New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 09:33 PM

Urdu Section ( 16 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Aversion to Urdu Language... ...اردو زبان سے بے رغبتی

عمیر کوٹی ندوی

13 اگست،2024

ہندوستان کی پروردہ زبان اردو کے پرستاروں میں بلاتفریق مذہب وملت بے شمار ابنائے وطن کے نام سامنے آتے ہیں۔ یہ غالب، اقبال، میر، حالی، سرسید،مولوی عبدالحق کے ساتھ ساتھ مہاتماگاندھی،پنڈت جواہر لعل نہرو، منشی پریم چند، جگن ناتھ آزاد، تلوک چند محروم، پنڈت دیا شنکر نسیم، فراق گورکھپوری، منشی نول کشور، کنول پرشاد کنول،گیان چند جین، گوپی چند نارنگ اور ممتاز صحافی کلدیپ نیر کی بھی زبان ہے۔ اردو کی ترقی وترویج میں ان جیسی نہ جانے او رکتنی شخصیات آج بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس لئے کہ اس کی اہمیت وافادیت کے معدودے چند کے علاوہ سب ہی قائل ہیں۔ حال ہی میں پیش کئے گئے ایک بڑے ریئلٹی شوبگ باس اوٹی ٹی 3کے ہوسٹ معروف اداکار انل کپور نے نہ صرف اردو کی افادیت کے بارے میں بات کی بلکہ شو کے شرکاء (کنٹسٹنٹس) سے اردو کے بارہ (12) مشکل الفاظ کے معنی بھی دریافت کئے۔ ایک کنٹسٹنٹ نوید شیخ عرف نیزی نے فی الفور بیشتر الفاظ کے معانی بتلادئے۔ یہ کیونکر ممکن ہوا؟۔ اس کا جواب خود کرلا، ممبئی کے رہنے والے اس ریپ میوزک کے ریپر نیزی کی اسی شو کے دیگر کنٹسٹنٹس سے کی گئی ایک گفتگو میں ملتاہے۔ اس میں اس نے بتایا کہ اردو زبان اس نے اپنے گھر میں گھر کے بڑوں سے سیکھی ہے۔ اس کے گھر پر اردو روزنامہ ’انقلاب‘ آتاہے اور اسے پڑھ پڑھ کر اسے اردو آگئی۔

یہ اردو ہی ہے جس کی گودودوش میں ایک تہذیب پروان چڑھی جسے گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔ اس تہذیب پر ہر اس شہری کو ناز ہے جو خود کو ہر طرح کی تعصب اورجہالت سے پاک گردانتا ہے مروجہ زبان میں خود کو سیکولر کہلانا پسند کرتاہے اور علم وثقافت،تہذیب وتمدن سے اپنا رشتہ جوڑتاہے۔ ایک پروگرام میں معروف کہانی کا ر ونغمہ نگار جاوید اختر نے کہا تھا کہ عام بول چال کی زبان میں اردو کے الفاظ کو استعمال کئے بغیر ایک جملہ بھی بولنا ممکن نہیں ہے۔ یقینا اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں ہے۔ لیکن وہ جو خود کو گنگا جمنی تہذیب کے امین کہتے ہیں او را س زبان کو شیریں وشائستہ بتاتے نہیں تھکتے شاید وہ نہیں چاہتے ہیں کہ زبان کی یہ شیرینی اور شائستگی ان کی اگلی نسل تک بھی پہنچے۔ اس پڑوس اور دوسروں کو تو چھوڑ ئیے خود ان کے بچے بھی اردو زبان سے نابلد رہتے ہیں۔ یہ کوئی خیالی یا الزامی بات نہیں، امر واقعہ ہے۔ایک دو نہیں کئی ایک ’دی علم‘ شخصیات نے مختلف مواقع پر دوران گفتگو خود اس ناچیز سے ہنستے مسکراتے اس بات کا ذکر کیا کہ ان کے یہاں بچپن میں اردو اخبار آتا تھا،ان کے والد یا دادا اردو اخبارات منگاتے تھے۔ بہتوں نے تو اردو اخبارات ورسائل کے نام بھی بتائے کہ فلاں فلاں اخبارات ورسائل آتے تھے، اپنے بڑوں سے سن سن کر یہ نام انہیں یاد ہوگئے تھے اور اب تک یاد رہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ’بڑوں‘ کی وفات کے بعد بہت دنوں تک یعنی جب تک رقم جمع تھی یا ذمہ داروں کی نظر نہیں پڑی رسائل واخبارات ڈاک سے آتے رہے پھر رفتہ رفتہ آنا بند ہوگئے۔بہت سے لوگوں نے یہ کہہ کر اردو اخبارات بند کرادیا کہ گھر میں اردو پڑھنے والا اب کوئی نہیں رہا۔ ذاتی کتابیں لائبریریوں میں پہنچ کر دھول چاٹ رہی ہیں یا ردّی فروشوں کو بیچ دی گئیں۔

یہ صورتحال اردوطبقہ کی اردو کے تئیں لاتعلقی،مجرمانہ غفلت سے کہیں زیادہ شعور واحساس سے پہلو تہی کی عکاسی ہے۔ زبان وتہذیب سے رشتہ قائم رکھنا کتنا ضروری ہوتاہے اس کا احساس ایک عرصہ پہلے سوشل میڈیا میں ایک انٹرویو کو دیکھتے ہوئے از سر نو تازہ ہوگیا۔ پنجابی فلم کی ایک اداکارہ نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ ہماچل پردیش میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی۔ وہاں گھر پر اس کے والدین نے اسے پنجابی زبان اور تہذیب سکھائی۔ یہی وہ جذبہ تھا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدید جذبہ جس نے دنیا سے تقریباً مفقود ہوتی او رمردہ تصور کرلی گئی زبان عبرانی کو از سر نو زندہ کردیا اور وہ اسرائیل کی سرکاری زبان بن گئی۔ خود وطن عزیز میں سنسکرت کو زندہ کرنے کی جنون کی حد تک کوشش بھی اسی جذبہ کا حصہ ہے۔لیکن اردو کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اس زبان کے تئیں ایک طرف غفلت ہے تو دوسری طرف استقبال ہے۔ یوپی ایس سی کی تیاری کرانے کے لئے مشہور ’اقراء آئی اے ایس اکیڈمی‘ کے بانی اودھ اوجھا ایک ویڈیو میں اردو کو ’پیاری زبان‘ بتاتے ہیں۔ اس ویڈیو میں انہوں نے اردو کی مخالفت کرنے والی ذہنیت کی مذمت کی ہے۔

اسی طرح معروف ’درشٹی آئی اے ایس کوچنگ انسٹی ٹیوٹ‘ کے سربراہ کاس دیویا کرتی کا ایک ویڈیو کافی وائرل ہوا جس میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’آج کل ہندی والے الگ ہی موڈ میں چل رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ اردو ختم کردو یہ مسلمانوں کی زبان ہے‘۔اس ذہنیت کی مذمت کرتے ہوئے وہ ’اردو کو خالص ہندوستانی زبان‘ بتاتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ’یہ لوگ اپنی زبان کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں جو کہ کرنی نہیں چاہئے اور پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے اس لئے کہ کسی کے چاہنے سے زبانیں ختم نہیں ہوتی ہیں، زبانیں اس وقت ختم ہوتی ہیں جب ان کا ’آتم سمنان‘ مرجاتا ہے۔ غفلت اور استقبال کے حوالے سے اردو کے معاملہ میں ٹھنڈے دماغ اور پرسکون دل سے سوچنے، سمجھنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ وکاس دیویاکرتی کی مذکورہ باتیں بھی سنجیدگی سے غورکرنے کی طالب ہیں۔ ایک عرصہ سے ہندی والے کس ’الگ موڈ میں چل رہے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اس پر ہائے توبہ مچائے بغیر اردو نے کمال ہوشیاری سے ایک قدم اٹھا کر بتادیا کہ اس کا ’آتم سمنان‘ مرا نہیں زندہ ہے۔

اردو زبان نے اپنوں کی غفلت کو دیکھ کر بڑی خاموشی سے اپنا گھر بدل لیا او رمہاراشٹر، آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالہ اور دیگر مضافاتی ریاستوں میں جابسی۔جس وقت روزنامہ ’اعتماد‘ کے نکالنے کی باتیں زور وشور سے ہورہی تھی۔،انگلش روزنامہ’دی ایشین ایج‘ نے ایک پر ایک اسٹوری شائع کی تھی۔ اس نے اس شہر سے نکلنے والے دیگر اردوروزناموں کے ایڈیٹر صاحبان سے دریافت کیا تھا کہ کیا ان پر اس کاکوئی اثر پڑے گا تو ان کا جواب تھا کہ اس شہر کو اس طرح کے مزید روزناموں کی ضرورت ہے۔ ایک بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہاں سیکڑوں کی تعداد میں اردو میڈیم اسکول چل رہے ہیں جو کہ بطور ایک مضمون کے اردو پڑھانے والے اسکولوں  کے علاوہ ہیں۔ اس لئے انہیں ’قاری‘ کی قلت کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے، اردو کو ’قاری‘ کی قلت کا مسئلہ اس کے وطن اصلی ’شمالی ہند‘ میں درپیش ہے، جہاں وہ اپنوں (اردوداں طبقہ) کے ہاتھوں ستائی اورنظر انداز کی گئی ہے۔

دہلی کا اردوبازار کباب پراٹھوں کے بازار میں تبدیل ہوگیا، لکھنؤ کے نظیر آباد نے بھی عرصہ ہوا اپنے رخ کو بدل دیا اورشہر بھوپال کابھی رنگ بدل گیا۔ اس کی وجہ بہت آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے۔ اردو داں طبقہ اپنے بچوں کو وہ سب کچھ تو پڑھااو رسکھا رہاہے جس سے زیادہ سے زیادہ پیسے آتے ہیں لیکن وہ اردونہیں پڑھا رہاہے جس سے تہذیب وتمدن، روایات واقدار، بود وباش، نشست وبرخاست کے آداب آتے ہیں۔ اردو حسن معاشرت، تہذیب واخلاق، انسانیت وشرافت اور گنگا جمنی تہذیب کی امین و پاسدار ہے۔اس سے دوری کے نتیجہ میں دولت وتعلیم تو ہے لیکن دین، تہذیب، شرافت، انسانیت واخلاقیات سے تہی دستی ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں جب کچھ لوگ’الگ ہی موڈ‘ میں چل رہے ہیں، اس زبان کی  ضرورت واہمیت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، وقت بھی ابھی ہاتھ سے گیا نہیں ہاتھ میں ہی ہے۔ محض چند دنوں میں بہت آسانی سے یہ زبان اپنے گھروں میں پڑھائی، سکھائی جاسکتی ہے۔ زیدبن ثابتؓ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ ”آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھاکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسے سیکھ لیا“(ترمذی:2715)۔ پندرہ دنوں سے بھی کم مدت میں سریانی زبان میں لکھنا او رپڑھنا دونوں سیکھ کر وہ اس زبان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام لکھتے اور اس میں لکھی تحریریں آپ کو پڑھ کر سناتے۔

13 اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/aversion-urdu-language/d/132952

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..