ، پھر تم ( اپنے منصوبہ بند سازشوں کو) بروئےکار لے آؤ او رمجھے مہلت بھی نہ دو۔’’(71)۔
اِس آیت کی ترجمانی کوہم نے بہت سہل بنا دیا ہے، اِس لیے یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ سازشوں میں گھری قوم کا طرز عمل کیا ہوناچاہیے اور ایسےکسی Crisis کو Handle کرنے میں توکل علی اللہ کے طریقۂ کار کا کیا مقام ہے ۔ سازشوں سےدل برداشتہ ہوکر اپنی صفوں کو کمزور کرنے والی اقوام دنیا میں سوکھے پتوں کی چرچراہٹ سےبھی ڈر جاتی ہیں۔ دراصل سازش اقوام کے لیے ایک افیم کادرجہ رکھتی ہے اور اِن کی کار کردگی پر اثر انداز ہوتی ہے، اِن کے حوصلوں کو مسلسل پست کرتی رہتی ہے ۔ اِن میں بزدلی کے جراثیم اور احساسِ شکست پیدا کرتی ہے۔
سورۂ عمران (3) کی یہ آیت تو ہماری فکر کے رخ کو موڑ نے میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے: ‘‘ جب ( اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ) کوئی بھلائی تم سے آملتی ہے تو ( یہ صورتحال) انہیں بری لگتی ہے او راگر تمہیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو اِس ( صورتحال) سےانہیں فرحت محسوس ہوتی ہے۔ اور اگر تم صبر سے کام لو اور تقویٰ کی روش اِختیار کرو تو اُن کی سازش تمہیں کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکے گی، بے شک اللہ اُن کی ( سازشانہ) سرگرمیوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ( اور ان کی سازش کے اثرات کو کسی بھی وقت زائل کر سکتا ہے) ۔ (120)
اور سورہ آل عمران میں ہی ایک مختصر مگر بڑی جامع بات ہمیں ملتی ہے: ‘‘ اور ( یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف زبردست) سازش کی ، او راللہ نے ان کی سازشوں کا توڑ کیا ، اور اللہ ( ہر سازش کا) بہترین توڑ کیا کرتا ہے’’۔
اگر مندرجہ ذیل بالا چار آیتوں پر غو رکیا جائے تو چند باتیں آنکھیں کھول دیتی ہیں ۔ کیا دنیا میں کسی کے بھی خلاف کوئی بھی سازش اللہ کے علم سے باہر ہوسکتی ہے؟ کیا سازشوں کو اللہ کامیاب نہ ہونے دینا چاہے تو کیا وہ کبھی کامیاب ہوسکتی ہیں؟ کیا ایسی سازشوں سے اللہ حق پرستوں کوبچا نہیں سکتا؟
ہم نے کل چار آیتوں کا سہل ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا ۔ اور یہی چار آیتیں سازش کی ہر تھیوری کوبےاثر کر دینےوالی ہیں۔ سازش کے توڑ کا جو چھ نکاتی فارمولا ہمیں اِن چار آیتوں سےملتا ہے اِس کا خلاصہ یہ ہے:1) اللہ کو حامی و ناصر، ولی یا Protector مانا جائے:2) الکتاب سے تعلق اُستوار کیا جائے ،جیسا کہ اس کا حق ہے:3) صالحین میں شامل ہوکر اللہ کی حمایت کے اُمید وار بنیں :4) تو کل علی اللہ کو اپنانظام زندگی بنائیں :5) صبر کو اپنا طریقۂ کار بنائیں اور 6) تقویٰ کو اپنی سر گرمیوں کی روح بنالیں۔
اِن جلیل القدر پیغمبروں پر ایمان رکھنے والوں کو دورِ حاضر کی یہ بے ثبات سازشیں کیوں پریشان کرتی رہتی ہیں!! جب کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی الہٰی فارمولے کو سازشوں کے خلاف ڈھال بنایا تھا او ریہی فارمولا تھا جو نوع علیہ السلام کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سازشوں سے محفوظ رکھنے میں اُن کا ممد و معاون ثابت ہوا تھا۔ کیا اب ہمارا قرآن کے پیش کردہ اِس فارمولےپر اعتقاد نہیں رہا؟ کیا ہم نے اللہ کو اپنا حامی ، ناصر، ولی Protector سمجھنا چھوڑ دیا ہے؟ کیا الکتاب سےہمارا تعلق اُستوار نہیں رہ گیا؟ کیا ہم اپنے اندر صالحیت کے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے؟ کیا اللہ پر توکل کی ہمارےہاں کوئی قدر باقی نہیں رہی؟ کیا صبر ہمارا شیوہ اور تقویٰ ہماری سرگرمیوں کا محور نہیں رہا؟
جس دن ہم اِن سوالات کے معقول جوابات دینے کی پوزیشن میں آجائیں گے ، اُس دن اِس دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی سازش بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی!! کوئی ہے ...... جو اِس فارمولے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت نوح علیہ السلام سے ..... خود اپنے مفاد کے لیے ...... اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرکے ثابت کرے کہ وہ سازشوں سے نہیں، بلکہ اپنے رب سے ڈرنے والا ہے؟؟
30 دسمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/behind-conspiracy-theory-/d/100845