New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 05:42 PM

Urdu Section ( 4 Jul 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Poor Book on Meera Bai میرا بائی پر ایک ہلکی کتاب

عظیم اختر

شکر، شکر، اگر ہندوستان کے چھوٹےبڑے شہروں اور قصبوں کی مسلم آبادی والی بستیوں اور گلی کوچوں میں محدود ہوکر اپنا تشخص برقرار رکھنے والی اردو ہندوستان کی وہ واحد زبان ہے جس میں شعری مجموعے اور تنقید جیسے خشک  ،اکتادینے اور عوامی دلچسپی سے یکسر خالی مضمون کی ہر سال  سب سے زیادہ کتابیں چھپتی ہیں ۔ ہمارے زمانہ طالب علمی یعنی آج سے پینتیس چالیس برس تک صورت حال بالکل مختلف تھی۔ وسائل کی کمی اور طباعت کی دشواریوں اور الجھنوں کی وجہ سے اردو کی کتاب چھاپنا ایک دشوار گزار مرحلہ تھا،وسائل کی کمی اور طباعتی دشواریوں کی وجہ سے تاثر سوچ سمجھ کر ہی کتاب چھاپتا تھا جس کی وجہ سے صاحب دیوان شاعر اور صاحب کتاب نثر نگار کم ہی نظر آتے تھے لیکن آج طباعت کی سہولتو ں ،آسانیوں اور ملک بھر کی ریاستی اردو اکیڈمیوں اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جیسے نیم سرکاری اداروں کی اردو نوازی کے صدقے میں مسووات کی اشاعت کے لئے مالی تعاون اور طبع شدہ کتابوں پر دیے جانے والے کیش ایوارڈ کے چلن نے اردو کتابوں کی اشاعت کا منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ادب کے نام پر شائع کی جانے والی کتابوں کی بھرمار دیکھ کر یہ احساس پختہ ہونے لگا ہے کہ اب اردو میں کتابیں عام قارئین کی دلچسپی اور زبان وادب کو فروغ دینے کےلئے نہیں بلکہ اردو کی ریاستی اکیڈمیوں اور اسی طرح کے دوسرے نیم سرکاری ادارو ں سے اشاعت کے لئے مالی تعاون اور چھوٹے بڑے کیش ایوارڈ زحاصل کرنے کے لیے ہی لکھی اور چھاپی جارہی ہیں ۔ ان نیم سرکاری اداروں کے قیام سے عوامی سطح پر اردو زبان کو تو کوئی فروغ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی عوامی سطح پر اردو فروغ کے امکانات موجود ہیں۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ ان اداروں کےارباب اقتدار کی خویش پروری نے قلم کاروں کی ہمت افزائی اور کتابوں کی اشاعت کے نام پر وانشگاہوں اور کالجوں میں اردو ادبیات کا درس دینے والے ہر استاد کو صاحب کتاب نفاذ بنادیا ، عام شاعروں ، افسانہ نگاروں اور ناول نویسوں کے ہلکے مسودوں کو مالی تعاون دے کر کتاب کی شکل بخش دی جن کو اردو پر بوجھ والی کتابوں کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ۔

شعری ،افسانوی مجموعوں ،ناولوں اور تنقیدی کتابوں کی بھرمار نے اردو والوں کو دوسرے سماجی علوم اور موضوعات پر اچھی ،معیاری اور طبع زاد کتابوں سے محروم کردیا ہے۔ سماجی علوم اور اسی قسم کے دوسرے موضوعات پر اردو میں طبع زاد کتابوں کا تصور ہی محال ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مرزا غالب ،ان کے دوستوں اور شاگردوں پر تو ایک نہیں کئی کتابیں موجود ہیں لیکن حیرت کا مقام ہے کہ راشٹرپتا مہا تما گاندھی جیسی شخصیت پر بھی اردو میں طبع زاد کتابوں کا تصور ہی محال ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مرزا غالب ،ان کے دوستوں اور شاگردوں پر تو ایک نہیں کئی کتابیں موجود ہیں لیکن حیرت کا مقام ہے کہ راشٹر پتا مہاتما گاندھی جیسی شخصیت پر  بھی اردو میں آج تک کوئی اور یجنل کتاب شائع نہیں ہوئی ۔ اسی طرح اردو والے اپنے ہی ملک کی دوسری زبانوں، علاقوں کی نابغہ روزگار شخصیتوں کے بارے میں سنی سنائی باتوں سے زیادہ کچھ نہیں جانتے ۔چند دن قبل ہمیں معلوم ہوا کہ میرا بائی کے فن اور شخصیت پر اردو میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔میرا بائی کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں ہماری تمام تر معلومات میرا بائی کی شخصیت پر انگریزی میں لکھی گئی کتابوں کی  رہین منت تھی۔ میرا بائی جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے بارے میں تھوڑا بہت جانتے تھے ،زیادہ جاننے کیلئے شوق کے ہاتھوں مجبور ہوا ۔میرا بائی پر اردو میں شائع ہونے والی کتاب حاصل کی ۔ہمیں امید  تھی کہ راجستھان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مصنف نے میرا بائی کا حق ادا کیا ہوگا اور اردو والوں کے لیے ایک معتبر ومستند کتاب مرتب کی ہوگی۔ لیکن اسے بسا آروز کہ خاک شد صاحب کتاب بننے کا آسان ترین نسخہ ہمارے سامنے ہے۔میرا گرلز کالج اودے پور (راجستھان) کی گولڈن جوبلی اور میرا بائی کےپانچ سو سالہ جنم دن کے موقع پر منعقد ہ قومی سمینار میں پڑھے گئے مقالات کتابی شکل میں ہمارے سامنے تھے۔یونیورسٹیوں کالجوں کے سمینار وں میں پڑھے جانے والے مقالات پر آٹھ دس صفحات کا پیش لفظ نما مقدمہ لکھ کر اور اردو کے کسی نیم سرکاری ادارے سے مالی تعاون لے کر اپنے نام سےکتاب چھپوالینا اردو دنیا میں صاحب کتاب بننے کا آسان ترین نسخہ ہے۔ اردو کی نامور اور بین الاقوامی شہرت رکھنے والی شخصیتوں میں شاید ہی کوئی ایسی شخصیت ہو جس نے یہ طریقہ اپنا کر اور سرکاری خرچے پر اپنی کتابوں کی فہرست میں اضافہ نہ کیا ہو۔ میرا گرلز کالج اودے پور کی لیکچر ر ڈاکٹر ثروت خان نے بھی اپنی کالج کے سمینار میں پڑھے گئے مقالات کو مرتب کر کے اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جیسے ادارے سے مالی تعاون لے کر اپنے ادبی بزرگوں کا تبع کیا ہے۔ میرا بائی کی شخصیت اور فن پر مرتبہ کردہ ڈاکٹر ثروت خان کی اس کتاب کو دیکھ کر ہمیں دہلی والوں کے چہیتے شاعر استاد رفیق احمد رسا د ہلوی یاد آگئے جنہوں نے دہلی کے ایک کالج میں اردو ادبیات کا درس دینے والے ایک استاد کی ایسی ہی مرتب کردہ کتاب کو نہایت غور وخوض سے دیکھنے کے بعد صاحب کتاب سے بڑی سادگی سے پوچھا تھا ‘‘ میاں اگر یہ آپ کی کتاب ہے تو فہرست مضامین میں دوسرو ں کے نام کیوں ہیں؟’’صاحب کتاب نے استاد رسا کا سوال سن کر جلدی سےجواب دیا ‘‘یعنی میں نے اردو کے متعبر ہ مستند قلم کاروں کے مضامین یکجا کر کے ایک جامع مقدمہ قلم بند کیا ہے، جس سے ان مضامین کی افادیت اور ادبی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

 ‘‘ استاد رسا ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے ‘‘اچھا تو آپ نے مقدمہ لکھ کر دوسروں کے مضامین کی ادبی اہمیت بڑھادی ۔ یہ کہہ کر استاد نے ان کو غور سے دیکھا اور پھر جلدی سے مقدمات کے صفحات پھاڑ ے اور موڑ کر باہر پھینکتے ہوئے بولے‘‘ پروفیسر صاحب اب اس کتاب میں آپ کہاں ہیں؟’’استاد رسا مرحوم کے اس واقعہ کا تذکرہ ہم نے صرف اپنے قارئین کی معلومات کے لیے کیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں محترمہ ثروت خان کا بیس صفحات کا مقدمہ خاصے کی چیز ہے جس میں سمینار کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے فاضل مؤلفہ نے سمینار میں پڑھے گئے مقالات کا نہ صرف متاثر کن انداز میں جائزہ لیا ہے بلکہ ان مقالات کی اس اندازے سے تلخیص بھی کی ہے کہ ہمیں بے ساختہ کوڑے میں سمند ر سمودینے والی کہاوت یادآگیا ۔ثروت خان صاحبہ تلخیص کرنے کے فن میں یقیناً ماہر ہیں اور یہ ان کی مہارت کا ہی کمال ہےکہ مقدمہ پڑھنے کے بعد اصل مقالے پڑھنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ میرا بائی پر ہندی میں یقیناً بہت کام کیا گیا ہے اور کیا جانا بھی چاہئے تھا لیکن میرا بائی کی شخصیت اور فن پر انگریزی زبان میں بھی ایسی کتابوں کی کمی نہیں جن کو پڑھ کر میرا بائی کی شخصیت میں جھانکا جاسکتا ہے ۔ لندن سے چھپی ہوئی رابرٹ بلائی اور جین ہمسیڈ فیلڈ کی میرا بائی نامی کتاب ایک معتبر ومستند کتاب ہے۔ اسی طرح میرا بائی پر اوشا ایس نکسن کی کتاب بھی ایک اہم کتاب ہے جسے 1969میں ساہتیہ اکیڈمی دہلی نے شائع کیا تھا۔ولیم تھیوڈ ور کی مشہور زمانہ کتاب Sources of  Indian Tradition بھی ایک ایسی کتاب ہے جو میرا بائی کے بارے میں اپنے قاری کو اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔اس سمینار میں شرکت کرنے والے اردو کے اساتذہ سے تو خیر توقع ہی نہیں کی جاسکتی لیکن ہمیں حیرت ہے کہ دوسری زبانوں کے مقالہ نگاریوں نے بھی انگریزی زبان کی ان کتابوں سے کوئی استفادہ نہیں کیا۔ میرا بائی کے پرستاروں کو شاید اس کا علم نہیں کہ پولینڈ میں کریکیو (crackow)نامی ایک قصبہ ہے جہاں کے چرچ میں میرا بائی کے گیتوں سے ہی دعا (Prayer) شروع ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگ اس حقیقت سے بھی لاعلم ہیں کہ مشہور گیت کا ر محترمہ ایم ایس سبالکشمی نے 1950میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس کا آغاز میرا بائی کا ایک بھجن گا کر کیا تھا۔ آنجہانی سبا لکشمی نے یہ بھجن پنڈت جواہر لال نہرو کی فرمائش پر گاکر کیاتھا۔ محترمہ ثروت خان کی مرتب کردہ اس کتاب سے میرا بائی کی شخصیت اور فن پر اردو میں بحث وتمحیص کا کوئی در نہیں کھلے گا کیونکہ اس نیشنل سمینار میں اردو زبان کی نمائندگی کرنے والوں نے مقالات صرف پڑھنے اور اپنی شرکت درج کرانے کے لئے ہی لکھے تھے،ان مقالات میں نہ گہرائی ہے اور نہ گیرائی ۔ اس قسم کے مقالات لکھنا اور سمینار وں میں پڑھنا ہمارے اکابرین اردو روز مرہ کا دستور ہے لیکن ہم اردو کے طالب کے ناطے ثروت خان صاحبہ سے یہ توقع کریں گے کہ وہ میرابائی کی شخصیت اور فن پر ایک طبع زاد کتاب لکھ کر یا لکھوا کر اردووالوں کومیرا بائی سے صحیح معنوں میں متعارف کرائیں گی۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/a-poor-book-meera-bai/d/1524

 

Loading..

Loading..