ایان ہرسی علی
29 مئی، 201
(انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
جنوبی لندن میں برطانوی فوجی لی رگبی کے مارے جانے کے بعد ، برطانیہ کی اسلامی سوسایٹی کے لئے جولی صدیقی نے مائیکرو فون سے اس بات کی تصدیق کی کہ تمام اچھے مسلمان اس حملے سے اتنے ہی دکھی ہیں جتنا کوئی اور ۔
یہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ سوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے مسلم مرد اور وضع دار اسکارف پہنے ہوئے عورتوں کو دنیا کو اس بات کی یقین دہانی کےلئے بھیجا جاتا ہے کہ ان حملوں کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ تمام کارنامے اسلام میں خلل اندازی اور فساد ہیں ۔
لیکن عمر بکری کا کیا کیا جائے ؟ وہ بھی اسلام کے سچے عقائد کی نمائندگی کا دعوہ کرتا ہے،اگر چہ وہ گزشتہ ہفتے کیمروں سے غائب تھا اس لئے کہ جو اسلامی گروپ ‘المہاجرون ’اس نے قائم کیا ہے اس پربرطانیہ میں 2010 میں پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ اس کے بجائے اس نے طرابلس لبنان میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کی ۔
مشیل ادیبیلاجو ، جوکہ ولوچ قتل کی جگہ اس کے خونی ہاتھ اور خنجر دیکھاتے ہوئے کیمرے میں بات کر تا ہوا دیکھا گیا تھا وہ ایک دہائی پہلے بکری کا طالب علم تھا ۔ "اسلام کے بارے میں بہت سارے سوالات کرتا ہو ایک خاموش اور انتہائی شرمیلا انسان " بکری نے گزشتہ ہفتے اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہا ۔ استاداس ہیبت ناک ویڈیوں میں اپنے شاگرد کو دیکھ کر حیران تھا کہ اس کا شاگرد کتنا مستحکم، بہادر اور جرأت مند ہو گیا ہے ، اور بھاگ نہیں رہا ہے ۔
بکری نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ: "نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ کافر اور اس کا قاتل جہنم میں نہیں ملیں گے، یہ ایک خوبصورت کہاوت ہے،اللہ ادیبلاجو کو اس کے عمل کی جزا دے ، جہاں تک اسلام کامعاملہ ہے میں اسے جرم نہیں سمجھتا ۔ "
تاریخ کے اس لمحے میں جس سوال کے جواب کی ضرورت ہے وہ واضح ہے: رہنماؤں کا کون سا گروپ واقعی اسلام کی ترجمانی کرتا ہے۔ سرکاری طور پر منظور شدہ "مسلم کمیونٹی" کا ترجمان ؟ یا گلی کے خبطی مبلغین جو قاتلوں کو سیاسی اسلام کی نظریاتی تعلیم و تربیت دیتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور بھر اس کے قتل و خون کے بارے میں دعا کرتے ہیں ؟
امریکہ میں بھی یہ سوال عروج پر ہے ۔ کون اسلام کی ترجمانی کرتا ہے: امریکہ کی سب سے بڑی مسلم شہری آزادیوں کی وکالت کی تنظیم – دی کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن؟ یا ویب سائٹ کے جہادیوں میں سے ایک جس نے القاعدہ میں بھرتی کرنے والے امریکہ کے متوفی انور العولکی کی جگہ لے لی ہے ؟
کچھ نے انکار کر دیا یہاں تک کہ یہ تسلیم کرنے سے بھی کہ ہر فرد کے ذہن میں یہ سوال ہے ۔ حیرت انگیز طور پر اسلامی حملوں کو دی گئی دعا – امریکہ میں 11 /9 کے بھیانک خواب اور 7 جولائی 2005 کے لندن بم دھماکوں سے لے کر گزشتہ ماہ بوسٹن میراتھن میں، 2009 میں ٹیکساس میں فورٹ ہڈ میں اور اب ولوچ میں قتل تک کچھ لوگ اسلام اور دہشت گردی کے درمیان کسی طرح کے تعلق سے مسلسل انکار کر رہے ہیں ۔
اس ہفتے، بی بی سی کے سیاسی ایڈیٹر نک رابنسن کو کھلے عام یہ کہنے کے لئے معذرت خواہ ہوناپڑا کہ جس شخص پر رگبی کےقتل کا الزام تھا وہ "مسلم مظاہرہ " تھا ۔ میمو بی بی سی: وہ "اللہ اکبر" چلّا رہے تھے جیسے وہ نعرہ لگاتے ہیں ۔ اس کے باوجود جب رابنسن کے جملے کے انتخاب پر شکایات بی بی سی کو موصول ہوئیں تو انہوں نے اس کی تلافی کرنا ضروری محسوس کیا۔ کوئی ان لوگوں پر صرف تعجب کر سکتا ہے جو اسلام کی ساکھ کی حفاظت میں اتنے احسن طریقے سے حساس ہو سکتا ہے کہ اسلام کے نام پر ایک بھیانک قتل کے ارتکاب کی زبردست طریقے سے مذمت کی ۔
بوسٹن حملوں اور ولوچ کے قتل کے تناظر میں، اسلامی ترجمانوں کے ذریعہ کراہت اور ہمدردی کا اظہار سننا اچھا تھا، لیکن کچھ اور بھی اشد مطلوب ہے: اسلام کے ساتھ مسئلے کی حقیقی شناخت۔ مسلم رہنماؤں کو خود سے پوچھنا چاہئے کہ ایک ایسی سیاسی تحریک سےان کا تعلق کیا ہے جو مذہبی بنیادوں پر نوجوانوں کو قتل مثلہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
سارنایف بھائیوں کے بارے میں سوچیں اور اس بارے میں سوچیں کہ انہوں نے کس طرح بوسٹن افراتفری کا جواز فراہم کیا ۔ پچھلے ہفتے کے ادیبلاجو کے الفاظ پو غور کریں اور خون میں اس کے ڈوبے ہوئے ہاتھ کو : "ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم تم سے جنگ کبھی نہیں روکیں گے جو ہم نے کیا ان سب کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان ہر روز مر رہے ہیں ۔"
میرا دوست، ڈچ فلم ساز تیو وان گوگھ کو اسلام کے تئیں ناکافی مؤدب ہونے کی وجہ سے 2004 ء میں قتل کر دیا گیا۔ عدالت میں، قاتل نے اس کی ماں کی طرف دیکھا اور ان سے کہا: "میں مجھے ایمانداری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چائے کہ مجھے تم سے ہمدردی نہیں ہے مجھے تمہارا درد محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔ میں تم سے ہم دردی نہیں کر سکتا اس لئے کہ تم ایک کافر ہو۔"
اور اب، دنیا بھر میں اسلام پسندوں کے ذریعہ اسی طرح کی بیان بازی کے تقریبا ایک دہائی کے بعد گزشتہ ہفتے گارجین لندن کے ایک مسلمان کا حوالہ دیتے ہوئے ایک شہ سرخی چھاپ سکا کہ : "ان کم مایہ احمقوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
سچ میں؟ کچھ بھی نہیں؟ یقینا مسلمانوں کی غالب اکثریت دہشت گرد نہیں ہے یا وہ دہشت گردوں کے ہمدرد نہیں ہیں۔ تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا بے وقوفی اور غلط ہے۔ لیکن اس بات کو تسلیم کرنا کہ اسلام اور دہشت گردی کے درمیان ایک ربط ہے مناسب اور ضروری ہے ۔
بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف میں سیاستدان، ارباب علم اور میڈیا نے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے جیسا کہ اسلامی دہشت گردی کے حملوں کی گونج جاری ہے ۔ جب براک اوباما نے بوسٹن بم دھماکوں کے بارے میں اپنا پہلا بیان دیا تو انہوں نے اسلام کا ذکر نہیں کیا۔ اس ہفتے، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور لندن کے میئر بورس جانسن نے اس تأثر کے ساتھ مسلم رہنماؤں کے بیانات کو دوہرایا ہے کہ اس قتل کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بہت سے لوگ اس طرح کے بیانات سنتے ہیں اور اپنے سروں کو کھجلاتے ہیں ۔ ایک شخص "اللہ اکبر" چلاّتے ہوئے نوجوان والد کو مار دیتا ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے؟
میں مغربی رہنماؤں کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتی ۔ وہ ان چیزوں کی پردہ پوشی میں اپنی پوری کوشش صرف کر رہے ہیں جو اکثریت آبادی اور مسلم اقلیتی برادریوں کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا کر سکتی ہیں ۔ لیکن میں مسلم رہنماؤں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہوں ۔ اب گفتگو کے زیادہ قابل اعتماد نکات کے ساتھ ان کے لئے گفتگو کرنے کا وقت ہے ۔ انکے معاشرے سنگین مسائل سے دوچار ہیں ۔ نوجوان لوگ جن میں سے کچھ ایمان پر پیدا نہیں ہوئے ہیں، بنیادی اسلامی کتاب کا استعمال کرنے والے مبلغین کے ذریعہ بھڑکا ئے جا رہے ہیں انہیں ان انتہا پسند اماموں کے ذریعہ جہاد کرنے کے لئے متحرک کیا جا رہا ہے جو خود کو قانونی مسلم مبلغ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ اگر جولی صدیقی کی طرح مسلم رہنما ان اسلام پسندوں کی ساکھ ختم کرنے کے لئے جو تباہی اور قتل کی وکالت کرتے ہیں ایک عوامی اور مسلسل مہم شروع کر دے تو کیا ہوگا ۔ جو کہ دہشت زدہ کرنے والے حملے کے بعد صرف مروجہ افسوس ظاہر نہیں کر رہے ہیں ، بلکہ دنیا کو یہ دکھانے کے لئے ایک مسلسل انتھک کوشش میں مصروف ہیں کہ نفرت کے مبلغین غیر قانونی ہیں ۔ اگلے متعصب کے مارے جانے کے بعد سیاسی اسلام کے اگلے شکار کے " دین امن" کے بارے میں دعوے سچ ثابت ہوں گے۔
ایان ہرسی علی Nomad: My Journey from Islam to America کی مصنفہ ہیں۔ اور وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول کی بیلفر سینٹر کی ممبر اور امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کی وزٹنگ فیلو ہیں۔
ماخذ:
http://www.theaustralian.com.au/business/wall-street-journal/who-really-speaks-for-islam/story-fnay3ubk-1226652526449
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/really-speaks-islam/d/11862
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/really-speaks-islam-/d/12957