اورنگزیب یوسف زئی
کیونکہ انسان ابھی تکمیل کے سفر میں ہے اور ابھی خالق کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتا ، اس لئے وہ غلطی کے ارتکاب کا امکان رکھتا ہے اور اس کی محبت کو اپنی موجودہ شعور سطح پر کسی کم تر آئیڈیل کی طرف مرکوز کردیتا ہے۔ مثلاً جب ہم انسانی تاریخ کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ فطرت کے مظاہر کے زیر اثر انسان سورج ، ستارے، دریا اور آگ جیسے عناصر کی پرستش کرتا رہا ہے۔ وہ ان عناصر کو مافوق الفطرت حیثیت دیتا رہا ہے اور انہیں خالق اور پروردگار سمجھتا رہا ہے۔ نیز اپنے روحانی تقاضے کی تسکین کے لئے اور ان عناصر کی عنایات اور خو شنودی حاصل کرنے کےلئے وہ ان کے حضور قربانیاں بھی پیش کرتارہا ہے۔اسی کی مانند ، بھوک ، بیماری، قحط اور جنگوں سے خوفزدہ انسان، بتوں کی پرستش میں ملوث رہا ہے۔ ہر بت کو ایک تصوراتی طاقت تفویض کردی گئی تھی جیسے کہ بیماریوں سے شفا دینے والا ، رزق اور دولت دینے والا، قحط اور جنگوں میں تحفظ دینے والا ، وغیرہ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنی ابتدا ہی سے ایک ایسی ہستی کے وجود کی راست آگہی رکھتا تھا جو اس کی سوچوں کےمطابق خو د آگاہ تھی، جیسے کہ انسان خود۔
اگر انسان کے باطن میں ایک مافوق الفطرت طاقت کے وجود کی راست پہچان نہ ہوتی، جسے وہ اپنی زندگی عطا کرنے اور پرورش کرنے والانہ سمجھتا ، تو وہ کبھی بھی سورج اور ستاروں ، دریاؤں اور سانپوں ، بتوں اور انسانوں کی پرستش نہ کرتا۔ وہ صرف اسی سادگی سےاپنی زندگی گزارتا جیسے حیوانات گزارتے ہیں ۔ کیونکہ انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات وہی ہیں جو حیوانی زندگی کی ضروریات ہیں ۔ البتہ کسی حیوان نے کبھی بھی فطرت کے مظاہر کی پرستش کا ارادہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اس نے کسی وجود سے کسی مدد کی درخواست کی۔ اس امر کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ تخلیق کے حیوانی مرحلے تک ، زندگی میں اپنے خالق کی راست شناخت موجود تھی ۔
بتدریج ، جو ں جوں انسان علم حاصل کرتا گیا، اس کو تصور حیات اور کائنات تبدیل ہوتا گیا ۔ لیکن یہ تبدیلیاں اسے حقیقت کو جاننے کے باطنی تقاضے سے محروم نہ کرسکیں ۔ وہ اپنی ذات کی نفی نہ کرسکا او ر نہ ہی اپنی فطرت سے انکار کرسکا ۔ مذکورہ تبدیلیاں دراصل اس کی ذات نے ہی اس پر اس لئے نافذ کیں کہ وہ ایسے برتر آئیڈیلز کا تعین کرسکے جو اس کے اندرونی تقاضے کی تسکین کر سکیں ۔ لہٰذا بہتر آئیڈیلز کے لئے لائی گئی یہ تبدیلیاں خارج سےمسلط نہیں کی گئیں کیونکہ اس بارے میں تعین کرنے اور فیصلہ کرنے والی ہستی خود انسانی ذات تھی ۔ وہ آئیڈیلز جو انسان کے اندرونی تقاضے سے پوری مطابقت نہیں رکھتے تھے، او رنہ ہی اس تقاضے کی تسکین کرپاتے تھے ، کالعدم کرکے ناکارہ قرار دے دیئے جاتے تھے ۔ اگر اپنی ابتدائی سطح پر انسان نے فطرت کے عناصر کو اپنی زندگی کے پروردگار یا تخلیق کار کے طور پر لے لیا، اور اگر اس نے انسانوں اور بتوں کو مافوق الفطرت درجہ دے کر ان کی پرستش کی، تو آج کا انسان بھی اس امر پر مجبور ہے کہ کائنات کے تشخص کا تعین کرے ، تاکہ اس کے حقیقت کو جاننے کے باطنی تقاضے کو پورا کیا جاسکے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر ماضی کا غاروں میں رہنے والا مظاہر فطرت پر یقین رکھتا تھا تو عہد جدید کا انسان اس مادے کے ہمہ نفوذ او رہمہ گیر وجود پر یقین رکھتا ہے جس کے بارے میں اسے باور کرایا گیا کہ یہ ہی انسانی زندگی کا سر چشمہ ہے۔ بالفاظ دیگر ، (جدید انسان اس بات پر متفق ہے کہ ‘‘جاہل مطلق’’ علم والوں پر حکومت کررہا ہے)
وہ اپنی حیات کے آزادی ، عقلیت ، دانائی، محبت، ہمدردی اور حقیقت کی تلاش جیسے اوصاف سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہے۔ وہ متفق ہے کہ زمین پر انسانی حیات ایک حادثہ کی وجہ سے کچھ عناصر کے امتزاج کے دزیعے پیدا ہوگئی ہے۔ ان عناصر کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ہی انسان دوبارہ مادہ میں گم ہوجاتا ہے۔ مادی قوتوں کے نظریئے کے حامی مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں ۔ کچھ اس نظریئے کے حامی ہیں کہ طاقتور مادہ ایک اندھی قوت کے مانند موجود ہے۔ یہ نہ کوئی قانون رکھتا ہے ، نہ اصول ، اور اسی لئے نہ کوئی مقصد ۔ کچھ دوسرے یقین رکھتے ہیں کہ مادہ ہمہ جہت ہےجس کے قوانین حیات کا تعین کرتے ہیں اور ساتھ ہی انسان کی شعوری ذات کا بھی ۔ دوسرے الفاظ میں انسانی ذات مادی قوتوں کی ایک ارتقاء یافتہ شکل ہے۔ ان نظریات کے علاوہ، ایسے مفکر بھی ہیں جو طاقتور جبلتوں پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے نظرئیے کے مطابق، حیات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ایک نامور مغربی مفکر یہ یقین رکھتا تھا کہ انسانی جنسی جذبہ کے تابع ہے۔ اُس کے خیال میں انسانی زندگی کی تمام سرگرمیوں کے پیچھے جنسی جذبہ ہی واحد حقیقت اور محرک ہے۔ ایک او رمفکر اپنی تمام فلاسفی خوراک کے حصول کے جذبے کے گرد تعمیر کی ۔ کتنی عجیب صورت حال ہے کہ لوگوں نے ان تمام نظریات کو برداشت کیا اور نتیجے میں ناقابل نفسیاتی اور جسمانی عوارض برداشت کئے جو انسانی تہذیب کے لئے تباہ کن اثرات کے حامل تھے ۔
کیونکہ ان نظریات کے مطابق زندگی کی ایک مشین سے زیادہ کچھ نہ تھی ، جس کی کوئی بھی روحانی اہمیت نہ ہو، لہٰذا اخلاقیات کو بھی ریاضیات کی مانند ایک ایسی سائنس کے طور پر لے لیا گیا جو کہ روحانی اقدار سے آزاد ، انسانی علوم کی ہی ایک اور شاخ ہو۔ اسی سوچ کی مطابقت میں ، بجائے بلند تر اقدار کی طرف ترقی کر جانے کے، ان اخلاقیات کو ان مادی ضروریات کی تسکین پر زور دینے کا ذریعہ بنا لیا گیا جو حیات کے حیوانی پہلو سے متعلق تھیں، جبلت کی تسکین اور حیات کا تحفظ ۔ ان مقاصد کی تکمیل کےلئے یہ اگر لوگ افراد اور اقوام سے دھوکا بازی کا استعمال کریں یا انسانیت کا خون کرنے پر اتر آئیں ، تو پھر بھی حق پر ٹھہرتے ہیں ۔ جدید معاشروں نے ان جرائم کے ارتکاب کو جدید تہذیب کا نام دے کر اداروں کی صورت میں ترقی دے دی اور اس طرح انسان کو جبلی لذتوں کے حصول کا کھلا لائسنس دے دیا۔ انہوں نے اپنے متبعین کو بتایا کہ اگر وہ اپنے جبلی جذبوں کی تسکین کرنے میں نا کام ہوئے تو انہیں ذہنی عوارض اور اذیت برداشت کرنی پڑے گی۔
اس فلسفہ کا سب سے زیادہ المناک پہلو جو ہم نظر انداز کردیتے ہیں، یہ ہے کہ انسان نے اپنی شعوری ذات کے عظیم روحانی تقاضوں کو کھودیا او ران کا رخ جبراً جبلتوں کی تسکین کی طرف موڑ دیا جیسے کہ جبلت ہی زندگی کا بڑا محرک ہو ۔ جب جبلت کی تسکین ہی مقصد حیات ٹھہرا، تو ہم مختلف معاشروں کے مابین مادی اسباب و ذرائع کی تحصیل کےلئے ایک پاگلانہ مسابقت کے سوا او رکیا توقع کرسکتے ہیں؟ اس مسابقت کی کوئی حدو د بھی نہیں ہیں کیونکہ اس کی پشت پر شعوری ذات کا لا محدود دباؤ موجود رہتا ہے جو کبھی بھی ادنیٰ درجے کی شعوری اقدار سے بہلایا نہیں جاسکتا ۔ لہٰذا جدید دنیا میں موجود تمام نفسیاتی جنونوں و خلل کی جڑ بنیاد انہی جبلتوں کی تسکین کے لئے کی جانے والی پاگلانہ مسابقت ہے جو اس لئے غیر معمولی حدوں کو چھو رہی ہے کہ انسانی ذات کے طاقتور تقاضے مادی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف موڑ دیئے گئے ہیں۔
انسان کیونکہ ابھی تکمیلی مراحل میں خوار وزبوں ہے اس لئے اس میں اپنی ذات کے تقاضوں کو غلط شناخت کرنے کا رجحان موجود ہے ، جنہیں وہ مادی ضروریات کی تکمیل کی شکل میں تعبیر کرلیتا ہے۔ تاہم معاشرقی ڈھانچوں کی تاریخ کی رو سے یہ غلط شناخت دائمی حیثیت اختیار نہیں کر پاتی ، اور انسانی فطرت جلد یا بدیر ایک نظام کو مسترد کرنا اور دوسرے کو اختیار کرنا شروع کردیتی ہے ۔ اس کی وجہ جبلی ضروریات کی تسکین نہیں ہوتا کیونکہ یہ ضروریات تو متعین ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ درحقیقت ان معاشرتی انقلابوں کے پیچھے اسی شعور ی ذات کا دباؤ ہوتا ہے جو خود کو اپنی موروثی صفات اور روحانی اقدار کے ساتھ شناخت کرنا چاہتی ہے۔
تخلیق کے تمام مراحل کے دوران خالق زندگی کی راہنمائی کرتا رہا ہے ۔ اپنی تخلیق کے معاملے میں فطرت اتنی مہربان اور اتنی فکر مند ہے کہ ایک بچے کی پیدائش سے قبل ہی وہ اس کی جسمانی ضروریات کے لئے دودھ تیار رکھتی ہے ۔ لہٰذا اسی بنیاد پر خالق نے انسان کو اس کے روحانی تقاضوں کی تسکین کےلئے خاص روحانی خوراک بھی فراہم کی ہوگی ۔ ہم بصورت عمومی بھی فطرت کی کار کردگی میں کوئی خلا یا کوئی رخنہ نہیں پاتے۔ پس اگر فطرت نے انسان میں خود کو جاننے کی طاقتور خواہش و دیعت کردی ہے، اور اس ذریعے سے اس کے خالق کو جاننے کی بھی، تو لازم ہے کہ ایک غلطی سے پاک اہتمام اس روحانی تشنگی کو مٹانے کےلئےبھی کردیا ہوگا ۔ یہ روحانی خوراک خالق نے اپنے پیغمبروں ، یعنی انتہائے شعور تک پہنچے ہوئے انسانوں کے ذریعے فراہم کی ہے۔ انسانی تاریخ ان حقائق کی گواہ اور ثبوت ہیں ۔ جدید عہد کے انسان نےالبتہ الہامی ہدایت کی روشنی میں مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کی بجائے خود انسان ہی کے متعین کردہ آئیڈیلز یا مقاصد کا اتباع شروع کردیا جو کبھی بھی درست اور کامل نہیں ہوتے ۔ انسان جو خود ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے، اپنی ہنوز کم تر شعوری سطح پر انسانیت کے مثالی پیکر یا آئیڈیل کا تعین نہیں کرسکتا ۔ اس لئے آئیڈیل کا درست تعین خالق ہی کرسکتا ہے جو تخلیق کے عظیم تر مقصد کی بنیاد پر کیا گیا ہو۔ ( جاری )
مارچ ، 2016 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق، کراچی
URL: