ازہر عباس خواجہ
جنوری ، 2013
قرآن کریم نے حکومت کا لفظ کسی جگہ استعمال نہیں کیا۔ اس نے اس کے لئے حکم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کے معنی فیصلہ کرنے کے، اور اسی مناسبت سے حاکم کے معنی فیصلہ کرنے والے کے ہیں، یعنی اختلافی معاملات میں حقوق و واجبات کی نشاندہی کرنے والا۔ ہمارے اس موجود ہ دور میں حقوق وفرائض کی اس تقسیم کو قانون سازی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے قانون سازی کا حق و اختیار کسی شخص کو نہیں دیا۔ یہ حق و اختیار صرف حضرت باری تعالیٰ عَزّٰاِسمہ کو ہی حاصل ہے اور اس نے اپنے اس حق کو انبیاء کرام کی وساطت سے استعمال کیا ہے جب کہ ارشاد ہوتا ہے وَاَنْزَلَ مَعَھْمُ الْکِتٰبَ بِا لْحَقِّ لِیَحْکْمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ (213۔2) (ترجمہ) اور پیغمبر وں کے ساتھ برحق کتاب بھی نازل کی تاکہ جن باتوں میں لوگ جھگڑتے تھے ، اللہ کی کتاب اس کا فیصلہ کردے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی اپنی اس ہدایت سے انسانیت کو محروم نہیں رکھا بلکہ اوّل آفرنیش یہ احکامات انبیاء کرام کی معرفت انسانیت کو ملتے چلے آئے تھے ( 38۔2) جب انبیاء کرام کا سلسلہ ختم ہوا تو اُن قوانین و احکامات کے مجموعے کو قرآن کریم میں محفوظ کر کے، انسانیت کو دے دیا گیا اور یہ بات بخوبی واضح کردی گئی کہ وَمَنْ لَّمْ یَخْکْمْ بِمَآ اَنْزلَ اللہَ فَاْ و لکَ ھْمُ الْکٰفِرُوْنَ (44۔5) الظّٰلِمْوْنَ (45۔5) الْفٰسِقُوْنَ (47۔5) جو شخص خدا کی نازل کردہ کتاب کے مطابق فیصلہ (حکم) نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔ یہ تینوں آیاتِ کریمات سورۂ آیات کریما سورۂ مائدہ کی ہیں۔ ان تینوں آیات کریما ت میں نہایت تاکید اور زور سے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق حکومت نہیں چلاتے ، وہ کافر، ظالم اور فاسق ہوتے ہیں۔ ہر وہ ملک جو قوانین خداوندی سے اعراض کرکے، اپنے وضع کردہ قوانین کے مطابق حکومت چلائے گا، اس ملک میں کفر، ظلم اور فسق تینوں حالتیں پائی جائیں گی ۔ آپ آج ساری دنیا کے ممالک پر ایک نظرڈال لیں، خواہ وہ ممالک مسلمانوں کے ہوں اور خواہ غیر مسلموں کے ہوں، سب جگہ قوانین خداوندی سے اعراض برتا جاتا ہے اور انسانوں کے وضع کردہ قوانین ہر ملک میں جاری ہیں اور ہر ملک کی یہ حالت ہے۔
فَکَیْفَ تَتَّقُونَ اِنْ کَفَرْ تُمْ یَوْمًا یَجْعَلْ الْوِ لْدَانَ شِیبًا ، السَّمآ ءُ مُنْفَطِر بِہ کَانَ وَعْدُہُ مَفْعُولاً ( 18۔17۔73)
اگر تم نے قوانین خداوندی سے اعراض کرکے، اپنے قوانین کے مطابق معاشرہ تشکیل دیا تو اس معاشرہ میں پریشانیوں کا یہ حال ہوگا کہ اس میں بچے بوڑھے معلوم ہوں گے ان پر آسمان پھٹ پڑے گا اور اس سے آگے ارشاد فرمایا کہ اس کو محض ایک ڈرانا نہ سمجھ لینا ، جو کچھ کہا جارہا ہے ، وہ ہوکر رہے گا نیز یہ بھی فرمایا کہ ان معاشروں سے تم نکل بھی نہیں سکوگے ۔ کُلَّمَآ اَرَادُ وْٓ اَنْ یَّخْرُ جُوْا مِنْھَا مِنْ غَمٍّ اُ عِیْدُوْا فِیْھَا (22۔22) جب صدمے کے مارے چاہیں گے کہ اس سے نکل کر کسی دوسرے (مغربی) ملک کی طرف چلے جائیں تو اس اپنے سابقہ ملک کی طرف ہی پلٹا دیئے جائیں گے اور (مغربی) ملک کا ویزا نہیں مل سکے گا انسانیت پر یہ سارے مصائب و نوازل صرف اس اس وجہ سے آرہے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں انسانوں کے وضع کردہ قوانین جاری ہیں۔ جن میں عدل و انصاف با لکل نہیں ہوتا ۔ ان قوانین کی INHERENT اور IN-BUILT خامی یہ ہے کہ ان قوانین کے سامنے ساری انسانیت کا مفاد نہیں ہوتا، یہ قوانین صرف اپنی ذات یا اپنی پارٹی ، یا اپنے ملک کے مفاد کے لئے وضع کئے جاتے ہیں او رہر طرح کے فوائد اپنے لیے مخصوص کرلئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کرام نے اسلامی حکومتیں قائم کی تھیں( 54۔4۔ 14۔61۔6۔41) لیکن تاریخ سے ان حکومتوں کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہوتا ۔انسانیت کی تاریخ میں وہ پہلی اسلامی مملکت جس کی تفصیل قرآن میں موجود ہے ، اور جس کا ریکارڈ تاریخ میں موجود ہے، وہ حضور نے مکہ میں قائم فرمائی تھی اس مملکت کی اساس قوانین الٰہی پر قائم تھی۔ اس مملکت میں قرآنی احکامات کے علاوہ کسی کی اطاعت ضرور ی نہیں تھی ۔ اس مملکت میں انسان کی حکومت انسان پر حرام تھی ۔ یہاں تک کہ خود حضور کی بھی ذاتی اور شخصی اطاعت نہیں ہوتی تھی ( 1۔58۔ 37۔33۔ 79۔3۔ 159۔3 ) قرآن کریم نے شخصیات کا دور ختم کرکے، نظام کے دور کی ابتداء کی اور انسانیت کو سب سے پہلے نظام کے تصور سے آشنا اور آگاہ کیا۔ اس مملکت میں حضور کو حکم تھا کہ وہ بھی صرف اللہ کے قوانین کے مطابق فیصلے کریں ( 49۔5 ۔ 48۔5 ) چنانچہ اس نظام میں سارے فیصلے قوانین الہٰی کے مطابق ہوتے تھے اور حضور خود ان خدائی احکام کی اطاعت فرماتے تھے اور اس نظام کی اطاعت ہی عبادت الہٰی گردانی جاتی تھی اور رسول اللہ کے کئے بحیثیت سربراہِ مملکت کسی قسم کی کوئی PRIVILEGE نہیں تھی ۔ وہ اس نظام کے تمام قوانین کی اطاعت فرماتے تھے ( 203۔7 ۔ 50۔6 ) انہیں کوئی IMMUNITY یارخصت حاصل نہیں تھی ، وہ کسی بھی شہری کو قرآنی قوانین کے بر خلاف معافی نہیں دیتے تھے۔ اُنہیں یہ حکم تھا کہ فَا حْکُمْ بَیْنَھُمُ با لْقِسْطِ ( 42۔5 ) ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو ۔ حضور نے خود بھی فرمایا ۔ اُ مِرْ تُ لِاَ عْدِلَ بَیْنَکُمُ ( 15۔42) مجھے حکم ہوا کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف قائم رکھوں ۔ نیز ارشاد ہوا اِنِّیْٓ اَخَافْ اِنْ عَصَیْتْ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ( 13۔39۔ 15۔10۔ 15۔6 ) ترجمہ، اگر میں نافرمانی کروں تو بے شک میں ایک برُے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ رسول اللہ بحیثیت سربراہِ مملکت قانون الٰہی سے بالا تر نہیں تھے ۔ بلکہ وہ قوانین الہٰی کی دوسروں سے بھی زیادہ اطاعت فرماتے تھے وَاَنَا اَوَّلْ الْمُسْلِمِیْنَ ( 163۔6 ) میں سب سے پہلے اسلام لانے والاہوں ۔ اس آیہ کریمہ میں تَقَدُّم زمانی کے ساتھ ساتھ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ میں مسلمانوں میں سب سے بہتر او راوّل درجہ کا مسلمان ہوں یعنی قوانین الٰہی کا اوّل درجہ کا اطاعت گذار ہوں۔ تمام انبیاء کرام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسئو ل تھے۔
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِینَ اْرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْ سَلِیْنَ ( 6۔7) (ترجمہ) ہم ضرور ان لوگو ں سے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے تھے سوال کریں گے اور خود پیغمبر وں سے پو چھیں گے ۔ اس مسئولیت اور جواب دہی میں تمام اُمتّیں اور پیغمبر ایک ہی مقام پر کھڑے ہوں گے۔ اس کے علاوہ حضور کے لئے بالتخصیص ارشاد ہوتا ہے وَ اِنَّہَ لَذِ کْر لَکَ وَ لِقَوْ مِکَ وَسَوُف تْسْاَ لُوْنَّ ( 44۔43) اور یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے ایک قانون ہے اور عنقریب تم سب سے پرُ سش ہونی ہے۔ آیہ کریمہ میں قوم کے ساتھ لَکَ (تیرے لئے ) کے لفظ کا اضافہ کرکے، حضور کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ نہ صرف اسلامی مملکت کا سربراہ اطاعت الہٰی میں پیش پیش ہوتا ہے، بلکہ ان کی ازواج پر بھی دوسرے مسلمانوں کی نسبت دوسری ذمہ داریاں ہوتی ہیں،یٰنِسَآ ءَ النَّبِیِّ یّاْتِ مِنْکُنَّ بفَا حِشْۃٍ مّْبَیِّۃٍ یُّضٰعَفْ لَھَا الْعَذَابْ ضِعْفَیْن (30۔33) اے پیغمبر کی بیو یوتم میں سے جو کسی صریحی بے حیائی کی مرتکب ہوگی ، تو اس کے لئے وہ چند عذاب ہے۔ اس آیہ کریمہ کے ذیل میں ‘‘تدبرقرآن’’ میں مرقوم ہے ‘‘ازواج نبی کو مخاطب کرکے ان پر واضح فرمایا گیا ہے نبی کی بیویاں ہونے کے سبب سے اللہ تعالیٰ کےہاں ان کا درجہ و مرتبہ بھی اُونچا ہے اور مرتبہ کے اعتبار سے اُن کی ذمہ داریاں بھی بہت بھاری ہیں پہلے ان کی ذمہ داریاں بتائیں کہ وہ اس امر کو یادر کھیں کہ اگر ان سے کوئی جُرم صادر ہوا تو وہ اسی تر ازو میں نہیں لایا جائے گا جس سے دوسروں کے جُرم تو لے جائیں گے بلکہ ان کے اعمال الگ باٹ اور الگ ترازو سے تولے جائیں گے اور دوسروں کی نسبت ان کو دوگنی سزا ملے گی ’’۔ آپ ملا حظہ فرمارہے ہیں کہ کس طرح معاشرہ کا بالکل اوپر کا طبقہ قانون کی زنجیروں میں باندھا جارہا ہے اور ارباب بست و کشاد میں سے کسی فرد کو قانون سے بالا تر ی صاصل نہیں ہوتی ۔
اسلامی مملکت یا کوئی بھی مملکت جو بھی ملک میں قانون کی بالادستی کی خواہاں ہے اس کے لئے یہ بات نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ اس مملکت کے ارباب حل وعقد اور اس کے کارکنان وہ لوگ ہوں جو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی ادراک اور اس کا احساس رکھتے ہوں اور ان ذمہ داریوں کو حد درجہ ادا کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ کسی مملکت کو کامیاب بنانے کےلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے کارکنان اور افسران کو جو ذمہ داریاں سپرد کی جارہی ہیں وہ ان کو بخوبی انجام دے سکتے ہوں۔ جس طرح کارکنان اور افسران کے لئے لازمی ہے کہ وہ اُن صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ اسی طرح کارکنان و ممبران کو منتخب کرنے والوں پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ ایسے ممبران کو منتخب کریں جو ان مقامات کے اہل ہیں، نا اہل لوگوں کے منتخب کرنے پر وہ بھی جواب دہ ہووں گے۔ ہر ووٹر (VOTER) کا یہ فرض ہے کہ وہ ووٹ دینے سے پیشتر اس بات کو بخوبی تحقیق کرے کہ وہ اپنا ووٹ اس شخص کو دے رہا ہے جو اس کااہل ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے ووٹرکو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر اس منتخب کردہ نمائندہ اپنے فرائض منصبی درست انجام نہیں دے رہا ہے اور قانون کے خلاف کام کررہا ہے تو اس کے جرائم کے ارتکاب میں ووٹر بھی برابر کا شریک ہے( 85۔4) ووٹر کو ووٹ دینے کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے ارشاد عالی ہوتا ہے۔
اِنَّ اللہَ یَاْ مُرُکُمْ اَنْ تُوَّ دُّوا الاَ مٰنٰتِ اَ لٰی اَ ھُلِھَا اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بَا لَعَدْل اِنَّ اللہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہ اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْراً ( 58۔4) ایمان والوں خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی امانتیں امانت رکھنے والوں کے حوالہ کردو اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ خدا تم کو اس کی کیا ہی اچھی نصیحت کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا سب کی سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے ۔ یہ آیہ کریمہ کسی بھی مملکت کے نظام کی CONNER STONE ہے لیکن افسوس کہ اس آیت کی تفسیر ہمیشہ صرف مذہبی نقطہ نگاہ سے کی گئی ہے ۔ اس آیت کا دینی مفہوم کسی نے پیش نہیں کیا ہمارے ہاں عموماً اس آیت میں ادائے امانت کا تعلق صرف و دیت سے لیا گیا ہے ۔ حالانکہ اس آیت کے اگلے حصہ میں انصاف سے فیصلہ کرنے کا حکم ہورہا ہے ۔ اکثر مفسرین نے یہ مفہوم لیا ہے کہ اس آیت میں یہ حکم ہورہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس کوئی مال یا کوئی چیز ودیعت کے طور پر رکھوا دے تو اس شخص کا فرض ہے وہ عند الطلب اس چیز کو واپس کرے ۔ یہ اس آیت کا مذہبی مفہوم ہے ۔ اس آیت کا دینی مفہوم اس سے بالکل مختلف ہے۔
آیہ کریمہ کا مفہوم سمجھنے کے لئے یہ بات ضرور پیش نظر رکھئے کہ اسلامی مملکت میں افسران و نمائندگان کے سپرد اختیار یا PERKS نہیں کئے جاتے بلکہ ان کے سپرد امانات کی جاتی ہیں اور امانت کی وضاحت خود آیت کے اگلے حصہ نے کردی ہے کہ امانات سے مراد باہمی جھگڑوں میں فیصلہ کرنے کا فریضہ یا قانون سازی کا فریضہ ہے۔ حکم الہٰی یہ ہورہا ہے کہ مملکت کے امور کا فیصلہ کرنے کا فریضہ ان لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہیں تاکہ افراد معاشرہ امن و سکون سے زندگی گذار سکیں۔ اصل میں یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جو مملکت کے نمائندگان کا انتخاب کرتے ہیں کہ جن کے سپرد مملکت کی ذمہ داریاں کی جارہی ہیں۔
اسلامی مملکت کا سربراہ اور اس کے کارکن جو یہ ذمہ داریاں اپنے سرلیتے ہیں وہ ان کو اللہ تعالیٰ کے BEHALF پر لیتے ہیں ۔ سورہ فتح میں ارشاد عالی ہے اِنَّ الَّذیْنَ یْھَا یِعُوْ نَکَ اَنَّمَا یْھَا یِعْوْنَ اللہَ یَدْ اللہِ فَوْقَ اَیْدِ یْھِم (10۔48) اے رسول جو مومنین اپنے مال اور اپنی جان تیرے ہاتھ بیچ رہے ہیں وہ در حقیقت اُنہیں خدا کے نام پر فروخت کررہے ہیں۔ اس معاہدہ کی توثیق کے لئے اُن کے ہاتھ پر تیرا ہاتھ نہیں ہوتا، درحقیقت خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ اسلامی مملکت کا سربراہ خدا کی طرف سے جو معاہدہ کرتا ہے وہ ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے گا، جواللہ تعالی نے انسانیت کے بارےمیں اپنے اوپر لے رکھی ہیں۔ اس معاہدہ کی تاکید کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے وَ الْمُوْ فُوْنَ بِعَھْدِ ھِمْ اَذَا عھَدُوْا ( 177۔2) تو اس سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ ایک ایسا نظام قائم کرتے ہیں جو نظام اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں کو پورا کرتا ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے قرآن صرف اپنے قوانین کو عدل قرار دیتا ہے قرآن عطا کردہ قوانین کے علاوہ جو قوانین عقل ِ انسانی وضع کرتی ہے۔ قرآن کریم ان قوانین کو نہ تو APPROVE ہی کرتا ہے او رنہ ہی ان کو عدل و انصاف پر مبنی قرار دیتا ہے ( 44۔5، 45۔5، 47۔5، 159۔7) قرآن کریم اپنے تشکیل کردہ معاشرتی میں قوانین کی بالادستی اور ان کا سختی سے نفاذ و اجراء چاہتا ہے ۔ اسلامی نظام کا فریضہ ہے کہ وہ معاشرہ میں ہر فرد کے بنیادی حقوق اور ہر فرد کی ہر متاع کو محفوظ رکھے۔ سب لوگوں کے گھر محفوظ ہوں۔ قرآن کا حکم ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے مکان میں بغیر اجازت داخل نہ ہو او رملنے کے لئے BY APPOINTMENT جائے ( 27۔24)۔ اسلامی نظام میں ماحول اور فضا ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں فَلاَ خَوْف عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْذَ نُوْن ( 38۔2) اس میں نہ خوف ہوگا اور نہ ہی کوئی حُزن ۔ اس پرُ سکون فضا و ماحول میں ہر شخص کی مضمر صلاحیتوں میں بھر پور نمود ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس قسم کا ماحول پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر شخص پر قانون کا مکمل اطلاق ہو اورہر مُجرم کو اس کے جرم کی سزا ضرور ملتی ہو۔ اگر ہر مُجرم کو جرم کی سزا ملے گی تو پرُ امن معاشرہ پیدا ہوگا لیکن اگر کسی معاشرہ میں مُجرم کو سزا نہیں ملتی اور بااثر اور ذی ثروت اشخاص کو قانون کی گرفت سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہوتو ایسے معاشرہ میں LAW & ORDER قائم نہیں ہوسکتا ۔ قرآن کریم کا اسلامی مملکت سے یہ تقاضہ ہے کہ وہ ہرمُجرم کا تعاقب کرکے، اس کو قرار واقعی سزا دے ۔ قرآن کریم نے مجرم کے تعاقب کے لئے قصاص کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کا تعلق صرف قتل کی سزا سے نہیں ہے بلکہ اس کاتعلق معاشرہ کے ہر جرم اور ہر مُجرم سے ہے۔ قصاص کے معنی صرف جُرم کی سزا دینا نہیں ہے بلکہ اس کے معنی مجرم کا اس طرح تعاقب کرنا ہے کہ اس کو قرار واقعی سزا مل کر رہے اور کوئی مُجرم UN-TRECED نہ رہے ۔ ہمارے اس نظریہ کی تائید میں فقہ القرآن میں حضرت العلامہ مولانا عمر احمد عثمانی مرحوم نے تحریر فرمایا ہے کہ ‘‘ جو چیز کسی پر فرض کی جاتی ہے اس کی ادائیگی وہی کرتا ہے جس پر وہ فرض کی گئی ہے’’۔
کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ ( 183۔2) کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِتَالُ ( 216۔2) کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمْ الْمَوْتْ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَ صِیَّۃ (180۔2) کی وجہ سے صیام ، قتال اور وصیت کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے لہٰذا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصاصْ ( 178۔2) کے معنی بھی ہی ہوں گے کہ قصاص تمام مسلمانوں پر فرض ہے اب اگر قصاص کے معنی صرف سزائے موت کے لئے جائیں تو ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں پر سزائے موت تو فرض نہیں ہے۔ سزائے موت تو قتل عمد کے مجرم ہی پر فرض ہے مگر یہاں اس کی فرضیت تمام مسلمانوں پر فرمائی گئی ہے۔ اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ قصاص کے معنی سزائےموت کے نہیں ہیں بلکہ اس کے معنی قاتلوں کو تلاش کرنے ، اُن کی جستجو کرنے، ان کا تعاقب کرنے ، اُنہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور اُنہیں جرم کا بدلہ دینا ہے کیونکہ یہی چیزیں تمام مسلمانوں پر فرض ہوسکتی ہیں اور فرض ہیں۔ سزا ئے موت تو تمام مسلمانوں پر فرض نہیں ہے’’۔ ( جلد صدود وتعزیرات ص 268)
اسلامی مملکت کا پہلی فریضہ تو یہ ہے کہ اس مملکت میں قانون کی عملداری اس درجہ ہو کہ کوئی مجرم سزا پائے بغیر نہ رہ سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کے اجرا و نفاذ میں مندرجہ تقاضے بھی پورے کئے جائیں۔
(1) عدل و انصاف کرتے وقت عدالت مُجرم کی پوزیشن کا کوئی خیال نہ رکھے ۔ اَلْحْرُّ بِا لْحْرِّ وَ الْعَبْدُ بِا لْعَبْدِ ( 78۔2) کا اصول ہمیشہ پیش نظر رہے ۔
(2) جُرم کی سزا جُرم کی نوعیت کےمطابق ہونی چاہئے ۔ نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم جَذَ آ ءْ سَیِّۃً مِّثْلُھَا (40۔42) (ترجمہ) اور بُرائی کا بدلہ تو ویسی ہی بُرائی ہے۔
(3) جب تک جرم ثابت نہ ہو، ملزم کو بے گناہ سمجھنا چاہئے ۔
(4) کسی قانون کا اطلاق گذشتہ واقعہ پر نہیں ہوناچاہئے ۔ اگر کوئی جرم قانون کے اجراء سے پہلے واقع ہوگیا تو اس پر قانون کی گرفت نہیں ہوگی ۔ قرآن نے ایسے احکام کا اطلاق سابقہ و گذشتہ دور پہ نہیں کیا۔ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (23۔4) کہہ کر اس سے نظر انداز کیا کہ جو اس سے پہلے ہوگیا اس پر کوئی گرفت نہیں ہے۔
(5) جو جُرم عمداً سرزد نہیں ہوا، اس پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ وَ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاح فِیْمَآ اَخْطَاْ تُمْ بِہ وَ لٰکِنْ مَّا تَعَمَّدتْ قُلْوْ بُکُمْ ( 5۔33)ترجمہ، او رہاں اس میں بھول چوک جاؤ تو البتہ اس کا تم پرکوئی الزام نہیں مگر جب تم دل سے جان بوجھ کر کروتو ضرور گناہ ہے۔
(6) قرآن کریم جرائم کے ارتکاب کو ریاست کے خلاف ایک OFFENCE قرار دیتاہے ریاست مُجرم کو سزا دینے کی ذمہ دار ہے اور اسی لئے مُستغیث مُجرم کے خلاف دعویٰ نہیں کرتا بلکہ وہ ریاست کے خلاف دعویٰ کرتا ہے چونکہ اسلامی مملکت اللہ تعالیٰ کے وعدے پورا کرتی ہے، اس لئے جب کوئی مُستغیث ریاست کے خلاف دعویٰ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے ایفاء نہ کرنے کے خلاف دعویٰ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہر شخص کو رزق مُہیا فرمائے گا(6۔11) اگر کسی اسلامی مملکت میں کسی آدمی کو رزق نہیں ملتا، تو وہ مملکت اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو ایک مشہور قول سُنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ اسلامی مملکت کے ہر فرد کی دعا اللہ کے ہاں، ان کے خلاف ایک شکایت ہوتی ہے، تو اس کے یہی معنی ہیں، جو رقم کئے گئے ہیں۔ جب مملکت نے اللہ کے نام پر وعدہ کیا ہے کہ ہر شخص کو رزق مُہیّا ہوگا، تو جب کسی شخص کورزق نہیں ملتا، اوروہ رات کو بھوکا سوگیا، تو مُجرم ریاست ہوتی ہے ، اور اس کی ذمہ داری ریاست کے ارباب حل و عقد پر ہوتی ہے۔
(7) اسلامی مملکت میں مجرم نے جس شخص کو نقصان پہنچایا، اس کے نقصان کو پورا کرنے کی ذمہ داری ریاست پر ہوتی ہے ۔ اگر کسی شخص کےہاں چوری ہوئی ہے تو ریاست کافرض ہے کہ اس کا سامان اُسے واپس دلایا جائے ، اگر چوری کے کسی واقعہ میں چور ہاتھ نہیں آتا ، تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس شخص کا سامان خود مہیا کرے۔
(8) قرآن کریم نے بدنی و جسمانی سزائیں تجویز کی ہیں کیونکہ جیل خانہ یا قید کی سزا عادی مجرموں کے لئے موثر نہیں ہوتیں۔ پاکستان کے شہریوں سے زیادہ اور کون اس کاگواہ ہوسکتا ہے کہ قید کی سزا بالکل غیر موثر ہوتی ہے کیونکہ ہمارے اکثر حکمران اور سیاسی لیڈر جرائم میں ملوث ہیں اور اکثر لیڈروں کو سزائیں بھی ہوئی ہیں لیکن چونکہ ان کو جیل خانہ یا قید میں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولیات میسر ہیں ، اس لئے ان پر قید کی سزا کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ اس ہی لوگوں کو اگر بدنی و جسمانی سزائیں دی گئی ہوتیں تو یہ مزید جرائم کے ارتکاب سے اجتناب کرتے لیکن چونکہ اُن کو جسمانی سزا نہیں ملی وہ اب بھی جرائم کے ارتکاب سے باز نہیں آئے ۔
اصلاً گفتگو جرائم کو روک تھام کے بارے میں ہورہی تھی ۔ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ قرآن کریم نے قصاص ، یعنی ہر مجرم کو سزا دینا فرض قرار دیا ہے اس کے متعلق وہ ارشاد فرماتا ہے۔ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰو ۃ یّٰٓاْ ولِی الْاَ لْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ( 179۔2) اے عقلمند لوگو قانون قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔ قرآن کریم نے قصاص کا نتیجہ تقویٰ، یعنی اسلامی مملکت کی حد درجہ اطاعت کرناقرار دیا ہے۔ آپ قصاص کے مذہبی معنی کو ذہن سےنکال کر ، دینی مفہوم ، یعنی ہر مجرم کو اس کی قرار واقعی سزا ملے، پیش نظر رکھ کر، تفسیر ماجدی کا یہ نوٹ ملاحظہ فرمائیں۔
قانون قصاص عین عدل و مساوات کا قانون ہے اور ہئیت اجتماعی کے نظم و قیامِ ریاست کابہترین ضامن و کفیل کہ کوئی کسی پر زیادتی نہ کرنے پائے اور قوی و ضعیف سب کے حقوق کا تحفظ ہوجائے۔ یہ نہ ہوکہ جو زبردست ہوں وہ زیر دستوں پر ستم ڈھائیں اُمّت کےمختلف طبقوں میں ایک دوسرے کی طرف اطمینان ودل جمعی پیدا کرنے والا درحقیقت یہی قانون ہے اور جب اس قانون پر عمل در آمد ایک عرصہ تک رہے گا اس قانون کی روح امت میں سرائیت کرجائے گی تو ساری قوم کا مزاج صالح ہوجائے گا اور آئین پسندی ، باہم صلح و سازگاری ، خدمت و معاونت جز و زندگی بن جائے گی اور اُمت دیکھتے ہی دیکھتے اُمت صالحین و ابرار، اُمت عادلہ کہلانے کی مصداق بن جائے گی۔
جو قوم پستی و زوال کی آخری حدکو چھوُ لیتی ہے ۔ اس میں ظلم و جور اور نا انصافی و فساد کی وجہ سے اندر ہی اندر اضطراب بڑھتا چلا جاتا ہے ، اور ایک ایسا لاوا پکتا رہتا ہے ، جو اس غلط نظام سے نفرت پیدا کرتا ہے۔ اس نفرت و تنفر سے اس مظلوم قوم میں ایک اجتماعیت پید ہوجاتی ہے۔ اس اجتماعیت کی وجہ سے ہی کوئی مرد بیباک و جزَی اس قوم میں پیدا ہوجاتا ہے ، جو اس غلط اور عوام کُش نظام کو اکھاڑ پھینک دیتا ہے۔ وہ حکمرانوں کی ساری بساط ہی اُلٹ کر رکھ دیتا ہے اور وہ اس کمزور اورمظلوم قوم کو دوبارہ بلندیوں کی طرف لے جاتاہے۔ اسے اللہ تعالیٰ ، اس قوم پر اپنا احسان شمار کرتا ہے جب کہ ارشاد فرماتا ہے ۔
وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمْنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَ رْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَ نَجْعَلَھُمُ ا ْ لْوَٰرِثِینَ (5۔28) ہمارے قانون مشیت کا یہ ارادہ ہوا کہ ہم کمزور لوگوں پر احسان کرکے، ان کو زمین کا وارث اور اہل زمین کا سردار بنادیں۔ زوال پذیر قوموں میں دوبار ہ زندگی پیدا ہونے کے بارے میں اور اسی آیت کی مزید توضیح فرماتے ہوئے سورہ ٔ نمل میں ارشاد ہے وَإِذَا وَقَعَ اُلْقَوْلُ عَلَیْھِمْ أَخْرَ جْنَا لَھُمْ دَ آ بَّۃً مِّنَ اُ لْأَ رْضِ تُکَلِّمُھُمْ أَ نِّ اُلنَّاسَ کَانُو ابِا یٰتِنَا لاَ یُو قِنُونَ ( 82۔27) اور جب اللہ کا قول قریب آجائے گا تو ہم زمین سے ایک چوپایہ انکے لئے برآمد کریں گے وہ دابہ لوگوں سےکہے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں لاتے تھے ۔
اس آیہ کریمہ کو سمجھنے کےلئے آپ جس قدر تفاسیر ہی ملاحظہ فرمائیں گے، آپ کسی ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے ۔ مضمون چونکہ طویل ہوگیا ہے۔ اس لئے تفسیر کے زیادہ حوالہ جات تحریر کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارے مفسرین کرام نے اس دابۃ سے ایک عجیب و غریب جانور مر اد لیا ہے جو قیامت کے قریب نمودار ہوگا۔چنانچہ تفسیر مظہری میں تحریر ہے کہ ابن صریح سے روایت ہے کہ ابو الزبیر نے دابۃُ الارض کے حالات اس طرح بیان کئے ہیں۔ اس کا سربیل جیسا ہوگا۔ اس کی آنکھیں خنزیر کی طرح ہوں گی۔ اس کارنگ چیتے کا رنگ ہوگا اس کی کوکھیں بلی کی کوکھوں کی طرح ہوں گی۔ اس کی دُم مینڈھے کی دُم کی طرح ہوگی۔ اس کی ٹانگیں اونٹ کی ٹانگوں کی طرح ہوں گی ۔ ہر جوڑوں کے درمیان بارہ ہاتھ کافاصلہ ہوگا ۔ اس کے پاس موسیٰ کی لاٹھی اور سلیمان کی انگشتری ہوگی۔ ہر مومن کے سجدے کے مقام، پیشانی یا ناک پر لاٹھی کی نوک سے نشان بنادے گا جس سے اس کا چہرہ جگمگا جائے گا اور سُلیمان کی انگوٹھی سے ہر کافر کے چہرہ کو نشان زدہ کرے گا جس سے اس کا چہرہ کالا ہوجائے گا۔ ( تفسیر مظہری ،جلد 9 صد 52)
دَ آ بَّۃً الاَرْضِ کا دوسرا حُلیہ حضرت ابوہریرہ کا بیان کردہ ملا حظہ فرمائیں ارشاد ہوتا ہے ‘‘ اس کے جسم پر سب رنگ ہوں گے۔ اس کے دوسینگوں کے درمیان سوار کے لئے ایک فرسخ کی راہ ہوگی۔ حضرت علی فرماتے ہیں اس کے بال ہوں گے۔ گھر ہوں گے داڑھی ہوگی، دُم نہ ہوگی۔ تین دن میں مُشکل سے ایک تہائی باہر آئے گا، حالانکہ تیز رفتار گھوڑے کی رفتار سے چلتا ہوگا۔ اب اس دَ آ بَّۃً کے نکلنے کے مقامات ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے چار پیر ہوں گے۔ صفا کی وادی سے نکلے گا اس قدر تیزی سے خروج کرے گا کہ کوئی بہت تیز رفتار گھوڑا فرمائیں ۔
(2) حضرت عبداللہ ابن عمیر نے فرمایا، جیاد میں ایک چٹان ہے۔ اس کے نیچے سےنکلے گا میں اگر وہاں ہوتا تو تمہیں وہ چٹان دکھا دیتا ۔
(3) مُوضح القرآن میں حضرت شاہ عبدالقادر نے تحریر فرمایا ‘‘قیامت سے پہلے صفا پہاڑ مکہ کا پھٹے گا ۔ اس میں سے ایک جانور نکلے گا ۔ لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں کو ، چھپنے منکروں کو جدا کر دے گا نشان دے کر ’’، اسی طرح اس کے نکلنے کے اور دیگر مقامات بھی مختلف روایات میں آئے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں ہمارے مفسرین کرام کی بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے دابہ سے مراد ایک جانور لےلیاہے۔ اس ایک بنیادی لغزش کی وجہ سے آیت کا درست مفہوم ان کے سامنے نہیں آسکا۔ عربی زبان میں دابۃ ہر حرکت کرنے والے کو کہتے ہیں کیونکہ رَبَّ کے معنی رینگنے اور ہاتھ پیر کے بل چلنے کے ہوتے ہیں۔ اس کا اطلاق جانوروں کے علاوہ خود انسان پر بھی ہوتا ہے ( 45۔35/ 6۔11/ 45۔24 ) اس کا اطلاق واحد ار جمع دونوں پر ہوتا ہے۔
ہمارے مفسرین کی دوسری لغزش ارض کے لفظ سے ہوئی ۔ اُنہیں یہ خیال ہوا کہ یہ کوئی ایسا جانور ہوگا جو زمین پھاڑ کر نکلے گا حالانکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ارضی مخلوق ہوگا، کوئی آسمانی یا روحانی مخلوق نہیں ہو گا۔
اذا وقع القول کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ قوم بالکل تباہ و برباد ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر یہ احسان ہوگا اور اس کا حال بد لنے کافیصلہ ہوجائے گا۔
ان نکات کو پیش نظر رکھ کر، اب آپ ا س آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں، اس آیہ کریمہ میں قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں یہ نکتہ پیش کیا جارہاہے کہ کہ جب کسی قوم کے بُرے اعمال کی وجہ سے ،قانون الٰہی کےمطابق جس زوال و تباہی کہ وہ مستحق ہے اس کے ظہور کا وقت آجائے اور وہ قوم ذلت وخوا ری کے عذاب میں مبتلا ء ہو جائے تو اس وقت ہم اس قوم میں کوئی ایک صاحب فکر یا کوئی ایک جماعت مفکرین کی پیدا کردیتے ہیں جو اسی زمین کی مخلوق ہوگی اور یہاں کے انسانی ذرائع ہی استعمال کرے گی۔ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہو گی کہ روحانی یا SUPER NATURAL ذرائع استعمال کرے ۔ وہ ایک مفکر یا مفکرین کی جماعت یہ ثابت کرے گی ( تُکلّمھْم) کہ یہ زوال اور تباہی ا س قوم پر اس لئے آئی ہے کہ اس قوم نے قانون الٰہی اور آیات پر یقین نہیں کیا تھا اور اس کے برخلاف اپنےذہن کے وضع کردہ قوانین پر عمل کرتے رہے ۔ ہر دور میں ایسے مفکرین پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے۔
یہ واضح رہے کہ اسلامی مملکت کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ غیر اسلامی مملکتوں میں عموماً حکومت اور عوام کے مفادات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی ۔حکمرانوں کے مفادات اور ہوتے ہیں اور عوام کے مفادات او رہوتے ہیں ۔ حکمران عموماً دھوکہ دےکر، او رجھوٹے وعدے کر کے، برسر اقتدار آجاتے ہیں اور ایک مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اقتدار سے دست بردار ہونا نہیں چاہتے ۔ اُن کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ وہ ساری عمر عوام پر حکومت کر کے، ان کا خون چوستے رہیں اور پھر ان کے بعد ان ان کی اولاد اسی طرح بر سر اقتدار رہے ۔ وہ چونکہ TALL PROMISES کرکے اقتدار میں آتے ہیں ، جن کو وہ پورا نہیں کرسکتے ۔ اس لئے وہ عوام میں غیر مقبول ہوجاتے ہیں اور عوام ان کے مظالم کی وجہ سے اُن سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر حکمران ناجائز ذرائع سےدولت لوٹ کر ، غریبوں کی COST پر عیش و عشرت کرتےہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی نہیں ہیں جو کسی سے پوشیدہ ہوں۔ آپ اپنے ارد گرد ، بنگلہ دیش ، بھارت، لیبیا ، تیونس ، سیریا، مصر، بحرین کے حالات کا جائزہ لیں سب جگہ یہی صورت حال ہے کہ حاکموں کے مفادات و مقاصد عوام کے مفادات و مقاصد سے الگ ہوتے ہیں ۔ اسلامی مملکت میں یہ صورت بالکل نہیں ہوتی۔ اس میں مملکت اور عوام دونوں کے مقاصد حیات ایک ہوتے ہیں۔ دونوں کی زندگی کا مقصد الٰہ کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کے وعدے پورا کرنا ہوتا ہے اس حکومت کی اطاعت ہی اللہ کی عبادت ہوتی ہے ۔ اس کی اطاعت سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔ اس مملکت کا ہر شہری اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے اس حکومت کی اطاعت اپنے دل کی گہرائی اور اس کی رضا مندی سے کرتاہے۔ اس مملکت میں حاکم و محکوم کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے۔ اسلامی مملکت کو رواں دواں رکھنے کی ذمہ داری پوری امت پر ہوتی ہے، اور اس مملکت کا ہر شہری اس مملکت کا ایک پرُ زہ ہوتا ہے۔
کیا عجب کہ پاکستانیوں کی قسمت بھی یاوری کرے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے احسان کا وقت آجائے اور کوئی جَری و بیباک مردِ آہن باطل کا نظام ختم کر کے، نظام الٰہی قائم کردے۔ جس کا وعدہ اس قوم نے اللہ تعالیٰ سے پاکستان کے قیام کے وقت کیا تھا۔
وَ آخرُہ و دَعوَ انَا اَنِ الحَمدُ للہِ رَبَّ العَالَمیِن
جنوری ، 2013 بشکریہ : ماہ نامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/justice-fundamental-constant-value-quran/d/10523