ازہر عباس خواجہ ۔ فاضل درس نظامی
فروری، 2013
ارشاد حضرتِ باری تعالیٰ عزَّاسمہُ ہے۔ إِن يَنصُرْكُمُ اللّہُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِہ (3:160) اگر اللہ نے تمہاری مدد کی تو پھر تم پرکوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تم کو چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ بیان فرمایا گیا ہے، ہمارا اس پر کامل ایمان ہے۔ مختلف طریقوں سے اور مختلف انداز سے قرآن کریم نےاس نصرت الہٰی کاذکر فرمایا ہے۔ کہیں ارشاد عالی ہوتا ہے وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (30:47)او رمومنین کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ کہیں ارشاد عالی ہے وَاللّہُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِہٖ مَن يَشَاءُ (3:13) او راللہ اپنی مدد سےجس کو چاہتا ہے تائید کرتا ہے۔ ان ارشادات ربانی پر ایمان لانے کے بعد تو صرف یہ غور کرنا باقی رہ جاتاہے کہ نصرتِ الہٰی کے حصول کاذریعہ کیا ہے؟ آج ہم مسلمان جس ذلت و خواری میں مبتلا ہیں ہمارے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سےمدد حاصل کر کے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس عذاب سےنجات حاصل کرلیں۔
خوش قسمتی سےنصرتِ الہٰی کے حصول کا طریقہ بھی خود اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے جب کہ ارشاد عالی مقام ہوتا ہے يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللّہَ يَنصُرْكُمْ (47:7) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ نصرتِ الہٰی کے حصول کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ارشاد فرمادیا کہ جو کوئی اللہ کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔ اس آیت میں یہ بات واضح ہے کہ قدم اوّل INITIATIVE خود انسانوں کی طرف سے ہوگا۔ اس کی قدم اوّل کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد حاصل ہونا لازمی اور یقینی چیز ہے ۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی قوم یہ قدم اوّل اٹھائے اور اس کی تائید الہٰی حاصل نہ ہو۔ انسان اس معاملہ میں آزاد ہے کہ وہ قدم اوّل اٹھائے یا نہ اٹھائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ بوجہ اپنی اصول پرستی کے اس بات پر ‘‘مجبور’’ ہے کہ وہ انسانوں کی مدد فرمائے اس آیت کے ذیل میں نصرت الہٰی کے حصول کے طریقہ کےمتعلق ‘‘ تدبرقرآن’’ میں تحریر ہے کہ ‘‘ ان لوگوں کے لئے اس کی مدد نہیں نازل ہوتی جو گھروں میں بیٹھے بیٹھے اس کا انتظار کرتے ہیں بلکہ ان لوگوں کے لئے نازل ہوتی ہے جو اپنے آپ کو میدان میں ڈالتے ہیں پھر اس کی نصرت کا انتظار کرتے ہیں ( جلد 7، ص 401)
اللہ تعالیٰ کی نصرت فرداً فرداً کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی اس کا واحد ذریعہ اور واحد طریقہ اقامتِ دین کی جد وجہد ہے۔ جو گروہ یا جماعت اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کرےگی۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے ساتھ ہوگی اور پھر کوئی طاقت اس پر غالب نہیں آسکے گی۔ تفہیم القرآن میں ارشاد ہے ‘‘ دین اسلام کی اقامت میں حصہ لینے کو قرآن مجید اکثر مقامات پر ‘‘ اللہ کی مدد کرنے’’ سے تعبیر کرتاہے۔ چند فقروں کے بعد پھر ارشاد ہوتا ہے ‘‘ اور جو بندے اس کام میں اللہ کا ساتھ دیں ان کو اللہ اپنا رفیق اور مددگار قرار دیتا ہے او ریہ وہ بلند سے بلند مقام ہے جس پر کسی بندے کی پہنچ ہوسکتی ہے۔ نماز ، روزہ اور تمام اقسام کی عبادات میں تو انسان محض ایک بندہ و غلام ہوتا ہے۔ مگر تبلیغ دین اور اقامت ِ دین کی جد وجہد میں بندے کو اللہ کی رفاقت مدد کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ جو اس دنیا میں روحانی ارتقاء کا سب سے اونچا مرتبہ ہے۔ (جلد 1، ص 256)
اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا طریقہ آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ جب بھی آپ دین قائم کریں گے اللہ کی مدد حاصل ہوجائے گی اور جب اللہ کی مدد حاصل ہوگی تو آپ پر کوئی غلبہ حاصل نہیں کرسکےگا ۔ واضح رہے کہ مسلمان کی تو زندگی کا مقصد ہی دین کا قیام ہے۔ مسلمان تو زندہ ہی اس لیے رہتا ہے کہ وہ دین کو قائم کرے ارشاد عالی ہوتا ہے ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يھَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِھِم مِّن شَيْءٍ حَتَّیٰ يھَاجِرُوا وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْر (8:72)
اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی ( ہاں) مگر دین میں تم سے مدد کے طلب گار ہوئے تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے ۔ پھر فرمایا إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ ھَاجَرُوا وَجَاھدُوا فِي سَبِيلِ اللّہ الخً ( 2:218)جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں سخت کوشاں ہوئے اور جن لوگوں نے ایسے نازک وقت پر مہاجر ین کو پناہ دی تو یہی لوگ سچے ایمان دار ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ہجرت فرض تھی کیونکہ غیر اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنا جائز نہیں ہے۔ جو لوگ غیر اسلامی نظام میں زندگی بسر کرتے ہیں ان سےمسلمانوں کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا ۔ نہ ان کی کسی قسم کی ذاتی و انفرادی مدد ضروری ہوتی ہے ۔ آیہ کریمہ نے مدد کے لیے ‘‘ استفسروا کم فی الدین ’’ ، مدد کیاطلب کو اقامتِ دین کے ساتھ مٰنَوّ ط کردیا ہے۔
اگر کوئی شخص طاغوتی نظام میں زندگی گذار رہا ہے اور اس نظام میں زندگی بسر کرنے پر رضا مند ہے اور اسلامی مملکت کی طرح ہجرت نہیں کررہا ہے تو اسلامی مملکت کے باشندوں کا اس مسلمان سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ان پر فرض ہے کہ اس کی ذاتی معاملات میں مدد کریں۔ البتہ اگر وہ مسلمان اسلامی مملکت کے مسلمانوں سے یہ کہے کہ میں دین کے قیام کے لئے کوشش کررہا ہوں اور آپ میری مالی یا جانی مدد کریں تو اسلامی مملکت کے ہر مسلمان فرد پر فرض ہوگا کہ وہ اس مدد خواہ کی مدد کرے۔ پھر وہ مسلمان اس کی مدد سے انکار نہیں کرسکتے ۔
اسلامی زندگی صرف اسلامی نظام کے تابع ہی ممکن ہے ہجرت کے فرض ہونے کا عملی طور پر مفہوم ہی یہ ہے کہ غیر اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنے سے شدید طور پر منع کیا گیا ہے ارشاد عالی ہوتا ہے إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّھمُ الْمَلَائِكَۃُ ظَالِمِي أَنفُسھِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّہِ وَاسِعَۃ فَتُھَاجِرُوا فِيھَا فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاھَمْ جَھنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا( 4:97) بے شک جن لوگوں کیروح قبض فرشتوں نے اس وقت کی کہ ( وہ غیر اسلامی نظام میں پڑے تھے ) اور وہ اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے کہتے ہیں کہ تم کس غفلت میں تھے۔ یہ تم کس حال میں مبتلا ء تھے ۔ انہوں نے جواب دیا ہم زمین میں کمزور اور مجبور تھے۔ تو فرشتے کہتے ہیں کہ کیا اللہ کی زمین و سیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ ہیں جن کاٹھکانہ جہنم ہے اور بہت ہی برُا ٹھکانہ ہے۔
‘‘ تد بر قرآن’’ میں مرقوم ہے ‘‘ جو لوگ اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود بلا کسی شدید مجبوری اور عُذرِ شرعی کے اب تک دارالکفر میں پڑے ہوئے ہیں ، اس حالت میں اُن کی موت آئی ۔ تو فرشتے ان سے سوال کریں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے یہ جواب دیں گے کہ ہم تو بے بس او رمجبور تھے ۔ فرشتے جواب دیں گے کہ کیا اللہ کی زمین میں تمہارے لئے کہیں سمائی نہیں تھی کہ تم ہجرت کر جاتے۔ پھر فرمایا ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اس آیہ کریمہ سے دو باتیں وضح ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو لوگ غیر اسلامی نظام میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ مرنے کے بعد اُن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اسی آیہ مبارکہ کے ذیل میں تفہیم القرآن میں مولانا مودودی نے تحریر فرمایا ہے ‘‘ اور یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کے لئے نظام کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دوہی صورتوں میں جائز ہوسکتا ہے ایک یہ کہ وہ اسلام کو اس سرزمین میں غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جد وجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء کرام اور اُن کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت و بیزاری کے ساتھ وہاں مجبور انہ قیام رکھتا ہو۔ ان دوصورتوں کے سواہر صورت میں دارالکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لئے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دارالسلام پاتے ہی نہیں ہیں جہاں ہم ہجرت کرسکیں۔ اگر کوئی دارالسلام موجود نہیں ہے تو کیا اللہ کی زمین میں کوئی پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گذر کرسکتا ہو اور ا حکام کفر کی اطاعت سے بچا رہے۔
قرآن کریم نے تمام مسلمانوں کو ، جن میں ہم بھی شامل ہیں، یہ حکم دیا ہے يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللّہِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلی اللّہِ (61:14) اے ایمان ، اللہ کے مددگار بنو جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ کون ہے اللہ کی طرف بلانے میں میرا مددگار ۔ حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں کو مدد کے لیے اس لئے نہیں پکارا تھاکہ وہ خود بھی پرستش کرتے تھے اور حواریوں کو بھی پرستش کے لیے بلارہے تھے ۔ پرستش کی تو کوئی مخالفت نہیں کرتا اور پرستش ہر مذہب میں ہے بلکہ حضرت عیسیٰ نے اس لیے بلایا تھاکہ اقامتِ دین میں ان سخت مخالفت ہورہی تھی ۔ قرآن نے خود ان کے الفاظ نقل کئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا تھا فَاتَّقُوا اللّہَ وَأَطِيعُونِ، إِنَّ اللّہِ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهہُ ھذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيم ( 3:50، 3:51) تم قوانین الہٰی کی نگرانی کرو اور میری اطاعت کرو، یقیناً میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار وہی اللہ ہے، سوا سی کی محکومیت اختیار کرو یہی سیدھی راہ ہے۔ اللہ کی محکومیت اختیار کرو جس کی عملاً صورت یہ ہوتی ہے کہ اس حکومت کے داعی اوّل ، مامور من اللہ کی اطاعت کرو، اور اقامت دین کی حد درجہ کوشش کرو۔ حضرت عیسیٰ نےحواریوں کو اس مقصدِ عظیم میں مدد کرنے کےلئے بلایا تھا او رحواریوں نے ان کی مدد فرمائی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کی کوششوں سے بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لے آئی لیکن ایک جماعت پھر بھی انکار پر جمی رہی اور آخر کار ہم نے ان کےدشمنوں کے برخلاف پیروان دعوت ایمانی کی نصرت کی اور اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ وہ غالب آگئے۔ یہ بات ظاہر ہےکہ جب وہ اقامتِ دین کے لیے اُٹھے اور اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال ہوئی تو انہیں تو ہر صورت میں غالب آنا ہی تھا ۔ قرآن کریم ہم مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ہم بھی ان حواریوں کی طرح، اللہ کا دین قائم کرنے کےلئے اُٹھیں تو یقیناً اللہ کی مدد ہمارے بھی شامل حال ہوگی۔
اسلامی مملکت کے قیام کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرنا ہوتا ہے کیونکہ غیر اسلامی حکومت کے اندر زندگی بسر کرنے میں احکامات الہٰی کی اطاعت نہیں ہوسکتی ۔ قوانین الہٰی ، صفات الہٰی ( الاسما الحُسنی) ، مستقل اقدار اور HUMAN RIGHTS ایک ہی حقیقت کےمختلف شیئون میں جس طرح غیر اسلامی مملکت میں اسلامی احکامات کی اطاعت نہیں ہوسکتی۔ اس طرح اس معاشرہ میں صفات الہٰی کے تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا جاسکتا ۔ صفات الہٰی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بارے میں ایک ایسا جامع اقتباس نقل کیا جاتا ہے کہ جس کے مطالعہ سے نگاہوں میں بصیرت اور آنکھوں میں درخشندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ اقتباس حضرت مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی کتاب ‘‘تزکیہ نفس’’ سے ماخوذ ہے۔ یہ بڑی بلند پایہ کتاب ہے۔ آپ اس کتاب کا یہ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور اس عبارت کی گہرائی اور اس کی معنویت پر بار بار غور فرمائیں اقتباس یہ ہے۔
‘‘ قرآن مجید کے تدبر سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق صحیح طور پر اس صورت میں قائم ہوتا ہے جب ہم اپنے آپ کو اللہ کی صفات کے تقاضوں کےمطابق بنائیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت ہمارے دل ، ہماری روح اور ہمارے ارادہ سے ایک خاص مطالبہ کرتی ہے۔ اگر ہم یہ تمام مطالبے ٹھیک ٹھیک پورے کردیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے رب کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح بنیاد پر قائم کرلیا۔ درحقیقت یہی تقاضے ہیں جن کی تفصیلات شریعت میں بیان ہوئی ہیں اور قرآن مجید میں اکثر احکام و ہدایات کے بیان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو جو حوالہ آتا ہے وہ درحقیقت اسی بات کو واضح کرنے کے لئے آتا ہے کہ یہ مطالبہ یا یہ ہدایت اللہ کی فلاں صفت کا تقاضہ ہے۔ جو شخص شریعت کے احکام و ہدایات پر اس شعور کے ساتھ عمل کرتا ہے کہ فلاں حکم یا فلاں ہدایت کے اندر اللہ کی فلاں صفت کا جلوہ ہے وہ شخص درحقیقت شریعت کی اصلی روح کو پہچانتا ہے ۔ شریعت کے احکام پر جب وہ عمل کرتا ہے تو اس طرح عمل کرتا ہے کہ گویا وہ اس عمل کے اندر اللہ کے جلوہ کو دیکھ رہا ہے یہی وہ چیز ہے جس کو نبی علیہ السلام نے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی یہ اللہ کی بندگی اور اطاعت اس طرح کرتا ہے کہ گویا بندہ اللہ کو دیکھ رہا ہے ۔ بندہ کا اللہ کو دیکھنا یہی ہے کہ شریعت کے ہر حکم کے اندر اللہ کی صفات کا جو عکس ہے وہ اس کو نظر آتا ہے اور جب وہ عکس اس کو نظر آتاہے تو وہ صاف یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اندر اللہ کی نگران آنکھیں چھپی ہوئی ہیں جو اُسے دیکھ رہی ہیں’’۔ تزکیہ نفس، صفحہ 335۔
اس عبارت سے آگے اگلے صفحہ پر وہ رقم فرماتے ہیں ‘‘ اس (اسلام) نے تعلق باللہ میں جس اصول کی طرف رہنمائی کی ہے وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو صفات الہٰی کے تقاضوں کے مطابق بنائے۔ مثلاً یہ کہ اللہ منعہم ہے تو بندہ کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس کا شکر گذار بندہ بنے ۔ اللہ خالق ہے تو چاہئے کہ بندہ اسی کے امرو حکم کی اطاعت کرے۔ اللہ سمیع و علیم ہے تو بندہ اسی سے مانگے اور اسی پر بھروسہ کرے۔ اللہ قدوس ہے تو بندہ کو چاہئے کہ اپنے ظاہر و باطن ، دونوں کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ بنائے۔ اللہ عادل و طاقتور ہے تو چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اس سے ڈرتا ہے اور ظلم و نا انصافی کی ہر بات سے پرہیز کرے۔ غرض اللہ کی ہر صفت بندے کو گوناگوں ذمہ داریو ں اور بے شمار حقوق و فرائض کے بندھنوں میں باندھتی ہہے اور بندہ اللہ کی صفات اور ان کے عائد کردہ حقوق و فرائض کے علم وعمل کی راہ میں جتنا بھی بڑھتا جاتاہے اتنا ہی اللہ سے اس کا قرب بڑھتا جاتاہے اور اسی اعتبار سے ان کی ذمہ داریاں بھی مشکل تر او رنازک سے نازک تر ہوتی جاتی ہیں ( صفحہ 337)
آپ نے یہ دونوں نہایت قیمتی اقتباسات ملاحظہ فرمائے۔ ان تمام صفات کی نمود صرف اسلامی مملکت میں ہوسکتی ہے کیونکہ ان صفات کے یہ تقاضے صرف اسلامی مملکت میں ہی پورے کئے جاسکتے ہیں ۔ اس لیے اسلامی مملکت کا قائم کرنا لازمی و ضروری ہوتا ہے۔ ان ہی تقاضوں کو پورا کرنے سے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے اسلامی مملکت میں نہ صرف نفوس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس معاشرہ کا تزکیہ بھی از خود ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت اقدس نے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے ہر حکم کے ساتھ ساتھ اللہ کی کسی صفت کا حوالہ ضرور ہوتا ہے تو انہوں نے اس کی مثالیں تحریر نہیں فرمائیں الہٰی صفات کے حوالوں کی وہ آیات ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات میں ہر حکم کے بعد اللہ کی مختلف صفات مثلاً ، علیم و خبیر یا سمیع و بصیر کاحوالہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے مفسرین کرام نے اپنی تفاسیر میں ان الہٰی صفات کا کوئی ربط سابقہ آیت سے نہیں باندھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس خدائی صفت کا ایک گہرا تعلق اس ماسیق آیت ہوتا ہے ۔ اس گہرے او رمضبوط تعلق کو ہمارے تمام مفسرین کرام نے بالکل نظر انداز کردیا ہے اور اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی نگاہ اس طرف کیوں نہیں گئی۔ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ پر محیط قرآنی تفاسیر کے پورے لیٹریچر میں سب سے پہلے اس عمیق نکتہ کی طرف محترم المقام، مفکر قرآن پرویز صاحب مرحوم کی توجہ ہوئی ہے او رانہوں نے اپنے تحریر کردہ مفہوم القرآن میں ہر مقام پر ان صفات کا ربط و تعلق واضح کیا ہے۔ آپ خود بھی مفہوم القرآن سے اس بات کی تصدیق فرماسکتے ہیں اور اس مفہوم القرآن کا تقابل بھی تمام مروجہ تراجم و تفاسیر سے فرما سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ غور فرمائیں کہ ان تمام مواقع پر صفات کا آیات سےربط باندھنا کس قدر مشکل او رکٹھن کام تھا اور یہ کام ہمارے مفسرین میں سے نہ کسی نےانجام دیا اور (معاف بفر مائید) نہ کسی مفسر کے بس کا یہ کام تھا۔ یہ صرف اور صرف پرویز صاحب کا ہی عالی مقام ہے کہ انہوں نے یہ کٹھن کام، اس طرح سر انجام دیا کہ ان سے پیشتر ان کے لئے اس کام میں کوئی رہنمائی بھی نہیں تھی ۔ اب چونکہ انہوں نے ICE BREAK کردیا ہے اب دوسروں کے لئے یہ کام آسان ہوگیا ہے۔ اب آپ چند آیات جن میں صفات کا ربط باندھا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
(1) وَجَعَلَ كَلِمۃَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَٰی وَكَلِمۃُ اللّہَ ھِيَ الْعُلْيَا وَاللّہَ عَزِيز حَكِيم (9:40) اس طرح اس نے مخالفین کو سرنگوں کردیا اورنظام الہٰی کو غلبہ و تسلط حاصل ہوتاچلا گیا ۔ اللہ قوت والا او رحکمت والا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز ،غلبہ کی رعایت سے آئی ہے۔
(2) إِنَّمَا يَخْشَى اللّہَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللّہَ عَزِيز غَفُور (35:28) صفحہ فطرت کے یہ اوراق جو قوانین الہٰی کی زندہ شہادات ہیں سب کے سامنے کھلے ہیں لیکن ان قوانین کی عظمت کے سامنے ہی لوگ جھکتے ہیں جو ان شہادات پر علم و بصیرت سے غور وفکر کرتے ہیں۔ یہی لوگ علماء کہلانے کے مستحق ہیں اور یہی جان سکتے ہیں کہ اللہ کا قانون کس قدر غلبہ کا مالک ہے (عزیز) او رجو اس کے مطابق چلتا ہے وہ اسے کس قدر سامان حفاظت عطا کرتا ہے ( غفور)۔
(3) وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنۃً نَّزِدْ لہ فِيھا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللّہَ غَفُور شَكُور(42:23) ہمارا یہ قانون ہے کہ جو شخص معاشرہ میں حُسن کا رانہ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے ۔ ہم اس کے لئے خوشگوار یوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں ۔ اگر تم ایسا کرو گے دیکھو گے اللہ کہ اللہ کی صفات غفور اور شکور اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ ہم حُسن کا رانہ طریقہ سے زندگی بسر کریں۔ اس سے ہماری خوشگواریوں میں اضافہ ہوگا اللہ کی صفات غفور اور شکور ہمارے اعمال کو نقصانات سے محفوظ رکھیں گی اور ہمارے اعمال کے بھر پور تنائج بر آمد ہوں گے۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے غفور اور شکور ہونے کی صفات جلوہ گر ہو رہی ہیں۔
(4) وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِي أَذْھبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُور شَكُور (35:34) وہ زندگی کی ان شاد ابیوں اور سرفراز یوں کو دیکھ کر (جن کا ذکر سابقہ آیت میں بیان ہوا ہے) والہانہ طور پر پکار اٹھیں گے کہ کس قدر درخورِ حمد و ستائش ہے اللہ کا یہ نظام جس نے ہماری سب پریشانیوں اور افسردگیوں کو دور کردیا اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ نظام تخریبی عناصر سے حفاظت کا سامان بھی اپنے اندر رکھتا ہے او رمحنتو کے بھرپور نتائج عطا کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی صفات غفور او رشکور اس بات کی ضامن ہیں کہ وہ اسلامی نظام کی اطاعت کے لئے جو امور سر انجام دیئے جائیں یہ نظام ان کے بھرپور نتائج مرتب کرتا ہے اور ان امور کو تخریبی عناصر سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اللہ کی صفات غفور اور شکور اس آیت میں جلوہ گر ہیں۔
(5) كَتَبَ اللّہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللّہَ قَوِيّ عَزِيز (58:21) اللہ کا فیصلہ (قانون) یہ ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں حق غالب آئے گا اور اس کے علمبردار یعنی اللہ کے رسو ل مظفر و منصور ہوں گے ۔ یہ اس اللہ کا فیصلہ ہے جو ہر قسم کی قوتوں او رغلبہ کا مالک ہے اس لئے یہ ہو نہیں سکتا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے قانون کو شکست دے سکے۔
اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات قوی یا عزیز اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر بیان کی گئی ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے لئے غلبہ و اقتدار کیوں لازمی ہے۔ فرمایا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کوئی کمزور ہستی نہیں ہے بلکہ وہ قوی و عزیز ہے اس لئے جب وہ اپنے رسولوں کو بھیجتا ہے تو اگر لوگ اللہ کی اطاعت کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں تو وہ اللہ ان کو اقتدار عطا فرماتا ہے ۔ آیہ کریمہ کا ہم سے مطالبہ و تقاضہ ہے کہ جب انسانوں کے پاس آئیں تو وہ انسان خود بھی اللہ تعالیٰ کی ان صفات قوی و عزیز کو اپنے میں پیدا کریں۔ اللہ ان کو اقتدار دے گا لیکن اگر وہ خود اللہ کے مقابلے کے لئے کھڑے ہوجائیں ، جیسا کہ اس دور میں ہم مسلمان ، اللہ کے قانون کے بجائے اس کے مقابلہ میں اپنے وضع کردہ قوانین جاری کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم جیسے باغیوں کو اپنے نظام کی برکتوں سے محروم کر کے ، ہمیشہ ذلیل و خوار ہی رکھتا ہے ۔ اس آیت میں اللہ کی ان دو صفات کا جلوہ چمک رہا ہے ۔
(6) سَبَّحَ لِلّہِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَھوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( 59:1) کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے سب اللہ کے متعین کردہ پروگرام کی تکمیل کے لئے سر گرم عمل ہے اس اللہ کے پروگرام کی تکمیل کے لئے جو بڑی قوتوں کا مالک او رغلبہ کا مالک ہے لیکن اس کی قوت اندھی فطرت کی قوت نہیں وہ یکسر حکمت پر مبنی ہے ۔آیہ کریمہ کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمان اور بالخصوص اسلامی مملکت سب پر غالب رہے اور اس کے تمام کام حکمت پرمبنی ہوں۔
(7) ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللّہِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ وَاللّہُ عَلِيم حَكِيم (60:10) یہ تمہارے لئے اللہ کا فیصلہ ہے۔ اختلافی معاملات کا فیصلہ اسی کے حکم کے مطابق ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ اُس کے فیصلے علم و حکمت پرمبنی ہوتے ہیں۔ آیہ کریمہ کامطالبہ یہ ہے کہ انسانوں کے فیصلے علم و حکمت پر مبنی ہونے چاہئیں ۔ ان فیصلوں میں کسی قسم کی جذبات کی آمیزش ہر گز نہیں ہونی چاہئے ۔
(8)إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَھمْ جَنَّاتُ النَّعِيم خَالِدِينَ فِيھا وَعْدَ اللّہِ حَقًّاوَھوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (9۔31:8) اس کے برعکس جو لوگ ہمارے قوانین کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں اور انسانی معاملات کو سنوارنے والے کام کرتے ہیں ان کے لئے پرُ آسائش زندگی ہوگی یہاں بھی اور اس کے بعد بھی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو ٹھوس حقیقت بن کر سامنے آجائے گا، اس لئے کہ اللہ بڑی قوتوں کا مالک ہے ، اور اس کا ہر فیصلہ حکمت پرمبنی ہوتا ہے۔ اس لئے کسی میں اس کی جرأت نہیں ہوسکتی کہ اس کی بات پوری نہ ہو نے دے، یا اُس کی تدبیر کو ناکام بنادے وہ چند آیات پیش خدمت عالی کی گئی ہیں جن کے آخر میں صفات الہٰی آئی ہیں۔ ان آیات اور ان صفات کا ربط بھی پیش خدمت کیا گیا ہے۔ یہ موضوع اپنی نوعیت کا بالکل منفرد موضوع ہے اور ختم نہ ہونے والا بھی ۔ سارے قرآن کریم میں جہاں جہاں صفاتِ الہٰی آئی ہیں ، ان کا آیات سے ربط دینا بہت ضروری چیز ہے۔ اس ربط کے بعد ہی ان آیات کا صحیح مفہوم سامنے آتاہے۔ سارا مفہوم القرآن اس منہاج پر تحریر کیا گیا ہے۔ صفات و آیات کا یہ ربط قرآن کریم کو وحی الہٰی ثابت کرنے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ عقل انسانی نہ اتنی صفات الہٰی بیان کرسکتی ہے اور نہ ان کا ربط آیات سے دے سکتی ہے۔
وَ آخر دَعَو انَااَنِ الحَمدُ لِلہِ رَبِّ العَا لَمِینِ
فروری، 2013 ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/god’s-intervention-/d/10460