ازہر عباس خواجہ
اپریل، 2013
قر آن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا عطا ء کردہ نظام انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیش کرسکتا ہے۔ اس دور میں انسانیت جس کرب و اذیت میں مبتلا ء و گرفتار ہے، ان میں سر فہرست جو مسائل آتے ہیں اور جنہوں نے انسانیت کو تباہی کے کنارے پر کھڑا کردیا ہے ان میں ایک مسئلہ تو ( Population Explosion ) آبادی کے اضافہ کا ہے اور دوسرا مسئلہ دہشت گردی کا ہے ۔ قرآن کریم ان دونوں مسائل کا حل پیش کرتاہے۔ اس مختصر سے مضمون میں آبادی کے اضافہ کے موضوع سے تعرض نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ محض اشارۃً اتنا عرض کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم نے زیادہ عیال دار ہونے کو پسند نہیں کیا ہے۔ سورۂ النسا ء میں فرمایا ذَٰلِكَ أَدْنی أَلَّا تَعُولُوا (3۔4) اس میں امید ہے کہ تم زمانہ عیالدارنہ بنو، کیونکہ امام راغب نے اَعَال کے معنی کثیر العیال ہونا تحریر کیا ہے (مفردات امام راغب صفحہ 742۔ جلد دوم) اصل پریشان کُن مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس کا حل اسلامی نظام کا قیام ہے اس کے متعلق قرآن کا ارشاد ہے وَمَن دَخَلَہ كَانَ آمِنًا (97۔3)
جو شخص بھی اس نظام میں داخل ہوگیا وہ امن میں آگیا ۔ دہشت گردی کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں رواداری کا بالکل فقدان ہوجاتا ہے ۔ ہر شخص اپنے نظریات سےاس درجہ مغلوب ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی معقول بات بھی سننا گوارا نہیں کرتا لیکن قرآن کریم نے اس عدم رواداری کے رویہ کو فرعونی رویہ قرار دیا ہے۔ جب حضرت موسیٰ کی طرف سے فرعون کو بہت زیادہ خطرہ محسوس ہونے لگا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ اس وقت حضرت موسیٰ کی دعوت بالکل (Climax ) عروج پر تھی، اور ہر وقت یہ خطرہ موجود تھا کہ فرعون کسی وقت بھی اُن کو قتل کراسکتا ہے ۔ اس نازک اور پرُ خطر موقع پر ‘‘مومن آل فرعون’’ نے ، فرعون کے بھرے دربار میں ایک ایسی پرُ زور اور موثر تقریر حضرت موسیٰ کے حق میں کی، کہ فرعون کے دربار میں سناٹا چھا گیا ، اور ہر شخص ، اس کی تقریر سے متاثر ہوا۔ قرآن کریم نے مردِ مومن کی اس تقریر کو اپنے دُفتین میں محفوظ کر کے اس تقریر کو ابدیت سے ہم کنار کردیا لیکن فرعون پر اس مرد مومن کی تقریر کاکوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے ، اس مردِ مومن کی تقریر کے جواب میں کہا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى وَمَا أَھدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ (29۔40) حواشی عثمانی میں اس آیت کے بارے میں تحریر ہے ‘‘ یعنی تمہاری تقریر سے میرے خیالات تبدیل نہیں ہوئے ۔جو کچھ میرے نزدیک مصلحت ہے وہ ہی تم کو سمجھا رہا ہوں۔ میرے خیال میں بہتری کا راستہ یہی ہے کہ اس شخص کا قصہ پہلے ہی قوم پر ختم کردیا جائے ۔’’ رواداری کا نہ ہونا اور دوسروں کی بات نہ سُننا اور اس پرعمل نہ کرنا، فرعونی رویہ ہے، ایک مسلمان کی یہ شان ہر گز نہیں ہوسکتی ۔ اس تمہید کے بعد اصل موضوع امر بالمعروف کی طرف رجوع کیا جاتاہے ۔ جس کے ذریعے دنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد اقامت دین ہوتاتھا (13۔42، 36۔16) انبیاء کرام کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور امت مسلمہ قرآن کریم کی وارث قرار دے دی گئی ( 32۔35) اس لئے اب اُمت مسلمہ پر اقامت دین لازمی و ابدی طور پر فرض ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں چو نکہ ایک طبقہ کی طرف سے تشدد جاری ہے، اس لئے ہمارا دانشور طبقہ اقامتِ دین کے حق میں نہیں ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اقامت دین کی وجہ سےتنگ نظری، جہالت ، تشدد میں اضافہ ہوگا لیکن حقیقت یہ ہےکہ اقامت دین کا ان چیزو ں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موجودہ دور میں جو کچھ ہورہا ہے یہ سب کچھ مذہب کے نام پر، او رمذہب کے زیر اثر ہورہا ہے۔ اس کا دین سے دور دور کا کوئی علاقہ نہیں ہے ۔ دین تو ایک ایسا نظام ہے کہ مخلوق کی جن ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے ان کا پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہے ۔حضرت عمر نے فرمیا تھا یا ایھا الناس ان اللہ قد کلفنی ان اضرب عنہ الدعا۔ اللہ نے مجھے مکلّف کیا ہے کہ تمہاری دعا کواللہ تک جانے سے روک لوں۔ اسلامی نظام کی معرفت مخلوق کی تمام ضرورتیں اور دعائیں پوری ہوتی ہیں۔
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اگر اسلام صرف مذہب کی حد تک محدود ہوتا، اور پر ستش کرنے تک اس کے احکامات منحصر ہوتے تو رسو ل اللہ نے مدینہ میں اپنی اسلامی مملکت قائم کرنے کی کوشش کیوں کی۔ مدینہ کی مملکت کوئی آسانی سےقائم نہیں ہوئی تھی اس کے قیام کےلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کرنی پڑی تھی اس کے قیام کےلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے دن سر توڑ کوشش کرنی ہوتی تھی ( 7۔73) اس کے قیام کےطریقوں پر رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم غور و غوض فرماتےتھے ، ساری رات اس کے لئے Scheming فرماتے تھے (79۔17) اور دن میں اس کو Implement فرماتے تھے اس ریاست کارقبہ دس لاکھ مربع میل تھا ۔ اگر اسلامی مملکت کا قیام دین کامطمع نگاہ نہیں تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درجہ محنت شاقہ کیوں فرمائی ۔ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ریاست کو قائم کرنا ، اللہ تعالیٰ کے عطاء کردہ Mandate سے باہر تھا ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا ۔
اگر اسلامی مملکت کا قائم کرنا لازمی اور ضروری بات نہیں ہے تو ان آیات کامفہوم کیا ہوسکتا ہے جن میں ایمان و اعمال صالحہ کا نتیجہ حکومت و اقتدار حاصل ہونا بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وَعَدَ اللَّہ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنّھمْ فِي الْأَرْضِ (55۔24) ، جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں اور اعمال صالحہ بجا لائیں ، اللہ حاکم کردیگا ان کو ملک میں (ترجمہ شیخ الہند نیز ارشاد ہوا ۔ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّھمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةوَآتَوُا الزَّكَاة وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنھوْا عَنِ الْمُنكَرِ (41۔22) جب مومنین کی حکومت ہوگی تو وہ صلوٰۃ قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے او رمعروف کا حکم دیں گے او رمنکر سے روکیں گے۔ ان چاروں اُمور کی سر انجام دہی مومنین صرف اسی وقت کر سکتے ہیں جب وہ اقتدار میں ہوں اور باقاعدہ ایک نظام جاری کر رہے ہوں۔
اگر قرآن کریم کا مقصود اسلامی ریاست قائم کرنا نہ ہوتا، اور صرف پر ستش کی چند رسومات کو ادا کرنا مقصود ہوتا تو قرآن کریم اسلامی ریاست کے سیاسی، معاشی، معاشرتی ، تعزیری ، قوانین اور اس ریاست کا نقشہ Road Map تجویز نہ کرنا ۔ زمین کی ملکیت کو حرام قرار دینا ، سودی نظام کو حرام قرار دینا ( 275۔2) اپنی ضرورت سے زیادہ سب کچھ دوسروں کو دے دینا (219۔2) دوسروں کی پرورش کرنا (110۔2) حکومت کا ٹیکس ادا کرنا (4۔23) یہ ایک معاشی نظام کے قوانین نہیں ہیں تو اور کیا ہیں ۔ اسی طرح سیاسی نظام کی واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ ہر مسلمان پر ووٹ Vote دینا واجب ہے ( 58۔4) ووٹ صرف اس کو دیا جائے جو اس کا حقدار ہو(55۔4) غیر مستحق شخص کو ووٹ دینا حرام ہے ۔
اگر آپ کے ووٹ سے کوئی غیر مستحق اور نا اہل شخص حکومت کی ذمہ داریوں کا حامل ہوجاتا ہے اور اپنی سُپرد کردہ ذمہ داریوں کو بخوبی انجام نہیں دیتا ، تو ووٹ دینے والا برابر کا ذمہ دار ہوگا (85۔4) ووٹ کی ادائیگی کے علاوہ مقامی حکام کی اطاعت کو فرض قرار دینا ، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کریم پر ستش کی رسومات تک محدود نہیں رہتا ، بلکہ ایک بہترین نظام پیش کررہا ہے جس کی اطاعت ہر شخص پر فرض ہے۔ نیز یہ کہ جملہ باشند گان مملکت کو اس بات کا حکم تھا کہ اپنے تمام تنازعات کے فیصلے رسول اللہ سے کرائیں ( 65۔4) رسول اللہ سے فیصلے کرانے کے بعد ایک شخص مسلمان ہوجاتا ہے لیکن اگر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلوں پر دل میں کوئی گرانی بھی محسوس نہیں کرتاتو پھر وہ مومن ہے أَنفُسِھمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (65۔4) پھر وہ نہ پائیں کوئی تنگی تیرے فیصلے پر، اس آیہ کریمہ نے ایمان و اسلام اورمسلم اور مومن کے فرق کو چند الفاظ میں واضح کردیا ہے۔ اس نظام کے قوانین ، اور اس نظام کےحکمران ہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے فیصلوں پر عوام کو پورا بھروسہ ہوتا ہے اور ان کے فیصلے کو دل سے تسلیم کر لیتے ہیں ۔ سیکولر حکومتوں کے قوانین ظلم پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کے حاکم مجرم ہوتے ہیں ( 123۔6) اس لئے سیکولر حکومت میں یہ عدل گستری ہوہی نہیں سکتی ۔
ایک نظام کے تابع زندگی بسر کرنے کا عملی مفہوم یہ ہے کہ اس نظام میں یہ بات واضح ہو کہ کس حکم پر عمل کرنا ہے اور کس کام سے رُکنا ہے ۔ اسلام کے ایک نظام ہونے کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن کریم نے اس نظام کے احکامات کا تعین خود فرمادیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد عالی ہے يَأْمُرُھم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنھھمْ عَنِ الْمُنكَرِ (157۔7) حضور صلی اللہ علیہ وسلم معروف کا حکم دیتے تھے اور منکر سے روکتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی فریضہ ساری امت کے ذمہ کہا گیا ہے کہ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّھمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاة وَآتَوُا الزَّكَاة وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنھوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلّہ عَاقِبۃ الْأُمُورِ (41۔22) یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں ملک میں حکومت ملے گی تو یہ اقامت الصلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کریں گے۔ معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے ان کے تمام کام قانون خداوندی کے مطابق ہوں گے۔ امر بالمروف او رنہی عن المنکر کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے اہم سنت پر عمل کرنا ہے ۔ حضرات خود کو سنت رسول پر عمل کرنے کا داعی خیال کرتے ہیں۔ ان کے لئے اس سنت کا تباع سب سے اولی ہے ۔
اسلامی مملکت کی یہ خصوصیت ہے کہ و امر ھم شوری اینٰھم ، ان کی ریاست کے کام باہمی مشاورت سے ہوتے ہیں ،اس لئے یہ حکومت پوری کی پوری امت کی ہوتی ہے یہ حکومت کسی خاص گروہ یا کسی خاص فرد کی نہیں ہوتی ۔ اس فریضہ کو ساری امت سر انجام دیتی ہے چنانچہ ارشا دعالی ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنھَوْنَ عَنِ الْمُنكَر (110۔3) تم ایک بہترین امت ہو جسے تمام نوع انسانی کی اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کاحکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو۔ اس آیہ کریمہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ امر با المعروف او رنہی عن المنکر پوری کی پوری اُمّتہِ مسلمہ کا فریضہ ہے سورۂ توبہ میں ارشاد عالی ہے وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضھُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنھَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (71۔9) مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں ۔ یہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سےروکتے ہیں ۔ اس آیت سے بھی واضح ہے کہ یہ پوری امت کا فریضہ ہے ۔ یہ فریضہ کسی خاص گروہ تک محدود نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ اس میں مرد او ر عورتوں کی بھی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔
صدر اول میں یہی صورت حال تھی چونکہ یہ حکومت ساری امت کی نمائندہ حکومت تھی ، اس لئے اس مملکت کا یہ فریضہ ادا کرنا ایسا ہی تھا جیسے ساری امت نے یہ فریضہ ادا کردیا ہو لیکن جب ہم میں ملوکیت در آئی ، تو اس کی وجہ سے دین کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔ ملوکیت نے اقتدار سنبھا ل لیا تو پیشوا ئیت کے ذمہ صرف وعظ و نصیحت وہ گئی اور اسی کو انہوں نے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا درجہ دے دیا اور امر بالمعروف اور نہی عن عن المنکر کے لئے اقتدار و تمکن بھی ضروری نہیں رہا اور اس غلط نظریہ کی سند میں یہ آیت پیش کی جانے لگی وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّۃً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنھَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ ھمُا الْمُفْلِحُونَ (104۔3) اس آیت کا ترجمہ حضرت شیخ الہند نے یہ فرمایا ‘‘ اور چاہئے کہ تم میں ایک ایسی جماعت رہے جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اور اچھے کاموں کاحکم کرتی رہے اور برُائی سے منع کرتی رہے اور وہی لوگ اپنی مراد کو پہنچے’’۔ اس آیت کی وضاحت کے سلسلہ میں اس کے حاشیہ پر حضرت نے من جملہ اور باتوں کے یہ تحریر فرمایا ‘‘شاید اسی لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا جو ہر طرح دعوت الیٰ الخیر ، امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کی اہل ہو’’۔
تفسیر ماجد میں بھی اس آیت کایہ واعظا نہ ترجمہ لکھا ہے اس میں تحریر ہے ‘‘ اور ضرور ہے کہ تم میں ایک ایسی جماعت رہے جو نیکی کی طرف بُلایا کرے اور بھلائی کا حکم دیا کرے ، او ربدی سے روکا کرے او رپورے کامیاب یہی تو ہیں ۔’’ اس کے حاشیہ پر جناب مولانا نے تحریر فرمایا ‘‘ یہ بھی کمال رحمت اور ضعفِ بشری کی انتہائی رعایت ہے کہ ساری امت کے بجائے اس فریضہ پر ایک مخصوص جماعت ہی کو مامور کیا گیا ہے۔ ورنہ اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے جن اوصاف اور شرائط کی ضرورت ہے کیا عجب کہ بہتوں کو وہ شاق گزریں’’۔
(3) تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کا ترجمہ تحریر ہے ‘‘ اور چاہئے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بُلاتی رہے نیک کام کی طرف او رحکم کرتی رہے اچھے کاموں کا ، اور منع کرے برُائی سے ، اور وہی پہنچے اپنی مراد کو۔’’
حضرت مفتی صاحب نے اس آیت کا تو یہی غلط ترجمہ کیا ہے لیکن اس کے ذیل میں جو عمدہ اور قابل تحسین عبارت تحریر فرمائی ہے ۔ اس کا یہاں نقل کرنے کا دل چاہتا ہے انہوں نے سورہ حج کی آیہ کریمہ وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشہَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللّہ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ (22۔41) نقل کرکے، اس کی وضاحت میں تحریر فرمایا ہے ‘‘یعنی سچے مسلمان وہ ہیں کہ جب ان کو زمین کی تمکین و قدرت یعنی حکومت دیتے ہیں تو ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی زمین میں نظام اطاعت قائم کرتے ہیں جس کا ایک مظہر نماز ہے اور اپنا مالیاتی نظام زکوٰۃ کے اصولوں پر قائم کرتے ہیں۔ نیز امر المعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا مقصد حیات بناتے ہیں ’’۔( جلد دوم ۔ صفحہ 140) حضرت مفتی صاحب نے یہ چند فقرے بڑے معنی خیز تحریر فرمائے ہیں ۔ جو ہماری پیشوائیت کی طرف سے پہلی مرتبہ آئے ہیں۔
(4) تدبر قرآن میں تحریر ہے ‘‘ او رچاہئے کہ تم میں ایک ایسا گروہ ہو جو نیکی کی دعوت دے ، معروف کا حکم کرے او رمنکر سے روکے، او ریہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔’’ واضح رہے کہ تقریباً تمام تفاسیر نے اس آیت کا یہی ترجمہ کیا ہے اور یہی مفہوم بیان کیا ہے لیکن عربی قواعد کے مطابق یہ ترجمہ او ریہ مفہوم دونوں غلط ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ یہ محترم حضرات عربی نہیں جانتے تھے یہ سب حضرات عربی زبان کے ماہر تھے او ر عربی ادب پر ان کی گہری نگاہ تھی ۔ ہم اُن کے نعلین برابر ہیں او رہمارے دل میں اُن کا حد درجہ احترام ہے لیکن یہ ترجمہ اس لئے غلط کیا گیا ہے کہ یہ سب حضرات مذہب کے داعی تھے نہ تو دین ان کے پیش نظر تھا او رنہ ہی اقامت دین کی طرف ان کی کوئی توجہ تھی ۔ یہ ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے جس سے اسلامی نظام کے قیام کی فرضیت و جوب کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ہے، حالانکہ اس آیت پر اس وقت تک عمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اقامت دین نہ ہو ۔ اب آپ اس کا درست دینی مفہوم اور ترجمہ ملا حظہ فرمائیں۔
اوپر مضمون میں یہ وضاحت پیش خدمت عالی کردی گئی ہے کہ امر بالمعروف او رنہی عن المنکر پوری امت مسلمہ کا فریضہ ہے۔ جس فریضہ کو اُمّت مسلمہ اسلامی ریاست کے ذریعے سر انجام دیتی ہے۔ یہ فریضہ امت مسلمہ کے ایک گروہ تک محدود نہیں ہے۔ زیر نظر آیت جس سے ہماری پیشوائیت کے وجود کا جواز ثابت کیا جاتا ہے ۔ اس میں صرف ایک بات سمجھنے کی ہے کہ عربی زبان میں حرف من دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس حرف من کے ایک معنی بعض کے ہوتے ہیں اور اس کو ‘‘ من تبعیضیہ ’’ کہا جاتا ہے جسے مِنْھْم مَّنْ کَلَّم اللہُ ( 253۔2)(ترجمہ) ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو جن سے خدا نے کلام کیا یہ من تبعیضیہ کی تھیں۔ حرف من کی دوسری قسم حرف بیانہ کی ہے جس کے معنی ‘‘پورے کےپورے ’’ کے ہوتے ہیں وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ ھوَ الْحَقُّ (31۔35) اللہ وہ ہے جس نے تیری طرف کتاب نازل کی جو حق ہے۔ یہ من بیانیہ ہے ۔ اگر یہاں من کے معنی تبعیض کے لئے جائیں تو اس کامطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب کابعض حصہ نازل کیا ۔ پوری کتاب نازل نہیں کی۔ اس زیر غور آیت میں من بیا نیہ ہے، یعنی یہ کہ تم پوری کی پوری امت مسلمہ وہ جماعت ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو۔ ہماری مذہبی پیشوائیت نے اپنے وجود کے جواز کے لئے منکم کا ترجمہ عمداً من تبعیضیہ کر کے، قرآن کی ساری تعلیم کو مسخ کردیا ہے۔ امر بالمعروف او رنہی عن المنکر اسلامی مملکت کا کام ہے ، اور صرف مملکت ہی اس کو سر انجام دے سکتی ہے۔
بلاکت انگیز رویہ کی سخت مذمت کرتا ہے ۔ (1)وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِھا (56۔7)
ملک میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔(2) لَھَمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبّھمْ وَهھوَ وَلِيّھم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (127۔6)
ان لوگوں کے لئے سیدھی راہ پر چلے ، ان کے پروردگار کے نزدیک سلامتی و عافیت کاگھر ہے اور وہ ان کے اعمال حسنہ کی وجہ سے ان کا مدد گار رہے (3) قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّہ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ، يھدِي بِہِ اللَّہ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانہ سُبُلَ السَّلَام (16۔15۔5) اللہ کی طرف سے تمہارے پاس روشنی او رایک ایسی کتاب آچکی ہے جو روشن ہے۔ اللہ اس کتاب کے ذریعے ان لوگوں پر جو اس کے قوانین سے ہم آہنگ زندگی بسر کریں، سلامتی کی راہیں کھول دیتا ہے ۔
(4) وَاللّہ يَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَيَھدِي مَن يَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (25۔10)اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جو چاہتا ہے اسے سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے ۔
(5) سورہ ٔ نور میں ایمان و اعمال صالح کا نتیجہ اس زمین میں اقتدار حاصل ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ اس اقتدار یعنی اسلامی نظام کے قیام کے بعد ارشاد ہے لَيُبَدِّلَنّھم مِّن بَعْدِ خَوْفِھمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا (55۔24) (مفہوم ) اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا خوف امن سے بدل جائے گا تاکہ وہ نہایت اطمینان سے ہمارے قوانین کی اطاعت کریں۔
اسلامی نظام کے قیام کامقصد ساری دنیا کو خوف سےمحفوظ مصئو ن کر کے ، دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دینا ہے۔
لَا يَسْمَعُونَ فِيھَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا ، إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا (26۔25۔56) اس معاشرہ میں نہ تو کسی قسم کی لغو یات ہوں گی اورنہ ہی ایسا کام جس سے انسانی صلاحیتیں مضمحل ہوجائیں ۔ اس کے بر عکس وہ فضا ایسی ہوگی جس میں ہر طرف سے سلامتی کی آواز یں آئیں گی۔
وَآخر دَعوا ناَ اَنِ الحمدُ للہ ِ رَبِّ العَا لمینِ
اپریل ، 2013 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL for English article:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-religious-meaning-‘enjoining-good/d/12469